احادیثاسلامی معارف

کھوکھلے دعوؤں کا قرآنی جواب

فاطمہ زہراؑ کا درد دل اور خطبہ فدکیہ (32)

کھوکھلے دعوؤں کا قرآنی جواب

«… فقالت: سُبْحانَ اللَّـهِ، ما كانَ اَبی رَسُولُ اللَّـهِ عَنْ كِتابِ اللَّـهِ صادِفاً، وَ لا لِاَحْكامِهِ مُخالِفاً، بَلْ كانَ یتْبَعُ اَثَرَهُ، وَ یقْفُو سُوَرَهُ، اَفَتَجْمَعُونَ اِلَی الْغَدْرِ اِعْتِلالاً عَلَیهِ بِالزُّورِ، وَ هذا بَعْدَ وَفاتِهِ شَبیهٌ بِما بُغِی لَهُ مِنَ الْغَوائِلِ فی حَیاتِهِ، هذا كِتابُ اللَّـهِ حُكْماً عَدْلاً وَ ناطِقاً فَصْلاً، یقُولُ: «یرِثُنی وَ یرِثُ مِنْ آلِ یعْقُوبَ»، وَ یقُولُ: «وَ وَرِثَ سُلَیمانُ داوُدَ» فَبَيّنَ عَزَّ وَ جَلَّ فيما وَزَّعَ عَلَيْهَ مِنَ الْأَقْساطِ وَ شَرَّعَ مِنَ الْفَرائِضِ وَ الْميراثِ وَ أباحَ مِنْ حَظِّ الذُّكْرانِ وَ الاناثِ ما أزاحَ بِهِ عِلَّةَ الْمُبْطِلينَ وَ اَزالَ التَّظَنّی وَ الشُّبَهاتِ فِی الْغابِرینَ، كَلاَّ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ اَنْفُسُكُمْ اَمْراً، فَصَبْرٌ جَمیلٌ «وَ اللَّـهُ الْمُسْتَعانُ عَلی ما تَصِفُونَ»…».

«…یہ سن کر جناب فاطمہ زہرا ؑ نے فرمایا: سبحان اللہ۔ نہ میرے بابا احکام خدا سے روکنے والے تھے اور نہ اس کے مخالف تھے۔وہ آثار قرآن کا اتباع کرتے تھے  اور اس کے سوروں کے  مطابق چلتے تھے۔ کیا تم لوگوں کا مقصد یہ ہے کہ اپنی غداری کا الزام  ان کے سر ڈال دو۔ یہ ان کی رحلت کے بعد ایسی ہی سازش ہے جیسی ان کی زندگی میں کی گئی تھی۔ یہ کتاب خدا حاکم عادل اور اس کا قول فیصلہ کن ہے۔ اس کتاب میں (جناب یعقوبؑ کی وارث کے سلسلے میں دعا کا ذکر) آیا ہے (مجھے ایسا وارث عطا فرما) ” جو میرا بھی وارث ہو اور آل یعقوبؑ کا بھی وارث ہو (مریم، آیه6)۔  اسی کتاب میں آیا ہے کہ “اورسلمان ؑ داؤدؑ کے وارث ہوئے”(نمل، آیه16)۔ اسی طرح خدائے عز و جل نے تمام حصے اور فرائض کے تمام احکام بیان کر دیے ہیں جہاں لڑکوں اور لڑکیوں کے حقوق کی بھی وضاحت کر دی ہے ( نساء، آیت ۱۱-۱۲)اور اس طرح تمام اہل باطل کے بہانوں کو باطل کر دیا ہے اور قیامت تک کے تمام شبہات اور خیالات کو ختم کر دیا ہے۔ یقینایہ تم لوگوں کے نفس نے ایک بات گڑھ لی ہے تو اب میں بھی صبر جمیل سے کام لے رہی ہوں اور اللہ ہی تمہارے بیانات کے بارے میں میرا مدد گار ہے(یوسف، آیه۱۸)…»۔

اہم پیغامات:

