احادیثاسلامی معارف

قرآن و اہل بیتؑ کی تنہائی (2)

فاطمہ زہراؑ کا درد دل اور خطبہ فدکیہ (21)

قرآن و اہل بیتؑ کی تنہائی (2)

«… ثُمَّ لَمْ تَلْبَثُوا إِلاَّ أَنْ تَسْکُنَ نَفْرَتُها وَ یَسْلَسَ قِیادُها، ثُمَّ اَخَذْتُمْ تُورُونَ وَ قْدَتَها، وَ تُهَیجُونَ جَمْرَتَها، وَ تَسْتَجیبُون لِهُتافِ الشَّیطانِ الْغَوِیِّ، وَ اِطْفاءِ اَنْوارِالدّینِ الْجَلِی، وَ إهْمادِ سُنَنِ النَّبِیِّ الصَّفِی، تَشْرَبُونَ حَسْواً فِی ارْتِغَاءٍ، وَ تَمْشُونَ لِاَهْلِهِ وَ وَلَدِهِ فِی الْخَمَرِ وَ الضَّرَّاءِ، وَ نَصْبِرُ مِنْكُمْ عَلی مِثْلِ حَزِّ الْمَدی، وَ وَخْزِ السِّنانِ فِی الْحَشَا…»

«… پھر تم نے اتنی تاخیر نہ کی کہ نفرت ذرا کم ہو جاتی اور اس پر قابو پانا آسان ہو جاتا۔ پھر تم نے اس آگ کے شعلوں کو بھڑکانا شروع کر دیا اور اس کی چنگاریاں تیز کرنے لگے اور تم شیطان گمراہ کی آواز پر لبیک کہنے اور خدا کے روشن دین کے بجھانے اور برگزیدہ پیغمبرؐ کی سنتوں کو مٹانے پر کمر بستہ ہو گئے۔ تم جھاگ کے بہانے خاموشی سے دودھ پینے لگے اور رسول خدا ؐکے اہل بیتؑ اور اولاد کے خلاف گنجان درختوں اور جھاڑیوں میں چھپ کر چال چلنے لگے اور ہم لوگ تمہارے افعال پر یوں صبر کرنے لگے جیسے کوئی چھری کی کاٹ پر اور نیزے کے سینے میں پیوست ہونے پر صبر کرتا ہے…»۔

اہم پیغامات:

شہزادی کائناتؑ نے اپنے خطبہ فدک کے اس حصہ میں بھی قرآن و اہل بیتؑ کی تنہائی کا ذکر کرتے ہوئے غصب خلافت کے لئے منافقین کی جلد بازی اور اس کے نتیجہ میں وجود میں آنے والے حالات و خطرات کا  ذکر فرمایا۔ جن میں سے بعض اہم مطالب کی مختصر وضاحت یہاں پیش کی جارہی ہے:

۱۔  ثُمَّ لَمْ تَلْبَثُوا إِلاَّ أَنْ تَسْکُنَ نَفْرَتُها وَ یَسْلَسَ قِیادُها۔ شہزادی کائناتؑ نے ان جملات میں غاصبان خلافت کی عجلت اور جلدبازی کا ذکر فرمایا کہ تم لوگوں نے شیطانی دعوت کے مقابلے بالکل بھی صبر نہیں کیا۔ پیغمبراکرمؐ کی تجہیز و تکفین و تدفین کا بھی انتظار نہیں کیا۔ فتنے کا بہانہ لے کر خود فتنے میں گرفتار ہوگئے۔ یہاں لفظ ” نفر” کا استعمال ہوا ہے  جو جانور کے چمک جانے اور سوار ہوتے وقت غصہ ہوکر بگڑ جانے کے بارے میں استعمال ہوتا ہے ۔ یعنی لوگوں نے خلافت کے حصول کے لئے بالکل بھی صبر نہیں کیا اور بغیر کسی انتظار اور بغیر اہل بیتؑ  کی اطلاع اور انصار و مہاجرین کی اکثریت کو خبردار کئے بغیر ہی سقیفہ میں جمع ہوکر خلافت کی سواری پر سوار ہوگئے۔یہاں تک کہ خود سقیفہ میں تمہاری مخالفت ہوئی تھی۔ تمہارے درمیان جھگڑا ہوا تھا۔ مہاجرین و انصار میں مشاجرا ہوا تھا ۔ بہت سے لوگوں نے بیعت سے انکار کردیا تھا۔ لوگوں نے تمہارے خلاف دلائل بھی پیش کئے تھے۔ پھر تم لوگوں نے کسی کی بات نہیں سنی اور کسی مخالفت و دلیل کی پرواہ نہیں کی اور خلافت کی اونٹنی پر سوار ہوگئے۔ 

