احادیثاسلامی معارف

قرآن کے مقابلے میں اجماع

فاطمہ زہراؑ کا درد دل اور خطبہ فدکیہ (33)

قرآن کے مقابلے میں اجماع

فقال أبوبكر: صَدَقَ اللَّـهُ وَ رَسُولُهُ وَ صَدَقَتْ اِبْنَتُهُ، مَعْدِنُ الْحِكْمَةِ، وَ مَوْطِنُ الْهُدی وَ الرَّحْمَةِ، وَ رُكْنُ الدّینِ، وَ عَینُ الْحُجَّةِ، لااَبْعَدُ صَوابَكِ وَ لااُنْكِرُ خِطابَكِ، هؤُلاءِ الْمُسْلِمُونَ بَینی وَ بَینَكِ قَلَّدُونی ما تَقَلَّدْتُ، وَ بِاتِّفاقٍ مِنْهُمْ اَخَذْتُ ما اَخَذْتُ، غَیرَ مَكابِرٍ وَ لامُسْتَبِدٍّ وَ لامُسْتَأْثِرٍ، وَ هُمْ بِذلِكَ شُهُودٌ.

فالتفت فاطمة علیهاالسلام الی النساء، و قالت: مَعاشِرَ الْمُسْلِمینَ الْمُسْرِعَةِ اِلی قیلِ الْباطِلِ، الْمُغْضِیةِ عَلَی الْفِعْلِ الْقَبیحِ الْخاسِرِ، اَفَلاتَتَدَبَّرُونَ الْقُرْانَ اَمْ عَلی قُلُوبٍ اَقْفالُها، كَلاَّ بَلْ رانَ عَلی قُلُوبِكُمْ ما اَسَأْتُمْ مِنْ اَعْمالِكُمْ، فَاَخَذَ بِسَمْعِكُمْ وَ اَبْصارِكُمْ، وَ لَبِئْسَ ما تَأَوَّلْتُمْ، وَ ساءَ ما بِهِ اَشَرْتُمْ، وَ شَرَّ ما مِنْهُ اِعْتَضْتُمْ، لَتَجِدَنَّ وَ اللَّـهِ مَحْمِلَهُ ثَقیلاً، وَ غِبَّهُ وَبیلاً، اِذا كُشِفَ لَكُمُ الْغِطاءُ، وَ بانَ ما وَرائَهُ الضَّرَّاءُ، وَ بَدا لَكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ ما لَمْ تَكُونُوا تَحْتَسِبُونَ، وَ خَسِرَ هُنالِكَ الْمُبْطِلُونَ.

(اس کے بعد ابوبکر نے کہا) اللہ، رسولؐ اور رسولؐ کی بیٹی سب سچے ہیں۔آپ حکمت کے معادن، ہدایت و رحمت کا مرکز، دین کے رکن ، حجت خدا کا سر چشمہ ہیں۔میں نہ آپ کے حرف راست کو  جھٹلا سکتا ہوں اور نہ آپ کے بیان کا انکار کر سکتا ہوں۔مگر یہ مسلمان میرے اورآپ کے سامنے  فیصلہ کرنے والے ہیں یہی لوگ ہیں جو میرے پیچھے چلے ہیں اور انہیں لوگوں کی رضامندی اور ان کے اجماع و اتفاق سے میں نے یہ عہدہ سنبھالا ہے۔ نہ میں نے ان لوگوں پر زور ڈالا ہے اور نہ ہی خود کو مقدم کیا ہے یہ سب اس بات کے گواہ ہیں۔

 جسے سن کر جناب فاطمہ زہراؑ لوگوں کی طرف متوجہ ہوئیں اورفرمایا:

“اے گروہ مسلمین!  تم حرف باطل کی طرف تیزی سے بڑھنے و سبقت کرنے والے ہو اور فعل قبیح سے چشم پوشی کرنے والے ہو۔ کیا تم قرآن پر غور نہیں کرتے ہو اور کیا تمھارے دلوں پر تالے پڑے ہؤے ہیں؟۔یقیناًتمھارے اعمال نے تمھارے دلوں کو زنگ آلود کر دیا ہے اور تمھاری سماعت اور بصارت کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے لہذا تم نے بد ترین تاویل سے کام لیا ہے۔ اور بدترین راستہ کی نشان دہی کی ہے اور بدترین معاوضہ پر سودا کیا ہے۔ عنقریب تم اس بوجھ کی سنگینی کا احساس کرو گے اور اس کے انجام کو بہت دردناک پاؤ گے جب پردے اٹھا ئے جائیں گے اور پردہ کے پیچھے کے نقصانات سامنے آجا ئیں گے اور خدا کی طرف سے وہ چیزیں سامنے آجائیں گی جن کا تمھیں وہم گمان بھی نہیں ہے اس وقت اہل باطل خسارہ و نقصان اٹھانے والے ہونگے”۔

