احادیثاسلامی معارف

فاطمہ زہراؑ کا درد دل اور خطبہ فدکیہ (15)

 نبوت پیغمبراکرمؐ کے آثار و برکات (1)

 نبوت پیغمبراکرمؐ کے آثار و برکات (1)

«… فَبَلَّغَ الرِّسالَةَ صادِعاً بِالنَّذارَةِ، مائِلاً عَنْ مَدْرَجَةِ الْمُشْرِكینَ، ضارِباً ثَبَجَهُمْ، اخِذاً بِاَكْظامِهِمْ، داعِیاً اِلی سَبیلِ رَبِّهِ بِالْحِكْمَةِ و الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ، یجُفُّ الْاَصْنامَ وَ ینْكُثُ الْهامَّ، حَتَّی انْهَزَمَ الْجَمْعُ وَ وَ لَّوُا الدُّبُرَ. حَتَّی تَفَرَّی اللَّـیلُ عَنْ صُبْحِهِ، وَ اَسْفَرَ الْحَقُّ عَنْ مَحْضِهِ، و نَطَقَ زَعیمُ الدّینِ، وَ خَرَسَتْ شَقاشِقُ الشَّیاطینِ، وَ طاحَ وَ شیظُ النِّفاقِ، وَ انْحَلَّتْ عُقَدُ الْكُفْرِ وَ الشَّقاقِ، وَ فُهْتُمْ بِكَلِمَةِ الْاِخْلاصِ فی نَفَرٍ مِنَ الْبیضِ الْخِماصِ…»

«پس آنحضرتؐ نے خدا کے پیغام  کو واضح طور پر  لوگوں کو ڈراتے (ہوشیار و بیدار کرتے) ہوئے پہنچایا۔ آپؐ نے مشرکین کے مسلک کی راہ و رسم پر کوئی توجہ نہیں کی۔  آپؐ نے ان کی کمر توڑ دی اور ان کی بولتی بند کر دی تھی۔ آپؐ  اپنے پروردگار کے راستے کی طرف حکمت اور موعظہ حسنہ کے ساتھ دعوت دیتے رہے۔ آپؐ بتوں کوتوڑتے اور اہل شرک کے سروں  کو سرنگوں کرتے رہے؛ یہاں تک کہ گروہ مشرکین کو شکست ہوئی اور الٹے پاؤں بھاگ کھڑے ہوئے اور اس طرح  شرک و جہالت کی اندھیری رات ڈھل گئی اور توحید کی نورانی صبح  نمودار ہوگئی اور حق اپنی خالص شکل میں نمودار ہوا۔ دین الہی کے رہبر کی بلند صدا گونجنے لگی اور شیطانوں کی  زبانوں پر تالے پڑگئے ۔ نفاق پرور کمینے ہلاک ہوئے، کفر اور نافرمانی کی گرہیں کھل گئیں اور تم نے اس حالت میں کلمہ ٔاخلاص  پڑھا جب خالی ہاتھ اورکم تعداد میں تھے … »۔

اہم پیغامات:

حضرت فاطمہ زہراؑ  نے اپنے خطبہ فدک کے اس حصے میں حضرت محمد مصطفی  کی تبلیغ دین کے طریقہ کار، اس کے آثار و برکات اور رسالت سے پہلے لوگوں کی بدحالیوں کے بارے میں اشارہ فرمایا۔ ان میں سے بعض مسائل کی مختصر توضیح یہاں پیش کی جارہی ہے:

۱۔  شہزادی کائناتؑ نے پیغمبراکرمؐ کے انداز اور تبلیغ رسالت کے طریقہ کار کو بہترین طریقے سے بیان فرمایا۔ اس سے پہلے آپؑ ذکر کرچکیں کہ آنحضرتؐ  لوگوں کو تکلیف اور مشکلات میں نہیں دیکھ پاتے تھے۔ ان کی ہدایت کے لئے بہت حریص اور کوشاں رہتے تھے۔ مومنین کے لئے بہت مہربان اور شفیق تھے۔ یہاں پھر آنحضرتؐ کے انداز تبلیغ کے بارے میں مندرجہ ذیل اہم پہلوؤں کا ذکر فرمایا:

