امت اسلامی کی ذمہ داریاں؟
ثُمَّ الْتَفَتَتْ عليهاالسلام اِلى أَهْلِ الْمَجْلِسِ وَ قالَتْ لِجَمِيعِ الْمُهاجِرِينَ وَ الاْنْصارِ:
«وَ اَنْتُمْ عِبادَ اللّه نَصْبُ أَمْرِهِ وَ نَهْيِهِ، وَ حَمَلَةُ دِينِهِ وَ وَحْيِهِ، وَ أُمَناءُ اللّهِ عَلى اَنْفُسِكُمْ، وَ بُلَغاؤُهُ اِلَى الْأُمَمِ».
شہزادی فاطمہ زہراؑخطبہ میں اس مقام پر پہنچنے کے بعد تمام مہاجرین و انصار کی طرف متوجہ ہوئیں اور فرمایا:
«اے بندگان خدا !تم اللہ کے امر و نہی کے مخاطب و علمدار ہو۔ اس کے دین اور وحی کے حامل ہو۔ اورتم اپنے نفوس پر اللہ کے امین ہو۔ اور دوسری امتوں کے لئے ( اس کے دین کے )مبلغ ہو »۔
اہم پیغامات:
حضرت فاطمہ زہراؑ نے خطبہ فدک میں پیغمبراکرمؐ کے دنیا سے رخصت ہوکر بارگاہ الہی میں پہنچنے کی کیفیت کے ذکر کے بعد امت مسلمہ کی اہم ذمہ داریوں اور امانت داری کے ساتھ قرآن و دینی معارف کی تبلیغ کی ضرورت کا ذکر کرتے ہوئے اس سلسلے میں متعدد باتوں کو بیان فرمایا، یہاں مختصر طورپر ان کی وضاحت پیش کی جارہی ہے:
۱۔ احکام خداوندی اور وحی الٰہی کے پہلے اور ابتدائی مخاطبین وہ لوگ تھے جو رسول اکرمؐ سے براہ راست احکام سنتے تھے۔ اسی وجہ سے ان پر یہ فرض بھی عائد ہوتا تھا کہ وہ ان احکام و معارف کو پوری دیانتداری سے حفظ کریں اور پوری امانت داری کے ساتھ دوسرے لوگوں تک پہنچائیں اور اس سلسلے میں دین و قرآن کے تمام مسائل و احکام و معارف شامل ہیں۔ صرف نماز و روزے و حج وغیرہ کے احکام ہی نہیں بلکہ تمام اعتقادی اور سیاسی امور بھی شامل ہیں جن کو پیغمبراکرمؐ نے قرآن اور اپنی احادیث وغیرہ کے ذریعہ بیان فرمائے تھے۔
۲۔ شہزادی فاطمہ زہراؑ جن باتوں کے لئے مہاجرین و انصار اور دیگر تمام حاضرین کو رسول اکرمؐ کے اصلی مخاطب اور حامل اور امانت دار قرار دیا ہے ان میں سے سب سے اہم مسئلہ امامت اور جانشینی کا ہی تھا۔ جس کے بارے میں خود پیغمبرؐ نے حجۃ الوداع کے موقع پر بھی فرمایا تھا کہ: «فلیبلغ الشاھد الغائب» حاضرین پر ضروری ہے کہ میرے اس پیغام کے غائبین تک پہچائیں۔
۳۔ شہزادی ؐ نے مخاطبین کو دین اور تعلیمات پیغمبرؐ سے مربوط ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلایا کہ دیکھو تم ابتدائی مخاطب ہو۔ امر و نہی الہی کو میرے بابا ؐنے تمہارے سامنے بیان کیا ہے۔ تم نے دین و قرآن کو ان سے ڈائریکٹ سیکھا ہے لہذا اس کو حفاظت اور امانت داری کے ساتھ دوسروں تک پہچاؤ۔ یہاں دین کے سلسلے میں امانت داری بہت اہم چیز ہے ۔ یہی امانت داری ہے جس کی وجہ سے انسان بہت سی خطاؤں سے محفوظ رہتا ہے۔ اور بہت سی برائیوں اور خواہشات نفسانی میں مبتلا ہونے سے بچ جاتا ہے ۔قرآن مجید بعض خیانت کاروں کے حوالے سے بیان فرماتا ہے کہ: «وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ حَتَّى إِذَا خَرَجُوا مِنْ عِنْدِكَ قَالُوا لِلَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ مَاذَا قَالَ آنِفًا أُولَئِكَ الَّذِينَ طَبَعَ اللَّهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ وَاتَّبَعُوا أَهْوَاءَهُمْ»؛ «اور ان میں سے کچھ افراد ایسے بھی ہیں جو آپ کی باتیں بظاہر غور سے سنتے ہیں اس کے بعد جب آپ کے پاس سے باہر نکلتے ہیں تو جن لوگوں کو علم دیا گیا ہے ان سے کہتے ہیں کہ انہوں نے ابھی کیا کہا تھا یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں پر خدا نے مہر لگادی ہے اور انہوں نے اپنی خواہشات کا اتباع کرلیا ہے»۔(سورہ ٔ محمد آیت ۱۶)۔
۴۔ جانشینی پیغمبراکرمؐ اور مسئلہ فدک اور مسلمانوں کی جانب سے اہل بیتؑ کے دیگر حقوق کے ضائع کرنے اور ان کی توہین و ہتک حرمت کے معاملے میں بھی یہی ہوا ہے پیغمبراکرمؐ نے کئی مرتبہ واضح طور پر مسلمانوں کے خصوصی اور عمومی مجمع میں اعلان فرمایا تھا۔ وصیت اور تاکید کی تھی کہ میرے بعد علیؑ میرے جانشین اور خلیفہ ہونگے۔ میرے بعد میرے اہل بیتؑ تمہارے لئے دین و دنیا کے تمام معاملات میں مرجع اور منبع ہونگے۔ تم ان کے حقوق، ان کی شان و عظمت کا لحاظ رکھنا۔ ان سے مودت و محبت رکھنا۔ لیکن مسلمانوں نے ان تمام تاکیدات کے باوجود پیغمبرؐ کی امانت میں خیانت سے کام لیا اور اپنے فرائض کو دوسروں تک پہچانے میں ناکام رہے۔ البتہ مسلمانوں میں بعض ایسے افراد بھی موجود تھے جنہوں نے پیغمبراکرمؐ کی باتوں کو اچھی طرح سنا، سمجھا اور لوگوں تک پہچانے میں تمام تر مشکلات و مصائب کا سامنا بھی کیا لیکن حق و ہدایت کا راستہ نہیں چھوڑا اور مذکورہ آیت کے بعد والی آیت کے مصداق قرار پائے جس میں ارشاد ہوتا ہے کہ: «وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زَادَهُمْ هُدًى وَآتَاهُمْ تَقْوَاهُمْ »؛ « اور جن لوگوں نے ہدایت حاصل کرلی خدا نے ان کی ہدایت میں اضافہ کردیا اور ان کو مزید تقویٰ عنایت فرما دیا».(سورہ ٔ محمد آیت ۱۶)۔