مصائب فاطمہؑ کا مرثیہ
ثم عطفت علی قبر النبی(ص)، و قالت:
قَدْ كانَ بَعْدَكَ اَنْباءٌ وَ هَنْبَثَةٌ، لَوْ كُنْتَ شاهِدَها لَمْ تَكْثِرِ الْخُطَبُ،
اِنَّا فَقَدْ ناكَ فَقْدَ الْاَرْضِ وابِلَها، وَ اخْتَلَّ قَوْمُكَ فَاشْهَدْهُمْ وَ لاتَغِبُ،
وَ كُلُّ اَهْلٍ لَهُ قُرْبی وَ مَنْزِلَةٌ، عِنْدَ الْاِلهِ عَلَی الْاَدْنَینِ مُقْتَرِبُ،
اَبْدَتْ رِجالٌ لَنا نَجْوی صُدُورِهِمُ، لمَّا مَضَیتَ وَ حالَتْ دُونَكَ التُّرَبُ
تَجَهَّمَتْنا رِجالٌ وَ اسْتُخِفَّ بِنا، لَمَّا فُقِدْتَ وَ كُلُّ الْاِرْثِ مُغْتَصَبُ،
وَ كُنْتَ بَدْراً وَ نُوراً یسْتَضاءُ بِهِ، عَلَیكَ تُنْزِلُ مِنْ ذِی الْعِزَّةِ الْكُتُبُ،
وَ كانَ جِبْریلُ بِالْایاتِ یؤْنِسُنا، فَقَدْ فُقِدْتَ وَ كُلُّ الْخَیرِ مُحْتَجَبُ،
فَلَیتَ قَبْلَكَ كانَ الْمَوْتُ صادِفُنا، لَمَّا مَضَیتَ وَ حالَتْ دُونَكَ الْكُتُبُ۔
پھر جناب فاطمہ زہراؑ قبر نبی ؐ کی جانب متوجہ ہوئیں اور اس طرح مرثیہ پڑھا:
اےبابا! آپؐ کے بعد بڑی نئی نئی خبریں اور مصیبتیں سامنے آئیں کہ اگر آپؐ سامنے ہوتے تو مصائب کی یہ کثرت نہ ہوتی۔
ہم نے آپؐ کو ویسے ہی کھو دیا جیسے زمین ابرکرم سے محروم ہو جاتی ہے۔ اور اب آپؐ کی قوم بالکل ہی منحرف ہوگئی ہے۔
ذرا آپؐ آکر دیکھ تو لیں جو خاندان خدا کی نگاہ میں قرب و منزلت رکھتا ہے وہ دوسروں کی نگاہ میں بھی محترم ہوتا ہے مگر ہمارا کوئی احترام باقی نہیں رکھا گیا ہے۔
آپ ؐ کے جانے کے بعد جب ہمارے اور آپ ؐ کے درمیان خاک قبر حائل ہوگئی تو کچھ لوگوں نے اپنے دل کے کینوں کا اظہار کردیا ہے ۔
آپؐ کے بعد لوگوں نے ہمارے اوپر ہجوم کیا اور ہم لوگوں کو بے قدر و قیمت سمجھ کر ہماری میراث کو ہضم کر لیا ہے۔
آپؐ تو ایک بدر کامل اور نور مجسم تھے جس سے روشنی حاصل کی جاتی تھی اور آپ ؐپر ربِّ العزت کے پیغامات نازل ہوتے تھے۔
حضرت جبرئیلؑ آیات الہی کی صورت میں ہمارے لئے سامان انس فراہم کرتے تھے مگر آپؐ کیا گئے کہ ساری نیکیاں پس پردہ چلی گئیں۔
اے باباؐ ! کاش مجھے آپؐ سے پہلے موت آگئی ہوتی اور میں آپؐ کے اور اپنے درمیان خاک کے حائل ہونے سے پہلے مر گئی ہوتی۔
اہم پیغامات:
