حضرت علیؑ کی اہم خصوصیات
«… مَكْدُوداً فی ذاتِ اللَّـهِ، مُجْتَهِداً فی اَمْرِ اللَّـهِ، قَریباً مِنْ رَسُولِ اللَّـهِ، سَیِّدَ أَوْلِیَاءِ اللَّهِ، مُشَمِّراً نَاصِحاً مُجِدّاً كَادِحاً، لا تَأْخُذُهُ فِی اللهِ لَوْمَةُ لائِمٍ وَ اَنْتُمَ فی رَفاهِیةٍ مِنَ الْعَیشِ، و ادِعُونَ فاكِهُونَ آمِنُونَ، تَتَرَبَّصُونَ بِنَا الدَّوائِرَ، وَ تَتَوَكَّفُونَ الْاَخْبارَ، وَ تَنْكُصُونَ عِنْدَ النِّزالِ، وَ تَفِرُّونَ مِنَ الْقِتالِ…».
«… وہ خدا کے لئے بہت مشقت برداشت کرنے والے ۔ امر خدا میں بہت کوشش کرنے ۔ رسول خدا ؐسے قریب ۔ اولیائے خدا کے سردار۔ دوسروں کی خیرخواہی پر کمر بستہ ۔ راہ خدا میں پوری طاقت لگانے والے ہیں اور خدا کی راہ میں کسی کی ملامت و سرزنش کی پرواہ نہیں کرتے ہیں۔لیکن اس دوران تم زندگی کے خوش گوار حالات کی تلاش میں تھے۔ اطمینان اور خوش طبعی کی حالت میں زندگی بسر کر رہے تھے اور ہم پر مصائب نازل ہونے کی آرزو کرتے تھے اور ہمارے لیے فتنوں اور مصیبتوں کی امید کرتے تھے۔تم لوگ جنگ کے مواقع پر پسپا ہو جاتے تھے اور میدان جنگ سے بھاگ جاتے تھے…»۔
اہم پیغامات:
حضرت فاطمہ زہراؐ نے پیغمبراکرمؐ کی تبلیغ رسالت کے زمانے اور اس وقت کے حسّاس لمحات و لحظات میں حضرت امام علیؑ کی بے نظیر اور بے مثال فداکاریوں کے بعد آپؑ کی اہم خصوصیات کا ذکر فرمایایہاں بعض مطالب کے بارے میں مختصر وضاحت پیش کی جارہی ہیں:
۱۔ حضرت فاطمہ زہراؑ نے امام علیؑ کی اہم خصوصیات کا ذکرفرماتے ہوئے اپنےمخاطبین کو آپؑ کی عظمت اور خلافت الہیہ کے لئے آپؑ کے حق کو یاددلایا ؛جن میں سے بعض یہ ہیں:
الف۔ مَكْدُوداً فی ذاتِ اللَّـهِ؛ وہ خدا کے لئے بہت مشقت برداشت کرنے والے ہیں۔
ب۔ مُجْتَهِداً فی اَمْرِ اللَّـهِ؛ وہ امر خدا میں بہت کوشش کرنے والے ہیں۔
شہزادی کائناتؑ نے مذکورہ دو صفت کے ذریعہ سب سے پہلے اللہ کے لئے، اللہ کی راہ میں حضرت امام علیؑ کی زحمتوں اور مشقتوں کا ذکر فرمایا کہ وہ صرف ذات الہی کو نگاہ میں رکھتے تھے اور اسی کی چاہت میں تمام مشقتوں کو برداشت کرتے تھے۔ اور اسی کے لئے ہر طرح کی کوشش کرتے تھے۔ یہاں پہلے جملے میں لفظ “مَكْدُوداً” کا استعمال فرمایا اور “کد” کے معنی جسمانی اور ظاہری مشکلات اور بدن پر وارد ہونے والے زخموں کی مشقت اور سختی کا برداشت کرنا ہے۔ اور دوسرے جملے میں راہ خدا میں ہر طرح کی زحمت و کوشش کرنا ہے چاہے وہ ظاہری جسمانی ہوں یا معنوی و روحانی ہوں۔ حضرت امام علیؑ جنگوں اور فتنوں کی آگ کو خاموش کرنے کے لئے جب میدان میں وارد ہوتے تھے تو وہ اپنے جسم اور اس پر وارد ہونے والے زخموں کی پرواہ نہیں کرتے تھے بلکہ اللہ کے لئے پوری کوشش کرتے تھے، پیغمبراکرمؐ کی حفاظت فرماتے تھے۔ مسلمانوں سے دشمنوں کے حملات کو دور کرتے تھے اور کامیابی حاصل کرتے تھے جیساکہ جنگ احد کے حوالے سے بیان ہوا ہے کہ اس جنگ میں جب مسلمانوں میں بھاگ دوڑ مچ گئی تھی اور بہت سے لوگوں نے پیغمبراکرمؐ کو تنہا چھوڑ دیا تھا تو صرف امام علیؑ اور چند افراد ہی بچے تھے جنہوں نے دشمنوں سے سخت مقابلہ کیا اور امام علیؑ پیغمبراکرمؐ کی بھی حفاظت فرمارہے تھے اور حملہ آوروں سے بھی سخت جنگ کررہے تھے۔ اسی دوران آپ کا جسم زخموں سے پوری طرح چور چور ہوگیا تھا۔ جنگ کے خاتمہ پر جنگ مدینہ میں امام علیؑ ایک چٹائی پر لیٹے تھے تو پیغمبراکرمؐ عیادت کے لئے تشریف لائے تو آنحضرت ؐ نے آپ کے زخمی جسم کو دیکھ کر گریہ فرمایا اور کہا کہ: “ان رجلا يصيبه هذا في الله لحق على الله ان يفعل به و يفعل” یقینا جو اللہ کی راہ میں ایسی قربانی دیتا ہے، اللہ اس کے ساتھ ایسا کرنے کا حق رکھتا ہے۔ یہ سن کر مولاؑ نے گریہ کرتے ہوئے عرض کیا: یا رسول اللہؐ۔ میرے والدین آپ پر فدا ہوں۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے اس طرح قربانی کے لئے توفیق دی اور میں نے جنگ میں دشمن کو نہ ہی پیٹھ دکھائی اور نہ ہی راہ فرار اختیار کی۔ میرے والدین آپؐ پر فدا ہوں۔ پھر بھی میں کیسے شہادت سے محروم رہ گیا ہوں؟ آنحضرت ؐ نے فرمایا: ایسا نہیں ہے آئندہ شہادت کی نعمت بھی آپ ؑ کو نصیب ہوگی۔ اس کے بعد آنحضرتؐ نے حمراء الاسد میں ابوسفیان کی طرف سے دوبارہ حملے کی خبر دی اور علیؑ سے اس مقابلے میں شرکت کا حکم دیا تو امام علیؑ نے عرض کیا: میرے والدین آپؐ پر فدا ہوں۔ خدا کی قسم ! اگر میرے بدن کو ہاتھوں پر اٹھاکر بھی میدان میں لے جایا جائے گا اور اس سے بھی بدتر حالت ہوجائےگی تب بھی میں آپؐ کی حمایت کے لئے حاضر رہوں گا۔ اس وقت قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی کہ: «وَكَأَيِّنْ مِنْ نَبِيٍّ قَاتَلَ مَعَهُ رِبِّيُّونَ كَثِيرٌ فَمَا وَهَنُوا لِمَا أَصَابَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَمَا ضَعُفُوا وَمَا اسْتَكَانُوا وَ اللَّهُ يُحِبُّ الصَّابِرِينَ»؛ «اور بہت سے ایسے نبی گزر چکے ہیں جن کے ساتھ بہت سے اللہ والوں نے اس شان سے جہاد کیا ہے کہ راہ خدا میں پڑنے والی مصیبتوں سے نہ کمزور ہوئے اور نہ بزدلی کا اظہار کیا اور نہ دشمن کے سامنے ذلّت کا مظاہرہ کیا اور اللہ صبر کرنے والوں ہی کو دوست رکھتا ہے»۔ امام علیؑ کے بدن پر زخمی کی کثرت اور ان تمام مراحل میں صبر و ضبط کی حالت کا اندازہ اسی سے لگایا جاسکتا ہے کہ مذکورہ روایت کا ناقل “ابن داب” بیان کرتا ہے کہ شہادت کے وقت علیؑ کے بدن پر سر سے قدموں تک ہزار زخم تھے۔ (الكنى و الالقاب، ج 1، ص 281)۔ خلاصہ یہ کہ حضرت علیؑ اپنے کاموں اور اپنی کوششوں کو ذات الہی کے لئے انجام دیتے تھے اور اسی کی ذات کو نگاہوں میں رکھ کر تمام مشکلات اور زحمات کو برداشت فرماتے تھے اس لئے کہ آپ خداوندمتعال کی ذات میں ڈوبے ہوئے تھے جیسا کہ آنحضرتؐ نے ایک حدیث میں آپ کے لئے فرمایاکہ: ” عَلیٌّ ؑ مَمْسُوسٌ فِی ذَاتِ الله” علیؑ ذات خدا کے عاشق و شیدا ہیں(مجمع الزوائد، ج9، ص130)۔ اسی طرح دوسرے مقام پر آنحضرتؐ نے فرمایاکہ: “فَوَاللَّهِ إِنَّهُ لَخَشِنٌ فِی ذَاتِ اللَّه” خدا کی قسم! علیؑ ذات خدا کے لئے بہت زیادہ سختی اوراحتیاط سے کام کرتے ہیں۔(مناقب آل ابی طالب ؑ، ج2، ص110)۔ اسی طرح جب خود امام علیؑ سے پوچھا گیا کہ آپؑ کیسے دشمن کا مقابلہ کرلیتے ہیں تو خودفرمایا کہ: «وَ اللهِ مَا أُرِیدُ إِلاَّ الله»؛ خدا کی قسم! میں وہی چاہتا ہوں جو خدا چاہتا ہے۔
ج۔ قَریباً مِنْ رَسُولِ اللَّـهِ؛ وہ رسول خدا ؐسے قریب ہیں؛ اس خصوصیت میں شہزادی کائناتؑ ، اپنے بابا ؐ سے حضرت امام علیؑ کی نزدیکی اور قرابت داری کا ذکر فرما رہی ہیں۔ اور لفظ قریب کے مدنظر یہ قرابت و رشتہ داری “نسبی” بھی مراد ہوسکتی ہے اس لئے کہ امام علیؑ حضرت رسول اکرمؐ کے چچا زاد بھائی تھے۔ اور یہ قرابت و رشتہ داری “سببی” بھی ہوسکتی ہے اس لئے آنحضرتؐ کی بیٹی حضرت فاطمہ زہراؑ کے شوہر ہونے کا شرف آپؑ کو حاصل ہوا تھا۔ اسی طرح پیغمبراکرمؐ سے حضرت علیؑ کی نزدیکی اور قرابت معنوی اور اجتماعی و سیاسی معاملات و مسائل میں بھی تھی ۔ آنحضرت ؐسخت کاموں ، خاص طور پر جنگوں میں سخت مقابلوں کے لئے آپؑ کو مقدم رکھتے تھے۔ آپؑ ہی سپاہ اسلام کے علمبردار رہتے تھے۔ آپؑ ہی کوتبلیغی امور میں پیش پیش رکھتے تھے۔ البتہ حضرت علیؑ کو مقدم رکھنا ایک طرفہ معاملہ نہیں تھا۔ اس وقت پیغمبرؐ کے اطراف میں موجود لوگ جب آمادہ نہیں ہوتے تھے یا اہم و حساس کاموں میں آگے رہنے سے کتراتے تھے تو پیغمبرؐ امام علیؑ کو آگے بڑھاتے تھے خلاصہ یہ ہے امام علیؑ ، ہر کام کے لئے ہمیشہ آمادہ رہتے تھے تو رسول اللہ ؐ بھی آپ ؑ کو سب پر مقدم فرماتے تھے۔
د۔ سَیِّدَ أَوْلِیَاءِ اللَّهِ؛ وہ اولیائے خدا کے سردار ہیں۔واضح رہے کہ بعض نسخوں میں “سَیداً فی اَوْلِیاءِ اللَّهِ” کا ذکر ہوا ہے۔ یہ وہی ولایت و امامت ہے جس کا اعلان خداوندمتعال نے کئی بار اپنے محبوب پیغمبرؐ سے کروایا تھا اور یہ اعلان میدان غدیر میں پورے اہتمام کے ساتھ ہوا تھا۔
ھ۔ مُشَمِّراً نَاصِحاً؛ وہ دوسروں کی خیرخواہی پر کمر بستہ ہیں۔