اہم پیغامات:

شہزادی کائناتؑ نےاپنے خطبہ میں اس مقام پر غاصبوں کی توجیہات اور دلیلوں کو قرآنی قوانین اور آیات کے برخلاف ثابت کردیا اور غاصبوں کے عزائم اور ان کے باطن کو لوگوں کے سامنے بے نقاب کردیا تو ان کے پاس حقیقت کے اعتراف کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا لہذا پھر سے شہزادیؑ کی حقیقت و صداقت کا اعتراف کیا لیکن یہاں پھر سے عوام فریبی کی کوشش کرتے ہوئے لوگوں کے اجماع کی بات کو دوہرایا جس کا شہزادیؑ نے دوبارہ مزید صراحت کے ساتھ جواب دیا۔ اس سلسلے میں بعض مطالب کی وضاحت پیش کی جارہی ہے:

۱۔ شہزادی کائنات ؑ نے جب غاصبان فدک و خلافت کے دعووں کو قرآنی دلیلوں اور حقائق کی روشنی میں جھوٹا ثابت کرکے اپنی صداقت کا اظہار فرمایا تو مجبوراً ابوبکر کو بھی اعتراف کرنا پڑا۔ وہ اس سلسلے میں کہتا ہے کہ: «صَدَقَ اللَّـهُ وَ رَسُولُهُ وَ صَدَقَتْ اِبْنَتُهُ، مَعْدِنُ الْحِكْمَةِ، وَ مَوْطِنُ الْهُدی وَ الرَّحْمَةِ، وَ رُكْنُ الدّینِ، وَ عَینُ الْحُجَّةِ، لااَبْعَدُ صَوابَكِ وَ لااُنْكِرُ خِطابَكِ»؛ “اللہ، رسولؐ اور رسولؐ کی بیٹی سب سچے ہیں۔آپ حکمت کے معادن، ہدایت و رحمت کا مرکز، دین کے رکن ، حجت خدا کا سر چشمہ ہیں۔میں نہ آپ کے حرف راست کو  جھٹلا سکتا ہوں اور نہ آپ کے بیان کا انکار کر سکتا ہوں”۔  ابوبکر کے ان اعتراف اور اس کی جانب سے پیش کی جانے والی جھوٹی حدیث اور دوسری توجیہات کو سامنے رکھنے کے بعد صرف یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ اپنی طرف سے پیش کی جانے والی توجیہات میں جھوٹ بول رہا تھا۔ اس نے جھوٹی حدیث رسولؐسے منسوب کی تھی ورنہ اگر اس کی طرف سے پیش کی جانے والی حدیث  کوصحیح ماناجائے تو خود اس کے علاوہ، (معاذاللہ) سب کی طرف جھوٹ منسوب ہوگا ۔ جبکہ یہاں وہ خود اعتراف کر رہا ہے کہ اللہ، رسول، شہزادیؑ آپ سب کے سب سچے ہیں یعنی خود قبول کرلیا کہ  میں نےجھوٹ پیش کیا ہے۔ جھوٹی نسبت رسول ؐ سے دی ہے۔ آنحضرتؐ پر تہمت اور الزام لگایا ہے۔ 

۲۔ ابوبکر خود اپنے بیانات میں پھنس گیا تھا کیونکہ وہ نہ ہی رسولؐ کو اور نہ ہی شہزادیؑ کو جھٹلاسکتا تھا۔ اور نہ ہی قرآن کے قوانین کا انکار کرسکتا تھا لہذا اس نے بچنے کا راستہ نکالتے ہوئے سارا الزام لوگوں پر ڈال دیا کہ : «هَؤلاءِ الْمُسْلِمُونَ بَینی وَ بَینَکَ، قَلِّدُونی ما تَقَلَّدْتُ وَ بِاِتِّفاقٍ مِنْهُمْ أَخَذْتُ ما أَخَذْتُ غَیرَ مُکابِرٍ وَ لا مُسْتَبِدٍّ وَ لا مُسْتَأثِرٍ وَ هُمْ بِذلِک شُهُودٌ»” یہ مسلمان میرے اورآپ کے سامنے  فیصلہ کرنے والے ہیں یہی لوگ ہیں جو میرے پیچھے چلے ہیں اور انہیں لوگوں کی رضامندی اور ان کے اجماع و اتفاق سے میں نے یہ عہدہ سنبھالا ہے۔ نہ میں نے ان لوگوں پر زور ڈالا ہے اور نہ ہی خود کو مقدم کیا ہے یہ سب اس بات کے گواہ ہیں۔ ان توجیہات کو نگاہ میں رکھتے ہوئے چند باتیں ظاہر ہوتی ہیں:

