میں فاطمہ محمدؐ کی بیٹی ہوں
«… اَیهَا النَّاسُ! اِعْلَمُوا اَنّی فاطِمَةُ وَ اَبی مُحَمَّدٌ، اَقُولُ عَوْداً وَ بَدْءاً، وَ لااَقُولُ ما اَقُولُ غَلَطاً، وَ لااَفْعَلُ ما اَفْعَلُ شَطَطاً، لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ اَنْفُسِكُمْ عَزیزٌ عَلَیهِ ما عَنِتُّمْ حَریصٌ عَلَیكُمْ بِالْمُؤْمِنینَ رَؤُوفٌ رَحیمٌ. فَاِنْ تَعْزُوهُ وَتَعْرِفُوهُ تَجِدُوهُ اَبی دُونَ نِسائِكُمْ، وَ اَخَا ابْنِ عَمّی دُونَ رِجالِكُمْ، وَ لَنِعْمَ الْمَعْزِی اِلَیهِ صَلَّی اللَّـهُ عَلَیهِ وَ الِهِ…».
«… لوگو! جان لو کہ میں فاطمہ ہوں اور میرے والد حضرت محمدؐ ہیں۔ جو بات میں تم سے ابتدا میں کہہ رہی ہوں، وہی آخر تک کہتی رہوں گی اور میں غلط بات نہیں کہتی اور اپنے فعل میں حد سے تجاوز نہیں کرتی۔ یقینا تمہارے پاس خدا کا وہ رسول آیا ہے جو تم میں سے ہے۔ تمہارا تکلیف میں پڑنا اس پر شاق ہے۔ وہ تمہاری بھلائی کیلئے حریص ہے جو مومنین پر شفیق اور مہربان ہے۔(سورہ توبہ، آیت ۱۲۸)۔ پس اگر تم ان کی طرف کسی کو نسبت دو اور ان کا تعارف کرواؤ تو تم ان کو میرا باپ پاؤ گے نہ کہ اپنی عورتوں کا اور انہیں میرے ابن عم (علیؑ ) کا بھائی پاؤ گے نہ کہ اپنے مردوں میں سے کسی کا۔ آنحضرتؐ بہترین شخص ہیں جن کی طرف نسبت دی جائے…»۔
اہم پیغامات:
حضرت فاطمہ زہراؑ اپنے خطبے کے اس حصے میں خود اپنے بارے میں، اپنی شان و منزلت اور مقام کے بارے میں متعدد مطالب کا ذکر فرمارہی ہیں۔جن کی مختصر وضاحت یہاں پیش کی جارہی ہے:
۱۔ سب سے پہلے حضرت فاطمہ زہراؑ فرمارہی ہیں کہ “اے لوگو!جان لو میں فاطمہؑ ہوں میرے والد حضرت محمدؐہیں۔ اس ایک جملے میں سینکڑوں مطالب اور مباحث پوشیدہ ہیں جن کی تشریح کے لئے بہت سی کتابیں بھی لکھی جاچکی ہیں۔یہاں تفصیل سے اس سلسلے میں بحث کا ذکر نہیں کیا جاسکتا ہے لیکن اس جملے سے شہزادیؑ نے مخاطبین اور آئندہ آنے والے تمام مسلمانوں کو چند اہم سیاسی پیغام دیئے ہیں جن میں بعض یہ ہیں کہ:
(الف) یاد رکھو! اور پردے کے پیچھے بیٹھے ہوئے مسلمان اور تمام آئندہ نسلیں جان لیں کہ آج جو ذات کلام وتقریر کر رہی ہیں۔ آج جو خطیبہ ہیں وہ کوئی اور نہیں بلکہ اس کا نام “فاطمہ “ہے۔ کل کوئی بہانہ تراشی نہ کرنا۔ کل یہ نہ کہہ دینا کہ کوئی خاتون تھی جس کا نام ہمیں نہیں پتہ تھا۔ جس کو ہم دیکھ نہیں پائے تھے ہم تو پردے کے پیچھے بیٹھے تھے۔ لہذا یہاں حضرت فاطمہ زہراؑ نے اپنے آپ کا نام لے کر تعارف کروادیا تاکہ سقیفہ کے سردار اور ان کے حامیوں کے پاس کوئی بہانہ باقی نہ رہے۔ اس لئے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے بہت جلدی پیغام غدیر کو بھلا دیا۔ بہت جلدی انہوں نے بہت سی حقیقتوں کا انکار کردیا۔ بہت سی باتوں میں تحریف و تبدیلی کردی۔ میرے حق اور ورثہ “فدک” کو مختلف حیلوں، بہانوں اور حتی ایک جھوٹی اور جعلی حدیث پیش کرکے غصب کرلیا۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے آیات قرآنی اور احادیث نبویؐ کو فراموش کردیا اور ان کی ناروا اور نادرست تاویل کرنے لگ گئے ہیں۔
(ب) شہزادی کائناتؑ نے اپنے تعارف میں فرمایا “میں فاطمہؑ ہوں میرے والد حضرت محمدؐ ہیں”۔ یعنی یہاں شہزادیؑ نے صرف فاطمہؑ کہہ کر اپنا تعارف نہیں کروایا بلکہ اپنے حسب و نسب کا بھی ذکر فرمایا ہے اور بیان کیا کہ میں وہی فاطمہؑ بنت حضرت محمدؐ ہوں۔ اس جملے کا پیغام یہ ہے کہ اے پردے کے پیچھے بیٹھنے والے مسلمانو! اور سقیفہ کے سردارو! جان لو یہاں پر بولنے اور بات کرنے والی خاتون “فاطمہ ہے جو حضرت محمدؐ کی بیٹی ہیں۔ آئندہ تم فاطمہؑ نامی خاتون کا اقرار کرنے کے بعد یہ نہ کہہ دینا کہ کوئی نامعلوم فاطمہؑ مسجد میں خطبہ دینے آئی تھی۔ یا ان کو کسی نے تقریر کے لئے بھیج دیا تھا یا وہ خود اپنے آپ جوش میں آکر حضرت محمدؐ کی بیٹی فاطمہؑ کی حمایت اور طرفداری کے لئے تقریرکرنے آگئی تھی۔ لہذا حضرت فاطمہؐ نے اپنے حسب و نسب کے ساتھ۔ پیغمبراکرمؐ کی بیٹی ہونے کے ذکر کے ساتھ اپنا مکمل تعارف کروایا تاکہ کوئی بھی، کسی بھی زمانے میں کسی طرح سے اس خطیبہ اور تقریر کرنے والی شخصیت کے بارے میں شک و شبہہ پیدا نہ کرسکے۔اور اس طرح شناخت فاطمہؑ کے انکار کے سارے راستے بند ہوجائیں۔
ج: شہزادی کائناتؑ نے “میں فاطمہ ہوں۔ بنت محمدؐ” یہ کہہ کر تمام مسلمانوں کو بیدار کرنا چاہا کہ اے مسلمانو!۔ اے میری باتوں کو سننے والو!۔ اے حاضرین۔ اے مہاجر و انصار۔ اے تمام لوگو! تمہیں کیا ہوگیا ہے میں تو وہی فاطمہؑ بنت محمدؐ ہوں جن کو بارہا تم نے میرے بابا کی حدیثوں میں۔ میرے بابا کے اقوال میں سنا ہے۔ میرے فضائل کو سنا ہے۔ میرے تعارف کو سنا ہے۔ میرے بابا کے ذریعہ میرے احترام کو، میری تعظیم کو دیکھا ہے۔ میرے بابا نے میرے ہی بارے میں فرمایا تھا کہ : فاطمہؑ میرا ٹکڑا ہے۔ اس کو اذیت دینا مجھے اذیت دینا ہے۔ میرے بابانے میرے ہی بارے میں کئی بار فرمایا کہ میں اپنے بابا کی ماں ہوں۔ میرے ہی بارے میں فرمایا کہ فاطمہؑ بابا آپ پر قربان ہو۔ میرے ہی بارے میں فرمایا کہ فاطمہؑ مرضی و خشنودی الہی کا محل و مرکز ہے۔ فاطمہؑ تمام کائنات کی خواتین کی سردار ہیں۔ فاطمہؑ خواتین جنت کی سردار ہیں… لہذا اے مسلمانو! تم سب کے سب ہوش میں آؤ۔ تم کو کیا ہوگیا؟ تم سب تو مجھے اچھی طرح جانتے پہچانتے ہو؟ اب تم کیوں بدل گئے ہو؟
