وجود حضرت صاحب العصر (عج)
تحریر: رئیس المبلغین علامہ سید سعید اختر رضوی گوپال پوری (رح)
وجود حضرت صاحب العصر (عج)
تحریر: رئیس المبلغین علامہ سید سعید اختر رضوی گوپال پوری (رح)
(ماخوذ از کتاب «اتمام حجّت»، ص۲۲۱ تا ۲۷۱)
تمہید:
کتاب «اتمام حجّت»؛ رئیس المبلغین علامہ سید سعید اختر رضوی گوپال پوری ؒ کی بہترین تصانیف میں سے ہے؛ اس کتاب میں مختلف موضوعات پر اہل سنت کےعالم سید محمود احمد رضوی، مدیر رضوان (ہفتہ وار اخبار، لاہور) کی جانب سے۱۹۵۴ ء میں سیدالشہداءؑ نمبر میں “خار و گل” کے عنوان سے شیعہ مذہب کے خلاف متعدد پرانے اور گھسے پٹے اعتراضات کو نئے انداز میں شائع کیا گیا۔ علامہ رضوی ؒ نے ان اعتراضات کے جوابات کو مختلف مقالات کی شکل میں تحریر فرمایا جو اس وقت کے پاکستانی اخبار”سرفراز” اور “رسالہ نور”۔ اسی طرح ہندوستانی ماہنامہ”الجواد”کے ذریعہ شائع ہوئے جو بہت مقبول ہوئے تھے اور بعد میں انہیں مقالات کو کتابی شکل میں متعدد بار شائع بھی کیا گیا تھا۔
مدیر رسالہ رضوان کا ایک اعتراض حضرت امام مہدی (عج) کے وجود با برکت پر خدشہ وارد کرنے کی غرض سے بھی تھا جس کا علامہ رضوی نے مفصل جواب دیا تھا۔ (اتمام حجّت؛ ص۲۲۱ تا ۲۷۱)۔ موضوع کی افادیت کے مدنظر “وجود حضرت صاحب العصر(عج)” پر ہونے والے اعتراض اور علامہ رضویؒ کے مفصل جواب کو اس مجلہ میں دوبارہ شائع کیا جارہا ہے(ادارہ)۔
یہاں اصل اعتراض کی عبارت اور اس کے بعد علامہ رضویؒ کے جوابات کا اس طرح آغاز ہوتا ہے:
“صافی شرح اصول کافی میں ہے کہ: «اگر عدد ایشان به سی صد و سیزده کس با هیبت اجتماعی رسد امام ظاهر می شود»؛ (باب پنجم، الحجة، ص35)؛ یعنی اگر شیعوں کی تعداد تین سو تیرہ ہوجائے تو امام مہدی ظاہر ہوجائیں۔
کچھ سمجھے آپ!
شیعوں کی صافی تو شیعوں کا صفایا کررہی ہے وہ کہتی ہے کہ اگر کہیں بھی تین سو تیرہ حقیقی شیعہ جمع ہوجائیں، تو امام مہدی ضرور تشریف لائیں گے۔ لیکن امام تو ابھی غار سے نکلنے کا نام ہی نہیں لیتے جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ جو ہر طرف بکثرت شیعہ نظر آرہے ہیں وہ یقیناً مومن نہیں ہیں، بلکہ دشمن اہل بیت ہیں اگر واقعہ میں شیعیان علی کہیں بھی تین سو تیرہ کی تعداد میں ہوجاتے تو پھر امام بھی ضرور ظاہر ہوجاتے۔ لیکن امام تو ظاہر نہیں ہوئے ۔
نتیجہ صاف ہے ۔(انتهی بلفظه)
علامہ رضویؒ یہاں سے اس طرح جواب کا آغاز کرتے ہیں کہ:
“وہ نتیجہ جن کو مدیر رضوان نے بہ وضاحت نہیں لکھا ہے ان کے خیال میں دو ہی ہوسکتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ:
الف: یا تو امام مہدی( عج)موجود نہیں ہیں جو ظاھر ہوں ۔
ب) یا یہ شیعے در اصل شیعہ نہیں ہیں ۔
الف: اثبات وجود امام عصر(عج) (احادیث کی روشنی میں)
پہلی حدیث:
اس سلسلے میں پہلی حدیث جومتن اورمضمون دونوں لحاظ سے متواتر اور اسلام کے دونوں فرقوں کے نزدیک متفق علیہ ہے، وہ ہے جس کو دیگر ائمہ حدیث کے علاوہ امام مسلم نے بھی صحیح مسلم میں لکھا ہے اور جو بطور ایک منطقی ضابطہ کے صاحب العصر (عج)کے وجود کو اس دور میں واجب قرار دے رہی ہے حسب ذیل ہے:
«قال رسول الله(ص): من مات ولم يعرف امام زمانه مات ميتة الجاهلية»؛
رسالتمآب ؐنے فرمایا کہ جو مرجائے اور اپنے زمانے کے امام کو نہ پہچانے وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔ یعنی کافر مرے گا۔(مسند احمد بن حنبل، ج ۱، ص۹۶ ۔صحیح مسلم، ج۶، ص۲۲۔ مسندابوداؤد، ص۲۵۹۔ مجمع الزوائدھیثمی، ج ۵، ص ۲۲۴)۔
اس حدیث کی اہمیت کی شدت اس وقت اور واضح ہوجائے گی کہ جب آپ یہ معلوم کر لیں گے کہ خلیفۂ ثانی کے صاحبزادے جناب عبداللہ بن عمر نے جب عبدالملک کے سریر آرائے خلافت ہونے کی خبر مدینہ میں رات کے وقت سنی تو اسی وقت اٹھ کر اس کے ظالم گورنر حجاج کے دروازے پر حاضر ہوئے اور اندر اطلاع کرائی، حجاج نے آنے کا سبب دریافت کرایا،آپ نے فرمایا کہ میں تمہارے پاس عبدالملک کی بیعت کرنے کے لئے آیا ہوں۔ اس نے کہلوایا کہ فرصت نہیں ہے کل آنا، عبداللہ بن عمر بہت پریشان ہوئے اور کہنے لگے کہ اگر کہیں میں آج رات ہی کو مرگیا تو امام زمانہ کی بیعت کیے بغیر مروں گا اور فرمان رسول ؐکے مطابق جو اپنے امام زمانہ کی معرفت کے بغیر مرے وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے اس لئے تم بہرصورت مجھ سے لے لو۔ حجاج نے ان کو اندر بلوایا اور کہا کے میں کام میں مشغول ہو ہاتھ خالی نہیں ہے تم میرے پیر پر بیعت کرلو چنانچہ بیچارے نے حجاج کے پیر پر عبدالملک کے لئے بیعت کی اور خوش خوش واپس آئے۔(شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید، المعتزلی، ج۱۳، ص۲۴۲)۔
تعجب صرف اس امر پر ہوتا ہے کہ انہیں عبداللہ بن عمر نے امیرالمؤمنین علی ؑ کی ظاہری خلافت کے دور میں بھی ان سے بیعت نہیں کی اور خانہ نشین ہو کر بیٹھے رہے اور مکمل ساڑھے چار سال بغیر امام کے زندگی بسر کی اور جاہلیت کی موت مرنے کا خوف دل میں نہ آیا: بسوخت عقل زحیرت کہ ایں چہ بوالعجبی ست۔
بہرحال یہ حدیث جو ایک مکمل ضابطہ ہے امرخلافت کا، صاف صاف اس امرکو بتا رہی ہے کہ ہر زمانہ میں ایک امام زمانہ کا وجود ضروری ہے جس کی معرفت اس کے دور میں ہر شخص پر واجب ہے لہٰذا اس دور میں بھی ایک امام زمانہ موجود ہیں جس کی معرفت سارے عالم پر فرض عین ہے۔
وہ لوگ جن کے خلفاء خود معتقدین کے ساختہ و پرادختہ تھے اور جن کے نظام خلافت کو مصطفیٰ کمال پاشا نے بیک جنبش قلم صفحہ ہستی سےمحو کردیا، اب اپنی حالت پر غور فرمائیں اور اس حدیث کی روشنی میں نہ صرف اپنے انجام کو دیکھ لیں بلکہ یہ سمجھ لے کہ جو نظام خلافت قبل قیامت فنا ہو جائے وہ اس حدیث کی روشنی میں بھی کبھی خدائی نہیں ہو سکتا ۔اور کسی نظام خلافت کی بربادی ہی ایک مستقل دلیل ہے اس امر کی کے اس نظام کے پیشوا اور پیروں دونوں اول سے آخر تک گمراہی میں مبتلا رہے تھے اور صراط مستقیم سے منحرف ہوئے ہو گئے تھے: وذلک هو الخسران المبین۔
اب اپنی شرم مٹانے کے لیے تاویلیں کی جاتی ہیں اور یہ کہا جاتا ہے کہ امام زمانہؔ سے مراد قرآن مجید ہے، یہ تاویل کرنے والے کیا اس پر غور نہیں کرتے کہ رسالت مآبؐ نے صرف امام کا لفظ استعمال نہیں کیا بلکہ”امام زمانہ” فرمایا ہے یعنی “اپنے زمانے کے امام کو” نہ پہچانے۔ جس کا مقصد یہ ہے کہ یہاں وہ امام مراد ہیں جو مختلف زمانوں میں بدلتے رہتے رہیں گے اور ایک امام کے بعد دوسرا امام آتا رہے گا ۔کیا قرآن بھی مختلف زمانوں میں بدلتا رہا ہے یا بدلے گا؟ یا ایک کے بعد دوسرا قرآن آئے گا؟
دوسری حدیث
دوسری حدیث جو اسلام کے تمام فرقوں کے نزدیک مسلم الثبوت ہے اور صحیح بخاری اورحدیث کی دوسری تمام کتابوں میں مختلف اسناد کے ساتھ پائی جاتی ہے یہ ہے:
«الائمة بعدی اثنا عشر کلهم من قریش»
” امام میرے بعد بارہ ہوں گے اور وہ سب کے سب قریش سے ہوں گے”۔ (صحیح البخاری، ج ۸، ص۱۲۸، صحیح مسلم، ج ۶، ص۴ ۔ سنن ابی داؤد، ج ۲، ص ۳۰۹۔ سنن ترمذی، ج ۳، ص ۳۴۔ مسند احمد، ج ۵، ص ۸۶-۱۰۸)۔
اس مضمون کی حدیثوں کے لئے احادیث کی کتابوں میں مستقل باب قائم کئے گئے ہیں اور یہ حدیث بھی ایک ضابطہ ہے جس پر ہم ہر نظام خلافت کو پیش کرکے اس کی صحت یا بطلان کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ صاف مقصد اس حدیث کا یہ ہے کہ جو سلسلۂ خلافت قریش سے باہر ہو؛( جیسے سلاطین ترکی) یا قریش کے اندر ہو مگر بارہ سے کم ہو جائے یا بارہ سے زیادہ ہو جائے تو وہ خدا کا قائم کیا ہوا سلسلہ نہیں ہے ۔کیونکہ یہ تو نا ممکن ہے کہ خدا نے بھول چوک یا غلطی سے رسولؐ کے خلفا کی تعداد بارہ بتا دی ہو اور اصل میں یہ تعداد نہ ہو، یااس کا ارادہ بدل گیا ہو ۔یا رسولؐ نے بغیر وحی الہی کے یہ پیشین گوئی کردی ہو۔ جب خدا کا سہو یا لا علمی تبدیلی ارادہ یا رسول اللہؐ کا بغیر وحی کلام کرنا ناممکن مانا جاتا ہےتو پھر کیا وجہ ہے کہ رسولؐکی بتائی ہوئی تعدادِ خلفا غلط ہوجائے۔ یقینا ماننا پڑےگا کہ اجماع، استخلاف، شوریٰ اور قہر وغلبہ کے ذریعہ جو نظامِ خلافت رسولؐ کے بعد قائم ہوا اور جس کے کسی سلسلے کی تعداد بارہ پر محدود نہ رہی، وہ رسولؐ یا خدا کا پسندیدہ اور مقرر کیا ہوا نظام نہ تھا۔
“میں آج پورے سوادِاعظم کو چیلنج کرتا ہوں کہ وہ اپنے کسی سلسلۂ خلافت (خلافتِ راشدہ، خلافتِ بنی عباس، خلافتِ اندلس، خلافتِ ترکیہ، سلطنتِ مصر وغیرہ وغیرہ )کو رسولؐ کے بتائے ہوئے اس معیار پر ثابت کر دیں مگر شرط یہ ہے کہ بارہ کی تعداد مسلسل ہو اور رسولؐ کے بعد اسے قیامت تک کے زمانے پر حاوی ہو تاکہ کوئی زمانہ امام سے خالی نہ رہے جیسا کہ پہلی حدیث میں گذر چکا ہے: «فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا وَ لَنْ تَفْعَلُوا َاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَ الْحِجارَةُ» (اور اگر تم ایسا نہ کرسکے اورہرگز تم ایسا کربھی نہیں سکتے ہو لہذااس آگ سے ڈرو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے)۔(بقرہ، آیت۲۴)”۔