الف:  فَبَلَّغَ الرِّسالَةَ صادِعاً بِالنَّذارَةِ یعنی آنحضرتؐ نے اکیلے دم پر تبلیغ رسالت کے عظیم کام کو شروع اور ایسے ماحول اور حالات میں بلند آواز سے ندائے توحید کو لوگوں تک پہنچایا جہاں کوئی توحید کا نام لینے والا نہیں تھا۔ ایسے حالات میں لوگوں کو بت پرستی اور مشرکانہ کاموں اور غلط رسم و رواج سے ڈرایا جب کسی کو ان کے مقابلے میں بولنے کی اجازت نہیں تھی۔ جس ماحول میں ہر طرف توحید کی حمایت اور تبلیغ کے لئے سکوت و خاموشی طاری تھی وہاں آپ نے تن تنہا اسلام کی دعوت دینا شروع کی  اور حکم الہی کو بجالانے کے لئے بغیر خوف و خطر آمادہ ہوگئے اور راہ تبلیغ میں نکل پڑے۔

ب: مائِلاً عَنْ مَدْرَجَةِ الْمُشْرِكینَ؛ یعنی آپؐ نے مشرکین کے راہ و رسم اور ان کے مسلک کے اہم اعتقادات اور اعمال و افعال پر کوئی توجہ نہیں دی۔ جہاں پوری طرح توحید و یکتاپرستی کے خلاف صرف شرک و بت پرستی کا غلبہ تھا۔ مشرکین حاکم تھے۔ وہاں آپؐ نے لوگوں کو توحید کی دعوت دی۔جبکہ مشرکین میں سے کوئی اس بات کو پسند نہیں کرتا تھا بلکہ وہ تو ڈرا دھمکاکر اور کبھی لالچ دے کر پیغمبراکرمؐ  کو روکنے کی بھی پوری کوششیں کرتے رہے لیکن آپ ؐ نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا ۔

ج: ضارِباً ثَبَجَهُمْ، اخِذاً بِاَكْظامِهِمْ؛ یعنی  آپؐ نے مشرکین کی کمر توڑ دی اور ان کی بولتی بند کر دی تھی۔ مطلب یہ کہ آنحضرتؐ  مشرکین کے مقابلے میں اپنے عمل و کردار اور اپنی باتوں سے اس طرح اسلام کی تبلیغ فرماتے اور الہی معارف کو پیش کرتے تھے کہ ان کے پاس کوئی مثال نہیں ہوتی تھی  اور آپ ؐ ہر مطلب کے لئے ایسے روشن دلائل اور براہین پیش  فرماتے تھے کہ مشرکین لا جواب ہوجاتے تھے اورپیغمبرؐ کی باتوں کا ان کے پاس کوئی منطقی ، عقلی اور حقیقت پر مبنی جواب نہیں رہتا تھا۔ خاص طورپر مشرکین کی کمر اس لئے ٹوٹ گئی اور ان کی بولتی اس وجہ سے بند ہوجاتی تھی کہ پیغمبراکرمؐ اسلامی عقائد ومعارف کے سلسلے میں مشرکین کی کسی بھی سازش کا شکار نہیں ہوتے تھے۔ اسی طرح نہ ہی کسی طرح کی نرمی اور تاثیرپذیری کو قبول کرتے تھے۔مثلا توحید کے عقیدے کے سلسلے میں مشرکین نے کئی بار الگ الگ طرح سے پیشنہاد دی تھی لیکن کبھی آپؐ  نے ان کے عقیدے کو قبول نہیں فرمایا۔اور واضح انداز میں ہمیشہ وحدانیت کی تبلیغ فرماتے رہے، سورہ توحید اور سورہ کافرون اس سلسلے میں بہترین گواہ ہے۔ اس طرح سے  آنحضرت ؐ کے مقابلے میں مشرکین کی کوئی چال کامیاب نہیں ہوپائی تھی ۔

د: داعِیاً اِلی سَبیلِ رَبِّهِ بِالْحِكْمَةِ و الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ؛ پیغمبراکرمؐ کے تبلیغ رسالت کا بنیادی طریقہ کار یہ تھا کہ آپ حکمت کے ذریعہ اور اچھی نصیحتوں کے ذریعہ دعوت دیتے تھے۔ مشرکین  ہر طرح کی سختیاں اور پریشانیاں پیدا کرتے تھے، پیغمبرؐ اور آپ ؐکے ماننے والوں کو ڈرایا دھمکایا کرتے تھے۔پھر بھی آپ ؐ کے طریقہ کار میں کوئی افراط و تفریط و انحراف نہیں ہوتا تھا  اور آپ ؐ  ہمیشہ حکمتوں اور نیک نصیحتوں کے ذریعہ ہی تبلیغ فرماتے تھے۔