الف:  ظاہری طور پر حضرت فاطمہؑ کے ساتھ فدک کے بارے میں گفتگو ہو رہی تھی۔اور مسلمانوں کا ناقص اتفاق و اجماع بھی فدک کے غصب کئے جانے پر نہیں بلکہ خلافت و قیادت کے غصب کئے جانے پر ہوا تھا  لیکن ابوبکر نے اپنے مغالطہ کو دوہراتے ہوئےپھر لوگوں کے ذہنوں کو الجھانے اور مسئلہ کو بھٹکانے کے لئے خلافت پر اجماع کو فدک کے غصب پر اجماع سے ملادیا اور کہا کہ مسلمانوں نے میری خلافت و قیادت پر اجماع کرلیا تھا اسی وجہ سے ان لوگوں کے اجماع کو سامنے رکھتے ہوئے میں نے فدک کے اموال کو بیت المال میں شامل کرلیا اس لئے کہ خلیفہ و حاکم کو اختیار ہے کہ وہ حکومتی اموال کو اپنی نگرانی میں رکھے۔

ب: شہزادیؑ نے گذشتہ بیانات میں فرمایا تھاکہ فدک کے غصب کی اصلی وجہ  تمہیں تمہارے نفس نے بہکا دیا تھا: “بَلْ سَوَّلَتْ لَکُمْ اَنْفُسُکُمْ”۔ یہاں وہ جواب دینے کی کوشش کرنے لگا کہ میں نے اس کام کو اپنے نفس کے بہکاوے اور جاہ طلبی کی وجہ سے نہیں کیا تھابلکہ لوگوں کے اتفاق و اجماع سے کیا تھا۔ میرے سامنے اپنے نفس کی رضامندی نہیں تھی بلکہ لوگوں کی رضامندی تھی۔ یعنی وہ لوگوں کے اجماع و اتفاق پر زور دینے لگا  اور کہنے لگا کہ میں آپ ؑ کی باتوں کو تسلیم کرتا ہوں، آپؑ بالکل سچی ہیں لیکن چونکہ عوام نے مجھ سے یہ چاہا اور انہوں نے حکومت مجھے سونپ دی تھی لہذا میں نے اس کو قبول کرکے ان کی خواہشات کے مطابق عمل کیا۔

ج: اجماع کی حقیقت کو دیکھا جائے  جو اجماع خلافت کے مسئلہ پر ہوا تھا اس کو تاریخ نے بھی واضح طور پر بیان کیا ہے۔ مسلمانوں نے کبھی بھی اپنی رضایت اور خشنودی کے ساتھ اس کی حمایت نہیں کی تھی بلکہ صرف پانچ لوگ سقیفہ میں جمع ہوئے تھے اور انہیں لوگوں نے ہر چیز کا فیصلہ کردیا اور پھر دھمکی و لالچ اور ظلم و ستم گری کے ذریعہ دوسرے لوگوں سے بیعت لینا شروع کردیا تھا۔اور اس عمل کو اتنی عجلت کے ساتھ انجام دیا گیا کہ دوسری طرف جنازہ ٔ رسول  ؐ کی تکفین و تجہیز و تدفین کے امور بھی انجام نہ پاسکے تھے۔