البتہ ہم شیعہ اس معیار پر اپنے نظامِ خلافت کو فخریہ پیش کرسکتےہیں کہ ہمارے یہاں خلفاء کی تعداد بارہ ہی ہے اور چونکہ گیارہ دور گذر چکے ہیں اس لئے بارہواں خلیفہ اس دنیا میں عقلاً موجود ہے، جو خلق خدا کی رہنمائی کرتا ہے اور بحمدللہ وہ موجود ہے۔ پھر یہ نہیں کہ رسولؐ نے محض خلفاء کی تعداد بتادی ہو اور ان کی شخصیت اور نام و نسب سے پردہ نہ اٹھایا ہو۔اگر رسولؐ خاموش رہ جاتے تب ضرور قیاس آرائی کی گنجائش تھی ۔لیکن یہاں تو تعداد بھی بتائی ہو، ان کے قبیلے کا بھی پتہ بتایا اور سب کے نام اورنسب کا بھی اعلان کردیا اور بتا دیا کہ یہ پیشین گوئیاں محض اتفاقی حادثہ نہیں بلکہ پہلے سے طے شدہ خلافت الہیہ کا تفصیلی اعلان ہے جس میں کسی ہوس کار کی ہوس اثر انداز نہیں ہوسکتی۔ تفصیل کے لئے حسب ذیل حدیث ملاحظہ ہو۔
تیسری حدیث:
علامہ سید جمال الدین محدث نے جو اہل سنت کے بہت بڑے عالم گذرے ہیں، اپنی مشہور تصنیف “روضۃ الاحباب” میں جناب جابر بن عبداللہ انصاری سے یہ روایت کی ہے کہ جب خدا نے اپنے پیغمبرؐ پر یہ آیت نازل فرمائی:
«يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ»؛”اے ایمان والو! خدا کی اطاعت کرو اور رسول کی اور اولو الامر کی اطاعت کرو”(سورہ نساء، آیت ۵۹)۔
تو میں نے رسول اللہؐ سے عرض کی کہ: ” یا رسول اللہ! ہم خدا اور اس کے رسول کو تو پہچانتے ہیں پس یہ صاحبان امر کون ہیں جن کی اطاعت کو خدا نے آپ کی اطاعت کے ساتھ ملادیا ہے پس رسول اللہ ؐ نے فرمایا:
«ھم خلفائی من بعدی اولھم علی بن ابی طالب ثم الحسن ثم الحسین ثم علی ابن الحسین ثم محمد بن علی المعروف فی التوراۃ بالباقر (وستدرکہ یا جابر، فاذا لقیتہ ،فاقرأہ منی السلام) ثم الصادق جعفر بن محمد ثم موسی بن جعفر ثم علی بن موسی ثم محمد بن علی ثم علی بن محمد ثم الحسن بن علی ثم حجۃ اللہ فی ارضہ و بقیتہ فی عبادہ محمد بن الحسن بن علی ذالک الذی یفتح اللہ عز و جل علی یدیہ مشارق الارض و مغاربھا و ذالک الذی یغیب عن شیعتہ واولیائہ غیبة لا یثبت فیھا علی القول بامامتہ الا من امتحن اللہ قلبہ للایمان»؛
“وہ میرے بعد خلفاء ہیں جن میں پہلے علی بن ابی طالبؑ ہیں، پھر حسنؑ، پھر حسینؑ ،پھر علیؑ ابن الحسین ؑ ،پھر محمدؑ بن علی ؑ ہیں جو توریت میں باقر کے لقب سے مشہور ہیں ( اور اے جابر! تم عنقریب ان کا زمانہ پاؤ گے پس ا ن سے میرا سلام کہنا۔)پھر ان کے بعد جعفر صادق ؑبن محمدؑ ،پھر موسیؑ بن جعفرؑ، پھر علیؑ بن موسیؑ، پھر محمدؑ بن علیؑ، پھر علیؑ بن محمدؑ، پھر حسنؑ بن علیؑ، پھر محمدؑ بن حسن ؑبن علیؑ ہیں جو زمین میں خدا کی حجّت اور بندگان خدا میں بقیۃ اللہ ہوں گے۔ وہی ہیں جن کے ہاتھوں پر خدا زمین کے مشرق ومغرب کو فتح کردے گا اور وہی ہیں جو اپنے شیعوں سے اور دوستوں سے اس طرح پوشیدہ ہوجائیں گے کہ ان کی امامت کے اعتقاد پر کوئی باقی نہیں رہ جائے گا سوائے ان لوگوں کے جن کے دل کا خدا نے ایمان کے لئے امتحان لے لیا ہو” ۔
جابرگوید: گفتم یا رسول اللهؐ! آیا در غیبت امام شیعه انتفاع یابند؟ (جابر کا بیان ہے کہ میں نے دریافت کیا کہ یارسول اللہؐ! کیا زمانۂ غیبت میں شیعوں کو ان سے فائدہ پہنچے گا؟”)
«فقال: ای واللہ والذی بعثنی بالنبوۃ، انھم یستضئیون بنورہ و ینتفعون بولایتہ فی غیبتہ کانتفاع الناس بالشمش وان لا علاھا سحاب» الحدیث؛
رسول اللہ ؐنے فرمایا کہ: “ہاں! قسم خدا کی جس نے مجھے نبی بنا کر بھیجا ہے، ان کے شیعہ ان کی غیبت میں ان کے نور سے اسی طرح روشنی حاصل کریں گے اور ان کی ولایت سے فائدہ اٹھائیں گے جس طرح آفتاب سے فائدہ اٹھاتے ہیں، اگر چہ وہ بادل میں چھپا ہوا ہو”۔
اس حدیث مبارکہ نے جو اہل سنت کے ایک جلیل القدر عالم نے جابر بن عبد اللہ انصاری جیسے معزز صحابی سے نقل کی ہے، اوپر بیان کی ہوئی دونوں حدیثیوں کی تشریح کردی اور بتادیا کہ وہ بارہ خلیفہ جن سے دنیا خالی نہیں رہ سکتی اور جن کی معرفت ہر مدعی اسلام پر فرض ہے وہ کون ہیں او ر یہ بھی بتادیا کہ ان میں کا بارہواں خلیفہ دنیا والوں کی نگاہوں سےمخفی ہوجائے گا۔ اور اس کی غیبت اتنی طولانی ہوگی کہ بجز ان لوگوں کے جن کے دل کا خدا نے ایمان سے امتحان لے لیا ہو اور کوئی بھی اس کا مُقرّ نہ رہ جائے گا۔ اور “مدیررضوان” جیسے لوگ جن کے دل کو ایمان چھو نہیں گیا ہے وہ اس کا مضحکہ اڑائیں گے ۔اور مومنین ان کے وجود سے منتفع ہوتے رہیں گے جیسے ابر میں چھپے ہوئے خورشید سے فائدہ ہوتا ہے۔
(یاد رہے کہ علامہ رضویؒ نے یہاں بیان کیا کہ: اس لطف خفی کی دو مثالیں (کتاب اتمام حجّت کے)دیباچہ میں دی گئی ہیں جن سے اندازہ ہوگا کہ سحاب غیبت میں چھپا ہوا یہ خورشید امامت کس طرح اپنے ماننے والوں کو فیض پہنچاتا رہتا ہے)۔
پھر یہی نہیں کہ رسول اللہؐ نے صرف غیبت کی خبر دی ہو اور ظہور کا تذکرہ نہ کیا۔اس سلسلہ میں صحاح اہلسنت سے کئی ایسی حدیثیں “مدیر رضوان” کی بصارت کے لئے کحل الجواھر کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہوں، جن میں رسالتمآب ؐ نے اما م عصر(عج) کے وجود اور ظہور کی بشارت دی ہے۔ در اصل تمام حدیثیں متواتر ات میں سے ہیں اور ان کیلئے زیادہ دلائل پیش کرنے کی ضرروت ہی نہیں ہے کیونکہ شیعہ اور سنی سب اس کے معتقد ہیں کہ امام مہدی(عج) جناب سیدہ فاطمہ زہرا ؑ کی نسل سے ہیں اورقیامت کے قریب ظاہر ہوں گے مگر “مدیر رضوان” بیچارے اپنے ہی مذہب کی خبر نہیں رکھتے اور ایسے ایسے لچر اور پوچ اعتراضات لکھنےبیٹھتے ہیں جس سے ان کے مذہبی معلومات کی قلعی کھل جاتی ہے ۔ بہر حال… ۔
چوتھی حدیث:
امام ابوداؤد نے اپنی کتاب سنن میں اور امام ترمذی نے صحیح ترمذی میں ابو سعید خدری سے روایت کی ہے کہ:
«قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یقول: المھدی منی أجلی الجبھۃ و أقنی الانف یملأ الارض قسطا وعدلا کما ملئت جوراً و ظلما و یملک سبع سنین»۔
رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا کہ : مہدی(عج) مجھ سے ہیں؛ وہ روشن پیشانی اور بلند بینی والے ہوں گے۔ زمین کو عدل وانصاف سے اسی طرح بھر دیں گے جس طرح وہ ظلم وجور سے بھر چکی ہوگی اور سات سال حکومت کریں گے (سنن ابی داؤد، ج ۲، ص2، ح ۳۱۰) ۔
پانچویں حدیث:
امام ابوداؤد نے سنن میں حضرت علی ؑ سے روایت کی ہے کہ:
«عن رسول صلی اللہ علیہ وسلم قال: لو لم یبق من الدھر الا یوم لبعث اللہ رجلا من اھل بیتی یملا ھا عدلا کما ملئت جورا »۔
رسول اللہ ؐ نے فرمایا کہ اگر دنیا کے ختم ہونے میں ایک دن بھی باقی رہ جائے گا تو بھی خدا میرے اہل بیتؑ میں سے ایک شخص کو بھیجے گا جو دنیا کو عدل سے اس طرح بھر دے گا جس طرح وہ جو ر وستم سے بھری ہوگی (سنن ابی داؤد، ج ۲، ص ۳۱۰) ۔
چھٹی حدیث:
امام ابوداؤد ہی نے ام المومنین حضرت ام سلمہؓ کے سلسلہ سے یہ روایت کی ہے:
«قالت سمعت رسول اللہؐیقول المھدی من عترتی من ولد فاطمہ»؛
رسول اللہ ؐنے فرمایا کہ :”مہدی(عج) میرے عترت سے یعنی فاطمہؑ کی نسل سے ہوں گے”(سنن ابی داؤد، ج ۲، ص ۳۱۰) ۔
ساتویں حدیث:
امام بخاری نے “صحیح بخاری” میں امام مسلم نے “صحیح مسلم” میں اور قاضی ابن مسعود بغوی نے اپنی تصنیف “شرح السنۃ” میں ابوہریرہ سے روایت کی ہے:
«قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: کیف انتم اذا انزل ابن مریم فیکم وامامکم منکم؟»
“رسول اللہ ؐ نے فرمایا ہے کہ: تمہارا کیا حال ہوگا، جب عیسیؑ بن مریمؑ تمہارے درمیان نازل ہوں گے اور تمہارا امام تم ہی میں سے ہوگا؟” (صحیح بخاری، ج ۴، ص۱۴۳، صحیح مسلم، ج ۱، ص۹۴)۔
آٹھویں حدیث:
امام ترمذی نے صحیح ترمذی میں اور امام ابو داود نے اپنی سنن میں عبد اللہ ابن مسعود سے یہ روایت کی ہے کہ: « قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: لا تنقضی الدنیا حتی یملک العرب رجل من اھل بیتی یواطئ اسمہ اسمی»۔
رسول اللہؐ نے فرمایا ہے کہ: دنیا ختم نہیں ہوگی، یہاں تک کہ عرب کا مالک، (یعنی حاکم ) میرے اہل بیتؑ میں سے ایک شخص ہوگا جس کا نام میرے نام پر ہوگا(سنن ابی داؤد، ج ۴، ص106 ۔ سنن ترمذی، ج۴، ص ۵۰۵، مسند احمد، ج ۱، ص ۳۷۷)۔
نویں حدیث:
انہیں دونوں ائمہ اہل سنت نے یہ روایت اپنی اپنی صحیح میں درج کی ہے:
« ان النبی صلی الله علیه و سلم قال: یلی رجل من اهل بیتی یواطئ اسمه اسمی»
رسول خداؐ نے فرمایا کہ: “میرے اہل بیتؑ میں سے ایک شخص حاکم ہوگا جس کا نام میرے نام پر ہوگا(سنن ابی داؤد، ج ۴، ص106 ۔ سنن ترمذی، ج3، ص 343، مسند احمد، ج ۱، ص ۳۷۶)۔
دسویں حدیث
امام ابو اسحاق ثعلبی نے اپنی تفسیر میں انس بن مالک سے روایت کی ہے:
«قال رسول اللہ ص: نحن ولد عبدالمطلب سادۃ اھل الجنۃ: انا و حمزۃ و جعفر و علی والحسن والحسین والمھدی»؛
“رسول اللہ ؐ نے فرمایا کہ ہم فرزندان عبد المطلب اہل جنت کے سردار ہیں یعنی میںؐ اور حمزہؑ اور جعفرؑ اور علیؑ اور حسنؑ اور حسینؑ اور مہدی(عج)”۔(الکشف والبیان، الثعلبی، ج ۸، ص ۳۱۲، سنن ابی ماجہ، ج ۲، ص ۱۳۶۸)۔
تلک عشرۃ کاملہ!