۲۔ حضرت فاطمہ زہراؑ نے اپنے مختصر تعارف کے ساتھ ساتھ اپنے قول و فعل کی صداقت کے بارے میں بھی فرمایا کہ: «اَقُولُ عَوْداً وَ بَدْءاً، وَ لااَقُولُ ما اَقُولُ غَلَطاً، وَ لااَفْعَلُ ما اَفْعَلُ شَطَطاً»؛ میری باتیں ابتداء سے آخر تک یکساں ہیں۔ میرے قول، میری باتوں میں کوئی خطا و غلطی نہیں ہے۔ میرا کوئی بھی فعل خلاف حق نہیں ہے۔ یہاں حضرت فاطمہ زہراؑ نے اپنی عصمت و طہارت کے اظہار کے علاوہ مسلمانوں کو اس بات کے لئے بھی آگاہ کردیا کہ دیکھو فاطمہؑ وہ ہیں جس کے قول و فعل میں کوئی بھی غلطی اور خطا نہیں ہے۔ اس کا قول و فعل ہرگز حق و حقیقت و صداقت کے برخلاف نہیں ہے۔ لہذا جو بھی میرا دعویٰ ہے۔ جو بھی میرا مطالبہ ہے۔ جو بھی میری باتیں ، نصیحتیں اور میرے اظہارات ہیں وہ سب کے سب میری ہی طرح معصوم ہیں۔ تم کبھی بھی میری صداقت میں شکّ نہ کرنا۔ کبھی بھی مجھے جھٹلانے کی کوشش نہ کرنا ۔
۳۔ حضرت فاطمہ زہراؑ نے اپنے تعارف کے ساتھ ساتھ اپنے مدمقابل کی حقیقت کو بھی آشکار فرمایا دیا کہ دیکھو ہمارے اور ان سقیفہ کے سرداروں اور ان کے پیروکاروں میں واضح تفریق پائی جاتی ہے۔ ہم جو کچھ کہتے ہیں اس میں یکسانیت پائی جاتی ہےاور یہ جو کچھ کہتے ہیں اس میں تضاد اور اختلاف پایا جاتا ہے۔ ہم جو کچھ کہتے ہیں اس میں کوئی خطا، غلطی، اشتباہ نہیں ہے۔ اور یہ جو کچھ کہتےہیں اس کے خطا و غلطی اور اشتباہ ہونے کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ ہماری باتوں کی طرح ہمارے افعال بھی کبھی حق و صداقت کے خلاف نہیں ہوتے ہیں لیکن ان کے افعال اور ان کی کارستانیاں حق و صداقت کے خلاف رہی ہیں۔ خلاصہ یہ ہے ہم حق وصداقت کے علمبردار ہیں اور یہ ہمارے مقابلے میں ہیں۔
۴۔ حضرت فاطمہ زہراؑ نے اپنے تعارف اور اپنے حسب و نسب کے بعد اپنے بابا کا جب ذکر آیا تو آپ کے اوصاف میں سے لوگوں کو مسلمان اور مومن بنانے اور ان کی ہدایت کے لئے حریص ہونے، مومنین کے لئے شفیق اور مہربان ہونے کی صفت کا ذکر فرمایا جس کا تذکرہ قرآن مجید کی آیت میں آیا ہے کہ : «لَقَدْ جاءَکُمْ رَسُولٌ مِنْ اَنْفُسِکُمْ عَزیزٌ عَلَیْهِ ما عَنِتُّمْ حَریصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنینَ رَؤُوفٌ رَحیمٌ»؛ “بیشک تمہارے پاس خود تم ہی میں سے ایک رسول آیا ہے۔ تمہیں تکلیف میں دیکھنا اس پر شاق گزرتا ہے۔ وہ تمہاری بھلائی کا نہایت خواہاں ہے۔ اور مؤمنین کیلئے نہایت شفیق و مہربان ہے” (سورہ توبہ، آیت ۱۲۸)۔ شہزادیؑ نے ان اوصا ف کے ذکر کے بعد دوبارہ اپنا تعارف کروایا کہ یاد رکھو حضرت محمدؐ میرے ہی بابا تھے۔ عورتوں میں کوئی بھی ایسانہیں ہے جو اس بات کا دعویٰ کرسکے کہ میرے علاوہ کسی دوسری خاتون کے بابا تھے۔ اسی طرح آنحضرتؐ میرے ساتھ میرے ہی چچا کے بیٹے حضرت علیؑ کے بھائی ہیں۔ تم مردوں میں سے کسی اور کے بھائی نہیں تھے۔اورآپؐ سے ہماری نسبت بہترین نسبت ہے اس لئےکہ “آنحضرتؐ بہترین شخص ہیں جن کی طرف نسبت دی جائے”۔
۵۔ حضرت فاطمہ زہراؑ مذکورہ جملات میں اپنے بابا سے نسبت کے ذریعہ اپنے تعارف اور آنحضرتؐ کے اوصاف کا ذکر فرماکر اس بات کی طرف بھی اشارہ کررہی ہیں کہ اے مسلمانو! میں فاطمہؑ اسی رسولؐ کی بیٹی ہوں جسے تمہیں تکلیف میں دیکھنا شاق گزرتا تھا۔ آج اسی رسولؐ کی بیٹی تکلیف میں ہے لیکن تمہیں اس کی باالکل پروا نہیں۔ وہ رسولؐ تمہاری ہدایت اور بھلائی کے لئے حریص تھے ، تمام تر کوشش کرتے تھے۔ اور مومنین کے لئے نہایت شفیق و مہربان تھے۔ لیکن آج اس نبیؐ بیٹی کا کوئی ہمدرد نظر نہیں آرہا ہے۔ اور جس علیؑ سے تم نے اس کا منصب و حق خلافت چھین لیا ہے وہ علیؑ بھی اسی رسولؐ کے بھائی تھے۔ اس علیؑ کی نسبت بھی میری طرح عظیم ہے۔ تم نے اس کو بھی تکلیف و مصائب میں مبتلا کردیا ہے۔ رسولؐ کی زندگی میں یہی علیؑ تھے جنہوں نے اسلام اور مسلمانوں کی بہتری کے لئے کسی بھی خدمت سے گریز نہیں کیا۔ ہر جگہ اپنے سر کی بازی لگاتے رہے۔
۶۔ حضرت فاطمہ زہراؑ نے اپنے بابا حضرت محمد مصطفیؐ سے اپنی نسبت کے ساتھ لوگوں کے لئے شفیق و مہربان ہونے کی خصوصیت کی طرف اشارہ فرما کر اس بات کا بھی اعلان کردیا کہ اے دنیا والو! اے مسلمانو! ہم وہ ہیں جن کو خدا نے دنیا کے لئے سب سے زیادہ شفیق اور مہربان بناکر بھیجا ہے۔ ہمارے باباؑ، ہمارے شوہر علیؑ اور میں فاطمہ بنت محمدؐ کے اختیار میں اللہ تعالیٰ نے اس پوری کائنات کو رکھا ہے۔ ہماری عظمت و منزلت کو تو تم لوگ سمجھ ہی نہیں سکوگے۔ ہمارے مراتب اور ہماری بلندی تک تمہاری پرواز فکر پہنچ ہی نہیں سکتی ہے لیکن اتنا سمجھ لو کہ ہمارے قول و فعل کی روشنی میں اور ہم سے مرتبط رہ کر ہی تم دنیا و آخرت میں کامیاب ہوسکتے ہو۔ ہمارے بابا حضرت محمدؐ اور آپ کے اہل بیتؑ ہی واقعی طور پر تمہارے ہدایت اور نجات کے لئے کوشاں رہیں گے۔ ہمارے مقابلے میں آنے والے تمہیں گمراہ کریں گے اور تمہاری دنیا و آخرت خراب کردیں گے۔