احادیثاسلامی معارف

فاطمہ زہراؑ کا درد دل اور خطبہ فدکیہ (16)

 نبوت پیغمبراکرمؐ کے آثار و برکات(2)

 نبوت پیغمبراکرمؐ کے آثار و برکات(2)

«… وَ كُنْتُمْ عَلی شَفا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ مُذْقَةَ الشَّارِبِ، وَ نُهْزَةَ الطَّامِعِ، وَ قُبْسَةَ الْعِجْلانِ، وَ مَوْطِیءَ الْاَقْدامِ، تَشْرَبُونَ الطَّرْقَ، وَ تَقْتاتُونَ الْقِدَّ، اَذِلَّةً خاسِئینَ، تَخافُونَ اَنْ یتَخَطَّفَكُمُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِكُمْ، فَأَنْقَذَکُمُ اللهُ تَبارَکَ وَ تَعالی بِأبی مُحَمَّدٍ(ص) بَعْدَ اللَّتَیَّا وَالَّتی … »

«… تم دوزخ کے کنارے کھڑے تھے اور ایسے بے مقدار تھے جیسے پینے والے کے لئے ایک گھونٹ ہو اور طمع کرنے والے کا ایک چلو ہو اور ہر آنے جانے والے کے لئے ایک چنگاری ہو اور ایسے ذلیل تھے جیسے پیروں تلے خاک ہو۔ تم گندہ پانی پیتے تھے اور بے دباغت کی ہوئی کھال چباتے تھے۔ تم ذلیل اور دھتکارے ہوئے تھے اور تم ڈر تے رہتے تھے کہ تمہارے اطراف کے لوگ  کہیں تمہیں اچک نہ لیں۔ خداوند عالم نے میرے بابا حضرت محمد مصطفی  ؐکے ذریعہ سے تمہیں  مذکورہ ناگوار حالات اور پریشانیوں کے بعد تمہیں نجات عطا فرمائی”۔

اہم پیغامات:

حضرت فاطمہ زہراؑ  نے اپنے خطبہ فدک  کے اس بخش میں بعثت پیغمبراکرمؐ کے اہم آثار و برکات کے ذکر کے ساتھ ساتھ حاضرین اور اپنے مخاطبین کو ان کے گذشتہ کے بعض احوال کو یاد دلایا اور ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلایا  یہاں بعض مسائل کی مختصر توضیح یہاں پیش کی جارہی ہے:

۱۔ شہزادی کائناتؑ  نے بعثت و رسالت پیغمبرؐ کے آثار و برکات کی اہمیت و عظمت کو یاد دلاتے ہوئے  بعثت سے پہلے عرب کے لوگوں کی بدحالی اوربہت ہی حقیرانہ زندگی کے بارے میں چند باتوں کا ذکر فرمایا:

الف: وَ كُنْتُمْ عَلی شَفا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ؛ تم دوزخ کے کنارے کھڑے تھے؛ یعنی روحانی اور معنوی لحاظ سے بہت ہی پستی میں تھے اور بت پرستی و مادہ پرستی کی ظلمت میں غرق تھے جو حقیقت میں انسان کے لئے آگ میں زندگی گزارنے اور ہلاکت سے دوچار ہونے جیسا ہے۔

ب: مُذْقَةَ الشَّارِبِ، وَ نُهْزَةَ الطَّامِعِ، وَ قُبْسَةَ الْعِجْلانِ، وَ مَوْطِیءَ الْاَقْدامِ یعنی تم ایسے بے مقدار تھے جیسے پینے والے کے لئے ایک گھونٹ اور طمع کرنے والے کا ایک چلو ہوتا ہے  اور ہر آنے جانے والے کے لئے  ایک چنگاری کی مانند تھے اور ایسے ذلیل تھے جیسے پیروں تلے خاک ہوتی ہے۔ شہزادی کائناتؑ نے ان چار مثالوں کے ذریعہ اسلام سے پہلے عربوں کی اجتماعی اور معاشرتی بدحالی کا ذکر فرمایا کہ تم لوگ ایک چلّو اور ایک گھونٹ پانی کی طرح تھے جس کو جو بھی چاہتا تھا استعمال کرلیتا تھا ۔جس طرح کوئی جانور ذبح کیا جائے اور لوگ آکر اسے لوٹ لے جائے۔ کوئی ٹانگ اٹھا لے جائے کوئی کچھ اور۔ اسی طرح اس معاشرہ میں جس کا جس پر زور چل جاتا تھا وہ کمزور سے فائدہ اٹھاتا تھا ۔ہر طاقتور اور غارتگر دوسرے کے مال و دولت پر حملہ ور ہوجاتا تھا  یا اپنی غلامی میں رکھ کام نکالتا تھا۔ یا مثال کے طور پر کوئی آگ جلانے کے لئے لکڑیاں جلائے اور ہر آنے جانے والا اس میں سے اپنے استفادے کے لئے لکڑی اٹھا کر لے جائے اسی طرح جو بھی طاقت کے لحاظ سے مضبوط ہوتا تھا تو دوسروں پر حملہ کرکے زبردستی اس کے گھر، کھیت، مال و منال پر قبضہ کر لیتا تھا یعنی پوری طرح لوٹ کسوٹ اور غارتگری کا ماحول تھا اور کمزوروں کا کوئی دفاع کرنے والا نہیں تھا۔