شہزادی کائناتؑ نے اپنے خطبہ کے اختتام پر جب دیکھا کہ لوگوں نے آپ ؑ کی باتوں کو سننے اورتمام حقائق کے اظہار کے باوجود بھی کسی طرح سے آپ ؑ کی مدد و نصرت کے لئے آواز تک نہیں اٹھائی اور غاصبان فدک و خلافت یوں ہی توجیہ کرتے رہے اور جھوٹ و بہتان و الزام لگاتے رہے اور اپنے کارناموں کو لوگوں کے اجماع و اتفاق کے نام سے صحیح ٹھہراتے رہے تو شہزادیؑ نے ان کے کارناموں کے دنیاوی و اخروی نقصانات اور آثار کو بیان کرتے ہوئے اپنے وظیفہ کو انجام دے کر قبر مطہر پیغمبراکرمؐ کی جانب متوجہ ہوتے ہوئے اپنے مصائب کا خود ہی مرثیہ پڑھا۔
۱۔ آنحضرتؐ کی رحلت کے بعد اہل بیتؑ پر مصائب و مظالم کی انتہا ہوگئی تھی ۔ اس قدر مصائب ڈھائے گئے اور اس قدر بے احترامی کی گئی کہ خود شہزادی کائناتؑ نے اپنی موت کی تمنّا فرمائی کہ اے باباؐ ! کاش مجھے آپؐ سے پہلے موت آگئی ہوتی اور میں آپؐ کے اور اپنے درمیان خاک کے حائل ہونے سے پہلے ہی مر گئی ہوتی۔
۲۔ شہزادی کائناتؑ پر تمام مصائب و مظالم، غیر مسلمانوں کی طرف سے نہیں بلکہ خود مسلمانوں اور پیغمبرؐ کی جانشینی کا دعویٰ کرنے والوں کی طرف سے ڈھائے گئے تھے۔ اور یہ سب اس وقت اور ان حالات میں ہوئے جب تمام مسلمانوں، خاص طور پر صحابیت کا دعویٰ کرنے والے تمام بزرگوں کو اہل بیتؑ کی شان میں نازل ہونے والی قرآنی آیات اور احادیث پیغمبرؐ سے آگاہی تھی۔ سب نے پوری آگاہی اور ہوشیاری کے ساتھ ان مظالم و مصائب کو روا رکھا۔ اس مقام پر رئیس المبلغین علامہ سید سعید اختر رضوی(رح)، اپنی ایک مجلس میں آیت مودت کے ذیل میں بیان کرتے ہیں کہ:
“ایک شخص جو بالکل اسلامی تاریخ سے ناواقف ہو،کوئی علاقہ و دلچسپی اس کو اسلام یا اسلامی تاریخ سے نہ ہو تو وہ تو اپنی جگہ یہی سمجھے گا کہ اس آیت کے نازل ہونےکےبعد رسولؐ کی زندگی میں بھی اوررسولؐ کی رحلت کے بعدبھی مسلمانوں نے اہل بیت رسولؑ کو اپنے سرآنکھوں پر بٹھایا ہوگا۔ اگر کبھی کسی نے آفر(پیشکش) بھی کیا ہوگا کہ تم حاکم بن جاؤ تو اس نے انکار کردیا ہوگا کہ نہیں۔ علیؑ و فاطمہؑ کے ہوتے ہوئے میری کوئی ہستی نہیں ہے یعنی اگر ایک شخص بالکل نہیں جانتا ہوتو وہ یہی سوچے گا کہ جب مسلمانوں نے یہ دیکھا ہوگا کہ رسول اللہؐ وفات کے چھ مہینہ پہلے سے لے کر اور آخری بیماری تک ہرصبح کے وقت فاطمہؑ کے دروازے پر جاتے ہیں اور یہ کہتے کہ: ’’السلام علیکم یا اھل البیت’’إِنَّمٰا يُرِيدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً‘‘(سورہ احزاب، آیت۳۳) تو اس کے بعد رسولؐ کے انتقال کے بعدبھی وہ اسی طرح عزت اور احترام کے ساتھ، تواضع اور فروتنی کے ساتھ فاطمہؑ کے دروازے پر جاتے ہوں گےاور اپنی عقیدت و محبت کا اظہار کرتے ہوں گے اور یہی نہیں علیؑ و فاطمہؑ کو جو کچھ بھی اللہ نے دیا تھا وہ تو ہمیشہ دوسروں پر خرچ کرتے رہے۔ اگر کہیں سے کچھ تحفے تحائف ملےبھی تو وہ بھی دوسروں ہی کے کام آئے تو مسلمانوں نے لازمی طور پر اپنا یہ طریقہ بنا رکھا ہوگا کہ ہمیشہ ان کی خدمت کرتےرہیں۔ مال و دولت سے تحفے اور تحائف سے اور ہمیشہ یہ کوشش کرتے رہے ہونگے کہ وہ حضرات آرام سے زندگی بسرکریں۔ لیکن اگر اس کے بعدوہ اسلامی ہسٹری پڑھے اور اس میں یہ دیکھے کہ رسولؐ کی رحلت کے بعدجس فاطمہؑ کے دروازے پر رسول ؐ، نماز سے پہلے چھ مہینے تک جاکرسلام کرتے رہے ،اس دروازے پر لوگ آگ اور لکڑی لے کرجائیں۔ جس کو رسولؐ نے ایک لاکھ کے مجمع کے سامنے’’من کنت مولاه فهذا علی مولاه‘‘کہا ہو۔ اس کا نہ صرف یہ کہ حق غصب کرلیا بلکہ اس کو بھی مجبور کیا گیا کہ وہ بیعت کر لے اور یہی نہیں جب تاریخ پڑھنے والا یہ دیکھے گا کہ رسولؐ کی وفات سے پہلے جناب فاطمہؑ کے شکم مبارک میں بچہ تھا اور رسولؐ نے یہ خبربھی دی تھی کہ یہ بیٹا ہے اور اس کا نام میں’’محسن‘‘ؑ رکھتا ہوں وہ شکم مادر میں شہید کردیئے گئے جب دیوار اور دروازے کے درمیان میں جناب سیدہؑ کے بطن اقدس پر اور پسلی کی ہڈیوں پر ایسی ضرب لگائی گئی کہ جناب سیدہؑ بیہوش ہو کرگر پڑیں ۔ ایسی صورت حال میں تاریخ پڑھنے والا یہ سوچنے پر مجبور ہوگا کہ کیا یہی علیؑ و فاطمہؑ ہیں کہ جن کی محبت کو اللہ نے اور رسولؐ نے امت والوں پر واجب قرار دیا تھا؟ یا شاید وہ کوئی دوسرے علیؑ و فاطمہؑ رہے ہوں یعنی انسانی عقل کام نہیں کرتی ہے کہ ابھی اٹھائیس صفر تک تو یہ عالم ہے کہ ملک الموت بھی دروازے کے اوپر آکر اجازت طلب کرتے ہیں اور دو دن کے بعد لوگ درّانہ اس گھرکے اندر گھسنے کی کوشش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جو لوگ اندرہیں وہ باہر آجائیں ورنہ ہم اس گھر کو جلا دیں گے اور کسی نے یہ کہا کہ اس گھر میں فاطمہؑ ہیں تو کہا کہ’’و اِنْ‘‘ یعنی بھلے ہوں۔ فاطمہؑ کی گویا کوئی عزت ہی نہیں ہے۔ اگر یہ کہہ دیا جائے کہ اس کے اندر انسان ہے کوئی بھی ہو کافر بھی ہو تو پھرکسی کی زبان سے یہ نہ نکلے گا کہ ہم اس کافرکو جلا دیں گے اس گھر کے اندر۔وہ یہ کوشش کرے گا کہ وہ سب نکل جائیں اس کے بعد اگرجلانا ہے تو جلائے لیکن یہاں فاطمہؑ کے لئے ’’و اِنْ‘‘ یعنی اگرچہ ہوں فاطمہؑ لیکن ہمیں پرواہ نہیں ہے ہم اس گھر کو جلا دیں گے (الامامه و السياسه، ج 1، ص12؛ احمد بن يحيي بلاذري، انساب الاشرف، ج1، ص586، ح1184)۔
