اسلامی معارف

فاطمہ زہراؑ کا درد دل اور خطبہ فدکیہ (4)

بعثت پیغمبراکرمؐ کا مقصد؟ (1)

بعثت پیغمبراکرمؐ کا مقصد؟ (1)

«… وَ اَشْهَدُ اَنَّ اَبی مُحَمَّداً عَبْدُهُ وَ رَسُولُهُ، اِخْتارَهُ وَ انْتَجَبَهُ قَبْلَ أَنْ اَرْسَلَهُ، وَ سَمَّاهُ قَبْلَ اَنْ اِجْتَباهُ، وَ اصْطَفاهُ قَبْلَ اَنْ اِبْتَعَثَهُ، اِذ الْخَلائِقُ بِالْغَیبِ مَكْنُونَةٌ، وَ بِسَتْرِ الْاَهاویلِ مَصُونَةٌ، وَ بِنِهایةِ الْعَدَمِ مَقْرُونَةٌ، عِلْماً مِنَ اللَّـهِ تَعالی بِمائِلِ الْاُمُورِ، وَ اِحاطَةً بِحَوادِثِ الدُّهُورِ، وَ مَعْرِفَةً بِمَواقِعِ الْاُمُورِ … »

«… اور میں گواہی دیتی ہوں کہ میرے والد بزرگوار حضرت محمدؐ، اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں جنہیں اس نے رسول بنا کر بھیجنے سے پہلے مختار اور ممتاز بنایا اور انہیں مبعوث کرنے سے پہلے ہی انبیاء کو ان کے نام سے واقف کر دیا اور انہیں درجہ رسالت پر فائز کرنے سے پہلے ہی اصطفاء کی منزل پر فائز کر دیا تھا۔ اس وقت ساری مخلوق غیب کے حجابوں میں پوشیدہ تھی اور ہولناک پردوں میں چھپی تھی اور انتہائے عدم و نیستی سے متصل تھی۔ یہ سب اس لیے تھا کہ خداوند عالم کو انجام امور کی خبر تھی اور اس کا علم حوادث زمانہ کا احاطہ کیے ہوئے تھا اور مقداروں کے مواقع کو وہ پہچانتا تھا… »۔

اہم پیغامات:

حضرت فاطمہ زہراؑ نے اپنے خطبہ فدک میں کائنات کی خلقت اور اس کے ہدف و مقصد کے بعد نبوت و بعثت پیغمبراکرمؐ کے سلسلے میں متعدد مطالب کے بارے میں اشارہ کرتے ہوئے اپنے مختصر بیان میں بہت سے عقیدتی اور تاریخی امور  کا ذکر فرمایا؛ یہاں بعض باتوں کو بیان کیا جارہا ہے:

۱۔ خداوندمتعال کے وجود اورتوحید کی گواہی کے بعد اسلام میں سب سے اہم گواہی پیغمبراکرمؐ کی نبوت کی گواہی ہے۔ توحید اور نبوت کی گواہی اسلام کے اظہار کا ابتدائی طریقہ ہے۔

۲۔ پیغمبرؐ کی “رسالت” کی گواہی سے پہلے آپ کے “عبودیت” کی گواہی  دی جاتی ہے اور یہ گواہی مسلمانوں کے لئے اذان و نماز و کلمہ شہادت اور دیگر موقعوں پر ضروری ہے یعنی پہلے پیغمبراکرمؐ کے بندہ خدا ہونے کی گواہی دی جائے پھر آپ کے رسول ہونے کی گواہی دی جائے۔ اس باب سے معلوم ہوتا ہے کہ عبودیت اور بندگی کا مقام بہت بلند ہے، اس لئے کہ یہی وہ مقام ہے جس کی بنیاد پر انسان اللہ تعالیٰ سے بہت نزدیک پہنچ سکتا ہے جیسا کہ آنحضرتؐ کو جب معراج کی سیر کروائی گئی اور اللہ تعالیٰ نے مقام قرب تک پہنچایا تو آپ کو اسی مقام عبودیت کے ذریعہ یاد کیا گیا اور ارشاد ہوا کہ: «سُبْحانَ الَّذی اَسْری بِعَبْدِهِ لَیلاً مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرامِ إِلَی الْمَسْجِدِ الْأقْصی» پاک و پاکیزہ ہے وہ ذات جس نے راتوں رات اپنے بندے کو مسجد الحرام سے مسجد الاقصی کی سیر کروائی(سورہ اسراء، آیت۱)۔

۳۔ پیغمبراکرمؐ کے بارے میں صحیح عقیدہ یہ ہے کہ ظاہری طور پر آپ کی خلقت اور نبوت و رسالت سے پہلے  آنحضرتؐ کی نورانی خلقت ہوچکی تھی اور آپ اسی وقت سے نبی و رسول تھے۔ جیسا کہ پیغمبراکرمؐ کی مشہور حدیث میں آیا ہے کہ: «كُنْتُ نَبِيّاً وَ آدَمُ بَيْنَ اَلْمَاءِ وَ اَلطِّينِ» میں اس وقت بھی نبی تھا جب جناب آدمؑ مٹی اور پانی کے درمیان تھے (المناقب  ج۱ ص۲۱۴)۔

