احادیثاسلامی معارف

فاطمہ زہراؑ کا درد دل اور خطبہ فدکیہ (6)

عصر جاہلیت کے حالات؟

عصر جاہلیت کے حالات؟

«… فَرَأَی الْاُمَمَ فِرَقاً فی اَدْیانِها، عُكَّفاً عَلی نیرانِها، عابِدَةً لِاَوْثانِها، مُنْكِرَةً للَّـهِ مَعَ عِرْفانِها. فَاَنارَ اللَّـهُ بِاَبی مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّـهُ عَلَیهِ و الِهِ ظُلَمَها، وَ كَشَفَ عَنِ الْقُلُوبِ بُهَمَها، وَ جَلی عَنِ الْاَبْصارِ غُمَمَها، وَ قامَ فِی النَّاسِ بِالْهِدایةِ، فَاَنْقَذَهُمْ مِنَ الْغِوایةِ، وَ بَصَّرَهُمْ مِنَ الْعِمایةِ، وَ هَداهُمْ اِلَی الدّینِ الْقَویمِ، وَ دَعاهُمْ اِلَی الطَّریقِ الْمُسْتَقیمِ…»

جب آپؐ مبعوث ہوئے تو آپ نے امتوں کو مذاہب کی ٹکڑیوں میں بٹا ہوا دیکھا۔ ان میں سے کچھ امتیں آتش پرستی پر مائل تھیں، کچھ امتیں بت پرستی میں مبتلا تھیں اور کچھ لوگ خدا کی ہستی کو پہچان کر بھی اس کا انکار کر رہے تھے۔ پس خداوند عالم نے میرے والد محمدمصطفیٰؐ کے سبب ان کی تاریکیوں کو روشن کر دیا۔ دلوں سے جہالتوں کو کھول دیا اور آنکھوں سے پردے اٹھا دئیے۔ آپ لوگوں میں ہدایت کے ساتھ کھڑے ہوئے اور انہیں گمراہی سے نکالا۔ وہ اندھے تھے آپ نے انہیں آنکھیں عطا کیں، انہیں دین قیم کی طرف رہبری کی اور انہیں صراط مستقیم کی طرف دعوت دی۔

اہم پیغامات:

حضرت فاطمہ زہراؑ نے اپنے خطبہ فدک میں پیغمبراکرمؐ کے سلسلے میں بعثت و رسالت کے  اہم مقاصد و اہداف کی طرف اشارہ کرنے کے بعد عرب کی دینی اور مذہبی پراکندگی کا ذکر اور عصر جاہلیت کے حالات  کی طرف اشارہ  فرمایا۔ جن کے بارے میں یہاں مختصر طور پر وضاحت پیش کی جارہی ہے:

۱۔ عربوں میں بعثت پیغمبراکرمؐ سے پہلے توحید پرستی اور خدائے یکتا پر ایمان رکھنے والے  بہت کم تھے۔ اکثریت ان لوگوں کی تھی جو جمادات و نباتات و حیوانات یا اپنے جیسے انسانوں کی عبادت و پرستش کیا کرتے تھے۔ بت،مٹی، لکڑی، پتھر،  آگ، چاند، سورج، ستارے، گای، انسان وغیرہ کے مجسموں کی عبادت ہوا کرتی تھی، اور جو اہل کتاب یہودی اور عیسائی اپنے آپ کو خداپرست مانتے تھے ان میں بھی بہت کم تھے جو حقیقی طور پر اللہ کے دین کے مطابق چلتے تھے اکثریت ان لوگوں کی تھی جنہوں نے آسمانی کتابوں اور دین و شریعت الہی میں تحریف کردی تھی یا اپنی خواہشات کے مطابق تحریف کردیتے تھے اور مادی اور دنیاوی منافع کے لئے دین و احکام الہی کا سودا کردیا کرتے تھے۔یہاں تک کہ یہودیوں اور عیسائیوں کے بڑے بڑے پادری اور علماء خود بعثت پیغمبراکرمؐ سے پہلے شدّت سے انتظار کیا کرتے تھے لیکن جیسے ہی اعلان ہوا اور پیغمبرؐ کی دعوت شروع ہوئی سب سے بڑے دشمن وہی لوگ بن گئے تھے جیساکہ قرآن کریم کا ارشاد ہے کہ: «الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَهُمْ وَإِنَّ فَرِيقًا مِنْهُمْ لَيَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ»؛ وہ لوگ جن کو ہم نے آسمانی کتاب دی  یہ لوگ   ان (محمدؐ) کو اسی طرح پہچانتے ہیں جیسے اپنی اولاد کو پہچانتے ہیں بیشک ان میں سے ایک گروہ حق کو چھپاتے ہیں جب کہ وہ اس کے بارے میں علم رکھتے ہیں( بقرہ، آیت۱۴۶)۔