و۔ مُجِدّاً كَادِحاً ؛ راہ خدا میں پوری طاقت لگانے والے ہیں۔
ز۔ لا تَأْخُذُهُ فِی اللهِ لَوْمَةُ لائِمٍ؛ وہ راہ خدا میں کسی کی ملامت و سرزنش کی پراہ نہیں کرتے ہیں۔
۲۔ شہزادی کائناتؑ نے امام علی ؑ کے مذکورہ خصوصیات کا ذکر فرمایا کہ علیؑ ہی ہیں جو ہمیشہ لوگوں کی ہدایت پر کمر بستہ رہتے تھے۔ بندگان خدا کے خیر خواہ، کوشش اور سعی بلیغ کرنے والے ہیں جبکہ تم لوگوں نے ہمیشہ اپنی زندگی کو خوشگوار بنانے کی کوششیں کیں۔ خوف و خطر سے فرار کرتے رہے۔ اپنے آپ کو مصائب و مشکلات سے دور رکھتے تھے۔بلکہ تم تو اپنے نفاق کی وجہ سے آرزو کرتے تھے کہ جو بھی مشکلات و مصائب آئیں وہ ہمارے گھرانے پر آئیں ۔ تم ہمارے لئے امتحانات و گرفتاریوں کی امید کرتے تھے اورمشکل حالات اور بحرانی حالات میں جنگوں سے بھاگ جاتے تھے اور دشمنوں کے سامنے ہمارے لئے شکست کی آرزو کیا کرتے تھے ۔ صرف علیؑ ہی تھے جو میدانوں میں ثابت قدم رہتے تھے۔ سپاہ اسلام کو کامیاب بناتے تھے۔ قرآن مجید نے ان دونوں گروہوں کے بارے میں فرمایا ہے کہ: «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَنْ يَرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَائِمٍ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُوَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ»؛ «ایمان والو! تم میں سے جو بھی اپنے دین سے پلٹ جائے گا تو عنقریب خدا ایک قوم کو لے آئے گا جو اس کی محبوب اور اس سے محبت کرنے والی مومنین کے سامنے خاکسار اور کفار کے سامنے صاحبِ عزت، راه خدا میں جہاد کرنے والی اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہ کرنے والی ہوگی۔ یہ فضلِ خدا ہے وہ جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے اور وہ صاحبِ وسعت اور علیم و دانا بھی ہے۔ (مائدہ، آیت۵۴) ۔
۳۔ حضرت فاطمہ زہراؑ نے حضرت علیؑ کی خصوصیات کے ساتھ، آپؑ کے مخالفین اور منافقوں کے سیاہ کارناموں اور مکاریوں اور فتنہ انگیزیوں کو یاد دلاکرشاید یہ بیان کرنا چاہا کہ اے لوگو ! اے بزدلو ! اے موقع پرست لوگو!۔ گذشتہ ایام میں تو صرف علیؑ تھے جنہوں نے ہرمیدان میں اپنے آپ کو سب سے آگے آگے رکھا اور تمام تر خدمات انجام دیں اور تم ضرورت کے وقت سب سے پیچھے رہتے تھے۔ اور حسّاس مواقع پر فرار کرجاتے تھے۔ لیکن آج تم نے پیغمبرؐ کے جنازہ کو چھوڑ کر، آنحضرتؐ کی تجہیز و تکفین کے امور کا بھی انتظار نہیں کیا اور واضح اور روشن فرامین کی خلاف ورزی کرکے اپنی طرف سے خلیفہ بنا لیا اور حقیقی جانشین پیغمبرؐ کو درکنار کر دیا۔ یہ حق تم کو کس فداکاری اور کس صلاحیت کی وجہ سے حاصل ہوا ہے؟۔