نصرت حق کے لئے اتمام حجت
«… “فَاِنْ تَكْفُرُوا اَنْتُمْ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ جَمیعاً فَاِنَّ اللَّـهَ لَغَنِی حَمیدٌ” اَلا، وَ قَدْ قُلْتُ ما قُلْتُ هذا عَلی مَعْرِفَةٍ مِنّی بِالْخِذْلَةِ الَّتی خامَرْتُكُمْ، وَ الْغَدْرَةِ الَّتِی اسْتَشْعَرَتْها قُلُوبُكُمْ، وَ لكِنَّها فَیضَةُ النَّفْسِ، وَ نَفْثَةُ الْغَیظِ، وَ حَوَزُ الْقَناةِ، وَ بَثَّةُ الصَّدْرِ، وَ تَقْدِمَةُ الْحُجَّةِ…»
«… اے لوگو! “اگر تم اور تمام روئے زمین كےلوگ كافر ہو جائیں تو خدا تمہارا محتاج نہیں ہے”۔ اے لوگو! جو كچھ مجھے كہنا چاہیئے تھا میں نے كہہ دیا ہے حالانكہ میں جانتى ہوں كہ تم میرى مدد نہیں كروگے۔ تمہارے منصوبے مجھ سے مخفى نہیں ہیں۔ لیكن كیا كروں دل میں ایك “درد” تھا كہ جس كو میں نے بہت ناراحتى كے باوجود ظاہر كردیا ہے تا كہ تم پر “حجت تمام” ہو جائے…»۔
اہم پیغامات:
شہزادی کائناتؑ نے اپنے خطبہ فدک کے اس حصہ میں انصار کی حیرت و خاموشی اور اس کے وجوہات کو بیان کرنے کے بعد، اپنے درد دل کے اظہار اور اپنے بیانات کا مقصد ذکر فرمایا۔ اس سلسلے میں یہاں بعض اہم مطالب کی وضاحت پیش کی جارہی ہے:
۱۔ شہزادی کائناتؑ نے سب سے پہلے تمام باتوں کے ذکر کے بعد بھی جب انصار اور دوسرے حاضرین کی خاموشی کو دیکھا کہ کوئی بھی حق کی مدد کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہے تو قرآنی آیت کو پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ: «… “فَاِنْ تَكْفُرُوا اَنْتُمْ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ جَمیعاً فَاِنَّ اللَّـهَ لَغَنِی حَمیدٌ»؛ «… اے لوگو! “اگر تم اور تمام روئے زمین كے لوگ كافر ہوجائیں تو خدا تمہارا محتاج نہیں ہے” (سورہ ابراہیم، آیت۸)۔ شہزادیؑ نے یہاں قرآن مجید کی اس آیت کا انتخاب فرمایا جس میں آیا ہے کہ جناب موسیؑ نے قوم بنی اسرائیل کی ناشکری اور کفران نعمت کو دیکھتے ہوئے فرمایا تھا کہ اگر تم نعمات الہی پر شکر کروگے تو نعمتوں میں اضافہ ہوگا لیکن اگر کفر و ناشکری کروگے تو اللہ کا عذاب بہت سخت ہے” (سورہ ابراہیم، آیت۷)۔ اور یاد رکھنا کہ تم لوگ یا ساری دنیا بھی اگر کافر ہوجائے تو اللہ تعالیٰ کو کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتے ہو یا اگر ایمان لاتے ہوئےشکر کرتے رہو تو بھی اللہ تعالیٰ تم سے بے نیاز ہے وہ تمہارے ایمان و شکر کا محتاج نہیں ہے۔ یہاں شہزادیؑ نے شاید اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اگر تم حق کا ساتھ نہیں دوگے۔ ظلم کے خلاف قیام نہیں کروگے اور میری دعوت پر لبیک نہیں کہوگے یا امیرالمومنین علیؑ کی امامت و ولایت کو چھوڑ کر غاصبوں کا ساتھ دوگے تو ان تمام امور میں تمہارا ہی نقصان ہے۔ ان تمام امور کا سرانجام تم ہی کو بھکتنا پڑےگا۔ ہم تم لوگوں سے بے نیاز ہیں۔ چاہے سب مل کر ہمیں تنہا کردوگے تب بھی حقیقی طور پر ہمارا کوئی نقصان نہیں کرسکوگے۔