شہزادی کائناتؑ نے  اس مقام پر اپنے خطبے  میں ابوبکر کی طرف سے دیئے گئے جوابات اور کھوکھلے دعوؤں کا جواب دیا ہے۔ اس سلسلے میں چند اہم مطالب اور ابوبکر کی طرف سے پیش کی جانے والی باتوں اور اس کی دلیلوں کے سلسلے میں شہزادی ؑ کے جوابات کو مختصر وضاحت کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے:

۱۔  گذشتہ تحریر میں بیان کیا گیا تھا کہ ابوبکر کے پاس جب شہزادیؑ کی منطقی اور قرآنی دلیلوں  کا جواب نہیں تھا تو اس نے شہزادی ؑ کے بیانات اور آپ کے حقوق کو مزید پائمال کرنے اور آپ کو لوگوں کے درمیان آپؑ کو مزیدتنہا اور بے سہارا کردینے کی غرض سے خود شہزادیؑ اور آپ کے بابا ؐاور آپ کے شوہرؑ کے فضائل ومناقب کا اعتراف تو کیا  لیکن اپنے عمل کی توجیہ کرتے ہوئے  خاندان اہل بیت ؑ کے اخلاق و عظمت کی دہائی دیتے ہوئے اپنے حق میں ماحول بنانے کی کوشش کی اور موضوع بحث کو بدلنے اور اصل مطالبے سے لوگوں کا دھیان ہٹانے کی کوشش کی ۔ اور غصب فدک و خلافت پر تین باتوں کو پیش کیا کہ فدک کو آپؑ سے لینے کی وجہ حدیث رسول ؐ کے مطابق عمل کرنا تھا۔ اسی طرح ہم نے جو کام بھی کیا  تھا فدک یا خلافت پر قبضہ یہ سب  اپنی ذاتی رائے سے نہیں بلکہ مسلمانوں  کے  اجماع و اتفاق  سے کیا تھا اور اگر آپؑ کو مال و سرمایہ چاہئے تو میرا ذاتی مال و سرمایہ حاضر ہے لیکن آپؑ کے باباؐ نے میراث میں کچھ نہیں چھوڑا ہے۔