ب: اثبات وجود امام عصر(عج)
(علماء اہل سنت کے بیانات میں)
ان دلائل نے اس امر کو واضح کردیا کہ رسول اللہ ؐ نے اپنے بعد کے نظام خلافت کی تمام تفصیل کھلے الفاظ میں بیان کردی تھی اور ان تفصیلات میں بارہویں امام کی غیبت اور اسی طویل غیبت کے بعد ظہور کو خاص اہمیت حاصل تھی لیکن “مدیر رضوان” قولِ رسولؐ کو قابل اعتناء نہیں سمجھتے تو ان کے ہم مذہب علماء کی شہادتیں پیش کردیتا ہوں تاکہ اس حقیقت کا انکشاف ہوجائے کہ یہ عقیدہ کہ “بارہویں امام زندہ ہیں اور نگاہ خلق سے مخفی ہیں اور قریب قیامت ظاہر ہوں گے” کچھ شیعوں ہی سے مخصوص نہیں ہے بلکہ اہل سنت کے ارباب حدیث، علمائے کرام اور صوفیائے عظام سب اس کے معتقد ہیں ۔
۱) علامہ عبد الوھاب شعرانی
علامہ عبد الوھاب شعرانی، اہل سنت کے جلیل المناقب عالم گذرے ہیں ( اور جن کو شاہ ولی اللہ دہلوی جیسا صاحبِ فضائل ومکارم عارف محقق اولیاءاللہ اور وارثان رسول اللہؐ میں شمار کرتا ہے) اپنی تصنیف”لواقح الانوار فی طبقات الاخبار” میں ارشاد فرماتے ہیں:
«ومنھم الشیخ الصالح العابد الزاھد ذوالکشف الصحیح والحال العظیم الشیخ حسن العراقی المدفون فوق الکوم المطل علی برکۃ الوطلی.کان قد عمر نحو مائۃ سنۃ وثلاثین سنۃ و دخلت علیہ مرۃ انا وسیدی ابوالعباس الحریثی فقال: احدثکم بحدیث تعرفون بہ امری من حین کنت شابا الی وقتی ھذا. فقلنا: نعم . فقال: کنت شابا امرد انسج العباء فی الشام وکنت مسرفا علی نفسی فد خلت جامع بنی امیہ فوجدت شخصا علی الکرسی یتکلم فی امر المھدیؑ و خروجہ، فتشرب حبہ قلبی وصرت ادعو فی سجودی بان اللہ یجمعنی علیہ. فمکثت نحو سنۃ وانا ادعو فبینما انا بعد المغرب فی الجامع اذ دخل علی شخص علیہ عمامۃ کعمایم العجم وجبۃ من و برالجمال فحس بیدہ علی کتفی و قال لی: مالک بالاجتماع لی فقلت لہ: من انت؟ فقال: انا المھدی فقبلت یدہ وقلت امض بنا الی البیت.فاجاب وقال: اخل لی مکانا لا یدخل علی فیہ احد غیرک. فاخلیت لہ، فمکث عندی سبعۃ ایام ولقّتنی الذکر و امرنی بصوم یوم وافطار یوم و بصلوٰۃ خمس مائۃ رکعۃ فی کل لیلۃ وان لا اضع جنبی علی الارض للنوم الاغلبۃ. ثم طلب الخروج و قال لی: یا حسن لا یجمتع باحد بعدی یکفیک ما حصل لک منی فما ثم الا دون ما وصل الیک منی فلا یتحمل منہ احد بلا فائدۃ فقلت:سمعا و طاعۃ. وخرجت اودعہ فاوقفنی عند عتبۃ باب الدار و قال: من ھنا. فاقمت علی ذٰلک سنین عدیدۃ…و سألت المھدی عن عمرہ فقال: یا ولدی عمری الان ستمائۃ سنۃ و عشرون سنة ولی عنہ الان مائۃ سنۃ. فقلت ذلک لسیدی علی الخواص فوافقہ علی عمر المھدی رضی اللہ عنھا»۔
“اور انہیں میں سے شیخ صالح عابد زاہد صاحب کشف صحیح اور صاحب حال عظیم شیخ حسن عراقی ہیں، ان کی عمر تقریباً ایک سو تیس سال کی تھی اور ایک مرتبہ میں اور جناب ابوالعباس حریثی ان کے پاس گئے۔ پس انہوں نے کہا کہ میں تم سے ایسی بات بتاؤں جس سے تم لوگ میری جوانی کے وقت سے اس وقت تک کے میرے حالات کو جان لو۔ ہم لوگوں نے کہاکہ ارشاد فرمائیں۔ انہوں نے کہا کہ میں اس وقت ایک بے ریش و بروت نوجوان تھا اور شام میں عبا بنتا تھا اور اپنے نفس پر بہت اسراف کرتا تھا( یعنی گناہوں سے پرہیز نہیں کرتا تھا) پس میں ایک روز جامع بنی امیہ میں داخل ہوا تو ایک کرسی نشین آدمی کو امام مہدی(عج) اور ان کے ظہور کے حالات بیان کرتے ہوئے دیکھا۔ پس میرےدل میں امام مہدی(عج) کی محبت پیدا ہوگئی۔ اور میں یہ دعا کرنے لگا کہ خدایا میری ان سے ملاقات کرادے۔ پس میں تقریبا سال بھر تک یوں ہی دعا کرتا تھا۔ ایک روز بعد نماز مغرب جامع مسجد میں تھا کہ ایک بزرگ اہل عجم کی طرح عمامہ باندھے اور اونٹ کے بالوں کا بنا ہوا جُبہ پہننے ہوئے داخل ہوئے اور میرے شانوں کو ہاتھ سے مس کرکے فرمایا:
“تم مجھ سے کیوں ملنا چاہتے ہو”؟
میں نے پوچھا کہ آپ کون ہیں؟ ۔
ارشاد فرمایا: “میں مہدی ہوں” ۔
پس میں نے ان کے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور عرض کی کہ میرے ساتھ میرے مکان پر تشریف لے چلیں، آپ نے قبول فرمایا۔ پس میرے پاس سات دنوں تک رہے اور مجھے اذکار الہی تعلیم کئے اور مجھے حکم دیا کہ میں ایک دن کے وقفے کے ساتھ روزہ رکھاکروں ہر شب میں پانچ سو رکعت نما زپڑھا کروں اور یہ کہ سونے کے لئے اپنا پہلو زمین پر نہ رکھا کروں مگر اسی وقت جب نیند بالکل غالب آجائے۔ پھر جانا چاہا اور ارشاد فرمایاکہ: “اے حسن! اب میرے بعد کسی کے پاس مت جانا اور جو کچھ تم کو مجھ سے حاصل ہوا ہے وہ تمہارے لئے کافی ہے اور دوسروں کے پاس جو کچھ ہے وہ اس سے کم اور پست ہے، لہذا بےفائدہ دوسروں کا احسان مت لینا”۔
میں نے عرض کی کہ: سمعاً وطاعۃ ً اور میں ان کو رخصت کرنے کے لئے گھر سے نکلنا چاہا۔پس مجھے دروازہ کی چوکھٹ پر روک دیا اور ارشاد فرمایا کہ یہیں سے واپس ہوجاؤ۔ پس میں اس طریقہ پر سالہا سال تک قائم رہا ( اس کے بعد اور واقعات ہیں جن کو غیر متعلق ہونے کی وجہ سے تر ک کردیا گیا) ۔
اور میں نے ان سے ( امام مہدی “عج” سے ) ان کی عمر دریافت کی تو انہوں نے فرمایا کہ: “اے فرزند! میری عمر اس وقت چھ سو بیس برس ہے”۔
شیخ حسن عراقی کا بیان ہے کہ اس گفتگو کوسو برس گذر چکے ہیں۔ ( یعنی اس وقت سات سو بیس برس ہے)۔
علامہ عبد الوھاب شعرانی کا بیان ہے کہ : “میں نے اس بات کا تذکرہ جناب علی الخواص سے کیا تو انہوں نے امام مہدی( عج) کی عمر کے متعلق شیخ حسن عراقی کی موافقت کی۔(یہاں لواقح الانوار فی طبقات الاخیار، (معرفت بالطبقات الکبریٰ) کے مطالب بالمعنی نقل کئے گئے ہیں اصل عبارت لواقح الانوار، ج ۲، ص ۱۹۱-۱۹۲ ، طبع مصر ۱۲۷۷ھ، پرملاحظہ ہو)۔
اس واقعہ سے نہ صرف علامہ عبد الوھاب شعرانی بلکہ شیخ حسن عراقی اور علی الخواص تین بزرگوں کے امام عصر( عج) کے وجود کے معتقد ہونے کا ثبوت ملتا ہے جن میں سے ایک بزرگ نے تو ایک ہفتہ تک امام زمانہ( عج) کی میزبانی کی اور ان سے تعلیم پانے کا شرف بھی حاصل کیا۔
اِنہیں علامہ عبد الوھاب شعرانی نے اپنی دوسر ی مشہور تصنیف “الیواقیت والجواھر میں المبحث الخامس والستون” میں علامت قربِ قیامت کا تذکرہ کرتے ہوئے پہلی علامت ظہورِ امام عصر ( عج) کو قرار دیا ہے۔ اس کے بعد دوسری علامتوں کو ذکر کرتے ہوئے یہ لکھا ہے کہ جب دین پر اضمحلال طاری ہونے لگے گا تو:
«فھناک یترقب خروج المھدی و ھو من اولاد الامام حسن العسکری و مولدہ ؑ لیلۃ النصف من شعبان سنۃ خمس وخمسین و مائتین وھو باق الی ان یجتمع بعیسی بن مریم ؑ فیکون الی وقتنا ھذا وھی سنۃ ثمان و خمسین وتسع مائۃ سبع مائۃ سنۃ و ست سنین»۔
“پس اُسی وقت امام مہدی( عج) کے ظہور کا انتظار کرنا چاہئے اور وہ امام حسن عسکریؑ کی اولاد میں سے ہیں اور ان کی پیدائیش ۱۵ شعبان، سنہ ۲۵۵ھ کو ہوئی تھی اور وہ زندہ اور باقی ہیں یہاں تک کہ عیسیؑ ابن مریمؑ کے ساتھ مجتمع ہوں۔ پس ان کی عمر اس وقت کہ یہ سنہ۹۵۸ ھ ہے، سات سو چھ برس ہوچکی ہے” (الیواقیت والجواھر، ج ۲، ص ۱۷۸)۔
( مگر بظاھر “ست” کی لفظ کاتب کی غلطی ہے۔ حساب سے ثلاث ہونا چاہئے یعنی سات سو تین سال، نیز شعرانی کی یہ تصنیف بظاھر سابق کتاب سے سترہ سال قبل کی ہے ، ناظرین متوجہ رہیں)۔
۲) مولانا علی اکبر مودودی
یہ اہل سنت کے جلیل القدر علمائے متاخرین میں سے گذرے ہیں۔انہوں نے “نفحات الانس” پر حاشیہ لکھا ہے جس کا نام “مکاشفات” ہے۔ موصوف نے اس حاشیہ میں علی بن سھل الاصفہانی کے ذکر میں لکھا ہے:
«ولقد قالوا ان عدم الخطاء فی الحکم مخصوص بالانبیاء اٰکد الخصوصیۃ والشیخ رضی اللہ عنہ یخالفھم فی ذلک لحدیث ورد فی شان الامام مھدی الموعود علی جدہ و علیہ الصلوۃ و السلام … ثم قال فی المبحث الخامس والاربعین فذکر الشیخ ابو الحسن الشاذ لی رضی اللہ عنہ ان للقطب خمسۃ عشر علامۃ ان یمدد بمدد العصمۃ والرحمۃ والخلافۃ والنیابۃ ومدد حملۃ العرش و یکشف لہ عن حقیقۃ الذات واحاطۃ الصفات الی اخرہ۔ فبھذا صح مذھب من ذھب الی کون غیر النبی، معصوما … فان الحکم بکون المھدی الموعود رضی اللہ عنہ موجوداً وھو کان قطبا بعد ابیہ الی الامام علی بن ابی طالب کرمنا اللہ بوجوھھم یشیر الی صحۃ حصر تلک الرتبۃ فی وجوداتھم من حین کان القطبیۃ فی وجود جدہ علی بن ابی طالب الی ان تتم فیہ لا قبل ذلک، فکل قطب فرد یکون علی تلک الرتبۃ نیابۃ عنہ لغیبوبتہ عن اعین العوام والخواص لا عن اعین اخص الخواص … فلا بد ان یکون لکل امام من الائمۃ الاثنی عشر عصمۃ . خذ ھذہ الفایدۃ»
“لوگوں نے کہا کہ احکام میں غلطی نہ کرنا انبیاء ہی کےلئے مخصوص ہے مگر شیخ نے لوگوں سے اس امر میں اختلاف کیا ہے بسبب اس حدیث کے جو امام مہدی موعود(علٰی جدہ و علیہ السلام) کی شان میں وارد ہوئی ہے…۔ پھر پینتالیسویں مبحث میں کہا ہے کہ شیخ ابوالحسن شاذلی نےفرمایا ہے کہ قطب کی پندرہ علامتیں ہیں مثلاً: یہ کہ اس کی تائید عصمت، رحمت، خلافت اور نیابت سے کی جاتی ہے اور حاملان عرش اس کے مددگار ہوتے ہیں اور اس پر ذات وصفات باری کی حقیقت منکشف ہوجاتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ پس اس قول کی بنا پر ( کہ قطب میں عصمت ہوتی ہے) ان لوگوں کا مذہب صحیح ثابت ہوتا ہے کہ جو غیر انبیاء کے بھی معصوم ہونے کے قائل ہیں…کیونکہ مہدی موعود(عج) کے موجود ہونے کا حکم کرنا (در آنحالیکہ وہ اپنے والد بزرگوار امام حسن عسکریؑ کے بعد قطب ہیں جس طرح امام حسن عسکری ؑ اپنے والد بزرگوار کے بعد قطب ہیں، یہاں تک کہ یہ سلسلہ حضرت علی ابن ابی طالب ؑ تک پہنچتا ہے) اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اس رتبہ کا ان حضرات کی ذوات مقدسہ میں منحصر ہونا صحیح ہے (حضرت علیؑ کے قطب ہونے کے بعد سے مہدی موعود( عج) تک، نہ کہ حضرت علی ؑ کے پہلے سے) پس آج کل جو بھی قطب ہوگا وہ اس رتبہ پر مہدی موعود(عج) کی نیابت میں فائز ہوگا چونکہ امام مہدی(عج) عوام اور خواص کی نگاہوں سے غائب ہیں گواخص خواص کی نگاہوں سے پوشیدہ نہیں ہیں…۔ پس ضروری ہوا کہ ان ائمہ اثنا عشری ؑمیں ہر امام معصوم ہو۔ اس فائدہ کو سمجھ لو”۔