۲۔ ثُمَّ اَخَذْتُمْ تُورُونَ وَ قْدَتَها، وَ تُهَیجُونَ جَمْرَتَها وَ تَسْتَجیبُون لِهُتافِ الشَّیطانِ الْغَوِیِّ؛  شہزادی کائناتؑ نے یہاں خلافت کے غصب ہوتے ہوئے حکمران کے طریقہ کار کی جانب اشارہ فرمایا کہ  تم لوگوں  نے خلافت  غصب کرتے ہی شعلوں کو بھڑکانا شروع کردیا اور چنگاریوں کو تیز کردیا۔ یعنی جیسے  ہی تم اقتدار میں آئے ویسے ہی ظلم و ستم کرنا شروع کردیا۔ ہمارے حقوق کو غصب کرلیا جس میں فدک شامل ہے۔ ہم اہل بیتؑ  کے دروازے پر حملہ کیا۔ آگ لگائی۔ ہماری توہین کی… ۔  شہزادی کائناتؑ نے غصب خلافت میں عجلت اور خلافت پر پہنچتے ہی ظلم و ستم  کی اصلی وجہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بیان فرمایا کہ: وَ تَسْتَجیبُون لِهُتافِ الشَّیطانِ الْغَوِیِّ؛ یہ کام تم لوگوں نے شیطان کی طرف گمراہ کن دعوت پر لبیک کہنے کی وجہ سے انجام دیا ہے۔ تمہارے تمام اقدام شیطانی حرکت اور نفسانی خواہشات کی بنا پر تھے۔ تمہارے اندر  طاقت اور حکومت کی طلب تھی ۔تم لوگوں نے قرآن و اسلام کے احکام کو بھلا دیا ۔

۳۔  وَ اِطْفاءِ اَنْوارِالدّینِ الْجَلِی، وَ إهْمادِ سُنَنِ النَّبِیِّ الصَّفِی؛ شہزادی کائنات  ؑنے ان جملات میں سقیفہ کے نتیجہ میں وجود میں آنے والے حالات اور اسلام و قرآن کو پہنچنے والے نقصانات اور اس ناجوانمردانہ حرکت کے تخریبی آثار کا ذکر فرمایا ہے کہ  تم لوگوں نے  خدا کے روشن دین کو بجھانے کی کوشش کی  یعنی تم نے قرآنی اور اسلامی معیارات کو کنارے دیا۔ سنت پیغمبراکرمؐ کو فراموش کردیا ۔ اسلامی میعارات کی شکل بدل دی۔ لوگوں کو  راہ ہدایت اور راہ نجات سے منحرف کردیا اور آیت قرآنی کے مطابق «یریدُونَ اَنْ یطْفِؤُا نُورَ اللهِ» کے زمرے میں شامل ہوگئے(توبہ، آیت۳۲)۔