ج: تَشْرَبُونَ الطَّرْقَ، وَ تَقْتاتُونَ الْقِدَّ یعنی تم گندہ پانی پیتے تھے اور بے دباغت کی ہوئی کھال  ( یا پتّے)چباتے تھے۔ شہزادیؑ نے ان دو جملوں کے ذریعہ اسلام سے پہلے عربوں کی مادّی اور اقتصادی حالت کا ذکر فرمایا کہ تم اتنے غریب اور فقیر تھے کہ صاف ستھرا پانی بھی پینے کا انتظام نہیں کرسکتے تھے وہی گھڑوں میں جمع گندا پانی پیتے تھے۔ اسی طرح  کھانے کے لئے تمہارے پاس بہت ہی معمولی غذا تھی جیسے جانوروں کی کھال یا بغیر گوشت و چربی والا حصہ یا بعض نسخوں کے مطابق پیڑوں کے پتّے چباتے تھے۔ یعنی اتنے غریب و فقیر تھے کہ کھانے پینے کے لئے بہت ہی نامناسب حالت تھی۔

د: اَذِلَّةً خاسِئینَ، تَخافُونَ اَنْ یتَخَطَّفَكُمُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِكُمْ؛ یعنی ذلیل اور دھتکارے ہوئے تھے اور تم ڈر تے رہتے تھے کہ تمہارے اطراف کے لوگ  کہیں تمہیں اچک نہ لیں۔ یہاں شہزادیؑ ان دو جملوں میں اسلام سے پہلے عربوں کی روحانی اعتبار سے حقارت اور پستی کا ذکر فرما رہی ہیں کہ اے لوگوں تم معاشرے کے دھتکارے ہوئے لوگ تھے۔ تم اجتماعی آداب  کے لحاظ سے کچھ نہیں جانتے تھے۔ تم ہمیشہ خوف و ڈر میں رہتے تھے کہ کہیں طاقتور لوگ تمہیں اٹھا نہ لے جائیں اور تمہیں اپنی غلامی کی زنجیروں میں نہ جکڑ لیں۔

۲۔  شہزادیؑ نے عربوں کے مذکورہ ناگوار حالات اور پریشانیوں سے نجات کو اپنے بابا کی بعثت و رسالت کی مرہنون منّت جانا اور فرمایاکہ: « فَأَنْقَذَکُمُ اللهُ تَبارَکَ وَ تَعالی بِأبی مُحَمَّدٍ(ص) بَعْدَ اللَّتَیَّا وَالَّتی…»؛ خداوند عالم نے میرے بابا حضرت محمد مصطفی  ؐکے ذریعہ سے تمہیں  مذکورہ ناگوار حالات اور پریشانیوں کے بعد تمہیں نجات عطا فرمائی”۔