اس اقتباس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مولانا علی اکبر موصوف، حضرت امام حسن عسکری ؑ کے بعدحضرت امام مہدی(عج) کو قطب زمانہ سمجھتے تھے اور ان کے معصوم ہونے کا عقیدہ رکھتے تھے اور اس کے بھی قائل تھے کہ وہ عوام وخواص کی نگاہوں سے مخفی ہیں البتہ جو اخص خواص ہیں وہی ان سے مل سکتے ہیں ۔
۳) ملا جامی:
یہ وہ مشہور عالم اہل سنت ہیں جن کے تعارف کی کوشش آفتاب کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے، ا ن کو ظاھری وباطنی علوم کا جامع سمجھا جاتا ہے ۔ آپ نے اپنی مشہور تصنیف “شواھد النبوۃ” میں امام مہدی آخرالزمان (عج) کو بارہواں امام لکھا ہے اور آپ کے حالات میں ایک مستقل باب لکھا ہے؛ جس میں ولادت باسعادت کے قبل سے، معجزات و کرامات کے تمام واقعات کو لکھتے ہوئے آپ کے حمل کا پوشیدہ رہنا اور ولادت کے بعد سجدہ میں مشغول ہوجانااور «بسم اللہ الرحمن الرحیم، وَنُريدُ أَن نَمُنَّ عَلَى الَّذينَ استُضعِفوا فِي الأَرضِ وَنَجعَلَهُم أَئِمَّةً وَنَجعَلَهُمُ الوارِثينَ» کی تلاوت فرمانا اور آپ کا مختون اور ناف بریدہ پیدا ہونا اور داہنے بازو پر «جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا» مکتوب ہونا اور چھینک آتے ہی «الحمد للہ رب العالمین»کہنا، یہ تمام واقعات بالتفصیل لکھے ہیں اس کے بعد لکھا کہ:
«گفتہ است بر ابو محمد زکی رضی اللہ عنہ در آمدم و گفتم کہ : یا بن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، خلیفہ وامام بعد از تو که خواھد بود؟ بخانہ در آمد پس بیرون آمد، وکودکی بر دوش گرفتہ کہ گویا ماہ شب چھاردہ بود در سن سہ سالگی. پس فرمود: اے فلاں! اگر نہ تو پیش خدائے تعالی گرامی بودی این فرزند خود را بتو ننمود مے، نام این نام رسولؐ است وکنیت این کنیت وی؛ «ھو الذی یَمْلَأُ اللهُ به الْأَرْضَ قِسْطاً کَمَا مُلِئَتْ ظُلْماً»۔
“راوی کہتا ہے کہ میں امام حسن عسکری ؑ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ : یا بن رسول اللہؑ! آپ کے بعد امام اور خلیفہ کون ہوگا؟ آپ اندر تشریف لے گئے اور ایک بچہ کو دوش پر لئے ہوئے باہر آئے، وہ فرزند ماہ کامل کی طرح حسین اور نورانی تھا اور اس کا سن تین برس کے قریب تھا۔ پس فرمایا کہ اے فلاں! اگرتو خدائے تعالیٰ کے نزدیک بلند مرتبہ نہ ہوتا تو میں اس فرزند کو تجھے کبھی نہ دکھاتا۔ اس کا نام رسولؐ کا نام ہے اور اس کی کنیت رسولؐ کی کنیت ہے ؛ یہی ہے وہ جو دنیا کو انصاف سے بھر دے گا جس طرح وہ ظلم وجور سے بھر چکی ہوگی”۔
اسی طرح ایک دوسرے راوی کا ذکر ہے جب امام حسن عسکری ؑ نے اپنے اس فرزند کو یہ کہکر دکھایا کہ: «این است صاحب شما» اسی کے بعد امام آخرالزمانؑ ، امام حسن عسکری ؑ کے زانوئے اقدس سے اترے اور «ابومحمد رضی اللہ عنہ وی را گفت یا بنی ادخل الی القوت المعلوم بآن خانہ در آمد و من بوی نظر می کردم پس ابو محمد رضی اللہ عنہ مرا گفت بر خیز و بیبین کہ در این خانہ کیست بخانہ در آمدم ھیچ کس ر اندیدم»۔
امام حسن عسکری ؑ نے ان سے کہا کہ: “اے فرزند! وقت معلوم تک کے لئے پوشیدہ ہوجاؤ، چنانچہ وہ گھر کے اندر گئے اور میں ان کو دیکھ رہا تھا پس امام حسن عسکریؑ نے مجھ سے کہا کہ اٹھ کر دیکھ لو کہ اس گھر میں کون ہے؟ چنانچہ میں گھر میں داخل ہوا تو وہاں کسی کو نہیں پایا”۔ (شواھد النبوۃ، ص ۲۵۹-۲۶۰)۔
کیا اس سے زیادہ تشریح امام عصر(عج)کے غائب ہونے کےعقیدہ کی ہوسکتی ہے؟!
4) خواجہ محمد پارسا:
جن کے شرف ملاقات کو سادات ومشائخ و علماء اپنے لئے مغتنم اور وجہ سعادت سمجھتے تھے(جیسا کہ نفحات الانس) میں مرقوم ہے؛ اپنی کتاب فصل الخطاب میں لکھتے ہیں:
«ولما زعم عبد اللہ جعفر بن ابی الحسن علی الھادی انہ لا ولد لاخیہ ابی محمد الحسن العسکری رضی اللہ عنہ وادعی ان اخاہ الحسن العسکری رضی اللہ عنہ جعل الامامۃ فیہ، سمی الکذاب و ھو معروف ذلک… و ابومحمد الحسن العسکری ولدہ محمد رضی اللہ عنھما معلوم عند خاصۃ اصحابہ وثقات اھلہ»
“اور جب امام علی نقی ؑ کے بیٹے ابو عبد اللہ جعفر نے یہ گمان کیا کہ ان کے بھائی امام حسن عسکری ؑ کے کوئی فرزند نہیں ہے اور اس بات کا دعویٰ کیا کہ ان کے بھائی امام حسن عسکریؑ نے انہیں کو امامت سپرد کردی ہے تو کذاب کے نام سے مشہور ہوگئے… اور امام حسن عسکری ؑ کے فرزند محمد ؑ ہیں اور خاص و معتمد اصحاب کو یہ بات معلوم تھی “۔
اس کے بعد پندرہویں شعبان، سنہ ۲۵۵ھ کی شب میں جناب حکیمہ خاتون کا امام حسن عسکریؑ کے گھر آنا اور امام کا ان کو روک لینا اور قریب صبح امام مہدی(عج) کی ولادت ہونا بیان کیا ہے ۔
اس کے بعد لکھتے ہیں کہ:
«قالت حکیمۃ ثم جئت من بیتی الی ابی محمد الحسن عسکری رضی اللہ عنہ فاذا المولود بین یدیہ فی ثیاب صفر و علیہ من البھا والنور ما اخذ بمجامع قلبی. فقلت: سیدی ھل عندک من علم فی ھذا المولود المبارک؟ فتلقیہ الیّ. فقال: ای عمۃ، ھذا المننظر، ھذاالذی بشرنا بہ. فقالت حکیمۃ: فخررت اللہ تعالیٰ ساجدۃ شکراً علی ذالک. قالت: ثم کنت اتردد الیٰ ابی محمد الحسن العسکری رضی اللہ عنہ. فلا اری المولود فقلت لہ یوما: یا مولای مافعلت بسیدنا ومنتظرنا؟ قال: استودعناہ الذٰی استودعتہ ام موسی ابنھا»۔
“حکیمہ خاتون کا بیان ہے کہ پس امام حسن عسکریؑ کے پاس آئی تو دیکھا کہ مولود ان کے سامنے زرد کپڑوں میں ہے اور اس ک چہرے پر وہ رونق اور نور ہے کہ میرے دل میں اس کی محبت بیٹھ گئی۔ پس میں نے امام حسن عسکری ؑ سے کہا: اے میرے سردار! آپ کو اس مبارک فرزند کے متعلق کچھ علم ہو تو مجھے بھی بتایئے۔ امام نے ارشاد فرمایا کہ: ہاں اے پھوپھی! یہی وہ امام منتظر ہے جس کی ہم لوگوں کو بشارت دی گئی ہے۔ جناب حکیمہ خاتون کہتی ہے کہ پس میں اس کے شکر میں خدا کے سجدے میں جھک گئی۔ پھر میں برابر امام حسن عسکری ؑ کے یہاں جایا کرتی تھی۔ پس ایک روز میں نے اس فرزند کو نہیں دیکھا تو امام حسن عسکری ؑ سے پوچھا کہ اے مولا! آپؑ نے ہمارے سردار او ر منتظر کو کیا کیا؟ امام ؑ نے ارشاد فرمایا کہ: اس کو ہم نے اسی کی حفاظت میں دیدیاہے جس کی حفاظت موسیٰؑ کو ان کی ماں نے دے دیا تھا”۔
اس عبارت سراسر ہدایت سے بھی یہ حقیقت آشکارا ہوگی کہ خواجہ محمد پارسا قدس سرہ بھی امام عصر ؑ کے وجود اور غیبت کے قائل تھے اور یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ جب مصلحت خداوندی مقتضی ہوگی تو بشارت نبوی کے پورا کرنے کے لئے وہ امام پردہ غیبت سے باہر آجائے گا ۔جیسے کہ حضرت موسیؑ پھر اپنی ماں کے پاس پلٹا دیئے گئے تھے ۔
چنانچہ اسی کتاب کے حاشیہ پر خواجہ محمد پارسا ہی نے حضرت امام مہدی آخر الزمان(عج)کے علامات ظہور بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
«والاخبار فی ذالک اکثر من ان تحصی ومناقب المھدی رضی اللہ عنہ صاحب الزمان الغائب عن الاعیان الموجود فی کل زمان کثیرۃ وقد تظاھرت الاخبار علیٰ ظھوره واشراق نورہ یجدد الشریعۃ المحمدیۃ و یجاھد فی اللہ حق جھادہ ویطھر من الادناس اقطار بلادہ ، زمانہ زمان المتقین و اصحابہ خلصوا من الریب وسلموا من العیب واخذوا بھدیۃ وطریقہ و اھتدوا من الحق الی تحقیقہ،بہ ختمت الخلافۃ والامامۃ وھو الامام من لدن مات ابوہ الی یوم القیمۃ»
“اور حدیثیں اس کے بارے میں اتنی زیادہ ہیں کہ ان کا احصاء نہیں کیا جاسکتااور امام مہدی صاحب الزمان رضی اللہ تعالی عنہ ( جو نگاہوں سے پوشیدہ ہیں اور ہر زمانہ میں موجود ہیں) کے مناقب بہت زیادہ ہیں اور ان کے ظہور اور طلوع نور کے متعلق حدیثیں ایک دوسرے کی تائید کرتی ہیں۔وہ شریعت محمدیہ کی تجدید کریں گے اور راہ خدا میں کما حقہ جہاد کریں گے اور خدا کی زمین کو ایک سرے سے دوسرے سرے تک نجاستوں اور برائیوں سے پاک کردیں گے، ان کا زمانہ متقین کا زمانہ ہوگااور ان کے اصحاب شک و شبہ سے مبرّا ہوں گے اور عیوب سے پاک ہوں گے اور ان کی ہدایت اور ان کے راستہ پر چلیں گے اور خدا کی طرف سے ان کو معرفت امام زمانہ(عج) کی ہدایت حاصل ہوگی۔ امام آخر الزمان(عج) ہی پر خلافت اور امامت ختم ہوجائے گی اور جس روز ان کے پدر بزرگوار کا انتقال ہوا، اس دن سے قیامت تک وہی امام ہیں” ۔
5) سبط ابن جوزی
جو اکابر اہلسنت میں سے ہیں اپنی مشہور “تذکرة الخواص من الامة فی ذکر خصائص الائمة” میں صاحب العصر (عج)کے متعلق لکھتے ہیں: «ھو محمد بن الحسن بن علی بن محمد بن علی بن موسیٰ بن جعفر بن محمد بن علی بن علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب علیھم السلام و کنیتہ ابوعبد اللہ وابوالقاسم وھو الخلف الحجۃ صاحب الزمان القائم والمنتظر التالی و ھو آخر الائمۃ… الخ »
” وہ امام حسن عسکری ؑ کے فرزند محمد(عج) ہیں ان کی کنیت ابوعبداللہ اور ابوالقاسم ہے اور وہی خلف حجّت ہیں صاحب الزمان ہیں، قائم ہیں اور منتظر اور باقی ہیں اور وہی امام آخر الزمان ہیں(تذکرۃ الخواص، ص ۳۲۵)۔
کیا اس سے زیادہ تصریح امام عصر(عج)کے باقی رہنے اور موجودہ رہنے کی ہوسکتی ہے؟ ۔
۶) ابو عبد اللہ محمد بن یوسف بن محمد گنجی شافعی
جن کی تصنیف “کفایۃ الطالب” مشہور ہے وہ اپنی دوسری کتاب “البیان” میں جو صرف صاحب العصر ؑ کے حالات میں لکھی گئی ہے۔ حضرت کی امامت، وجود، طول عمر اور آپ ہی کے مہدی موعود(عج) ہونے کی تصریح اور تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
«الباب الخامس العشرون فی الدلالۃ علی کون المھدی(ع) حیا باقیا منذ غیبتہ الی الان: ولا امتناع فی بقائہ بدلیل بقاء عیسی والیاس والخضر من اولیا اللہ تعالیٰ و بقاء الدجال وابلیس اللعین من اعداء اللہ تعالیٰ ھولا قد ثبت بقاء ھم بالکتاب والسنۃ».
