قرآن و اہل بیتؑ کی تنہائی(۱)
«… هذا، وَ الْعَهْدُ قَریبٌ، وَالْكَلْمُ رَحیبٌ، وَ الْجُرْحُ لَمَّا ینْدَمِلُ، وَ الرَّسُولُ لَمَّا یقْبَرُ، اِبْتِداراً زَعَمْتُمْ خَوْفَ الْفِتْنَةِ، اَلا فِی الْفِتْنَةِ سَقَطُوا، وَ اِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحیطَةٌ بِالْكافِرینَ. فَهَیهاتَ مِنْكُمْ، وَ كَیفَ بِكُمْ، وَ اَنَّی تُؤْفَكُونَ، وَ كِتابُ اللَّـهِ بَینَ اَظْهُرِكُمْ، اُمُورُهُ ظاهِرَةٌ، وَ اَحْكامُهُ زاهِرَةٌ، وَ اَعْلامُهُ باهِرَةٌ، و زَواجِرُهُ لائِحَةٌ، وَ اَوامِرُهُ واضِحَةٌ، وَ قَدْ خَلَّفْتُمُوهُ وَراءَ ظُهُورِكُمْ، أَرَغْبَةً عَنْهُ تُریدُونَ؟ اَمْ بِغَیرِهِ تَحْكُمُونَ؟ بِئْسَ لِلظَّالمینَ بَدَلاً، وَ مَنْ یبْتَغِ غَیرَ الْاِسْلامِ دیناً فَلَنْ یقْبَلَ مِنْهُ، وَ هُوَ فِی الْاخِرَةِ مِنَ الْخاسِرینِ…».
“تمہارے کاموں کا یہ نتیجہ ہے کہ پیغمبرؐ سے کچھ دن پہلے کیا گیا عہد و پیمان توڑ دیا اور ابھی آنحضرتؐ کی جدائی کا زخم تازہ تھا اوروہ زخم مندمل بھی نہیں ہوا اور ابھی آپؐ دفن بھی نہیں ہوئے تھے کہ تم نے شیطانی کاموں کی طرف سبقت کرلی اورتمہیں فتنہ کا خوف پیدا ہو گیا حالانکہ تمہارا یہ گمان غلط تھا۔ آگاہ ہوجاؤ کہ تم خود فتنے میں گرفتار ہوگئے ہو۔ اور دوزخ کافروں کو گھیرے ہوئے ہے (سورہ توبہ، آیت۴۹)۔ مجھے تمہارے بارے میں تعجب ہے اور تمہیں کیا ہو گیا ہے اور تم حق سے منہ موڑ کر کہاں جا رہے ہو؟! جبکہ اللہ کی کتاب تمہارے درمیان موجود ہے۔ اس کے امور ظاہر و احکام روشن ہیں اور اس کی نشانیاں واضح وتنبیہات معلوم اور اوامر آشکار ہیں اور ایسی کتاب کو تم نے پس پشت ڈال دیا ہے۔ کیا اس سے نفرت کرتے ہو اور منھ موڑچکے ہو؟ یا قرآن کے علاوہ احکام جاری کرنے پر تل گئے ہو؟! اور ظالموں کیلئے ان کے ظلم کا برا بدلہ ہے اور جو کوئی اسلام کے علاوہ اپنے لیے کوئی اور دین تلاش کرے گا تو وہ اس سے ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں سے ہو گا(آل عمران، آیت۸۵)۔
اہم پیغامات:
شہزادی کائناتؑ نے اپنے خطبہ فدک کے اس حصہ میں فتنہ نفاق کا ذکر فرماتے ہوئے اس دوران تدفین پیغمبراکرمؐ کے وقت اہل بیتؑ کی تنہائی اور منافقین کی جانب سے قرآن کے واضح اور روشن فرامین کی نافرمانی یعنی قرآن و اہل بیتؑ کی تنہائی کا ذکر کرتے ہوئے متعدد مطالب کو بیان فرمایا۔ جن میں سے بعض اہم مطالب کی مختصر وضاحت یہاں پیش کی جارہی ہے:
۱۔«هذا وَ الْعَهْدُ قَریبٌ»؛ منافقین نے شیطانی دعوت پر لبیک کہنے اور اس کی سازشوں میں گرفتار ہونے میں اتنی جلدبازی کی کہ پیغمبر اکرمؐ کی تدفین و تکفین بھی نہیں ہوپائی تھی اور میدان غدیر میں اتنے بڑے اہتمام اور الہی تاکید کے ساتھ کیا گیا “عہد و پیمان” توڑ دیا ۔جس کے بارے میں شہزادیؑ نے منافقوں کے کاموں کے نتیجہ میں فرمایا: «هذا وَ الْعَهْدُ قَریبٌ»؛ جو عہد و پیمان مسلمانوں نے میدان غدیر میں کچھ ہی دن پہلے پیغمبراکرمؐ سے کیا تھا اور علی ؑ کی ولایت و امامت پر تم سب نے بیعت کی تھی اس کو آج توڑ دیا گیا۔ پیغمبرؐ نے واضح طور پر فرمایا تھا کہ: “مَنْ کُنْتُ مَوْلاهُ فهذا عَلی مَوْلاه”۔ جس کا بھی میں مولا ہوں اس کے یہ علیؑ مولا ہیں تو ابھی اس اعلان کو زیادہ دن بھی نہیں گزرے ہیں۔ تم نے تو خود علیؑ کے ہاتھوں پر بیعت کی تھی اور ان کو مبارک باد دی تھی اب تمہیں کیا ہوگیا کہ اس عہد کو توڑ دیا اور الہی امام کے مقابلے میں اپنی طرف سے خلیفہ بنالیا۔
۲۔ وَالْکَلْمُ رَحیبٌ وَ الْجُرْحُ لَمّا ینْدَمِلْ وَ الرَّسُولُ لَمّا یُقْبَرْ؛ شہزادی کائناتؑ نے اپنے بیان میں مزید مسلمانوں کی بدبختی اور محرومیت کا ذکر فرماتے ہوئے بیان کیا کہ منافقوں نے عہد پیغمبرؐ کو اس حال میں توڑا کہ ابھی آنحضرتؐ کی جدائی اور رحلت کا غم ہمارے دلوں میں تازہ ہی تھا اور آپؐ کی رحلت کا زخم ابھی مندمل بھی نہیں ہوا تھا یہاں تک کہ خود رسول اکرمؐ کی تکفین و تدفین بھی نہیں ہوئی تھی اور ہم اہل بیتؑ ابھی آپؐ کی سوگواری میں مشغول تھے اور تم نے جلد باز سے سقیفہ میں جمع ہوکر خلیفہ بنایا ۔
۳۔ إِبْتَداراً زَعَمْتُمْ خَوْفَ الْفِتْنَةِ أَلا فی الْفِتْنَةِ سَقَطُوا وَ إِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحیطَةٌ بِالْکافِرینَ؛ شہزادی کائناتؑ نے ان جملات کے ذریعہ سقیفہ والوں کے انحرافی نعروں کا جواب دیا کہ تم کہتے ہو کہ فتنہ کا خوف تھا اسی لئے جلدبازی کی۔ ارے تم تو خود فتنے میں گرفتار ہوگئے ہو۔ اس لئے کہ غدیر میں پیغمبراکرمؐ کے واضح اعلان کے بعد فتنے کا خوف بے معنی تھا۔ یہ صرف غصب خلافت کے لئے بہانہ تھا اور تم لوگ پیغمبرؐ کی تجہیز و تکفین و تدفین کو چھوڑ کر سازشوں میں لگے ہوئے تھے اور انحرافی نعروں کے ذریعہ لوگوں کو فریب دے رہے تھے اور خود تم نے فتنہ ایجاد کیا اور حقیقی اسلام سے لوگوں کو منحرف کرکے اختلاف پیدا کردیا اور اس کا نتیجہ سخت عذاب ہے جیساکہ خداوندعالم فرماتا ہے: “وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِيطَةٌ بِالْكَافِرِينَ” بے “شک جہنم کا عذاب کافروں کو گھیرے ہوئے ہے”(عنکبوت، آیت54)۔ شہزادیؑ نے یہاں منافقوں کے لئے اس آیت کا استعمال فرمایا اور انہیں “کفار” کے زمرے میں شمار کیا جس کا مطلب ان کی باطنی حقیقت اور کفرآمیز اعمال اور سب سے بڑے گناہ کے ارتکاب کی طرف اشارہ ہے۔ اس لئے کہ غصب خلافت الہیہ گناہان کبیرہ میں سے ہےاور غضب الہی کا سبب ہے۔
