شیطانی دعوت اور فتنہ نفاق
«… فَلَمَّا اِختارَ اللَّـهُ لِنَبِیهِ دار اَنْبِیائِهِ وَ مَأْوی اَصْفِیائِهِ، ظَهَرَ فیكُمْ حَسْكَةُ النِّفاقِ، وَ سَمَلَ جِلْبابُ الدّینِ، وَ نَطَقَ كاظِمُ الْغاوینَ، وَ نَبَغَ خامِلُ الآفِلینَ، وَ هَدَرَ فَنیقُ الْمُبْطِلینَ، فَخَطَرَ فی عَرَصاتِكُمْ، وَ اَطْلَعَ الشَّیطانُ رَأْسَهُ مِنْ مَغْرَزِهِ هاتِفاً بِكُمْ، فَأَلْفاكُمْ لِدَعْوَتِهِ مُسْتَجیبینَ، وَ لِلْغِرَّةِ فیهِ مُلاحِظینَ، ثُمَّ اسْتَنْهَضَكُمْ فَوَجَدَكُمْ خِفافاً، وَ اَحْمَشَكُمْ فَاَلْفاكُمْ غِضاباً، فَوَسَمْتُمْ غَیرَ اِبِلِكُمْ، وَ وَرَدْتُمْ غَیرَ مَشْرَبِكُمْ…»
«… پس جب خداوند عالم نے اپنے پیغمبر ؐکیلئے اپنے انبیاءؑ اور اپنے اصفیاءؑ کے مسکن کو پسند کیا تو تم لوگوں میں نفاق ظاہر ہوگیا اور دین کی چادر بوسیدہ ہو گئی۔ اور گمراہوں کی زبان کھل گئی۔ اور پست اور گمنام لوگ ابھر کر سامنے آ گئے۔ اور باطل پرستوں کی آواز بلند ہوگئی۔ اور انہوں نے تمہارے گھروں میں دم ہلانا شروع کر دیا۔ پس شیطان نے اپنے گوشے سے سر نکالا، پھر تمہیں بلانے کیلئے آواز دی تو تمہیں اپنی آواز پر لبیک کہنے اور دنیاوی مقام و منصب کے لئے اس کی طرف دیکھنے والا پایا ۔ پھر اس نے تمہیں اپنی فرمانبرداری کیلئے اٹھنے کا حکم دیا تو تمہیں فورا آمادہ پایا۔ اس نے تمہیں بھڑکایا تو اپنی مدد میں تمہیں غضب ناک اور تند پایا۔ پس تم نے اپنے اونٹ کے بدلے دوسرے کے اونٹ کو داغا اور اپنا گھاٹ چھوڑ کر دوسرے کے گھاٹ پر پانی پلایا…»۔
اہم پیغامات:
شہزادی کائناتؑ نے اپنے خطبہ فدکیہ کے اس حصہ میں منافقین اور غاصبان خلافت کی شیطانی سازباز اور ان کے طریقۂ کار پر تاریخی اور دینی لحاظ سے تنقید فرمائی اور اس سلسلے میں اپنے درد دل کا اظہار کیا۔یہاں بعض اہم مطالب کی مختصر وضاحت پیش کی جارہی ہے:
۱۔ فَلَمَّا اخْتارَ اللهُ لِنَبِیِّهِ دارَ أَنْبِیائِهِ وَ مَأوَی أَصْفِیائِهِ ظَهَرَ فیکُمْ حَسْکَةُ النِّفاقِ یعنی جیسے ہی اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری پیغمبرؐ کو اپنی بارگاہ میں بلا لیا ویسے ہی تمہارے اندر کا نفاق ظاہر ہوگیا۔ یہاں لفظ ” حَسْکه” استعمال ہوا ہے جس کے معنی دشمنی یا خار کے ہیں۔ یعنی پیغمبرؐ کے بعد منافقین کی اہل حق سے دشمنی ظاہر ہوگئی اور ان کے دلوں میں اہل بیتؑ اور اہل حق کے لئے جو “خار” (کانٹے) تھے وہ ظاہر ہوگئے اور اہل حق پر تیروں کی مانند گرنا شروع ہوگئے۔