“پچیسواں باب امام مہدی(عج) کے غیبت سے آج تک زندہ رہنے کی دلیل پر: ان کا باقی رہنا محال نہیں ہے اس بنا پر کہ آخر اولیاء خدا میں عیسیؑ ابن مریمؑ اور خضر ؑاور الیاسؑ زندہ ہیں اور اعداء خدا میں کا نادجال اور ملعون ابلیس زندہ ہے اور ان سب کے بقاء اور زندگی کا مسئلہ قرآن اور حدیث سے ثابت ہے (تو اگر امام مہدی( عج) کو خدا زندہ رکھتا ہے تو اس میں کیا دشواری ہے؟)”(البیان فی اخبار صاحب الزمان، حافظ گنجی شافعی، ص۱۴۸)۔
۷) شیخ نور الدین بن الصباغ المالکی
مشہور عالم جلیل اہل سنت نے اپنی کتاب “الفصول المھمۃ” میں ایک مستقل فصل صاحب العصر ؑ کے حالات کے لئے قائم کی ہے جس کا عنوان یہ ہے:
«الفصل الثانی عشر: فی ذکر ابی القاسم محمد الحجۃ الخلف الصالح ابن ابی محمد الحسن الخالص، وھو الامام الثانی عشر و تاریخ ولادتہ ودلائل امامتہ و ذکر طرف من اخبارہ وغیبتہ ومدۃ قیام دولتہ وذکر کنیتہ ونسبہ وغیر ذالک»۔ “بارہویں فصل: امام حسن عسکری ؑ کے فرزند ابوالقاسم محمد حجّت خلف صالح کے ذکر میں، اور وہ بارہویں امام ہیں، اور ان کی تاریخ ولادت اور ان کی امامت کے دلائل کے بیان میں اور ان کے حالات اور غیبت اور مدت قیام سلطنت کے بیان میں اور ان کے کنیت ونسب وغیرہ کے بیان میں(الفصول المھمۃ فی معرفتہ الآئمۃ، ابن الصباغ المالکی، ج ۲، ص ۱۰۹۵)۔
اس فصل کے چند فقرات جستہ جستہ اقتباس کرکے نقل کرتا ہوں:
«ولد ابوالقاسم محمد الحجۃ بن الحسن الخالص بسر من رای لیلۃ النصف من شعبان سنۃ و خمسین و مائتین للھجرۃ… و ھذا طرف یسیر مما جائت فی النصوص علیہ الدالۃ علی الامام الثانی عشر عن الائمۃ الثقات والروایات فی ذالک کثیرۃ و الاخبار اضربنا عن ذکرھا و قد دونھا اصحاب الحدیث فی کتبھم واعتنوا بجمعھا … قال بعض اھل الاثر: المھدی ھو القائم المنتظر، و قد تعاضدت الاخبار علی ظھورہ و تظاھرت الروایات علی اشراق نورہ وستسفر ظلمۃ الایام واللیالی بسفورہ و تتجلی برویتہ الظلم انجلاء الصباح عن دیجورہ و یخرج من سرار الغیبۃ فیملاء القلوب بسرورہ ».
امام حسن عسکری ؑ کے فرزند ابوالقاسم محمد حجّت(عج) سرمن رائے (سامرہ) میں پندرہویں شعبان کی شب میں ۲۵۵ھ میں پیدا ہوئے(الفصول المھمۃ فی معرفتہ الآئمۃ، ابن الصباغ المالکی، ج۲، ص ۱۱۰۲)۔ اور یہ تھوڑا سا بیان ہے کہ ان نصوص میں سے جو بارہویں امام(عج) پر دلالت کرتی ہیں اور ائمہ ثقات سے مروی ہیں اور روایات اس کے متعلق بہت زیادہ ہیں اور حدیثیں بہت مشہور ہیں ہم نے بخیال اختصار ان سب کا ذکر چھوڑ دیا ہے اور محدثین نے ان احادیث کو اپنی کتابوں میں مدون کرکے لکھا ہے اور ان کو جمع کرنے کی طرف بہت توجہ کی ہے (الفصول المھمۃ فی معرفتہ الآئمۃ، ابن الصباغ المالکی، ج۲، ص ۱۱۰۷)۔
بعض علمائے حدیث نے کہا ہے کہ مہدی وہی قائم منتظر(عج) ہیں اور ان کے ظہور کے بارے میں روایات ایک دوسرے کی مؤید ہیں اور ان کے نور کی درخشندگی کے متعلق حدیثیں باہم موافق ہیں اورعنقریب شب و روز کی ظلمت ان کے ظہور سے دور ہوجائے گی اور ان کے دیدار سے تاریکیاں اس طرح روشن ہوجائیں گی جیسے رات صبح کے آنے سے روشن ہوجاتی ہےاور وہ عنقریب غیبت کے حجابوں سے نکلیں گے پس دلوں کو اپنی مسرتوں سے لبریزکر دیں گے (الفصول المھمۃ فی معرفتہ الآئمۃ، ابن الصباغ المالکی، ج۲، ص ۱۱۳۵)۔
۸) شاہ ولی اللہ دہلوی
جن کو اہل سنت “خاتم العارفین، سید المحدثین، سندالمتکلمین، حجۃ اللہ علی العالمین” کہتے ہیں، وہ اپنی تصنیف “فضل مبین” میں دانستہ یا نادانستہ بہر طور امام عصر (عج)کے وجود اور امامت کے قائل ہوگئے ہیں؛ چنانچہ ایک حدیث نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
«قلت شافھنی ابن عقلۃ باجارۃ جمیع ما یجوز لہ روایتہ و وجدت فی مسلسلاتہ حدیثا مسلسلا بانفرادہ کل راو من رواتہ بصفۃ عظیمۃ تفردبھا. قال رحمہ اللہ اخبرنی فرید عصرہ الشیخ حسن بن علی العجیمی انا حافظ عصرہ جمال الدین البابلی انا مسند وقتہ محمد الحجازی الواعظ انا صوفی زمانہ الشیخ عبد الوھاب الشعراوی انا مجھتد عصرہ ابونعیم رضوان العقبی انا مقری زمانہ الشمس محمد بن الجزری انا الامام جمال الدین محمد بن محمد الجمال زاھد عصرہ انا الامام محمد بن مسعود محدث بلاد فارس فی زمانہ انا شیخنا اسماعیل بن مظفر الشیرازی عالم وقتہ انا عبد السلام بن ابی الربیع الحنفی محدث زمانہ انا ابوبکر عبد اللہ محمد بن شابور القلانسی شیخ عصرہ انا عبدالعزیز ثنا محمد الادمی امام اوانہ انا سلیمان بن ابراھیم بن محمد سلیمان نادرۃ دھرۃ ثنا احمد بن محمد بن ھاشم البلاذری حافظ زمانہ ثنا محمد بن الحسن بن علی المحجوب امام عصرہ ثنا الحسن بن علی عن ابیہ عن جدہ و عن ابی جدہ بن موسی الرضا ثنا موسی الکاظم قال ثنا ابی جعفر الصادق ثنا ابی محمد الباقر بن علی ثنا ابی علی ابن الحسین زین العابدین السجاد ثنا ابی الحسین سید الشھداء ثنا ابی علی بن ابی طالب سید الاولیاء قال اخبرنا سید الانبیاء محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم، قال اخبرنی جبرئیل سید الملائکۃ قال: قال اللہ تعالی سید السادات: انی انا اللہ لا الہ الا انا، من اقر لی بالتوحید دخل حصنی و من دخلہ حصنی امن من عذابی»
“میں کہتا ہوں کہ ابن عقلہ نے مجھ کو بالمشافہ ان تمام چیزوں کا اجازہ دیا ہے جن کی روایت ان کے لئے جائز تھی اور میں نے ان کے مسلسلات میں ایک مسلسل حدیث دیکھی جس کا ہر راوی ایک صفت عظیمہ میں منفرد اور متفرد ہے اور وہ یہ ہے کہ ابن عقلہ نے کہا کہ مجھ کو فرید زمانہ شیخ حسن بن علی عجیمی نے خبر دی اور ان کو حافظ عصر جمال الدین باہلی نے اور ن کو مستند وقت محمد حجازی واعظ نے اور ان کو صوفی دوراں شیخ عبدالوہاب شعراوی نے اور ان کو مجتھد عصرجلال سیوطی نے اور ان کو زاہد عصرامام جمال الدین بن محمد بن محمد جمال نے اور ان کو امام محمد بن مسعود نے جو اپنے وقت میں بلا دفارس کے محدث تھے اور ان کو عالم دہر شیخ اسمٰعیل بن مظفر شیرازی نے، اور ان کو محدث دوراں عبدالسلام بن ابو الربیع حنفی نے اور ان کو شیخ وقت ابوبکر عبد اللہ بن محمد شابور قلانسی نے اور ان کو امام وقت عبدالعزیز بن محمد ادمی نے اور ان کو نادرۂ عصر سلیمان بن ابراہیم بن محمد بن سلیمان نے خبردی ہے کہ ان سے احمد بن ہاشم بلاذری نے بیان کیا جو اپنے وقت کے حافظ تھے کہ ہم سے امام عصر محمدؑ بن الحسنؑ بن علیؑ نے ( جو پوشیدہ ہیں ) بیان کیا کہ مجھ سے میرے پدربزرگوار امام حسن عسکریؑ نے اور ان سے ان کے پدربزرگوارؑ نے اور ان سے ان کے پدر بزگوار ؑنے اور ان سے امام محمدتقی ؑ نے اور ان سے امام علیؑ بن موسی الرضا ؑاور ان سے امام کاظمؑ نے اور ان سے امام جعفر صادق ؑ نے اور ان سے امام محمد باقر ؑ نے اور ان سے اما م علیؑ بن حسین زین العابدین سجادؑ نے اور ان سے امام حسین سید الشہداءؑ نے بیان کیا کہ مجھ سے میرے پدربزگوار سید الاولیاء علیؑ بن ابوطالبؑ نے بیان کیا کہ مجھ سے سید الانبیا محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا کہ مجھ کو سید الملائکہ جبرئیل ؑ نے خبر دی کہ سید السادات اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ: “میں اللہ ہوں میرے علاوہ کوئی اللہ نہیں ہے، جو میری توحید کا اقرار کرے وہ میرے قلعہ میں داخل ہوگیا اور جو میرے قلعہ میں داخل ہوگیا وہ میرے عذاب سے بے خوف ہوگیا”۔ (الفضل المبین من حدیث النبی الامین، شاہ ولی اللہ دہلوی؛ یہ کتاب النوادر اور الدر الثمین کے ساتھ “الرسائل الثلاث” میں شایع ہوئی ہے(دیوبند: دار الکتب، سنہ ۱۴۱۸ ھ، ص ۹۶۔ شاہ صاحب نے اس روایت کو النوادر میں بھی بیان کیاہے، ملاحظہ ہو: النوادر، ص ۲۰۸)۔
اس روایت کے سلسلے میں تو یہ بتادیا کہ نہ صرف شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی بلکہ ان کے علاوہ بھی سولہ علماء اہل سنت کہ ان میں سے ہر ایک ایسی صفت عظیمہ کا مالک تھا جس میں وہ منفرد تھا، امام مہدی آخرالزمان(عج) کے نام ونسب اور ان کی غیبت اور ان کے امام عصر ہونے کے قائل تھے ورنہ ایسی روایت نہ کرتے جس کا ایک راوی ایسا ہو کہ جس کی ولادت یا زندگی ان کے نزدیک مشتبہ ہو۔
۹) شیخ عبد الحق دہلوی
جن کی شخصیت کی جلالت دنیائے تسنن میں مسلم الثبوت ہے وه اپنے رسالہ “مناقب و احوال ائمہ اطہار” میں ارشاد فرماتے ہیں:
«وابو محمد حسن عسکری ولد محمد رضی الله عنهما معلوم است نزد خواص اصحاب وثقافت اھلش وروایت کرده اند که حکیمه بنت ابی جعفر محمد جواد رضی الله عنه که عمه ابومحمد حسن عسکریؑ باشد دوست می داشت ودعا می کرد و تضرع می نمود که او را پسری به وجود به بیند وابو محمد حسن عسکری رضی الله جار یه را برگزیده بود که نرجسؔ می گفت. چوں شب نصف شعبان سنه خمس و خمسین مائتین شد، حکیمه نزد ابومحمد عسکری آمد او را دعا کرد، حسن عسکری ؑ التماس نمود که یا عمه یک امشب نزد ما باش که کاری در پیش است۔ حکیمه به التماس حسن عسکریؑ شب در خانه ایشان به استاد، چون وقت فجر رسید نرجس بدرد زه مضطرب شد، حکیمه نزد نرجس آمد مولودے دید بوجود آمدہ مختون مفروغ منه یعنی ختنہ کرده شد۔ فارغ از ختنه-وکار شست وشو که مولود را کنند نزد حسن عسکری ؑآورد به گرفت و دست بر پشتش و چشمھانش فرود آورد و زبان خود را در دھنش در آورد و در گوش راست او اذان و در گوش چپ او اقامت گفت وگفت یا عمه ببر او را پیش مادرش۔ پس حکیمه او را به مادرش سپرد۔ وحکیمه می گوید که بعد از آن پیش ابو محمد حسن عسکری رضی الله عنه آمدم مولود را پیش وی دیدم در جامهای زرد او را نورے وعظمتی دیدیم که دل من تمام گرفتار او شد.