۴۔  تَشْرَبُونَ حَسْواً فِی ارْتِغَاءٍ، وَ تَمْشُونَ لِاَهْلِهِ وَ وَلَدِهِ فِی الْخَمَرِ وَ الضَّرَّاءِ؛ شہزادی کائناتؑ نے یہاں منافقوں کے طریقہ کاراور ان کے بہانوں  کا ذکرفرمایا کہ تم لوگوں نے آہستہ آہستہ خلافت کا مزہ چکھ لیا۔ ظاہری طور پر کہتے ہو کہ ہم تو صرف اسلام کی ترقی اور مسلمانوں کی بھلائی اور فائدے کے لئے حکومت پر آئے ہیں لیکن مخفی طور پر تم اسلام کو نقصان پہنچانے کا کام کررہے ہو۔ خفیہ طور پر تم خلافت کو ہمیشہ کے لئے اہل بیتؑ سے دور کرناچاہتے ہواور تمام امت اسلامیہ کو نقصان سے دوچار کرنا چاہتے ہو۔ اور تم ہمارے خلاف سازش کرنے میں مشغول ہو۔جیسا کہ  حضرت  امام صادقؑ  کی ایک روایت ہے  جس میں مفضل سے امام نے فرمایا کہ:  “جب سقیفہ  کا جلسہ ختم ہوا اور بیعت ہوگئی تو عمر بن خطاب نے ابوبکر بن ابی قحافہ سے کہا کہ خمس، فیء اور فدک کو اہل بیتؑ سے لے لو تاکہ ان کا ہاتھ اقتصادی اور مالی امور سے خالی ہوجائے۔ اور جب اہل بیتؑ  کا ہاتھ خالی ہو جائے گا اورتمہارا کا ہاتھ بھر جائے گا تو لوگ تمہارے پاس آئیں گے”۔   یہ وہی “شیطانی سیاست” ہے۔ یعنی وہ پوشیدہ طور پر اہل بیتؑ کے خلاف منصوبہ بنانے میں لگ گئے۔ اس طرح حضرت  فاطمہ زہراؑ  نے منافقین اور غاصبان خلافت کے حیلہ و چالبازیوں کے تذکرے کے ذریعہ ان کی نقابوں کو اتار دیا اور ان کے حقیقی عزائم و مقاصد کا پردہ فاش کردیا ۔ ان کی تمام ظاہری اور پوشیدہ چالوں کو برملا کردیا اور اس بات کا بھی اعلان فرمادیا کہ  تم  لوگ جو پیغمبرؐاور آپ کے اہل بیتؑ کے خلاف کام کررہے ہو۔ ان کو ہر گز چھپا نہیں سکتے ہو۔

۵۔  وَ نَصْبِرُ مِنْكُمْ عَلی مِثْلِ حَزِّ الْمَدی، وَ وَخْزِ السِّنانِ فِی الْحَشَا۔  اور ہم لوگ تمہارے افعال پر یوں صبر کرنے لگے جیسے کوئی چھری کی کاٹ پر اور نیزے کے سینے میں پیوست ہونے پر صبر کرتا ہے…»۔   حضرت فاطمہ زہراؑ  نے  یہاں منافقوں کی جانب سے  آنی والی مصیبتوں کے مقابلے  صبر کا اعلان فرمایا  یہاں  “مدی” کا مطلب ہے “چاقو کی کاٹ” اور “خزّ” کا مطلب ہے “کاٹنا اور ٹکڑے ٹکڑے کرنا”؛ یعنی ہم تمہارے مقابلے میں  ایسے ہی صبر کر رہے ہیں جیسے کہ کسی کے اعضاء بڑے چاقو سے کاٹ دیے جائیں اور اسے ضربیں لگائی جائیں، تو وہ بھی صبر کرتا ہے۔ شاید  شہزادی ؑ کے بیان  کا مقصد یہ ہے کہ تم میں سے ہر ایک نے چاقو اٹھا رکھا ہے اور ہمارے جگر پر ضربیں لگا رہے ہو  اور ہم  صبر کر رہے ہیں؛ یعنی ہم  تمہارے فاسد مقاصد اور ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوششوں سے باخبر ہیں لیکن اسلام کی حفاظت اور بقاء کے لیے صبر کر رہے ہیں۔جیسا کہ حضرت امام علیؑ نے بھی فرمایا کہ “فَرَأَیتُ أَنَّ الصَّبْرَ عَلی هاتا أَحْجی فَصَبَرْتُ وَ فِی الْعَینِ قَذًی وَ فِی الْحَلْقِ شَجاً أَری تُراثی نَهْباً”؛ یعنی میں نے دیکھا کہ صبر کرنا  ہی عقلمندی ہے لہذا میں نے صبر کیا، حالانکہ میری آنکھوں میں کانٹا تھا اور میرے گلے میں ہڈی اور میں نے اپنے ورثے کو لٹتا ہوا دیکھ رہا تھا”

(نہج البلاغہ، خطبہ ۳)۔

متعلقہ مضامین

تبصره کریں

Back to top button
×