۲۔ وَ سَمَلَ جِلْبابُ الدِّینِ یعنی دین کی چادر، دین کا لباس پرانا ہوگیا۔ جلباب ایک مکمل پوشاک کو کہا جاتا ہے یہاں مراد یہ ہے کہ جو لباس دین و ایمان کی شکل میں پیغمبراکرمؐ نے اسلامی معاشرے کو پہنایا تھا اور عربوں کو بدترین حالت سے نکال کر ایک نئی زندگی عطا فرمائی تھی۔ منافقوں کی وجہ سے پیغمبرؐ کی رحلت ہوتے ہی اس دین کے لباس کو اتار دیا گیا اور معاشرے کو وہی گذشتہ زندگی کی طرف ڈھکیل دیا گیا۔
۳۔ وَ نَطَقَ کاظِمُ الْغاوِینِ؛ یعنی گمراہ لوگوں نے زبانیں کھولنا شروع کردی۔ یعنی وجود پیغمبراکرمؐ کی وجہ سے منافقین کے گروہ اور موقع پرست لوگ جو خاموشی پر مجبور تھے وہ آنحضرتؐ کی رحلت کے بعد بولنا شروع ہوگئے اور علنی طور پر دین کے تمام معاملات میں اپنی نظر اور رائی دینے لگے۔ دینی معاملات میں حاکم بن گئے۔ اور دینی اور معاشرتی امور و معاملات کے اصلی وارث اور حقیقی جانکاروں کو خاموشی پر مجبور کردیا۔
۴۔ وَ نَبَغَ خامِلُ الآفِلینَ؛ یعنی پست و گمنام لوگ منظر عام پر آگئے۔ منافقوں کے فتنے کی وجہ سے پیغمبراکرمؐ کی حیات میں وہ افراد جو پست و گمنام تھے اور اسلام و مسلمانوں کی ضرورت کے وقت جو ہمیشہ دور رہتے تھے، فرار کرجایا کرتے تھے، جنہوں نے اپنے عمل و کردار سے دین کو نقصان پہنچانے کا کام کیا تھا وہ اب ظاہر ہوگئے اور پیغمبراکرمؐ کی وفات کے بعد موقع کا فائدہ اٹھانا شروع کردیا۔ اور دین کے حقیقی خدمتکاروں اور حقیقی وارثوں کو پیچھے ڈھکیل دیا گیا ہے۔
۵۔ وَ هَدَرَ فَنیقُ الْمُبْطِلینَ؛ باطل پرستوں کی آواز بلند ہوگئی یعنی پیغمبراکرمؐ کی حیات جو کافر، مشرک اور منافق گروہ خاموش رہنے پر مجبور تھے اب ان کی آوازیں بلند ہوگئی۔
۶۔ فَخَطَرَ فی عَرَصاتِکُمْ ؛ انہوں نے تمہارے گھروں میں دم ہلانا شروع کر دیا؛ منافقین کے فتنے کا نتیجہ تھا کہ باطل پرست اور کافر اور جو لوگ گذشتہ میں پست و گمنام تھے وہ اب حرکت میں آگئے اور لوگوں کو مختلف مشورے دینا شروع کردیا اور جن کی پہلے کوئی اہمیت نہیں تھی وہ اب فیصلہ کن افراد کی منزل میں آگئے۔ تاریخی منابع کی روشنی میں پیغمبراکرمؐ کی رحلت کے فورا بعد، بنی امیہ کے افراد خاص طور پر ابوسفیان وہ شخص تھا جس نے ظاہری طور پر تو اسلامی حکومت پر قبضہ کے لئے کوشش تو نہیں کی تھی مگر یہی وہ سب سے بڑا منافق تھا جس نے مسلمانوں کے گروہ کے درمیان اختلاف ڈالنے اور اسلام کی نابودی کے لئے کام شروع کردیا تھا جیسا کہ تاریخ میں بیان ہوا کہ ابوسفیان نے امیرالمومنین علی ؑ کے سامنے لشکر اور مالی مدد کی پیشکش کی تھی تاکہ غاصبان خلافت کے خلاف قیام کریں اور دوسری طرف یہی شخص غاصبان خلافت کے پاس گیا اور ان کی مدد کی تاکہ خلافت میں اپنے اور اپنے خاندان کے لئے حصہ حاصل کرے اور اس میں وہ کامیاب بھی ہوگیا تھا لیکن امام علیؑ اس کے ناپاک ارادوں کو جانتے تھے لہذا آپؑ نے اسے اپنے پاس سے بھگا دیا تھا اور فرمایا کہ: “اے لوگو ! فتنہ و فساد کی موجوں کو نجات کی کشتیوں سے چیر کر اپنے آپ کو نکال لے جاؤ، تفرقہ و انتشار کی راہوں سے اپنا رخ موڑ لو، فخر و مباہات کے تاج کو اتار ڈالو، صحیح طریقہ عمل اختیار کرنے میں کامیاب وہ ہے جو اٹھے تو پر وبال کے ساتھ اٹھے اور نہیں تو (اقتدار کی کرسی) دوسروں کیلئے چھوڑ دے اور اس طرح خلق خدا کو بد امنی سے راحت میں رکھے۔ (ابوسفیان کی طرف سے پیشکش کی جانی والی حکومت کے لئےقیام) ایک گندے پانی اور ایسےلقمے کی طرح ہے جو کھانے والے کے گلے میں اٹک گیا ہو۔ پھلوں کو ان کے پکنے سے پہلے توڑنے والا ایسا ہے جیسے دوسروں کی زمین میں کاشت کرنے والا”۔ (نہج البلاغہ، خطبہ ۵)۔ اسی طرح دوسرے مقامات پر بھی امام علیؑ نے ابوسفیان کی پیشکش پر سخت ردّ عمل کا اظہار فرمایا تھا اور اس کی باطنی خباثت اور مسلمانوں کے درمیان قتل و غارت کے بازار کو گرم کرنے ارادوں کو برملا فرمایا تھا۔
۷۔ وَ أَطْلَعَ الشَّیطانُ رَأْسَهُ مِنْ مَغْرَزِهِ هاتِفاً بِکُمْ فَأَلْفاکُمْ لِدَعْوَتِهِ مُسْتَجیبینَ ؛ یعنی شیطان نے اپنے گوشے سے سر نکالا، پھر تمہیں بلانے کیلئے آواز دی تو تمہیں اپنی آواز پر لبیک کہتا ہوا پایا ۔ یعنی شہزادی کائنات ؑ یہاں بیان فرمارہی ہیں کہ منافقین کے گروہ نے غصب حکومت کے لئے جو بھی حرکتیں انجام دیں اور جو بھی کام کئے وہ شیطان کے وسوسوں اور اس کی دعوت کو قبول کرنے کے نتیجے میں انجام دیئے ہیں۔ یہاں شیطان کو پیغمبر اکرمؐ کے زمانے میں کچھوے کی طرح اپنے کھول میں چھپا ہوا بیان کیا گیا اور آنحضرتؐ کی وفات کے بعد وہ اپنے کھول سے باہر نکلا اور لوگوں کو اپنی طرف بلایا جس کے نتیجہ میں اہل سقیفہ نے جلدبازی کی اور شیطانی عمل میں ملوث ہوگئے اور جو لوگ پیغمبرؐ کی زندگی میں اپنے آپ کو ظاہر کرنے کی ہمت نہیں کرپاتے تھے وہ اب ظاہر ہوگئے اور انہوں نے مل کر خلیفہ بنالیا۔ اور حقیقت میں سقیفہ شیطانی منصوبہ بندی اور شیطانی عمل تھا۔
۸۔ وَ لِلْعِزَّةِ فیهِ مُلاحِظینَ ۔ یعنی شیطان نے تمہیں دنیاوی مقام و منصب کے لئے اس کی طرف دیکھنے والا پایا۔ یہاں شہزادیؑ نے منافقین کے سرداروں اور دنیاوی مقامات و مناصب کے پرستاروں کی باطنی حقیقت ، شہوت و منصب پرستی کا اظہار فرمایا کہ جب شیطان نے ان کو اپنی طرف دعوت دی اور دنیاوی عہدوں اور مناصب کا وسوسہ دیا اور لالچ دی تو وہ اس کی چال میں گرفتار ہوگئے اور دین اسلام کے تمام اصول اور معیارات کو پس پشت ڈال دیا اور خود کو سب سے بزرگ اور برتر سمجھ لیا جبکہ قرآن مجید نے واضح طور پر بیان کیا ہے کہ:” إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ”۔ تمہارے درمیان وہی سب سے زیادہ باکرامت ہے جو سب سے زیادہ متقی و پرہیزگار ہے(حجرات، آیت۱۳)۔