گفتم سیدی هیچ علمی داری بحال این مولود مبارک کہ آن علم را به من القا کنی؟ گفت یا عمه این مولود منتظر ما است که ما را بدان بشارت دادہ بودند۔ حکیمه گفت پس من بر زمین افتادم و بشکر انه آن بسجده رفتم.
دیگر نزد ابومحمد حسن عسکری ؑ آمد ورفت می کردم روزی نزد و ے آمدم مولود او را ندیدم، پرسیدم: اے مولا من آن سید منتظر ما چه شد؟ فرمود او را سپردیم به آن کس که مادر موسی علیه السلام پسر خود و بوی سپرده بود۔ و روایت کرده شده است از ابو ا لحسن رضاؑکه از وی پرسیدند که چه چیز است نام قائم شما، فرمود: ما را حکم کرده اندکه پیش از ولادت وی را نام نبریم».
“اور ابو محمد حسن عسکری ؑکے فرزند محمد(عج) ان کے خواص اصحاب اور معتبر گھر والوں کو معلوم ہیں اور روایت ہے کہ حکیمہ خاتون بنت امام محمد تقی ؑ جو امام حسن عسکری ؑ کی پھوپھی تھیں وہ یہ چاہتی تھیں اور دعا اورتضرع زاری کرتی تھیں کہ امام حسن عسکری ؑ کو ایک فرزند ہوجائے اور وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں، اور امام حسن عسکریؑنے نرجس خاتون نام کی ایک کنیز کواپنے لئے منتخب فرما لیا تھا۔ جب پندرہویں شعبان ۲۵۵ھ کی شب آئی تو حکیمہ خاتون امام حسن عسکری ؑ کے پاس آئیں اور ان کو دعا دی۔ امام حسن عسکری ؑ نے التماس کی کہ اے پھوپھی! آج کی شب ہمارے یہاں رہ جایئے کہ ایک کام در پیش ہے، جناب حکمیہ امام کے ارشاد کے مطابق شب کو امام کے گھر رہیں۔ جب صبح قریب ہوئی تو نرجس خاتون پراضطراب طاری ہوا جناب حکمیہ نرجس خاتون کے پاس آئیں دیکھا کہ ایک مولود مسعود پیدا ہوا ہےجو ختنہ شدہ ہے اور جس کے غسل وغیرہ سے فراغت ہوچکی ہے اس بچہ کو امام حسن عسکری ؑ کے پاس لائیں۔ آپؑ نے بچہ کولیا اور اسکی پشت اور آنکھوں پر دست شفقت پھیرا اور اپنی زبان بچہ کے منھ میں دے دی اور داہنے کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی اور اس کے بعد کہا اے پھوپھی! اب ان کو ان کی ماں کے پاس لے جایئے۔ پس جناب حکیمہ نے بچہ کو ماں کے حوالہ کیا۔ جناب حکمیہ خاتون کا بیان ہے کہ اس کے بعد امام حسن عسکری ؑ کے پاس آئی تو بچہ کو ان کے پاس دیکھا کہ زرد کپڑوں میں ملبوس ہے اور اس پر وہ نور عظمت طاری ہے کہ میرا دل اس کی محبت سے بھر گیا اور میں نے کہا کہ اے میرے سردار! کیا آپؑ کو اس مولود مسعود کے حالات سے متعلق کوئی علم ہے جو آپ مجھے بتائیں؟ امام حسن عسکری ؑ نے ارشاد فرمایا کہ اے پھوپھی! یہ مولود ہمارا “منتظر” ہے جس کی بشارت ہم کو دی گئی تھی۔ حکیمہ خاتون نے کہا کہ پس میں زمین پر جھک گئی اور اس کے شکرانہ میں سجدہ الہی کیا۔ پھر میں ہمیشہ امام حسن عسکریؑ کے یہاں آتی جاتی تھی۔ ایک روز میں ان کے پاس آئی اور بچہ کو وہاں نہ دیکھا، میں نے پوچھا کہ: اے مولا! وہ ہمارا سید “منتظر” کیا ہوا؟ فرمایا کہ اس کو ہم نے اس کے سپرد کردیا ہے جسے مادر موسیٰ ؑ نے موسیٰؑ کو سپرد کردیا تھا”۔
اور حضرت امام رضا ؑ سے مروی ہے کہ ان سے پوچھا گیا کہ آپ کے “قائم” کا کیا نام ہوگا؟ فرمایا کہ ہم کو حکم دیا گیا ہے کہ اس کی ولادت سے پہلے اس کا نام نہ لیں ۔
اس سے زیادہ اعتراف وجود حضرت حجۃ (عج) کا کیا ہوسکتا ہے: مالھم لا یفقھون۔
۱۰) محدث جمال الدین
جو علم حدیث کے ارکان میں گنے جاتے ہیں اور جن کی کتابیں بڑی عظمت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں، اپنی مشہور تصنیف «روضۃ الاحباب» میں اپنی عقیدت کا اظہار یوں کرتے ہیں:
« کلام در بیان امام دوازدھم موتمن محمد بن الحسن تولد ھما یوں آں در درج ولایات وجوھر معدن ھدایت بقول اھل روایت در منتصف شعبان سنۃ خمس وخمسین ومائتین در سامرہ اتفاق افتاد و قیل فی الثالث والعشرین من شھر رمضان سنۃ ثمان خمسین و مائتین ، ومادر آں عالی گوھر ام ولد بودہ ومسماة بصیقل یا سوسن وقیل نرجس وقیل حکیمۃ وآن امام ذوی الاحترام در کنیت و نام با حضرت خیر الانام علیہ وآلہ تحف الصلوۃ والسلام موافقت وارد مھدی منتظر و الخلف الصالح وصاحب الزمان دار القاب او منتظم است۔ در وقت پدر بزرگوار خود بر روایت اولی کہ بصحت اقرب است پنج سالہ بود، بقول ثانی دو سالہ، حضرت واھب العطایا آن شگوفہ گلزار را مانند یحییٰ وزکریا سلام اللہ علیھما در حالت طفولیت حکمت کرامت فرمود ودر وقت صبا بمرتبہ بلند امام رسانید وصاحب الزمان یعنی مھدی دوران در زماں معتمد خلیفہ فی سنۃ خمس و ستین یا سنه ست وستین ومائتین علی اختلاف القولین در سر من رائے از نظر فرق برایا غائب شد».
کلام بیان میں بارہویں امام موتمن، محمد بن حسن کے: اس گوہر درج ولایت اور جوہر معدن ہدایت کی ولادت اکثر اہل روایت کے قول کے مطابق ولایت اور جوہرمعدن ہدایت کی ولادت اکثر اہل روایت کے قول کے مطابق ۱۵ شعبان سنہ ۲۵۵ھ کو سامرہ میں ہوئی اور بعض کا قول ہے کہ ۲۳ رمضان سنہ ۲۵۸ھ کو ولادت ہوئی اور اس عالی گہر کی ماں کنیز تھیں جن کا نام صیقل یا سوسن یا نرجس تھا اور حکیمہ بھی نام رکھا گیا ہے اور وہ امام ذی الاحترام کنیت اور نام میں حضرت رسالت مآبؐ سے مطابقت رکھتے ہیں اور “مہدی منتظر اور خلف صالح اور صاحب الزماں” ان کے القاب ہیں۔ اپنے پدر برزرگوار کی حیات میں پہلی روایت بموجب (جو صحت سے زیادہ قریب ہے) پانچ سال کے تھے ، اور دوسرے قول کی بنا پر دو سال کے اور حضرت رب العزت نے اس غنچہ گلزار نبوت کو یحییٰؑ اور زکریاؑکی طرح طفلی کے زمانہ میں حکمت عطا فرمائی اور کم سنی کے زمانہ میں امامت کے بلند مرتبہ تک پہنچایا اور صاحب الزمان یعنی مہدی دوراں، معتمد خلیفہ کے زمانہ میں سنہ۲۶۵ھ یا ۲۶۶ ھ میں ( بہ اختلاف روایات ) سامرہ کے سرداب میں لوگوں کی نگاہوں سے غائب ہوگئے۔
اس کے علاوہ اشتیاق ظہور کے اظہار کے لئے محدث موصوف نے بہت طویل عبارتیں بھی لکھیں ہیں جن کے آخر میں کچھ اشعار بھی تمنائے ظہور کے سلسلہ مین درج کئے ہیں؛ جن سے کمال عقیدت کا اندازہ ہوسکتا ہےطول کے خیال سے ان چیزوں کو ترک کرتا ہوں ۔
۱۱) علامہ محمد دین محمد بن علی ابن عربی
اب میں اس عالم اہل سنت کی گواہی پیش کر رہا ہوں جسے صوفی مشائخ طریقت اپنا پیر و مرشد و شیخ اکبر کہتے ہیں۔ چنانچہ علامہ موصوف نے اپنی مشہور زمانہ تصنیف “الفتوحات المکیہ”کے تین سو چھیاسٹھویں ( ۳۶۷) باب میں تمام و کمال امام زمانہ (عج) کا تذکرہ کیا ہے اور اس کے لئے کئی اوراق صرف کئے ہیں ۔میں ان مضامین سے قطع نظر کرتے ہوئے جن میں امام زمانہ ( عج) کے ظہور کے حالات، ان کے عہدمعدلت مہد کی برکتیں اور ان کی فتوحات کا تذکرہ ہے یا جن میں امام عصر ( عج)کے ذاتی فضائل و مناقب یا ان کا الہام اور وحی الہام سے موئد ہونا اور دین کی نشاۃثانیہ کرنا اور عصمت و غیر کا بیان ہے ۔صرف ان کے نام و نسب، ولادت اور غیبت سے متعلق چند فقرات نقل کرتا ہوں کیونکہ اصل موضوع سخن یہی ہے:
« واعلموا انہ لا بد من خروج المھدی لکن لا یخرج حتی تمتلی الارض جورا وظلما فیملا ھا قسطا وعدلا ولو لم یبق من الدنیا الا یوم واحد طول اللہ تعالی ذالک الیوم حتی یلی ھذا الخلفیۃ وھو من عترۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم من ولد فاطمہ رضی اللہ عنھا، جدہ الحسین بن علی بن ابی طالب و والدہ حسن العسکری ابن الامام علی النقی بالنون … یواطی اسمہ اسم رسول اللہ واعلموا ان المھدی اذا خرج یفرح جمیع المسلمین خاصتھم و عامتھم … وقد جائکم زمانہ و اظلکم اوانہ و قد ظھر فی القرن الرابع اللحق بالقرن الثلۃ الماضیۃ قرن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وھو قرن الصحابۃ یلیہ ثم الذی یلی الثانی ثم جاء بینھا فترات وحدثت امور وانتشرت اھواء وسفکت داماء فاختفی الی ان یجئی الوقت المعلوم».