۴۔ خداوندمتعال نے اپنی تمام مخلوقات میں، خاص طور پر تمام نبیوں، پیغمبروں اور ہادیوں میں سے پیغمبراکرمؐ کو سب سے برتر اور بہترین بنایا اور آپ ہی کا انتخاب کیا۔ اس بات کو شہزادیؑ نے دو لفظوں کے ذریعہ بیان فرمایاکہ «اِخْتارَهُ وَ انْتَجَبَهُ» آپ کو اختیار کیا اور ممتاز بنایا۔ یہاں دونوں لفظ ظاہری طور پر انتخاب ہی کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں لیکن دونوں لفظوں کے ایک ساتھ استعمال اور اس کے معنی پر دقت کرنے سے معلوم ہوتا ہے پیغمبراکرمؐ کا انتخاب کوئی عام شخص یا عام چیز کے انتخاب کی طرح نہیں تھا بلکہ جس طرح کوئی بہترین سے بہترین پھولوں کے باغ میں پہنچتا ہے اور وہاں سے کسی ایک پھول کا انتخاب کرتا ہے تو بہت ہی دقّت کرتا ہے اور اس کے بعد جو پھول پورے باغ میں سب سے اچھا اور سب سے بہترین ہوتا ہے اس کا انتخاب کرتا ہے۔ اسی طرح خداوندمتعال نے تمام پیغمبروں، نبیوں اور اپنے بندوں میں سے جو سب سے بہترین و برترین شخص تھا اس کا انتخاب کیا اور وہ ہمارے آخری پیغمبر حضرت محمد مصطفی ؐ کی ذات گرامی ہے۔

۵۔ الہی انتخاب کے ساتھ ساتھ خداوندمتعال نے خود پیغمبراکرمؐ کے نام کا بھی انتخاب فرمایا اور پھر آپؐ کے نام اور آپؐ کی شخصیت اور نبوت کا اعلان فرمایا اور خود ظاہری طور پر نبوت و بعثت سے پہلے ہی تمام پیغمبروںؑ اور نبیوں ؑ کے لئے آپ کو پہچنوایا گیا تھا۔ اس سلسلے میں قرآن مجید کی متعدد آیات اور بہت سی احادیث بھی وارد ہوئی ہیں۔

۶۔ خداوندمتعال کی جانب سے آنحضرتؐ کے آخری پیغمبرؐ کے عنوان سے انتخاب کا ہدف اور مقصد بھی بہت عظیم تھا  جس کے بارے میں شہزادیؑ فرماتی ہیں کہ:  “اللہ تعالیٰ نے آنحضرتؐ کو اپنے امر ہدایت کو تمام کرنے اور اپنے حکم کو جاری کرنے کی مضبوطی اور حتمی اور طے شدہ  امور کو نافذ کرنے کیلئے مبعوث فرمایا”۔

۷۔ شہزادیؑ نے جویہاں پیغمبراکرمؐ کے انتخاب کے بارے میں ذکر فرمایا ہے اس کی روشنی میں یہ سوال پیداہوتا ہے کہ جب تمام مخلوق  پردہ ٔ عدم میں تھی۔ اور سب کچھ تاریکی اور اندھیرے میں تھا تو پھر آنحضرت ؐ کا انتخاب کیسے ہوا اور اس کا کیا فائدہ تھا؟ اس سوال کا جواب خود شہزادیؑ نے مختصر طور پر یہاں بیان فرمایا ہے جس کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ:  کائنات کی  تمام موجودات  ظاہری اور خارجی وجود سے پہلے  خداوندمتعال کے علم میں تھیں اور وہ تمام مخلوقات کے بارے میں سب کچھ وہ جاننے والا ہے لہذا  اس کے نزدیک یہ بات معلوم تھی کہ یہ مخلوق کا قافلہ خاص طور پر بندوں کا قافلہ کہاں تک پہنچے گا اور ان میں سے کون بندہ کس لائق ہوگا۔ خداوندعالم تمام امور کے انجام  اورتمام حوادث اور ان کی مقدار کو بھی وہ جانتا تھا۔ اسی طرح تمام انسانوں کے بارے میں تمام چیزیں اس کے علم میں تھیں لہذا اللہ تعالیٰ نے  آنحضرتؐ کو  آخری پیغمبرؐ اور سب سے بہترین مخلوق کے عنوان منتخب فرمایا۔ لہذا یہاں بہترین فرد کے انتخاب کے لئے تمام مخلوقات کا خارجی طور پر موجود ہونا بھی ضروری نہیں تھا چونکہ پیغمبراکرمؐ کا انتخاب ابتداء میں علم الہی کے ذریعہ ہوا تھا۔

خلاصہ یہ ہے تمام مخلوقات میں صرف پیغمبراکرمؐ ہی کی ذات تھی جو نگاہ پروردگار میں آئی  تھی لہذارسالت و نبوت کے عظیم منصب کے لئے  آپ ؐ ہی کا انتخاب عمل میں آیا اسی لئے خداوندعالم نے حدیث  قدسی میں بھی پیغمبراکرمؐ کو خطاب کرکے فرمایا ہے کہ: «لَوْلاکَ لَما خَلَقْتُ الافْلاکَ»؛ اے پیغمبرؐ! اگر آپؐ کو خلق کرنا مقصود نہ ہوتا تو اس کائنات کو خلق نہ کرتا. (بحارالانوار، ج ۱۶، ص ۴۰۵)۔

متعلقہ مضامین

تبصره کریں

Back to top button
×