۳۔ شہزادی کائناتؑ مسلمانوں کو ان کا ماضی یاد دلا کر شاید بیان کرنا چاہتی ہیں کہ دیکھو جب تم لوگوں کی انفرادی اور اجتماعی اعتبار سے اور اقتصادی اور مالی لحاظ سے کوئی حیثیت نہیں تھی تو میرے باباؐ نے تمہاری ہدایت فرمائی اور ہر طرح کے خطروں سے تمہیں بچاکر آج معاشرے میں اہم مقام پر پہنچادیا  ہے اب تمہارے داخلی و خارجی دشمن تمہیں ختم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے ۔ اب تمہیں کوئی کمتر نہیں سمجھتا ہے اور تمہارا مقابلہ نہیں کرسکتا ہے تو اب تمہیں صرف اور صرف اللہ اور اس کے رسولؐ ہی کے بتائے ہوئے راستے پر چلنا چاہئے اور دین و شریعت کے معاملے میں کسی طرح کی خیانت نہیں کرنا چاہئے۔ دشمنوں کے ساتھ سازباز نہیں کرنا چاہئے۔ تمام سیاسی و سماجی مسائل کو اسی طریقے سے آگے بڑھانا چاہئے جیسے خدا و رسولؐ نے بیان فرمایا اور جدید امور کے لئے ہم اہل بیتؑ کو رکھا ہے ۔ اس مسئلہ کا ذکر  خداوندعالم نے  ابتدائی ایام میں مسلمانوں کے ڈر و خوف کو یاد دلاتے ہوئے پیغمبرؐ اور اسلام کی بدولت ان کی مدد کرنے اور ساتھ ہی ساتھ اجتماعی اور دینی معاملات میں خیانت کاری کے ارتکاب سے ہوشیاررہنے کی تاکید کےساتھ بیان فرمایاکہ: «وَاذْكُرُوا إِذْ أَنْتُمْ قَلِيلٌ مُسْتَضْعَفُونَ فِي الْأَرْضِ تَخَافُونَ أَنْ يَتَخَطَّفَكُمُ النَّاسُ فَآوَاكُمْ وَأَيَّدَكُمْ بِنَصْرِهِ وَرَزَقَكُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ- يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَخُونُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ»؛ «مسلمانو !اس وقت کو یاد کرو جب تم زمین پر  (مکّہ میں) قلیل تعداد میں اور کمزور تھے -تم ہر آن ڈرتے تھے کہ لوگ تمہیں اچک لے جائیں گے   اس وقت  خد انے تمہیں پناہ دی اور اپنی مدد سے تمہاری تائید کی -تمہیں پاکیزہ روزی عطا کی تاکہ تم اس کا شکریہ ادا کرو ۔ ایمان والو  خدا و رسول اور اپنی امانتوں کے بارے میں خیانت نہ کرو جب کہ تم جانتے بھی ہو» (سورہ انفال، آیت26-27)۔

۴۔ حضرت فاطمہ زہراؑ نے اپنے خطبہ فدک میں گذشتہ زمانے میں گزرے ہوئے ان حساس لمحوں کو یاد دلایاجو ہر دن مسلمانوں  پر ایک صدی کی طرح بھاری گزرتے تھے تاکہ آج مسلمان اللہ کی عظیم نعمتوں کو بھول نہ جائیں  اور الہی انعامات کی ناشکری نہ کریں اور صرف الہی راستے پر چلیں اور پیغمبرؐ کی عظیم تعلیمات کو دوام عطا کریں اور منافقوں و بدخواہوں کی سازشوں  کے سامنے تسلیم نہ ہوجائیں  ۔شہزادیؑ نے قرآن مجید کے اس پیغام “وَكُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ” کی طرف اشارہ فرمایا جو مسلمانوں کے لئے اہم ہدایات والی آیات میں آیا ہے کہ: «وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا  كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ۔ وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ  وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ  وَأُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ»؛ اور اللہ کی ر سّی کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور آپس میں تفرقہ نہ پیدا کرو اور اللہ کی نعمت کو یاد کرو کہ تم لوگ آپس میں دشمن تھے اس نے تمہارے دلوں میں اُلفت پیدا کردی تو تم اس کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے اور تم جہّنم کے کنارے پر تھے تو اس نے تمہیں نکال لیا اور اللہ اسی طرح اپنی آیتیں بیان کرتا ہے کہ شاید تم ہدایت یافتہ بن جاؤ ۔ اور تم میں سے ایک گروہ کو ایسا ہونا چاہئے جو خیر کی دعوت دے، نیکیوں کا حکم دے برائیوں سے منع کرے اور یہی لوگ نجات یافتہ ہیں۔  اور خبردار ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جنہوں نے تفرقہ پیدا کیا اور واضح نشانیوں کے آجانے کے بعد بھی اختلاف کیا کہ ان کے لئے عذاب  عظیم ہے  (آل عمران، آیت۱۰۳-۱۰۵)۔

متعلقہ مضامین

تبصره کریں

Back to top button
×