۲۔ ابوبکر نے  خطبہ کے درمیان اپنے حق اور قانون میراث پر متعدد قرآنی دلائل وغیرہ کو گویا سنا ہی نہیں تھا  یا سنتے ہوئے بھی اصل باتوں کا جواب ہی نہیں دیا اور بحث کے موضوع کو گھماتے ہوئے حدیث پیغمبرؐ کا سہارا لیا اور ایک لاوارث اور جعلی حدیث کو پیش کیا اور دعویٰ کیا کہ میں نے خود پیغمبراکرمؐ سے اس حدیث کو سنا ہے۔ شہزادی کائنات ؑ اس حدیث کے جعلی اور جھوٹی ہونے کے بارے میں پہلے اشارہ کرچکی ہیں ۔ یہاں پھر اس کی ردّ میں فرماتی ہیں کہ: «… فقالت: سُبْحانَ اللَّـهِ، ما كانَ اَبی رَسُولُ اللَّـهِ عَنْ كِتابِ اللَّـهِ صادِفاً، وَ لا لِاَحْكامِهِ مُخالِفاً، بَلْ كانَ یتْبَعُ اَثَرَهُ، وَ یقْفُو سُوَرَهُ…»؛ “سبحان اللہ۔ نہ میرے بابا احکام خدا سے روکنے والے تھے اور نہ اس کے مخالف تھے۔ وہ آثارقرآن کا اتباع کرتے تھے  اور اس کے سوروں کے  مطابق چلتے تھے”۔ یہاں شہزادی ؑ نے واضح کردیا کہ تمہاری طرف سے پیش کی جانے والی یہ جعلی اور جھوٹی حدیث قرآن کی مخالف ہے اور میرے باباؐ کی ذات سے قرآن کی مخالفت کرنا ممکن نہیں ہے۔میرے باباؐ کبھی بھی اللہ کے احکام سے روکنے والے اور اس کی مخالفت کرنےوالے نہیں تھے بلکہ آپؐ تو ہمیشہ ہی قرآن کے مطابق اور اس کے سوروں اور آیات کے لحاظ سے چلتے تھے یعنی آپ ؐ اپنے قول و فعل و رفتار  و گفتارمیں ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فرامین و قوانین اور احکام کے پابند تھے۔ اللہ کی طرف سے جب تک کوئی حکم نہیں آجاتا تھا زبان بھی نہیں کھولتے تھے جیسا کہ خود قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے کہ: «وَمَا يَنطِقُ عَنِ ٱلهَوَى۔ إِن هُوَ إِلَّا وَحي يُوحَى» ؛”اور وہ اپنی خواہش سے کلام بھی نہیں کرتا ہے اس کا کلام وہی وحی ہے جو مسلسل نازل ہوتی رہتی ہے”(سوره نجم،آیت۳-۴)۔ اس کے علاوہ خود پیغمبراکرمؐ  پر وحی الہی کا پہرہ تھا آپ ؐ کو وحی کے بغیر کلام کرنے کی اجازت نہیں تھی جیسا کہ قرآن مجید میں دوسرے مقام پر خداوندمتعال فرماتا ہے: «…وَلَا تَعجَل بِالقُرءَانِ مِن قَبلِ أَن يُقضَى إِلَيكَ وَحيُهُۥۖ وَقُل رَّبِّ زِدنِي عِلما»؛ “اور آپؐ وحی کے تمام ہونے سے پہلے قرآن کے بارے میں عجلت سے کام نہ لیا کریں اور یہ کہتے رہیں کہ پروردگار میرے علم میں اضافہ فرما” ۔ جب آنحضرت ؐ کسی بھی معاملہ میں بغیر وحی الہی کلام نہیں فرماتے تھےتو کیسے ممکن ہے کہ آپؐ قرآن مجید کے واضح اور صریحی “قانون میراث” کے خلاف (معاذاللہ) کوئی حکم بیان فرمادے اور کسی کے سامنے اس بات کا ذکر کردے کہ “ہم گروہ انبیاء مال دنیا میں سے کسی چیز کو وراثت میں نہیں چھوڑتے ہیں۔سونا، چاندی، گھر ، جائیداد اور زندگی کے وسائل میں سے کوئی بھی چیز میراث نہیں ہوتی ہے۔ ہماری میراث صرف علم و حکمت  اور نبوت سے متعلق مسائل ہوتے ہیں”۔ یہ بات صاف طور پر آنحضرت ؐپر ایک بہت بڑا بہتان اور الزام ہے اور اس بات کو ثابت کرنے کے لئے ہے کہ (معاذاللہ) آنحضرتؐ نے قرآنی احکام و قوانین کی مخالفت کی ہے اس لئے کہ قرآن مجید میں خصوصی طور پر انبیاء کی جانب سے مالی و مادی میراث اور عمومی طور پر تمام لوگوں کے لئے میراث چھوڑنے اور اس سلسلے میں وصیت کرنے کی تاکید کے بارے میں صراحت آئی ہے۔ اس بارے میں مربوط آیات کو خود شہزادی کائنات ؑنے بھی اپنے اسی خطبہ میں گذشتہ بیانات میں بھی ذکر فرمایا ہے اور اسی طرح آئندہ بیانات میں بھی دوبارہ ان آیات کے بارے میں یاددہانی فرمائی ہے۔

