احادیثاسلامی معارف

حضرت علیؑ کی فداکاریاں

فاطمہ زہراؑ کا درد دل اور خطبہ فدکیہ (17)

حضرت علیؑ کی فداکاریاں

«…وَ بَعْدَ اَنْ مُنِی بِبُهَمِ الرِّجالِ، وَ ذُؤْبانِ الْعَرَبِ، وَ مَرَدَةِ اَهْلِ الْكِتابِ كُلَّما اَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ اَطْفَأَهَا اللَّـهُ، اَوْ نَجَمَ قَرْنُ الشَّیطانِ، اَوْ فَغَرَتْ فاغِرَةٌ مِنَ الْمُشْرِكینَ، قَذَفَ اَخاهُ فی لَهَواتِها، فَلا ینْكَفِیءُ حَتَّی یطَأَ جِناحَها بِأَخْمَصِهِ، وَ یخْمِدَ لَهَبَها بِسَیفِهِ…»

«… خدا نے آنحضرتؐ کو اپنی رسالت کے کاموں میں کامیابی سے پہلے بڑے بڑے کافروں  اورعرب کے ڈاکوؤں اور اہل کتاب کے سرکش افراد سےآپؐ کا سامنا ہوا اور جب کبھی ان لوگوں نے جنگ کی آگ بھڑکائی تو خدا نے اسے بجھا دیا یا جب کبھی شیطان نے سر اٹھایا اور مشرکین کی شرارت کے اژدہے نے منہ کھولا تو آنحضرتؐ نے اپنے بھائی (علیؑ) کو ہی اس بلا کے منہ میں بھیجا۔ پھر وہ بہادر (علیؑ) اس وقت تک نہ پلٹتے تھے جب تک اپنے پیروں تلے ان بلاؤں کے سر کچل نہ دیتے اور فتنے کی آگ کو اپنی تلوار سے نہ بجھا دیتے… »۔

اہم پیغامات:

حضرت فاطمہ زہراؐ نے پیغمبراسلامؐ کی تبلیغ رسالت کے زمانے میں اور اس وقت کے حسّاس لمحات و لحظات کو یاد کرتے ہوئے حضرت امام علیؑ کی بے نظیر اور بے مثال خدمات اور قربانیوں کا ذکر فرمایا۔ اس سلسلے میں بعض مطالب کی مختصر وضاحت پیش کی جارہی ہے:

۱۔ جہاں پیغمبراکرمؐ کے دشمنوں اور مخالفین کی تعداد بہت زیادہ تھی جن میں مشرکین و کفار تو سر فہرست تھے ہی لیکن وہ لوگ جو اہل کتاب ( یہودی و عیسائی)تھے اور پیغمبرؐ کی بعثت و رسالت کے اعلان سے پہلے شدّت سے آپؐ کا انتظار کررہے تھے اور آنحضرتؐ کے بارے میں گذشتہ آسمانی کتابوں میں بیان کئے  گئے نام و نشان و اوصاف اور خصوصیات کا ذکر کرتے تھے خاص طور پر مدینہ والوں کو آپؐ کے ظہور کی خبریں اور پیشگوئیاں دیتے تھے (دلائل النبوۃ بہیقی، ج۲، ص۷۴ وغیرہ) وہ اہل کتاب بھی مختلف طرح کے بہانے پیش کرنے لگے اور آپؐ پر ایمان لانے سے باز آگئے بلکہ اعلان رسالت کے بعد وہ بھی آپ ؐ کے خون کے پیاسے ہوگئے تھے اورمختلف فتنوں اور جنگوں کو ایجاد کرتے رہے۔اسی بات کی طرف شہزادی کائناتؑ نے اشارہ فرمایا کہ : “اہل کتاب کے سرکش افراد سےآپؐ کا سامنا ہوا”۔