ھ: یجُفُّ الْاَصْنامَ وَ ینْكُثُ الْهامَّ یعنی آپؐ  نے بتوں کوتوڑا اور اہل شرک کے سروں  کو سرنگوں کیا۔ پیغمبرؐ نے اسلام اور توحید کی تبلیغ و ترویج کے ساتھ ساتھ، شرک کے آثار اور مشرکین کا بھی خاتمہ فرمایا۔ یعنی وہ مشرکین جو غرور و گھمنڈ کے ساتھ آنحضرتؐ سے مقابلے کے لئے آئے۔ جنگوں پر جنگیں کیں۔ کمزور مسلمانوں کو ستایا ان سب کی ہیبت کو خاک میں ملا دیا اور ان کے غرور کو توڑ دیا۔ ان کے بتوں کو اپنے ہاتھوں سےتوڑا، بت خانوں کو منہدم کردیا اور اسلام کے دشمنوں کا قلعہ قمع کردیا۔

۲۔ شہزادی کائناتؑ نےاپنے بیان میں مزید پیغمبراکرمؐ کے کار رسالت  کے مندرجہ ذیل نتائج اور آثارکی طرف اشارہ فرمایا:

اور توحید کی نورانی صبح  نمودار ہوگئی اور حق اپنی خالص شکل میں نمودار ہوا۔ دین کا ڈنکا بولنے لگا اور شیطانوں کے ناطقے بند ہو گئے۔ نفاق پرور کمینے ہلاک ہوئے، کفر اور نافرمانی کی گرہیں کھل گئیں

الف:  حَتَّی انْهَزَمَ الْجَمْعُ وَ وَ لَّوُا الدُّبُرَ؛ مشرکین کو شکست  ہوئی اور  وہ الٹے پاؤں بھاگنے پر مجبور ہوگئے۔

ب: حَتَّی تَفَرَّی اللَّـیلُ عَنْ صُبْحِهِ؛ شرک و جہالت کی اندھیری رات ڈھل گئی اور توحید کی نورانی صبح نمودار ہوئی۔

ج: وَ اَسْفَرَ الْحَقُّ عَنْ مَحْضِهِ؛ حق اپنی خالص اور واضح شکل میں روشن و نمودار ہوگیا۔

د: و نَطَقَ زَعیمُ الدّینِ؛ دین الہی کے رہبر کی آواز گونجنے لگی اور اسلام کی دعوت پوری دنیا میں پھیل گئی۔

ھ: وَ خَرَسَتْ شَقاشِقُ الشَّیاطینِ؛ شیاطین جن و انس کی زبانوں پر تالے پڑگئے۔

و: وَ طاحَ وَ شیظُ النِّفاقِ؛ منافقین اور نفاق پرور گروہ  کو ہلاکت کا سامنا کرنا پڑا۔

ز: وَ انْحَلَّتْ عُقَدُ الْكُفْرِ وَ الشَّقاقِ؛ کفر و نافرمانی کی گرہیں کھل گئیں  یعنی اسلام کے ظہور کے بعد جو کفار و مشرکین اور  اہل کتاب متحد ہوگئے تھے اور اسلام و توحید کو مٹانے کے لئے جمع ہوکر کئی بار جنگوں میں ظاہری اور پوشیدہ طریقوں سے آئے تھے وہ اسلام کی کامیابی کے بعد بکھر گئے اور ان کی طاقت کا خاتمہ ہوگیا تھا۔  

ح: وَ فُهْتُمْ بِكَلِمَةِ الْاِخْلاصِ فی نَفَرٍ مِنَ الْبیضِ الْخِماصِ؛ یعنی تم نے کلمہ توحید پڑھا جبکہ تمہاری تعداد و طاقت کم تھی۔ یعنی پیغمبر اکرمؐ نے تمام تر زحمات و مشکلات برداشت کیں۔ کفار و مشرکین سے مقابلہ فرمایا تاکہ تم کلمہ اخلاص پڑھ لو اور خلوص کے ساتھ اسلام کے دائرے میں آجاؤ۔

متعلقہ مضامین

تبصره کریں

Back to top button
×