۳۔ شہزادی کائنات ؑ نے میراث کے سلسلے میں غاصبان فدک کی جانب سے پیش کی جانے والی جعلی اور جھوٹی حدیث کے سلسلے میں مزید فرمایا کہ تم لوگوں نے  میری ملکیت، میری میراث اور میرے مال کو غصب کرنے اور ہڑپنے کے لئے خود قرآن اور آنحضرتؐ کی ذات سے غداری کی ہے، تم لوگوں نے دھوکہ دیا ہے اور اس کا الزام میرے باباؐ پر لگانا چاہتے ہو:  «اَفَتَجْمَعُونَ اِلَی الْغَدْرِ اِعْتِلالاً عَلَیهِ بِالزُّورِ وَ هذا بَعْدَ وَفاتِهِ شَبیهٌ بِما بُغِی لَهُ مِنَ الْغَوائِلِ فی حَیاتِهِ…»؛ “کیا تم لوگوں کا مقصد یہ ہے کہ اپنی غداری کا الزام  ان کے سر ڈال دو۔ یہ  آنحضرتؐ کی رحلت کے بعد ایسی ہی سازش ہے جیسی ان کی زندگی میں کی گئی تھی۔  یہاں شہزادیؑ نے لوگوں کی باطنی خباثت اور ان کے شیطانی عمل اور سیاسی چالوں کو چند جملوں میں ظاہر کردیا  کہ تم جب  میری باتوں اور قرآنی دلیلوں کا جواب نہیں دے سکے تو جھوٹی حدیث پیش کرکے میرے باباؐ کی ذات پر جھوٹا الزام لگایا ہے۔ اور تم کہتے ہو کہ اس حدیث کو میں نے اکیلے ہی سنا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ میراث کا مسئلہ جو ہم سے متعلق ہے اور ہم ہی آنحضرتؐ کے وارث  ہیں تو  ہمیں اس حدیث کا علم نہیں ہے  لیکن تمہیں اس کی خبر ہے۔ تم لوگ صرف ہمارے خلاف، ہم اہل بیتؑکو ہمارے حقوق سے محروم کرنے کے لئے سازش کے مرتکب ہوئے ہو اور ایسی سازش تم میرے باباؐ کی زندگی میں بھی کرچکے ہو۔

۴۔ ابوبکر نے جس حدیث کو جن تاکیدات اور الفاظ کے ساتھ بیان کیا ہے اس کا لحن اور اس کا متن ہی اس کے جھوٹی اور جعلی ہونے کی گواہی دے رہا ۔ اس لئے کہ وہ کہتا ہے کہ “میں جھوٹ نہیں بول رہا ہوں”۔ پھر کہتا ہے “میں خدا کی قسم کھا رہا ہوں”۔ “میں خدا کو گواہ بنا رہا ہوں”۔ اس کے بعد قرآنی قانون کی واضح مخالفت کرنے والی حدیث پیش کرتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے حدیث کو جعل کرنے کا پہلے ہی ارادہ کرلیا تھا اور پہلے ہی اپنے حامیوں اور ساتھیوں کے ساتھ مل کر سازش کے تحت اس حدیث کو مختلف تاکیدات اور قسموں کے ساتھ پیش کرنے کا منصوبہ بنا رکھا تھا۔ اس منصوبے اور سازش کاری پر یہ بات بھی گواہ ہے کہ اگر اس کی جانب سے پیش کی جانے والی حدیث کے مطابق پیغمبرؐ اپنے بعد گھر، زمین، زندگی کے وسائل کو میراث میں چھوڑکر نہیں گئے ہیں ، جو کچھ چھوڑکرگئے وہ سب حکومت کا مال تھا  جس کے تحت حضرت زہراؑ کی ملکیت کو غصب کرلیا گیا تھا تو پیغمبراکرمؐ کی متعدد بیویاں بھی با حیات تھیں۔ ان کے بھی حجرے و مکانات تھے۔ ان میں متعدد وسائل زندگی بھی تھے۔ برتن، کاسے، پیالے، کپڑے، نفقہ کے سامان وغیرہ موجود تھے  پیغمبرؐ کی جانب سے ان کو فراہم ہوئے تھے تو  کیا ان سب کو بھی ان ازواج پیغمبرؐسے لے کر حکومتی مال میں شامل کیا گیا؟ یا صرف حضرت زہراؑ کی ذاتیملکیت پر ہی سازش کے تحت قبضہ کرلیا گیا جس کو میراث کے لحاظ سے بھی دیکھا جائے تو بھی اس پر تنہا شہزادیؑ کا حق تھااس لئے کہ نسبی لحاظ سے صرف شہزادیؑ ہی آنحضرت ؐ کی اکلوتی وارث تھیں اور فدک کی ملکیت بھی غیرمنقولہ اموال میں سے اور کھیتی باڑی والی زمین تھی جس پر ازواج کا کوئی حق نہیں ہوسکتا ہے۔