۲۔ مسلمانوں کو آنحضرتؐ کی بعثت و رسالت کی برکت سے جو نجات اور امنیت حاصل ہوئی اور ان کے حالات بہتر ہوئے یہ ان فداکاریوں اور مشکلات پر قابو پانے کا نتیجہ تھا جو پیغمبراکرمؐ اور آپ کے بھائی حضرت امام علیؑ  کی جانب سے انجام پائی تھی۔ جب بھی شیطان  کے بہکاوے میں آکرمشرکین و کفار اور اہل کتاب اور منافقین وغیرہ  مسلمانوں اور مومنین کے سامنے مشکلات و موانع ایجادکرتے۔ مختلف فتنوں کو ایجاد کرتے، جنگوں کی آگ بھڑکاتے تھے تو اللہ تعالیٰ ان کو خاموش کرتا اور پیغمبرؐ اور مسلمانوں کی نصرت و مدد کرتا  ۔ شہزادیؑ  نے  اس بات کا ذکر قرآن کی آیت کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے کیا کہ: «كُلَّمَا أَوْقَدُوا نَارًا لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ وَ يَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ»؛ «جب بھی  یہ لوگ جنگ کی آگ بھڑکانا چاہیں گے خدا بجھا دے گا اور یہ زمین میں فساد کی کوشش کررہے ہیں اور خدا مفسدوں کو دوست نہیں رکھتا ہے»(مائدہ، آیت۶۴)۔ واضح رہے کہ آنحضرتؐ کی مکہ کی زندگی میں بعثت کے ابتدائی دنوں میں حضرت خدیجہؑ و حضرت ابوطالبؑ اور آپ کےگھرانے کے افراد ہی تھے جو ہر مشکل اور ضرورت کے وقت سر بہ کفن میدان میں آجاتے تھےاور اللہ کے حبیبؐ کی ہمہ تن نصرت فرماتے تھے۔  یہی وجہ ہے کہ پیغمبراکرمؐ نے اپنے چچا سے خطاب کرتے ہوئے  ان کی وفات کے وقت نہایت غم و حزن سے ساتھ فرمایا کہ:«یاعم! ربّیتَ صغیراً و کفلت یتیماً و نصرت کبیراً فجزاک الّله غنّی خیراً؛ “اے چچاجان!  آپ نے بچپن میں میری تربیت فرمائی، یتیمی میں میری کفالت و سرپرستی فرمائی، جوانی میں میری نصرت و حمایت فرمائی۔ اللہ آپ کو ان تمام زحمات کے بدلے جزائے خیر عطا فرمائے” (تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۲۶۔ چاپ۱۳۵۸ ھ)۔

۳۔ آنحضرتؐ کی نصرت و حمایت کرنے کے میدان میں خاندان حضرت ابوطالبؑ کی سب سے عظیم فرد امام علیؑ ہیں۔ آپؑ کی خدمات اور فداکاریوں کا سب کو اعتراف و اقرار تھا۔ یہی وجہ ہے کہ شہزادی کائناتؑ نے اپنے خطبہ میں رسالت پیغمبراکرمؐ کے نتیجے میں مسلمانوں کو ملنے والی نجات اور امنیت و سکون والی زندگی میں حضرت امام علیؑ کے اہم کردار کا ذکر فرمایا اوربیان کیا کہ اے مسلمانو! اے انصار و مہاجرین ! تم آج کیوں اس علیؑ کے مقابلے میں آگئے ہو؟ تم نےکیوں آج اس علیؑ کو تنہا چھوڑ دیا؟ تم نے کیوں آج اس علیؑ کے حق کو غصب کرلیا؟ تم تو سب جانتے ہو کہ جب کبھی بھی جنگوں کی آگ بھڑکتی اورشیطان سر اٹھاتا اورمشرکین و کفار کی شرارتوں کا اژدہا اپنا منھ کھولتا تھا تو میرے باباؐاپنے ہی بھائی علیؑ کو ان کے مقابلے کے لئے بھیجتے تھے اور صرف علیؑ ہی تھے جواس راہ میں تمام بلاء و مصائب و مشکلات کا سامنے کرتے ہوئے اس وقت تک نہیں پلٹتے تھے جب تک ان کا سر اپنے پیروں تلے کچل نہ دیتے اور ان فتنوں اور جنگوں کی آگ کو اپنی تلوار سے بجھا نہ دیتے تھے ۔

۴۔ شہزادیؑ نے حضرت امام علیؑ کی بہترین خدمات کی طرف اشارہ فرمایا اور آپؑ کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کا تذکرہ فرمایا  اور اپنے مخاطبین کے سامنے  اور آئندہ تمام دنیا کے لئے حضرت علیؑ کی فداکاریوں کا ذکر فرماکر واضح کردیا کہ تم تو خود جانتے ہو کہ صرف علیؑ  ہی کی ذات تھی جنہوں نے اسلام اور پیغمبراکرمؐ کے اہداف و مقاصد کی راہ میں اور مسلمانوں کو ان کی گذشتہ بدحالی اور روحانی و اجتماعی و اقتصادی لحاظ سے پست ترین زندگی سے نجات دلوانے میں اپنے بھائی پیغمبراکرمؐ کی سب سے زیادہ مدد فرمائی تھی۔ اور کبھی بھی، کسی بھی میدان میں پلٹ کر نہیں دیکھا۔ ہمیشہ دشمنوں کا قلع قمع کیا۔ فتنوں کی آگ کو اپنی تیز تلوار سے خاموش کیا۔ اس راہ میں مشکلات و مصائب بھی برداشت کئے۔ خلاصہ یہ ہے کہ جب علیؑ ہر میدان میں سب سے آگے آگے رہے تو  اب تم نے کیوں کر علیؑ  کو تنہا چھوڑ دیا اور اپنی کونسی خدمت اور کس لیاقت کے تحت حکومت و خلافت پر قبضہ کرلیا جو تمہارا حق نہیں تھا بلکہ الہی اعلان و پیغمبرؐ کے فرامین کی روشنی میں صرف علیؑ کا حق تھا؟۔

متعلقہ مضامین

تبصره کریں

Back to top button
×