اور یہ جان لو کہ مہدی(عج) کا خروج ضروری ہے لیکن وہ اس وقت تک ظاہر نہ ہوں گے جب تک دنیا ظلم و جور سے لبریز نہ ہوجائے۔ بس ظاہر ہوں گے اور زمین کو عدل سے بھر دیں گے۔اور اگر دنیا کی عمر میں سے ایک دن بھی باقی رہ جائے گا تو خدا اس دن کو طویل کر دے گا یہاں تک کہ یہ خلیفہ حاکم ہو اور وہ رسول اللہؐ کی عترت سے اور فاطمہؑ کی اولاد سے ہیں ۔ آپ کے دادا امام حسین ؑ علی بن ابی طالب ؑ ہیں اور ان کے پدر بزرگوار امام حسن عسکری ؑ ابن امام علی نقی ؑ ہیں (اس کے بعد پورا سلسلہ نسب امیرالمومنینؑ تک پہنچایا ہے)… ان کا نام رسول اللہ ؐکے نام سے موافق ہے… اور یہ جان لو کہ امام مہدی(عج) جب ظاہر ہوجائیں گے۔ اور اب ان کا زمانہ آگیا ہے اور ان کا دور تم پر سایہ فگن ہے … اور وہ قرن رابع میں ظاہر ہوئے تھے جو پہلے تین قرنوں کے بعد تھا (یعنی رسول اللہؐ کا دور جو صحابہ کا دور تھا، اس کے بعد دوسرا دور تابعین کا دور اور تیسرا دور تبع تابعین کا) ان تینوں زمانوں کے بعد کچھ فترہ ( زمانہ کا فاصلہ) رہا اور نئے نئےامور حادث ہوئے اور نئے نئے خیالات اور نفسانی خواہشیں پھیل گئیں اور خوں ریزیاں ہوئیں پس وہ پوشیدہ ہوگئے اس وقت تک کے لئے جب تک کہ ظہور کا وقت ِمعلوم نہ آجائے۔
(واضح رہے کہ علامہ رضوی (رح) نے یہاں بیان فرمایا کہ: ہمارے اکثر علماء کو محمد بن علی عربی اور محمد بن عبد اللہ ابن العربی کے درمیان اشتباہ واقع ہوا ہے ابن العربی (الف کے ساتھ، متوفی ۵۴۳ ھ) العواصم من القواصم کے مصنف ہیں اور اسی نے لکھا ہے کہ حسین ؑ اپنے نانا کی تلوار سے قتل ہوئے کیونکہ یزید کی بیعت پہلے ہوچکی تھی لہذا امام حسینؑ نے نعوذ باللہ بغاوت کی(ملاحظہ ہو: العواصم، ج ۲، ص ص ۳۳۸-۳۳۳ (المطبعۃ الجزائریۃ ۱۹۲۷، ۱۳۴۶ھ)، جبکہ ابن عربی، الف لام بغیر(متوفی ۶۳۸ھ) الفتوحات المکیۃ کے مصنف ہیں اور اشتراک اسمی کی بناء پر اکثر علماء، ابن العربی کی یزید نوازی کو ابن عربی سے منسوب کردیتے ہیں)۔
۱۲) کمال الدین ابن طلحہ شافعی
یہ عالم جلیل اہل سنت کے اساطین علماء میں گزرے ہیں۔ فقہ، حدیث اور اصول ہر فن میں ان کا قول مستند سمجھا جاتا ہے، ان کی تصنیف مطالب السؤل فی منا قب آل الرسول بہت شہرت رکھتی ہے اس میں بارہویں باب کو علامہ موصوف نے امام عصر(عج) کے حالات کے لئے مخصوص کر دیا ہے اور بہت شرح و بسط سے تمام حالات بیان کر کے مخالفین کے تمام اعتراضات کو اس طرح ردّ کیا ہے کہ اگر “مدیر رضوان” اسےسمجھنے کی صلاحیت رکھتے تو میں انھیں یہ مشورہ دیتاکہ اس باب کو پڑھ جائیے۔ مگر مشکل یہ ہے کہ وہ کتاب عربی میں ہے میں اس کتاب سے چند فقرات جن میں حضرت حجّت(عج) کے نام و نسب اور ولادت و غیبت وغیرہ کا ذکر ہے، بقدر ضرورت نقل کر دیتا ہوں۔
شیخ کمال الدین مطالب السؤل میں اعتدال کرتے ہیں:
«الباب الثانی عشر فی ابی القاسم محمد الحجۃ ابن الحسن الخالص بن علی المتوکل بن محمد القانع بن علی الرضا علیھم السلام… فاما مولدہ بسر من رای فی ثالث وعشرین من شھر رمضان سنۃ ثمان وخمسین ومائتین للھجرۃ واما نسبہ ابا واما: فابوہ ابو محمد الحسن الخالص بن علی المتوکل بن محمد القانع بن علی الرضا بن موسی الکاظم بن جعفر الصادق بن محمد الباقر بن علی زین العابدین بن حسین الزکی بن علی المرتضی امیرالمومنین وقد تقدم ذکر ذلک مفصلا وامہ ام ولد تسمی صیقل و قیل حکیمة و قیل غیر ذالک. و اما اسمه فمحمد وکنیتہ : ابوالقاسم و لقبه الحجة والخلف الصالح وقیل المنتظر»
“بارہواں باب: ابو القاسم محمدؑ بن علیؑ بن حسن خالص( عسکریؑ) بن علی متوکلؑ بن محمد (تقیؑ) قانع بن علی الرضاؑ کے ذکر میں … پس ان کی ولادت سامرہ 23 رمضان 258 ھ کو ہوئی۔ اور ان کا نسب باپ اور ماں کی طرف سے تو ان کے پدر بزرگوار امام حسن عسکری ؑ (پورا سلسلہ نسب امیرالمومنینؑ تک لکھا ہے) اور اس کا مفصل ذکر گزر چکا ہے، اور ان کی مادر گرامی کنیز ہیں ؛ جن کا نام صیقل تھا یا حکیمہ بھی کہا جاتا ہے اور کچھ اور نام بھی بتائے جاتے ہیں۔ لیکن ان کا نام پس “محمد” ہے اور ان کی کنیت “ابو القاسم” ہیں اور ان کا لقب “حجّت” اور “خلف صالح” اور “منتظر” بھی کا لقب کہا جاتا ہے ۔
اس کے بعد ان احادیث نبویہؐ کا تذکرہ کرنے کے بعد جو شان حضرت حجّت(عج) میں وارد ہوئی ہیں مخالفین کے شبہات کا جواب دیا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ جب وہ تمام صفتیں جو احادیث میں مع نام و نسب کے وارد ہیں، حضرت حجّت میں مجتمع ہیں تو اب یہ مان لینا واجب ہے کہ آپ ہی مہدی موعود (عج)ہیں اور آپ ہی جب حکم خدا ہوگا تو ظاہر ہوں گے اس گفتگو میں کئی اوراق صرف کئے ہیں اور اس کے بعد تحریر فرماتے ہیں کہ:
«واما عمرہ فانہ فی ایام المعتمد علی اللہ خاف فاختفی… و قدرۃ اللہ واسعۃ وحکمہ و الطافہ بعبادہ عظیمۃ عامه و لو وام عظماء العلماء ان یدرکوا حقائق مقدوراتہ وکنہ قدرتہ، لم یجدوا الی ذالک سبیلا ولا نقلب طرف تطلعھم الیہ حسیرا وحدہ کلیلا ولتلا علیھم لسان العجز عن الاحاطۃ بہ وما اوتیتم من العلم الا قلیلا، و لیس ببدع و لا مستغرب تعمیر بعض عباداللہ المخلصین ولا امتداد عمرہ الی حین فقد مد اللہ سبحانہ و تعالیٰ اعمار جمع کثیر من خلقہ من اصفیائہ و اولیائہ و من مطرودیہ واعدائہ، فمن الاصفیاء عیسی ؑ ومنھم الخضرؑ و خلق اخرون منھم الف سنۃ او قاربھا کنوحؑ وغیرہ. و اما من الاعداء المطرودین فابلیس و کذالک الدجال و من غیرھم کعاد الاولی کان فیھم من عمرہ ما یقارب الالف وکذالک لقمان وکل ھذا لبیان اتساع القدرۃ الربانیۃ فی تعمیر بعض خلقہ فای مانع یمنع من امتداد عمر الخلف الصالح الی ان یظھر فیعمل ما حکم اللہ تعالیٰ لہ بہ وحیث وصل الکلام الی ھذا المقام وانتھی جریان القلم بما خطہ من ھذہ الاقسام الوسام فلنختمہ بالحمدللہ رب العالمین، فانما کلمۃ جعلھا اللہ سبحانہ وتعالیٰ اٰخر دعوی اھل جنانہ وخصھا بمن اجتباہ من خلقہ وکساہ ملابس رضوانہ»۔
“اور ان کی عمر، پس وہ معتمد علی اللہ خلیفہ کے زمانہ میں عالم خوف میں تھے پس پوشیدہ ہوگئے … خدا کی قدرت وسیع ہے اور اس کی حکمتیں اور بندوں پر اس کی الطاف عظیم اور عام ہیں اور اگر بڑے بڑے عالم بھی یہ چاہیں کہ اس کے مقدورات کی حقیقتوں اور اس کی اور اس کی قدرت کی کنہ کو جان لیں تواس کی کوئی سبیل نہیں پا سکتے اور ان کی نگاہ تحقیق تھک کر خائب و خاسر پلٹ آئے گی اور زبان عجز سے «وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا »(اسراء، آیت85)؛ (تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے )کی تلاوت کرے گی، اور یہ انوکھی بات نہیں ہے کہ خدا بعض مخلص بندوں کو طویل عمر عطا کرے یا ایک خاص وقت تک ان کی زندگی کی مدت بڑھا دے۔ پس خدا نے تو اپنی مخلوقات ہی میں کی ایک کثیر جماعت کی زندگی کو طولانی کردیا ہے، اولیاء و اصفیاء میں کے بھی اور اعداء مطرودین میں سے بھی، پس اصفیاء میں عیسی ؑ ہیں اور انہیں میں کے خضر ؑ ہیں اور ان کے علاوہ انبیاءؑ میں بہت سے حضرات ہیں جن کی عمریں اتنی طویل ہوئیں کہ ہزار برس سے بڑھ گئیں یا ہزار کے قریب پہنچ گییں مثلا حضرت نوح ؑ وغیرہ، اور اعدا مطرودین میں سے ابلیس اور دجال ہے اور اس کے علاوہ قوم عاد ہے ان میں ہزار ہزار برس کے معمر لوگ موجود تھے اور اسی طرح حضرت لقمان ؑ ہیں اور یہ سب مثالیں اس غرض سے ہیں کہ خدا کی قدرت کی وسعت بیان کی جائے کہ وہ چاہے تو اپنی مخلوقات کو طولانی عمر کر سکتا ہے پس حضرت صالحؑ کی عمر اس وقت تک طویل ہونے میں کونسی شئی مانع ہو سکتی ہے، جب تک وہ ظاہر ہوں اور خدا کے احکام کے مطابق عمل کریں اور جب کلام اس جگہ تک پہنچ گیا اور قلم کی روانی یہاں تک آ گئی تو اب الحمدللہ رب العالمین کہہ کر اس کتاب کو ختم کرتے ہیں کیونکہ یہی وہ کلمہ ہے جس کو خدا نے جنت والوں کی آخری دعا قرار دیا گیا ہے اور جس کو اپنی رضا کا خلعت عطا فرمایا ہے “۔
اب جبکہ مطالب السئول کی آخری سطریں نقل کرچکا ہوں تو سوچتا ہوں کہ یہ بھی حسن اتفاق ہے کہ شہادتوں کی تعداد بھی بارہ تک پہنچ چکی ہے اور غالباً بارہویں امام کے وجود و غیبت کے اثبات کی مناسبت سے آگے بڑھنے کو برداشت نہ کرسکے اس لئے اب میں بھی اس گفتگو کو ختم کرتا ہوں۔
واخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین
مدیر رضوانؔ کو میرا مشورہ ہے کہ اگر احادیث رسولؐ ان کے نزدیک کسی اہمیت کی حامل نہ ہوں تو کم از کم اپنے مذہب کے ان علماء کی گواہیوں کو دیکھیں جن میں محدثین عظام، علماء کرام، صوفیاء اعلام سبھی شامل ہیں اور جن میں: (1) علامہ عبدالوہاب شعرانی (2)شیخ حسن عراقی(3) علی الخواص (4)مولانا علی اکبر مودودی(5) ملا جامی (6)خواجہ محمدد پارسا (7) سبط ابن جوزی (8)ابو عبد اللہ بن یوسف شافعی(9) شیخ نور الدین بن الصباغ مالکی(10) شاہ ولی اللہ دہلوی (11) ابن عقلہ (12) محدث شیخ حسن بن علی عجیمی (۱۳)حافظ جمال الدین بابلی (۱۴)محمد حجازی واعظ (۱۵) علامہ جلال الدین سیوطی (۱۶) حافظ ابونعیم عقبی (۱۷) علامہ شمس ابن جزری (۱۸)امام جمال الدین بن محمد بن محمد الجمال (۱۹)امام محدث بن مسعود (۲۰) شیخ اسمٰعیل بن مظفر شیرازی (۲۱)محدث عبد السلام بن ابی الربیع حنفی (۲۲) شیخ ابو بکر عبداللہ بن محمد (۲۳)امام عبد العزیز (۲۴)نادرہ مصر سلیمان بن ابراہیم (۲۵) علامہ حافظ احمد بن بلاذری (۲۶) شیخ عبدالحق دہلوی (۲۷)محدث جمال الدین (۲۸)علامہ محی الدین عربی (۲۹)علامہ کمال الدین ابن طلحہ شافعی جیسے اساطین مذہب اہل سنت شامل ہیں اور امام عصر(عج) کے وجود اور غیبت کے قائل ہوکر عقائدفاسدہ سے توبہ کرکے جاہلیت کی موت سے بچیں اور اگر آپ کو بھی اپنے بزرگوں کی طرح شک ہی میں زندگی گذارنی ہے اور ان گواہیوں سے آنکھ بند کر لینی تو “وما علینا الالبلاغ”۔ کہہ کر خاموش ہوجاوں گا ۔