۳۔ علامہ رضوی (رح) مزید بیان کرتے ہیں کہ: اہل بیت اطہارؑ پر ڈھائے جانے والے مصائب حضرت امام علی ؑ کے لئے تو اچانک نہیں تھے اس لئے کہ رسول اسلام ؐنے بتا دیا تھا کہ ہونا کیا ہے اور کیا ہونے والا ہے! لیکن مدینه والوں کے لئے تو اچانک رونما ہوئے تھے۔مسلمانوں کے لئے تو سب کچھ اچانک تھا اور اس کے بعد بھی کسی کی رگ حمیت نہیں پھڑکی کہ وہ آکر یہ کہےکہ یہ تم لوگ کیا کررہے ہو۔ یہ وہی فاطمہؑ ہیں کہ جس کو رسولؐ نے کہا ہے کہ: ’’فاطمة بضعة منی؛ فاطمہؑ میرا ٹکڑا ہے۔ من آذاها فقد آذانی؛ جس نے فاطمہؑ کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی۔ من آذانی فقد اذی الله‘‘ اور جس نے مجھے اذیت دی اس نے اللہ کو اذیت دی ۔ اسی طرح کوئی تو ہوتا جو ان لوگوں کویہ آیت یاد دلاتا کہ:’’إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَ أَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُهِينًا‘‘؛ ’’کہ جو لوگ اللہ اور اللہ کے رسولؐ کو اذیت دیتے ہیں ان پر اللہ نے دنیا میں اور آخرت میں لعنت کی ہے اور ان کے لئے ایک ذلیل کرنے والا عذاب مہیا کر رکھا ہے‘‘(سورہ احزاب، آیہ ۵۷ )۔ یہاں کوئی ایسا نہیں تھا جو یہ کہتا کہ یہ تم فاطمہؑ کی توہین نہیں کر رہے ہو یہ تم رسولؐ کی توہین کر رہے ہو؛ اس لئے کہ فاطمہؑ رسولؐ کا ٹکڑا ہیں۔ تو ایک عجب دنیا نظر آتی ہے کہ اچانک یا تو اہل بیت ؑ بدل گئے تھے یا پھر دنیا بدل گئی تھی۔ اہل بیت ؑ کے بدلنے کا تصور نہیں کیا جاسکتا ہے اس لئے کہ یہ وہ ہیں کہ جن کو اللہ نے ہر رجس سے پاک رکھا تھا اور ان کو اس طرح پاک کر دیا تھا کہ جو پاک کرنے کا حق تھا (سورہ احزاب، آیہ ۳۳)۔ تمام مذکور باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبراکرمؐ کی رحلت کے ساتھ دنیا ہی بدل گئی تھی جس کے بارے میں شہزادیؑ نے اپنے مرثیہ میں بھی بیان فرمایا کہ : اےبابا! آپؐ کے بعد بڑی نئی نئی خبریں اور مصیبتیں سامنے آئیں کہ اگر آپؐ سامنے ہوتے تو مصائب کی یہ کثرت نہ ہوتی۔آپ ؐکے بعد یہ قوم بالکل منحرف ہوگئی۔ آپ ؐ کے بعد ہمارا کوئی احترام باقی نہیں رہا۔ آپ ؐ کے بعد لوگوں کے دلوں سے کینے ظاہر ہوگئے۔ آپؐ کے بعد لوگوں نے ہماری قدر و منزلت کی بے حرمتی کی اور ہماری میراث کو ہضم کرلیا۔