۲۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب بعثت پیغمبراکرمؐ سے پہلے عربوں میں اکثر لوگ خداپرست نہیں تھے اور بت پرستی وغیرہ میں مبتلا تھے تو کیا پیغمبرؐ کے اجداد بھی غیر خدا کو مانتے تھے؟ جیسا کہ بعض جاہل اور دنیاوی مقاصد و اغراض میں مبتلا مورخین نے پیغمبراکرمؐ کے اجداد اور خانوادے کے بعض افراد کو غیرمومن بیان کیا ہے۔  اس سوال کا جواب ہے خود پیغمبراکرمؐ اور اہل بیت اطہارؑ کی متعدد حدیثوں میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ خداوندمتعال نے حضرت آدمؑ سے لے کر آخر تک پیغمبراکرمؐ کو پاک و پاکیزہ اصلاب میں رکھا ہے اور آپؐ کے اجداد اور نزدیکی رشتہ داروں کے بارے میں غیر مومن ہونے کے بارے میں جو بھی دعویٰ کیا جاتا ہے وہ بالکل غلط ہے۔ جیسا کہ حضرت امیرالمومنینؑ نے پیغمبروںؑ  خاص طور پر پیغمبراکرمؐ کے بارے میںفرمایاکہ: « فَاسْتَوْدَعَهُمْ فِي أَفْضَلِ مُسْتَوْدَعٍ وَ أَقَرَّهُمْ فِي خَيْرِ مُسْتَقَرٍّ تَنَاسَخَتْهُمْ كَرَائِمُ الْأَصْلَابِ إِلَى مُطَهَّرَاتِ الْأَرْحَامِ كُلَّمَا مَضَى مِنْهُمْ سَلَفٌ قَامَ مِنْهُمْ بِدِينِ اللَّهِ خَلَفٌ … »؛ خداوندمتعال نے پیغمبروںؑ کو بہترین سونپے جانے کی جگہوں میں رکھا اور بہترین ٹھکانوں میں ٹھہرایا۔ وہ بلند مرتبہ صلبوں سے پاکیزہ شکموں کی طرف منتقل ہوتے رہے جب ان میں سے کوئی دنیا سے چلا گیا تو دوسرے کو دین خدا کو آگے بڑھانے کے لئے قرار دیا یہاں تک کہ یہ الہی شرف حضرت محمدؐ تک پہنچا جنہیں ایسے معدنوں سے کہ جو پھلنے پھولنے کے اعتبار سے بہترین اور ایسی صلبوں سے کہ جو نشو و نما کے لحاظ سے بہت باوقار تھیں، پیدا کیا۔ اس شجرے سے کہ جس سے انبیاءؑ پیدا کئے اور جس میں سے اپنے امین  منتخب فرمائے۔ ان کی عزت بہترین عزت اور قبیلہ بہترین قبیلہ اور شجرہ بہترین شجرہ ہے… آپؐ پرہیزگاروں کے امام، ہدایت حاصل کرنے والوں کے لئے سرچشمہ بصیرت ہیں(نہج البلاغہ، خطبہ ۹۲ یا ۹۴)۔

۳۔  شہزادی کائنات حضرت فاطمہ زہراؑ نے اپنے خطبہ کے مذکورہ حصے میں عربوں کی حالت کا ذکر فرمایا کہ وہ ادیان و مذاہب کے لحاظ سے بدترین حالت میں تھے۔ انسانوں کو اپنے حقیقی خالق و مالک کی عبادت کرنا چاہئے لیکن عرب کے لوگ پستی اوربدبختی کے اعتبار سے ایک دوسرے سے برتری رکھتے تھے۔ کچھ انسانوں کی عبادت کرتے تھے تو کچھ ان سے بدتر جانوروں کو اپنا معبود مانتے تھے۔ کچھ ان سے بدتر  جمادات آسمانی کو خدا مانتے تھے اور  کچھ ان سب سے بدتر حالت میں تھے اور جمادات زمینی جیسے آگ پتھر وغیرہ کو خدا مانتے تھے اور حالت یہ تھی ہر قبیلے اور خاندان کا اپنا الگ معبود تھا۔ اس بدترین حالت میں گرفتار لوگوں کو جب پیغمبراکرمؐ نے دیکھا تو الہی پیغامات کی روشنی میں ان کو اس جاہلیت سے نکالنے کا کام شروع کیا اور بہت کم عرصہ میں جس عرب میں خداپرستی کا نام و نشان نہیں تھا وہاں خداپرستی اور توحید کا ایسا پرچم لہرایا کہ لوگ فوج در فوج اسلام لے آئے اور ایک مضبوط اسلامی حکومت اور معاشرہ وجود میں آگیا۔ جس کے بارے میں شہزادیؑ نے بیان فرمایا کہ: “خداوند عالم نے میرے والد محمدمصطفیٰؐ کے سبب ان کی تاریکیوں کو روشن کر دیا۔ دلوں سے جہالتوں کو کھول دیا اور آنکھوں سے پردے اٹھا دئیے۔ آپ لوگوں میں ہدایت کے ساتھ کھڑے ہوئے اور انہیں گمراہی سے نکالا۔ وہ اندھے تھے آپ نے انہیں آنکھیں عطا کیں، انہیں دین قیم کی طرف رہبری کی اور انہیں صراط مستقیم کی طرف دعوت دی”۔

۴۔ حضرت فاطمہ زہراؑ کے مذکورہ جملات کی روشنی میں بعثت پیغمبراکرمؐ کے اہداف و مقاصد کے دوسرے جزئیات کا بھی علم ہوتا ہے کہ آنحضرتؐ  لوگوں کے دلوں ، ذہنوں اور افکارکو خدا کی طرف متوجہ کرنے،  ان کو شیطان کے چنگل سے آزاد کرنے اور صراط مستقیم پر گامزن  کرنے  کے لئے آئے تھے۔

۵۔ حضرت فاطمہ زہراؑ نے بعثت پیغمبراکرمؐ کے اہداف و مقاصد اور اس کے آثار کا اپنے خطبہ میں ذکر کرکے مسجد میں موجود حاضرین اور تمام مخاطبین کو شاید پیغام دینا چاہا کہ دیکھو، سمجھواور غور کرو کہ میرے باباؐ جس جاہلیت اور گمراہی سے تمہیں نکالنے آئے تھے۔ اور شیطانی کاموں سےتمہیں رہائی عطاکرنے کا کام کیا تھا۔ آج تمہیں کیا ہوگیاہے  کہ تم دوبارہ عصر جاہلیت میں پلٹ رہے ہو۔ کیوں تم صراط مستقیم سے بھٹک رہے ہو۔

متعلقہ مضامین

تبصره کریں

Back to top button
×