۴۔ فَهَیهاتَ مِنْكُمْ، وَ كَیفَ بِكُمْ، وَ اَنَّی تُؤْفَكُونَ؛ شہزادی کائناتؑ نے غاصبان خلافت کے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے مزید فرمایا کہ اے لوگو! اس کام کی تم سے امید نہیں تھی۔ یقین نہیں آرہا ہے کہ تم لوگ غاصبوں کی مدد کروگے اور شیطانی گروہ کے فریب میں آجاؤگے اور ہم پیغمبرؐ کے اہل بیتؑ کو کنارے لگا دوگے اور تنہا چھوڑ دوگے۔ تمہیں کیا ہوگیا ہے؟ تم تو اس مسئلہ میں باخبر تھے۔ خلافت کس کا حق ہے یہ سب کے لئے واضح تھا؟ تم کس راہ پر جارہے ہو؟ کیا تم نہیں جانتے ہو کہ تمہیں حق کے راستے سے منحرف کیا جارہا ہے جبکہ تمہارے درمیان خود کتاب خدا موجود ہے اس میں سب کچھ بیان کیا گیا ہے۔
۵۔ وَ كِتابُ اللَّـهِ بَینَ اَظْهُرِكُمْ، اُمُورُهُ ظاهِرَةٌ، وَ اَحْكامُهُ زاهِرَةٌ، وَ اَعْلامُهُ باهِرَةٌ، و زَواجِرُهُ لائِحَةٌ، وَ اَوامِرُهُ واضِحَةٌ، وَ قَدْ خَلَّفْتُمُوهُ وَراءَ ظُهُورِكُمْ؛ یہاں شہزادی کائناتؑ نے یہاں کتاب الہی کے متعدد اوصاف کا ذکر فرمایا ہے : اے لوگوں تم خلافت کے مسئلہ میں ایک چھوٹے سے گروہ کے فریب میں کیسے آگئے جب کہ قرآن تمہارے درمیان تھا جو ظاہر ہے ۔ یہاں “بین اَظْہُرِکُمْ” ایک اصطلاح ہے جو جنگوں میں استعمال ہوتی ہے؛ یعنی وہ چیز جو ایک گروہ کے لیے مقدس ہوتی ہے، اس کے ارد گرد ہوتی ہے اور اس کی حفاظت کی جاتی ہے تاکہ اسے نقصان نہ پہنچے۔ شہزادیؑ نے یہاں شاید اسی بات کا اشارہ کیا کہ قرآن تو تمہارے درمیان ہے۔ تم پہلے تو اس کو مقدس و محترم جانتے تھے۔ اپنے کاموں اور مسائل کے لئے قرآن سے ہدایت لیتے تھے اب تم نے قرآن کو کیوں تنہا کردیا جبکہ اس کے امور ظاہر، احکام روشن، بیانات واضح، ممنوعات و منہیات صاف ہیں۔ اب کیوں تم قرآن سے ہدایت نہیں لیتے ہو۔ اس قرآن نے بھی تو علیؑ کے حق اور اس کی ولایت و قیادت کا واضح طور پر اعلان فرمایا تھا(مائدہ، ۳ ۵۵و ۷۷۔ آل عمران، ۱۰۳؛ نساء، ۵۹۔ توبہ، ۱۱۹۔ انعام، ۱۵۳۔ زخرف، ۴۳)۔ اس کے علاوہ اسی قرآن نے عمومی قانون بھی بیان کیا ہے کہ: « … أَفَمَنْ يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ أَحَقُّ أَنْ يُتَّبَعَ أَمَّنْ لَا يَهِدِّي إِلَّا أَنْ يُهْدَى فَمَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ»؛ “جو حق کی ہدایت کرتا ہے وہ واقعا قابلِ اتباع ہے یا جو ہدایت کرنے کے قابل بھی نہیں ہے مگر یہ کہ خود اس کی ہدایت کی جائے تو آخر تمہیں کیاہوگیا ہے اور تم کیسے فیصلے کررہے ہو؟”(یونس، 35)۔ شہزادی کائنات ؑ کے مذکورہ جملات مسلمانوں کی آئندہ نسلوں کے لئے بھی پیغام ہے جس علیؑ کی ذات نے ہمیشہ ہر موقع پر لوگوں کی ہدایت اور اسلام کی حفاظت کا حق اداکیا ہے اور یہاں تک سقیفہ کے بنے ہوئے خلیفہ نے اپنی جہالت اور “علیؑ نہ ہوتے تو ہلاک ہوجاتا” کہہ کر اپنی حقیقت کا اعلان کیاتھا۔ کیا وہ قابل اتباع تھے؟ اور کیا ان کے اندر امامت و خلافت کی لیاقت تھی؟ کیوں غور و فکر نہیں کرتے ہو اور انحراف سے نکل کر حق و حقیقت کے راستے پر گامزن ہوجاؤ۔
۶۔ أَرَغْبَةً عَنْهُ تُریدُونَ؟ اَمْ بِغَیرِهِ تَحْكُمُونَ؟ بِئْسَ لِلظَّالمینَ بَدَلاً، وَ مَنْ یبْتَغِ غَیرَ الْاِسْلامِ دیناً فَلَنْ یقْبَلَ مِنْهُ، وَ هُوَ فِی الْاخِرَةِ مِنَ الْخاسِرینِ؛ شہزادی کائناتؑ نے ان بیانات کی روشنی میں لوگوں کی قرآن سے روگردانی اورمسلمانوں اور امت مسلمہ کے لئے اس کے تخریبی آثار کی طرف اشارہ فرمایا کہ آج جو تم کتاب خدا سے منھ موڑ رہے ہو یہ یا تو قرآن سے تمہاری نفرت کا نتیجہ ہے یا تم اس سے روگردان ہوگئے ہو یا قرآن کے علاوہ احکام جاری کرنے پر تل گئے ہو؟! اور یاد رکھنا کہ ظالموں کیلئے ان کے ظلم کا برا بدلہ ہے اور جو کوئی اسلام کے علاوہ اپنے لیے کوئی اور دین تلاش کرے گا تو وہ اس سے ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں سے ہو گا(آل عمران، آیت۸۵)۔
خلاصہ یہ کہ شہزادی ؑ نے قرآن و اہل بیتؑ کی تنہائی کے درد کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی جانب سے مسئلہ خلافت میں قرآنی اصول و احکام و معارف کو پس پشت ڈالنے کا ذکر فرماتے ہوئے بیان کیا کہ تم نےفتنے کے خوف کا بہانہ بناکر جو جلدبازی کی ہے اس کی وجہ سے خود فتنے میں گرفتار ہوگئے ہو جبکہ عہد پیغمبرؐ کو زیادہ وقت بھی نہیں گزرا ہے اور اگر “قرآن کافی ہونے کا دعویٰ “کرتے ہو تو قرآن تمہارے درمیان موجود ہے۔ اس کی آیات میں واضح طور پر امامت و خلافت کے شرائط اور دیگر تمام مسائل کا ذکر آیا ہے ۔ پھر تم نے کیوں ان سب کو نظر انداز کردیا؟ حتیٰ کہ تم نے قرآن کے ظاہری احکام کو بھی چھوڑ دیا۔اور جب تم نے قرآن سے منھ موڑ لیا تو پھرتمہارا اسلام کیسے باقی رہ سکتا ہے؟