۵۔  بعض روایات اور احادیث کے مطابق معنوی اور علمی میراث ہی کو پیغمبرؐاور الہی رہبرو حاکم کی اصلی میراث بیان کیا گیا ہے جوان کے بعدقوم تک پہنچتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبراور الہی رہبر و حاکم کے پاس قوم یا بیت المال کی جو بھی دولت ہوتی ہے جو بھی عمومی مال ہوتا ہے اس پر صرف اور صرف قوم کا حق ہوتا ہے۔ اس کے بعد آنے والا جانشین ہی ان اموال میں تصرف اور ان کو خرچ کرنے کا حق رکھتا ہے۔ یعنی وہ بیت المال اور قوم کی عمومی میراث کو اپنے خاندان اور اقرباء کے درمیان تقسیم کرنے کا حق نہیں رکھتا ہے جیسا کہ اکثر دنیاوی حکمرانوں کا طریقہ کار ہوتا ہے۔ لیکن  یہاں  ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ  اس نبی، رسول، امام، رہبر الہی کے ورثاء کو ان کے ذاتی مال سے بھی محروم کردیا جائے اور ان کے ذاتی اموال کو چھین کر بیت المال اور حکومتی خزانے میں ملادیا جائے۔ یہاں ابوبکر نے دونوں باتوں کو جان بوجھ کر خلط کردیا اور لوگوں کو ایک واضح مغالطے کے ذریعہ گمراہ کرنے کی کوشش کی کہ چونکہ پیغمبرؐ کی جانب سے چھوڑا ہوا بیت المال قوم و حکومت کی ملکیت ہوتی ہے لہذا آپ ؐ کے بعد تمام مال و منال صرف حکومت کا ہے۔ جی ضرور ایسا ہی ہے ۔ لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ پیغمبرؐ کی  ذاتی ملکیت بھی آپ  کی بیٹیؑ تک نہ پہنچے اور آپ ؑ کو باباؐ کی میراث سے محروم کرکے سب کچھ  حکومتی مال اور بیت المال میں ملادیاجائے۔ جبکہ مال فدک حقیقت میں شہزادیؑ کی ملکیت تھا جس کو آنحضرت ؐ نے اپنی زندگی ہی میں حضرت فاطمہ زہراؑ کو عطا و ہبہ فرمادیا تھا تاکہ رحلت کے بعد وراثت کے نام پر غصب نہ کرلیا جائے۔

۶۔ ابوبکر کی جانب سے پیش کی جانے والی حدیث کے جعلی اور جھوٹی ہونے ایک اور ثبوت اس کا یہ بیان تھا کہ  “جو کچھ باقی رہتا ہے، وہ ولی امر کے لیے ہے تاکہ اس کے ذریعہ حکومت کی بنیاد کو مضبوط کرسکے”۔ یہاں خود اس بات کا اعتراف کیا جارہا ہے کہ اہل بیتؑ سے ان کی ملکیت کو چھیننے کا مقصد و ہدف خلافت کی بنیادوں کو مضبوط کرنا اور حضرت علیؑ کو خلافت و حکومت سے دور رکھنا تھا۔ یعنی واضح طور پر کہا جارہا ہے کہ ہم نے ظلم و غصب کا ارتکاب کیا ہے تاکہ اپنی خلافت و حکومت کو بچاسکے اور اس کو مضبوطی عطاکرسکے اور داخلی و خارجی تمام دشمنوں سے لڑائی میں اس مال کو خرچ کرسکیں۔اسلحہ اور گھوڑوں کی خرید کرسکیں۔ یہاں بھی وہ  لوگوں کو غلط فہمی میں مبتلا کرنے اور اپنے آپ کواس کام میں صحیح ٹھہرانے کی کوشش کررہا تھا۔