۳۔ شہزادی کائناتؑ  نے جب دیکھا کہ ابوبکر تمام تقصیرات کو لوگوں کے اجماع و اتفاق پر ڈال رہا ہے تو آپؑ پھر سے حاضرین کی جانب متوجہ ہوئیں اور قرآن کے مقابلے میں ان لوگوں کی عجلت اور باطل کی جانب دوڑنے میں ان کی جلدبازی کی مذمت کرتے ہوئے اپنے خطبہ کے آخری جملات میں یوں سوال کرتی ہیں  کہ:  «مَعاشِرَ الْمُسْلِمینَ الْمُسْرِعَةِ اِلی قیلِ الْباطِلِ، الْمُغْضِیةِ عَلَی الْفِعْلِ الْقَبیحِ الْخاسِرِ»؛” اے مسلمانو! جو باطل کی باتوں کی طرف بہت تیزی سے بڑھنے والےہو اورقبیح،  برے اور نقصان دہ کاموں کے سامنے آنکھیں بند کر لینے والے ہو!”۔ پھر قرآن کی آیت کی تلاوت کرتے ہوئے پوچھتی ہیں  کہ: «اَفَلاتَتَدَبَّرُونَ الْقُرْانَ اَمْ عَلی قُلُوبٍ اَقْفالُها ؛ “کیا  تم قرآن میں غور نہیں کرتے ہو؟ یا یہ کہ تمہارے دلوں پر تالے لگے ہوئے ہیں”؟ (سورہ محمد، آیت۲۴)۔ شہزادی نے یہاں تمام مخاطبین کو غاصبوں اور ان کے تمام حامیوں کے سامنے قرآنی دلائل اور تمام حقائق کو پیش کرتے ہوئے سوال فرمایا کہ اگر تم نے میری باتوں اور قرآن کی روشن آیات کو سامنے رکھا ہوتا اور تھوڑا بھی غور کیا ہوتا تو تمام حقائق سامنے آجاتے اور تم اہل باطل کی باتوں اور باطل امر کی کبھی حمایت نہیں کرتے ۔ یہاں یا تو تمہارے سامنے قرآنی آیات روشن نہیں ہیں یا پھر تم نے سب کچھ جانتے ہوئے باطل امر کو قبول کرلیا ہے اور ہم اہل بیتؑ کے مقابلے میں اہل باطل اور غاصبوں کی حمایت کی ہے۔ قرآن کی آیات سے تم بالکل آگاہ ہو، اس میں بیان کئے ہوئے قانون میراث کو واضح طور پر جانتے ہو لہذا دوسری ہی صورت باقی رہ جاتی ہے اور وہ یہ کہ تمہارے نفسوں نے برے کاموں کو تمہارے سامنے اچھا بنا کر پیش کیا ہے اور تم اپنی خواہشات نفسانی میں گرفتار ہوگئے ہو اور قرآن کے مقابلے میں اجماع و اتفاق کرلیا ہے۔ شہزادی ؑ اس مقام پر مزید آیات قرآنی سے اقتباس کرتے ہوئے اہل باطل کے کارناموں کی حقیقی علت کا ذکرفرماتی ہیں کہ: «كَلاَّ بَلْ رانَ عَلی قُلُوبِكُمْ ما اَسَأْتُمْ مِنْ اَعْمالِكُمْ، فَاَخَذَ بِسَمْعِكُمْ وَ اَبْصارِكُمْ، وَ لَبِئْسَ ما تَأَوَّلْتُمْ، وَ ساءَ ما بِهِ اَشَرْتُمْ، وَ شَرَّ ما مِنْهُ اِعْتَضْتُمْ…»؛”یقیناًتمھارے اعمال نے تمھارے دلوں کو زنگ آلود کر دیا ہے اور تمھاری سماعت اور بصارت کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے لہذا تم نے بد ترین تاویل سے کام لیا ہے۔ اور بدترین راستہ کی نشان دہی کی ہے اور بدترین معاوضہ پر سودا کیا ہے”۔

۴۔ شہزادی کائنات ؑ نے یہاں دوبارہ باطل کی طرف دوڑنے والوں ، غاصبوں اور ان کے حامیوں کے عمل اور کارناموں کے حقیقی نتائج کا ذکر فرمایا کہ: «لَتَجِدَنَّ وَ اللَّـهِ مَحْمِلَهُ ثَقیلاً، وَ غِبَّهُ وَبیلاً اِذا كُشِفَ لَكُمُ الْغِطاءُ، وَ بانَ ما وَرائَهُ الضَّرَّاءُ، وَ بَدا لَكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ ما لَمْ تَكُونُوا تَحْتَسِبُونَ، وَ خَسِرَ هُنالِكَ الْمُبْطِلُونَ»؛ “عنقریب تم اس بوجھ کی سنگینی کا احساس کرو گے اور اس کے انجام کو بہت دردناک پاؤ گے جب پردے اٹھا ئے جائیں گے اور پردہ کے پیچھے کے نقصانات سامنے آجا ئیں گے اور خدا کی طرف سے وہ چیزیں سامنے آجائیں گی جن کا تمھیں وہم گمان بھی نہیں ہے اس وقت اہل باطل خسارہ و نقصان اٹھانے والے ہونگے”۔

یہاں شہزادیؑ نے غاصبوں اور ان کے حامیوں کے عملکرد کے دنیاوی اور اخروی نقصانات کو یاد دلایا اور اس کی خبر دی ہے کہ تم لوگوں نے ہم اہل بیتؑ سے ہمارے حقوق اور خلافت کو قرآن کی روشن دلائل اور تمام حقائق کے واضح ہونے کے باوجود بھی غصب کرلیا ہے لیکن ان جرائم کی سنگینی تمہیں دنیا و آخرت میں سکون سے رہنے نہیں دے گی۔

متعلقہ مضامین

تبصره کریں

Back to top button
×