وصال نبیؐ کی کیفیت؟
«… ثُمَّ قَبَضَهُ اللَّـهُ اِلَیهِ قَبْضَ رَأْفَةٍ وَ اخْتِیارٍ، وَ رَغْبَةٍ وَ ایثارٍ، فَمُحَمَّدٌ صَلَّی اللَّـهُ عَلَیهِ و الِهِ مِنْ تَعَبِ هذِهِ الدَّارِ فی راحَةٍ، قَدْ حُفَّ بِالْمَلائِكَةِ الْاَبْرارِ وَ رِضْوانِ الرَّبِّ الْغَفَّارِ، وَ مُجاوَرَةِ الْمَلِكِ الْجَبَّارِ، صَلَّی اللَّـهُ عَلی أَبی نَبِیهِ وَ اَمینِهِ وَ خِیرَتِهِ مِنَ الْخَلْقِ وَ صَفِیهِ، وَ السَّلامُ عَلَیهِ وَ رَحْمَةُاللَّـهِ وَ بَرَكاتُهُ…»
«پھر اللہ نے اپنی مہربانی سے ان کو ان کے اختیار اور رغبت اور ایثار کے ساتھ اپنی طرف بلا لیا۔ چنانچہ محمد مصطفیٰ اس دنیا کی زحمتوں سے چھوٹ کر آرام اور راحت میں پہنچ گئے۔ انہیں ملائکہ ابرار گھیرے رہتے ہیں اور رب غفاّر کی رضا نہیں اپنی آغوش میں لیے ہوئے ہے اور وہ جبّار بادشاہ کی ہمسائگی سے بہرہ اندوز ہیں۔ خداوند عالم درود نازل کرے میرے پدر بزگوار پر جو اس کے پیغمبر اور اس کی وحی پر اس کے امین تھے اور اس کی مخلوقات میں اس کے برگزیدہ، منتخب اور پسندیدہ تھے۔ ان پر خدا کا سلام اور اس کی رحمت اور برکتیں نازل ہوں»۔
اہم پیغامات:
حضرت فاطمہ زہراؑ نے اپنے خطبہ فدک میں پیغمبراکرمؐ کی بعثت و رسالت سے پہلےجزیرہ ٔعرب کے دینی اور مذہبی حالات اور بعثت کے بعد آنحضرت ؐ کے ذریعہ انجام پانے والے الہی وظائف کے بعد اس دنیا سے آپ ؐکے رخصت ہوکر بارگاہ الہی میں پہنچنے کی کیفیت کا ذکر فرمایا ۔ اس ضمن میں شہزادیؑ نے متعدد اہم باتوں کی طرف اشارہ فرمایا جن کی مختصر وضاحت یہاں پیش کی جارہی ہے:
۱۔ اللہ تعالیٰ نے جب پیغمبراکرمؐ کی روح قبض کی تھی تو اللہ تعالیٰ کی مہربانی و رحمت آپ کے شامل حال تھی۔ اسی طرح آنحضرتؐ کو اختیار دیا گیا تھا، کسی قسم کی کوئی زبردستی نہیں تھی، اسی طرح آپؐ شوق و رغبت کے ساتھ بارگاہ الہی میں حاضر ہونا چاہتے تھے جیسا کہ خود روایت کے مطابق ملک الموت دروازے پر اجازت کے لئے منتظر رہا جب تک کہ جناب سیدہؑ کی جانب سے اجازت نہیں مل گئی اندر داخل نہیں ہوا تھا(انوار البهیة، ص 17 – 16)۔ اسی طرح ایک دوسری روایت کے مطابق خداوندمتعال نے آنحضرتؐ کی رحلت سے تین دن پہلے ہی سےجناب جبرئیلؑ اور ان کے ساتھ دوسرے فرشتوں کو بھیجنے شروع کردیا تھا تاکہ ملایمت اور مہربانی کے ساتھ آنحضرتؐ کا حال پوچھے ۔ آخری دن جناب جبرئیلؑ ملک الموت اور ستر ہزار فرشتوں کے ساتھ آئے اور عرض کیا کہ: “یا احمد هذا ملک الموت یستاذن علیک، ولم یستاذن علی آدمی قبلک، ولا یستاذن علی آدمی بعدک…” اے احمدؐ یہ عزرائیل آپ سے اجازت طلب کررہا ہے، آپ سے پہلے کسی سے انہوں اجازت طلب نہیں کی اور آپ کے بعد بھی کسی سے اجازت نہیں طلب کرے گا۔ آنحضرتؐ نے فرمایا: اس کو اجازت ہے۔ اس کے بعد عزرائیل آئے اور آنحضرتؐ کے سامنے کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یارسول اللہؐ! اے احمدؐ! اللہ تعالیٰ نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے اور حکم دیا ہے جو بھی آپ کا فرمان ہو اس کی اطاعت کروں۔ اگر آپ حکم کریں تو آپ کی روح کو قبض کروں گا اور اگر آپ منع کریں تو آپ کو آپ کے حال پر چھوڑ دوں گا اور آپ کی روح قبض نہیں کروں گا۔رسول اکرمؐ نے فرمایا: جو بھی حکم میرے لئے ہو اس کو انجام دو۔ عزرائیل نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ جو حکم آپ دیں گے وہی انجام دوں گا۔ اس وقت جناب جبرئیلؑ نے عرض کیا: اے احمدؐ! اللہ تعالیٰ آپؐ کو اپنی بارگاہ میں بلانا چاہتا ہے۔ اس کے بعد پیغمبرؐ کے حکم سے عزرائیل نے روح قبض کی ۔ اس حالت میں کہ جبرئیلؑ عرض کر رہے تھے کہ: “خدا کا سلام ہو آپ پر یا رسول اللہؐ! میں آج آخری بار زمین پر قدم رکھ رہا ہوں۔ اس کے بعد زمین پر نہیں آؤں گا اس لئے کہ زمین پر میرے آنے کا ہدف و مقصد ہی آپ کا مقدس وجود تھا اور آج جب آپ دنیا سے سرائے آخرت کی طرف جارہے ہیں لہذا مجھے زمین پر آنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔اور آخرکار رسول اکرمؐ نے دنیا کو الوداع کہہ دیا” (الطبقات الکبری ابن سعد، ج۲، ص۲۵۸-۲۵۹؛ البدایة و النهایة ابن کثیر، ج۵، ص۲۹۷ ؛ کنز العمال متقی هندی، ج۷، ص۲۵۰-۲۵۱ وغیره)۔
2- شہزادی فاطمہ زہراؑ نے اپنے بیان میں ارشاد فرمایا کہ میرے بابا نے ایثار کے ساتھ اس دنیا کو ترک فرمایا یعنی دنیا کو آخرت پر ترجیح دی اس کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرتؐ اگر چاہتے تو اس دنیا میں اور بھی زندہ رہ سکتے تھےجیسا کہ مذکورہ روایت میں بھی آیا ہے۔ لیکن آپؐ نے دنیاوی زندگی کو خیر باد کہا اور دنیائے ابدی کی طرف روانہ ہوگئے اور ظاہری طور پر اس دنیا کی تمام مشکلات اور مصائب سے راحت پاگئے اس لئے کہ دنیا والوں نے آپ ؐ کو بہت ہی آزار و اذیتوں میں مبتلا کیا تھا جیسا کہ خود آنحضرت ؐ نے اس سلسلے میں فرمایا کہ: «مَا أُوذِی نَبِی مِثْلَ مَا أُوذِیتُ» کوئی نبی میرے برابر ستایا نہیں گیا۔(بحارالانوار مجلسی، ج۳۹، ص۵۶) اس کے علاوہ نبیؐ جانتے تھے کہ میرے اس دنیا سے جاتے ہی میری امت میرے اہل بیتؑ کے ساتھ کیا سلوک و برتاؤ کرے گی۔ لہذا جو نبیؐ لوگوں کے لئے رحمت اور باعث ہدایت بن کر آیا تھا۔ ان کی ہدایت اور نجات کے لئے تمام تر کوششیں کرتا تھا، مشکلات برداشت کرتا تھا۔ اس کو لوگوں نے زندگی میں بھی بہت ستایااور وہ جاتے وقت بھی فکری طور آنے اہل بیتؑ کے لئے رونما ہونے والےحوادث و حالات اور مصائب کے لئے پریشان تھا اور اگر آپؐ زندہ رہتے اور زندگی کو ترجیح دیتے تو شاید اتنے مصائب ڈھانے کی کسی میں جرائت نہ ہوتی۔ لیکن پھر بھی آپ نے ایثار و قربانی سے کام لیا اور مرضی معبود کو انتخاب کیا اور بارگاہ الہی میں حاضری کے لئے راضی ہوگئے۔
۳۔ شہزادیؑ نے بارگاہ الہی میں پیغمبرؐ کی حالت کا بھی ذکر فرمایا کہ میرے باباؑ وہاں بہت عظیم الشان مقام کے حامل ہیں۔آپؐ رحمت الہی کی آغوش میں ہیں۔ فرشتے ہمیشہ آپؐ کو اپنے گھیرے میں لئے رہتے ہیں۔ رضوان و قرب الہی کے لحاظ سے آپ کو سب سے عظیم مرتبہ حاصل ہے۔
۴۔ شہزادی نے آخر میں اپنے بابا کے لئے درود و سلام کی دعا کرتے ہوئے دوبارہ آپ ؐ کے عظیم مقامات کی طرف اشارہ فرمایا کہ آنحضرتؐ، اللہ کے رسول تھے۔ اس کی وحی کے امین تھے۔ مخلوقات میں سب سے افضل و برتر تھے۔ اللہ نے آپ کا انتخاب فرمایا تھا اور آپؐ ہی اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ تھے۔ شہزادیؑ کے خطبے کے اس حصے میں جن صفات و فضائل کی جانب اشارہ کیا گیا ہے یہ خود اپنے باب میں بہت تفصیل رکھتے ہیں۔ آیات و روایات میں اس سلسلے میں بہت سے مطالب کا ذکر ہوا ہے لیکن یہاں اختصار کے سبب ذکر نہیں کیا گیا ہے۔