۲۔ شہزادی کائنات ؑ نے یہاں اس بات کا بھی اظہار فرمادیا کہ میں جانتی ہوں کہ تمہارے پاس تمام وسائل اور انسانی قوت ہے۔ تم حق کا دفاع کرنے کی طاقت رکھتے ہو۔ تم ظلم و ستم کے مقابلے میں میری مدد کرسکتے ہو۔ لیکن میں جانتی ہوں کہ میری باتوں کا تم پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔ آپؑ فرماتی ہیں کہ: «وَ قَدْ قُلْتُ ما قُلْتُ هذا عَلی مَعْرِفَةٍ مِنّی بِالْخِذْلَةِ الَّتی خامَرْتُكُمْ، وَ الْغَدْرَةِ الَّتِی اسْتَشْعَرَتْها قُلُوبُكُمْ» ؛ “اے لوگو! جو كچھ مجھے كہنا چاہیئے تھا میں نے كہہ دیا ہے حالانكہ میں جانتى ہوں كہ تم میرى مدد نہیں كروگے۔ تمہارے منصوبے مجھ سے مخفى و پوشیدہ نہیں ہیں”۔
۳۔ یہاں ممکن ہے کوئی سوال کرے کہ جب شہزادی کائناتؑ جانتی تھیں کہ یہ لوگ آپ کے خطبے اور بیانات اور آپ کی دعوت کے باوجود اپنی جگہ سے نہیں ہلیں گے؟ تو آپ ؑ نے ان سے خطاب کیوں فرمایا اور ان کو قیام کی دعوت کیوں دی؟ اب سوال کا جواب خود شہزادی کائناتؑ نے یوں دیا کہ: «وَ لكِنَّها فَیضَةُ النَّفْسِ، وَ نَفْثَةُ الْغَیظِ، وَ حَوَزُ الْقَناةِ، وَ بَثَّةُ الصَّدْرِ، وَ تَقْدِمَةُ الْحُجَّةِ…»؛ “میں جانتى ہوں كہ تم میرى مدد نہیں كروگے۔ تمہارے منصوبے مجھ سے مخفى نہیں ہیں۔ لیكن كیا كروں دل میں ایك درد تھا كہ جس كو میں نے بہت ناراحتى كے باوجود ظاہر كردیا ہے تا كہ تم پر حجت تمام ہوجائے”۔ شہزادی کائناتؑ نے یہاں اپنے خطبے اور تمام باتوں کے اظہار کے دو مقصد بیان فرمائے۔ ایک یہ کہ غصب خلافت اور ہم اہل بیت ؑ کی ہتک حرمت اور دیگر تمام مظالم و مصائب کی وجہ سے میرے دل میں بہت درد تھا۔ میرا دل تڑپ رہا تھا۔ لہذا میں نے اس کا اظہار کردیا ہے۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ حق کی وضاحت اور حمایت کرنا اور دیگر حقائق الہیہ کو تم تک پہنچاتے رہنا ہمارا فریضہ ہے لہذا میں نے اس موقع پر اپنا فریضہ انجام دے کر “اتمام حجت” کر دی ہے تاکہ تمہارے پاس کوئی بھی عذر و بہانہ باقی نہ رہے اس لئے کہ تم ہمارے حق میں ہونے والے ظلم اور خیانت کو روکنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ تمہارے پاس افراد و طاقت و اسلحے وغیرہ سب کچھ ہے۔تم لوگوں سے مدد و نصرت کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔
خلاصہ یہ کہ حضرت فاطمہ زہراؑ نے امامت و ولایت کی راہ میں بلند آواز سے حقائق کو پہنچایا۔ اور امام وقت کے دفاع کی ضرورت، اہمیت و عظمت کو بیان کرکے اس بات کا اعلان کردیا کہ فاطمہؑ نے راہ حق سے ایک لمحہ بھی غفلت نہیں کی اور اس کی حمایت میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کی اور کوتاہی کرنے والوں کو بھی حق کی طرفداری اور ان کو اس راہ میں قیام کرنے کی دعوت دی تھی۔