۹۔ ثُمَّ اسْتَنْهَضَکُمْ فَوَجَدَکُمْ خِفافاً وَ اَحْمَشَکُمْ فَأَلْفاکُمْ غِضاباً فَوَسَمْتُمْ غَیرَ إبِلِکُمْ وَ وَرَدْتُمْ غَیرَ مَشْرِبِکُمْ یعنی فرمانبرداری کیلئے اٹھنے کا حکم دیا تو تمہیں فورا آمادہ پایا۔ اس نے تمہیں بھڑکایا تو اپنی مدد میں تمہیں غضب ناک اور تند پایا۔ پس تم نے اپنے اونٹ کے بدلے دوسرے کے اونٹ کو داغا اور اپنا گھاٹ چھوڑ کر دوسرے کے گھاٹ پر پانی پلایا…»۔ یہاں شہزادیؑ نے منافقین اور غاصبان فدک کی باطنی حالت کا ذکر فرمایا اور لفظ” خِفاف ” کے ذریعہ ان کی فکری اور عقلی تنزلی کی طرف اشارہ فرمایا اس لئے خفاف اس شخص کو کہا جاتا ہے جو بغیر سوچے سمجھے کام انجام دیتا ہے۔ یعنی جیسے ہی شیطان نے منافقین کو غصب حکومت کی دعوت دی انہوں بغیر سوچے سمجھےاس کو قبول کردیا۔ نہ الہی قوانین اور اصول کو دیکھا۔ نہ ہی پیغمبراکرمؐ کے متعدد بار اعلانات کا ملاحظہ کیا۔ نہ ہی عقلی اصول اور قواعد پر غور پر کیا اور اپنی لیاقت و صلاحیت کے بارے میں سوچا کہ ہمارے اندر صلاحیت پائی جاتی ہے یا نہیں۔ ہم اس کے مستحق ہیں یا نہیں۔؟ اسی طرح شہزادی ؑ کے بیانات کی روشنی میں جب شیطان نے ان کو فکری اور عقلی لحاظ سے خالی اور بے شخصیت پایا تو اس نے ان لوگوں کو مشتعل کیا اور غصہ دلاکر آزمایا تو وہ مشتعل بھی ہوگئے اور غضبناک ہوکر انہوں اہل بیتؑ پر مظالم ڈھائے ۔ علی ؑ سے دشمنی اور حسادت کا اظہار کیا اور انتقام لیا۔ جو کینہ ان کے دلوں میں پرورش پارہے تھے ان کا اظہار کیا۔ اور اپنے اونٹ کے بجائے دوسرے کے اونٹ پر نشان لگایا اور اپنے پانی پینے کے مقام کے بجائے دوسرے کے مقام سے پانی پیا۔ یعنی دینی معاملات میں دخل اندازی کی۔ اپنی حدود سے تجاوز کیا۔ اور مسلمانوں کے لئے اپنی جانب سے خلیفہ کا انتخاب کرلیا جو ان کا کام نہیں تھابلکہ یہ کام خدا کا ہے اور اس نے اپنے رسولؐ کے ذریعہ اس کا تعین اور اعلان بھی کردیا تھا۔
خلاصہ یہ کہ حضرت فاطمہ زہراؑ نے اپنے خطبے کے اس حصہ میں حضرت امام علیؑ کی فداکاریوں کے ذکر اور آپؑ کے مخالفین کے سیاہ کارناموں کو یاد دلاتے ہوئے بیان فرمایا کہ حقیقت میں آج تمہارا نفاق کھل کر سامنے آگیا ہے اور تم پوری طرح سے شیطان کے جال میں پھنس گئے ہو۔گذشتہ میں جو منافقین سختیوں اور پریشانیوں میں اپنے آپ کو دور رکھتے تھے اور دشمنان اسلام کی مدد کرتے تھے اور ہم اہل بیتؑ اور خالص مومنین کے لئے مصائب و مشکلات کی آرزو کرتے تھے اور سخت حالات میں، جنگوں میں فرار کرجاتے تھے۔ آج وہی لوگ اسلام کے نام پر جمع ہوگئے اور شیطانی دعوت پر حصول خلافت کے لئے فتنہ برپا کردیا اور مسلمانوں میں اختلاف و انحراف پیدا کردیا اور راہ نجات و ہدایت کے سامنے موانع پیدا کردیئے۔