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر مرد ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر |
عجیب امر یہ ہے کہ مدیر صاحب شیطان اوردجال پر تو ایمان لے آئے ہوئے ہیں مگر مہدی موعود(عج) پر ایمان لانے سے بھاگتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ:
گر نه بیند بروز شپره چشم چشمه آفتاب را چه گناه |
اب میں اس شعر پر اس گفتگو کو ختم کرتا ہوں:
به پایان آمد این دفتر حکایت هم چنان باقی
بصد دفتر نه شاید گفت حسب اعمال مشتاقی
ج: تین سو تیرہ شیعوں کی تعداد
اب جبکہ یہ ثابت ہوچکا ہے کہ مہدی موعود(عج) یقینا موجود ہیں تو مدیر رضوان جھٹ کہہ اٹھیں گے کہ:
“تب آج کل جو یہ کروڑوں شیعے نطرآرہے ہیں یہ یقیناً مومن نہیں ہیں بلکہ دشمن اہل بیتؑ ہیں کیونکہ ان میں تین سو تیرہ بھی واقعی مومن نہیں ہیں ورنہ امام ضرور ظاہر ہوجاتے”۔
اس سلسلہ میں صرف دو تین مختصر باتیں کہہ دینی کافی ہیں:
اولاً: تو یہ قول امام نہیں ہے بلکہ آپ نے شارح کے خیال کو نقل کر دیا ہے اور یہ ظاہر کرنا چاہا ہے کہ یہ معصوم کا ارشاد ہے۔ ظاہر کہ ہم پر ذمہ داری عائد ہوسکتی ہے تو اسی وقت جب امامؑ یا رسولؐ کا کوئی مستند قول پیش کریں؛ و اذا لیس فلیس ۔
دوسرے: یہ کہ اس قول کا بھی مقصد آپ کی فہم رسا سے بہت بالاتر ثابت ہوا ۔ اس قول کا یہ منشا ء آپ نے کہاں سے سمجھ لیا کہ جب شیعوں کی تعداد بڑھ کر تین سو تیرہ ہوجائے گی تب امام ظاہر ہوں گے…۔ سنیئے میں آپ کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں شاید آپ سمجھ لیں:
الف: یہ مسلم ہے کہ امام عصر (عج)اسی وقت ظاہر ہوں گے جب دنیا ظلم و وجور سے بالکل لبریز ہوجائے گی۔ یہ حقیقت احادیث سے بالکل آفتاب کی طرح واضح ہے۔ نیز آپ کے علماء کے اقوال بھی اس سلسلے میں اوپر گذر چکے ہیں کہ امام(عج) کا ظہور اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک دنیا ظلم وجور سے بالکل لبریز نہ ہوجائے اور گناہوں سے بھر نہ جائے ۔
ب: یہ بھی معلوم ہے کہ شیعیان علیؑ کا گروہ “صراط مستقیم” پر گامزن ہے اور یہ گروہ خدا کو عادلؔ سمجھتا ہے اور عدل الہی کو اصول دین میں داخل سمجھتا ہے اور اسی وجہ سے علم کلام کی اصطلاح میں شیعوں کو (اور معتزلہ کو ) “عدلیہ” کہا جاتا ہے اور اس کے مقابلےمیں اہل سنت کا موجودہ فرقہ “اشاعرہ” ہے جو خدا کے عادل ہونے کا منکر ہے اور آج کل کے تمام اہل سنت اسی عقیدہ پر مستحکم طریقے سے قائم ہیں (یہ سنیوں کے علم کلام کا مسلمہ مسئلہ ہے جوشاید مدیررضوان نے نہ سنا ہو، بہر حال اپنے مذہب کی کتابیں ملاحظہ فرمائیں)۔ ظاہر ہے کہ چونکہ شیعیان علیؑ خدا کو عادل سمجھتے ہیں اور”وَأَنَّ اللَّهَ لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ” ( خدا بندوں پر ہر گز ظلم کرنے والا نہیں ہے؛ حج، 10)۔ پر کامل عقیدہ رکھتے ہیں، اس لئے خود بھی انصاف اور عدل کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں اور گناہوں سے بچتے ہیں اور امام جماعت کے لئے “عدالت” کی شرط کو لازم سمجھتے ہیں، مگر حضرات اہلسنت جب خدا تک کو عادل دیکھنا پسند نہیں کرتے تو بیچارے “ملایان مسجد” کس شمار میں ہیں کہ ان کی عدالت ضروری ہو، اس لئے ان لوگوں نے یہ حدیث گڑھ لی کہ: “صَلُّوا خَلفَ کلّ برّ وفاجر” (ہر نیکوکاریابد کار کے پیچھے نماز پڑھ لو ) اور اسی ڈھیل کا نتیجہ یہ ہے کہ اہل سنت میں “مدیر رضوان” جیسے نیم ملا خطرۂ ایمان، لوگوں کا بھی داؤ چل جاتا ہے اور ان کے آذوقہ کا سامان بہم پہنچ جاتا ہے جب کہ شیعوں میں اس کی گنجائش نہیں ہے ۔
ج: ان دونوں باتوں کو سمجھ لینے کے بعد اب اس حقیقت پر غور کیجئے کہ دنیا میں انصاف پسندوں اور عدل شعاروں کا گروہ جتنا بڑا ہوگا، دنیا کے ظلم وجور سے لبریز ہونے میں اتنی ہی کمی ہوگی اوریہ گروہ جتنا گھٹتا جائے گا دنیا کا ظلم و جور اسی قدر بڑھتا جائے گا۔ دوسرے الفاظ میں یوں سمجھ لیجئے کہ دنیا میں شیعوں کی تعداد جتنی زیادہ ہوگی دنیا کے ظلم وجور سے لبریز ہونے میں اتنی ہی کسرہ رہ جائے گی اور شیعوں کی تعداد جس قدر کم ہوگی اسی قدر دنیا میں گناہ اور ظلم بڑھتا جائے گا کیونکہ صراط مستقیم کے پیرو کم ہوں گے اور شرک وظلم اور جور وستم کے شائق بڑھ جائیں گے، یہاں تک کہ جب شیعوں کی تعداد گھٹتے گھٹتے اتنی کم ہوجائے گی کہ بہئیت مجموعی تین سو تیرہ تک پہنچ جائے گی، اس وقت خداوند عالم امام عصر(عج) کو حکم دے گا کہ اب دنیا ظلم و جور سے لبریز ہوچکی، اب ہمارا نام لینے والے بہت قلیل تعداد میں آگئے اس لئے اب ظاہر ہوجائیے اور وہ ظہور فرمائیں گے اور “یملا الارض قسطا وعدلا کما ملئت جوراً وظلماً” (زمین کو عدل و انصاف سے اس طرح بھردیں گے جس طرح وہ قبل ظہور جور وظلم سے لبریز ہوگی۔
اللهم عجل فرجه و سهل مخرجه۔
مدیر رضوان اور ان کے ساتھیوں نے پاکستان اور بعض دوسرے نام نہاد اسلامی ممالک میں بنی امیہ اور بنی عباس کے دور کو پھر زندہ کرنا چاہا توہے۔ دیکھئے اگران کی کوششیں بارآور ہوگئیں اور وہاں کے شیعوں پر عرصۂ حیات تنگ ہوگیا اور سنت فاروقی کا بول بالا ہوگیا تو کیاعجب “اشتداد ظلم” کی یہ شرط بھی پوری ہوجائے اور اما م ظاہر ہوجائیں۔ اس وقت تو یہ بیچارے اہل سنت جو امام ابو حنیفہ اور امام شافعی اور امام مالک اور امام حنبل کی سنتوں پر قائم ہیں، اور انہیں لوگوں کی عقل آرائی اور قیاس کو وسیلۂ نجات سمجھتے ہیں، سب سے زیادہ مصائب میں مبتلا ہوں گے کیوں کہ انہیں کے علامہ ابن عربی نےیہ تصریح کردی ہے کہ:
«فلا يبقي في زمانه إلاّ الدين الخالص عن الرأي، يخالف في غالب أحکامه مذاهب العلماء، فينقبضون منه لذلک، لظنّهم أنّ الله تعالي لا يحدث بعد أئمتهم مجتهداً…الخ»۔
“پس نہیں باقی رہے گا ان کے زمانے میں مگر”دین خالص” جو رائے اور قیاس سے پاک ہوگا، وہ زیادہ تر اپنے احکام میں علماء کے مذہب کے خلاف حکم دیں گے کیونکہ ان کو یہ خیال ہوگا کہ خدا ہمارے ائمہ کے بعد کسی مجتہد کو پیدا ہی نہیں کرے گا”۔ (المجالس السنيّہ، ج 5، ص 720 ـ 724؛ في رحاب ائمۃ اھل البیتؑ، ج 5، ص 86 ـ 89، بحوالہ فتوحات مکیہ ابن عربی، باب ۳۶۶)۔
ظاہر ہے کہ امام عصر(عج) کے مقابلہ میں اپنے ائمہ کو برتر سمجھنے والا گروہ جو اس خوش خیالی میں مبتلا ہے کہ ان چار ائمہ کے بعد باب اجتہاد بند ہوگیا، بجز ان حنفیوں، شافعیوں، مالکیوں اور حنبلیوں کے اور کوئی نہیں ہے اور اس سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ان مذاہب کی قیاس آرائیاں اور عقلی تک بندیاں حد سے زیادہ “دین خالص” سے الگ ہیں، جب ہی تو “دین خالص” ظاہر ہوگا تو فطرةً ان مذاہب کے علماء اس سے رنجیدہ اور مکدر ہوجائیں گے اور اس کے بعد جو حشر ان لوگوں کا ہوگا(جن میں مدیر رضوان جیسے حنفی عالم بھی شامل ہیں ) اور جس طرح یہ لوگ قابل گردن زنی اور کشتنی قرار پائیں گے وہ بھی فتوحات مکیہ کے مطالعہ سے واضح ہوجائے گا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ “مدیررضوان” اس بات کو سننا برداشت نہیں کرتے کہ امام مہدی(عج) موجود ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ جہاں تک ممکن ہو، ذہن سے یہ خیال دور رہے تو اچھا ہے تاکہ خوف قتل سوہان روح نہ ہو۔
بہر حال ہم موصوف کو نیک نیتی کے ساتھ مشورہ دیتے ہیں کہ اب بھی اپنے فاسد عقیدہ سے توبہ کریں اور عقیدہ ٔصحیح اختیار کرکے ضمیر کے سکوں اور قلب کے اطمینان کے ساتھ امام زمانہ(عج) کا انتظار کریں تاکہ خدا ان کو سعادت دارین سے بہرہ ور کرے ۔
بازآ بازآ برآنچه هستی بازآ
گر کافر و گبر و بت پرستی بازآ
این درگه ما درگه نومیدی نیست
صد بار اگر توبه شکستی بازآ
نوٹ: |
نوٹ: علامہ رضوی(رح) نے اپنےمذکورہ جواب میں ۳۱۳ شیعوں کی تعداد والے اعتراض اور شبہہ کے جواب میں یقینی طور پر معترض کے اعتراض اور انداز گفتگو کے لحاظ سے جواب دیا ہے جو ضروری تھا۔ وگرنہ اس شبہہ کا واقعی جواب خود ہمارے ائمہ اطہارؑ سے مروی ۳۱۳ ، اصحاب امام مہدی (عج) سے مرتبط روایات کی روشنی میں واضح ہے کہ ۳۱۳ کی تعداد ظہور کے بعد ان خاص اصحاب کی ہوں گی جو ظہور امام کے فورا بعد سب سے پہلے امام کی بیعت کے لئے دنیا کے مختلف علاقوں سے حاضر ہوں گے اور ان اصحاب میں گذشتہ اقوام اور موجودہ امت اسلامی سے رحلت کرجانے والے بعض اولیاء الہی بھی شامل ہوں گے ۔ اسی طرح یہ خاص ۳۱۳ ، اصحاب اعلیٰ ترین صفات و ملکات کے حامل ہوں گے جن کو دنیا کے مختلف مناطق کی فرمانروائی اور حکومت امام مہدی(عج) میں اہم ذمہ داریوں کے لئے معین کیا جائے گا۔ اس کے بعد جب قیام کا عمومی اعلان ہوگا تب اصحاب و یاران امام مہدی(عج) کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا جائے گاجن کی تعداد ہزاروں اور لاکھوں میں بیان کی گئی ہے یہاں تک پوری دنیا میں ظلم و ستم کے خاتمے کے ساتھ توحید اور عدل و انصاف کا پرچم لہرائے گا۔(ادارہ)۔