۷۔ ابوبکر نے غصب فدک کی توجیہ کرتے ہوئے مزید کہا تھا کہ: ” وَ ذلِكَ بِاِجْماعِ الْمُسْلِمینَ، لَمْ اَنْفَرِدْ بِهِ وَحْدی، وَ لَمْ اَسْتَبِدْ بِما كانَ الرَّأْی عِنْدی”۔ “میں نے یہ کام  اپنی طرف سے نہیں کیا بلکہ مسلمانوں کے اجماع سے کیا ہے”۔ یہ جملات بھی خود ابوبکر کی مذکورہ دلیلوں کے برخلاف ہےاس لئےکہ وہ پہلے غصب فدک پر جعلی حدیث اور بیت المال کی ملکیت ہونے کی بات کررہا تھا لیکن یہاں مسلمانوں کے اجماع کی بات کررہا ہے کہ میں نے جوکچھ کیا ہے وہ اجماع کی بنیاد پر کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فدک کی ملکیت کو نہ تو “حدیث کی بنیاد پر” غصب کیا اور نہ ہی “بیت المال کی ملکیت” ہونے کی بنیاد پر غصب کیا بلکہ “اجماع کی بنیاد پر” غصب کیا گیا تھا۔ یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ پہلے جب شہزادیؑ نے قرآن و الہی قوانین و احکام کا حوالہ دیا تو  ابوبکر نے پیغمبرؐ کی حدیث کا سہارا لینے کی کوشش کی۔ اور جب حدیث کے جعلی ہونے کی نشانیاں خود اسی کے بیان سے ظاہر ہونے لگی تو اس نے “مسلمانوں کے اجماع” کی بات کردی  ۔ یہ سب متناقض باتیں ہی ان کے دعوؤں اور ان کے کاموں کے باطل ہونے پر روشن دلیلیں ہیں۔

 ۸۔ اجماع کے دعویٰ پر بھی متعدد سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ قرآن کے مقابلے میں اجماع کی کیا حیثیت ہے؟  کیا قرآن کے خلاف اجماع کرکے کسی اسلامی اور قرآنی قانون کو بدلا جاسکتا ہے؟۔اور کیا سقیفہ والے اجماع میں تمام یا اکثر مسلمان شامل تھے؟ وہاں تو چارپانچ ہی لوگ تھے جنہوں نے تلوار کے بل بوتے پر، ڈرادھمکاکر اپنی بات منوا لی تھی۔ جس میں خود مدینہ کے بزرگ صحابہ اور خاندان بنی ہاشم کو اصلاً دور رکھا گیا تھا ۔ اس تمام سوالات کے علاوہ سب سے اہم اور بڑا سوال یہ ہےکہ اجماع “فدک کی ملکیت” کو غصب کرنے پر نہیں ہوا تھا بلکہ “خلافت کو غصب “کرنے پر ہوا تھا۔ تو یہاں کیسے دعویٰ کیا جارہا ہے کہ میں نے جو کچھ کیا ہے وہ مسلمانوں کے اجماع سے کیا ہے۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ اصل مسئلہ صرف فدک نہیں بلکہ خلافت کا غصب کیا جانا تھا۔اور شہزادی ؑ کا احتجاج بھی حقیقت میں تمام غصب کئے گئے حقوق کے بارے میں تھا جس میں فدک اور خلافت امیرالمومنینؑ سر فہرست تھے۔

۹۔  شہزادی ؑ نے اپنے حقوق کے اثبات اور ابوبکر کی غلط بیانی کے جواب میں دوبارہ قرآنی آیات کا ذکر فرمایا جس میں قانون میراث کا واضح طور پر ذکر آیا ہے کہ: «هذا كِتابُ اللَّـهِ حُكْماً عَدْلاً وَ ناطِقاً فَصْلاً، یقُولُ: «یرِثُنی وَ یرِثُ مِنْ آلِ یعْقُوبَ»، وَ یقُولُ: «وَ وَرِثَ سُلَیمانُ داوُدَ» فَبَيّنَ عَزَّ وَ جَلَّ فيما وَزَّعَ عَلَيْهَ مِنَ الْأَقْساطِ وَ شَرَّعَ مِنَ الْفَرائِضِ وَ الْميراثِ وَ أباحَ مِنْ حَظِّ الذُّكْرانِ وَ الاناثِ…»؛ یہ کتاب خدا حاکم عادل اور اس کا قول فیصلہ کن ہے۔ اس کتاب میں (جناب یعقوبؑ کی وارث کے سلسلے میں دعا کا ذکر) آیا ہے (مجھے ایسا وارث عطا فرما) ” جو میرا بھی وارث ہو اور آل یعقوبؑ کا بھی وارث ہو (مریم، آیه6)۔  اسی کتاب میں آیا ہے کہ “اور سلمان ؑ داؤدؑ کے وارث ہوئے” (نمل، آیه16)۔ اسی طرح خدائے عز و جل نے تمام حصے اور فرائض کے تمام احکام بیان کر دیے ہیں جہاں لڑکوں اور لڑکیوں کے حقوق کی بھی وضاحت کر دی ہے (نساء، آیت ۱۱-۱۲)۔

۱۰۔ شہزادی کائناتؑ نے وراثت سے متعلق قرآن مجید کی واضح اور روشن آیات  کو پیش کرکے کسیقسم کے ابہام کی گنجائش باقی نہیں رکھی۔ اور انہیں آیات کے ذریعہ غاصبوں کی طرف سے پیش کی جانے والی جعلی حدیث اور دیگر تمام توجیہات اور ظاہر فریبی والے بہانوں کو بھی باطل کرکے  غاصبوں کے عمل کو بے نقاب کردیا اور فرمایا کہ : «ما أزاحَ بِهِ عِلَّةَ الْمُبْطِلينَ وَ اَزالَ التَّظَنّی وَ الشُّبَهاتِ فِی الْغابِرینَ، كَلاَّ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ اَنْفُسُكُمْ اَمْراً، فَصَبْرٌ جَمیلٌ «وَ اللَّـهُ الْمُسْتَعانُ عَلی ما تَصِفُونَ»؛ “اس طرح قرآن نے تمام اہل باطل کے بہانوں کو باطل کر دیا  اور قیامت تک کے تمام شبہات اور خیالات کو ختم کر دیا ہے۔ یقینایہ تم لوگوں کے نفس نے ایک بات گڑھ لی ہے تو اب میں بھی صبر جمیل سے کام لے رہی ہوں اور اللہ ہی تمہارے بیانات کے بارے میں میرا مدد گار ہے(یوسف، آیه۱۸)…»۔ یہاں شہزادی ؑ نے اپنی حجت تمام کرتے ہوئے اللہ کے نزدیک پسندیدہ صبر کو اختیار کرنے کا اعلان فرمایا اور اس طرح آپؑ نے اسلام کو نقصان پہنچنے سے بچالیا اور اپنے احتجاج و موقف کا بھی اظہار فرمادیا اور تمام مسلمانوں کے سامنے غاصبوں کی حقیقت اور ان کی توجیہات کو بھی سامنے لاکر رکھ دیا  کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کا عمل و کردار اسلام و مسلمانوں کی مصلحت کے لئے نہیں بلکہ حبّ جاہ و ریاست طلبی کے لئے تھا۔ ان کے نزدیک قرآن اور رسول اکرمؐ کی کوئی حیثیت نہیں ہے یہ آسانی سے قرآنی قوانین کو جھٹلاتے ہیں اور بہت ہی آسانی سے  آنحضرتؐ  پر الزام و تہمت لگاسکتے ہیں۔ اور ظاہری طور پر ہمارے فضائل ومناقب کا اعتراف تو کرتے ہیں لیکن حقیقت میں ہمیں جھٹلاتے ہیں، ہم پر بھی الزام لگاتے ہیں۔ ہمارے خلاف سازشیں کرتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

تبصره کریں

Back to top button
×