احادیثاسلامی معارف

فاطمہ زہراؑ کا درد دل اور خطبہ فدکیہ (13)

عقائد اور احکام کی حکمتیں؟

عقائد اور احکام کی حکمتیں؟

فَجَعَلَ اللَّـهُ الْایمانَ تَطْهیراً لَكُمْ مِنَ الشِّرْكِ، وَ الصَّلاةَ تَنْزیهاً لَكُمْ عَنِ الْكِبْرِ، وَ الزَّكاةَ تَزْكِیةً لِلنَّفْسِ وَ نِماءً فِی الرِّزْقِ، وَ الصِّیامَ تَثْبیتاً لِلْاِخْلاصِ، وَ الْحَجَّ تَشْییداً لِلدّینِ، وَ الْعَدْلَ تَنْسیقاً لِلْقُلُوبِ، وَ طاعَتَنا نِظاماً لِلْمِلَّةِ، وَ اِمامَتَنا اَماناً لِلْفُرْقَةِ، وَ الْجِهادَ عِزّاً لِلْاِسْلامِ، وَ الصَّبْرَ مَعُونَةً عَلَی اسْتیجابِ الْاَجْرِ. وَ الْاَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ مَصْلِحَةً لِلْعامَّةِ، وَ بِرَّ الْوالِدَینِ وِقایةً مِنَ السَّخَطِ، وَ صِلَةَ الْاَرْحامِ مَنْساءً فِی الْعُمْرِ وَ مَنْماةً لِلْعَدَدِ، وَ الْقِصاصَ حِقْناً لِلدِّماءِ، وَ الْوَفاءَ بِالنَّذْرِ تَعْریضاً لِلْمَغْفِرَةِ، وَ تَوْفِیةَ الْمَكائیلِ وَ الْمَوازینِ تَغْییراً لِلْبَخْسِ. وَ النَّهْی عَنْ شُرْبِ الْخَمْرِ تَنْزیهاً عَنِ الرِّجْسِ، وَ اجْتِنابَ الْقَذْفِ حِجاباً عَنِ اللَّـعْنَةِ، وَ تَرْكَ السِّرْقَةِ ایجاباً لِلْعِصْمَةِ، وَ حَرَّمَ اللَّـهُ الشِّرْكَ اِخْلاصاً لَهُ بِالرُّبوُبِیةِ. فَاتَّقُوا اللَّـهَ حَقَّ تُقاتِهِ، وَ لاتَمُوتُنَّ اِلاَّ وَ اَنْتُمْ مُسْلِمُونَ، وَ اَطیعُوا اللَّـهَ فیما اَمَرَكُمْ بِهِ وَ نَهاكُمْ عَنْهُ، فَاِنَّهُ اِنَّما یخْشَی اللَّـهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ.

  “پس اللہ نے تمہارے لیے ایمان کو شرک سے پاک ہونے کا وسیلہ بنایا اور خدا نے نماز فرض کی تاکہ تکبر سے بچ سکو، زکوٰۃ کو نفس کی پاکیزگی اور رزق کی زیادتی کا ذریعہ بنایا اور روزوں کو اخلاص کی مضبوطی کا ذریعہ بنایا۔ اور حج کو دین کی مضبوطی کا وسیلہ بنایا اور عدل و انصاف کو واجب کر کے دلوں کو ایک دوسرے سے جوڑا اور ہماری اطاعت کو ملت کا نظام بنایا اور ہماری امامت کو تفرقہ سے بچنے کیلئے امان قرار دیا اور جہاد کو اسلام کی عزت بنایا اور مصیبت میں صبر کو تحصیل اجر میں مددگار بنایا اور امر بالمعروف میں عوام الناس کی مصلحت کو قرار دیا۔ والدین کےساتھ نیکی کو اس لیے واجب کیا کہ غضب خدا سے محفوظ رہا جائے اور صلہ رحم اس لیے مقرر کیا تاکہ عمر میں اضافہ ہو اور تمہاری تعداد بڑھے اور قصاص اس لیے واجب کیا کہ خون ریزی رک جائے اور نذر و وفا کی راہ اس لیے نکالی کہ بندوں کی مغفرت مقصود تھی اور پیمانہ اور وزن پورا کرنے کا حکم اس لیے دیا کہ نقصان سے بچاؤ ممکن ہو اور شراب سے اس لیے ممانعت فرمائی کہ بندے برے اخلاق سے پاک رہیں اور زنا کا بے جا الزام لگانا اس لیے حرام کیا کہ لعنت کے سامنے ایک حجاب اور رکاوٹ پیدا ہو اور چوری کو اس لیے ممنوع قرار دیا کہ دوسروں کے مال میں بے اجازت تصرف کرنے سے لوگ باز رہیں اور خدا نے شرک کو اس لیے حرام کیا کہ اس کی ربوبیت کا اقرار خالص رہے۔ لہٰذا خدا سے ڈرو جس طرح ڈرنے کا حق ہے اور جب مرو تو مسلمان ہی مرو۔ (آل عمران، آیت۱۰۲) اور اوامر میں خدا کی اطاعت کرو اور جن امور سے منع کیا ہے۔ ان سے باز رہو۔ بے شک خدا کے بندوں میں سے اہل علم ہی اس سے ڈرتے ہیں(توبہ، آیت۲۸)”۔

اہم پیغامات:

حضرت فاطمہ زہراؑ نے اپنے خطبہ کے مذکورہ حصے میں قرآن مجید کےمتعدد اوصاف اور دینی معارف و مسائل کا ذکر فرمانے کے بعد بعض اہم اعتقادی اور شرعی مسائل کی حکمتوں اور اس کے فلسفوں کا ذکر فرمایا ہے۔ یوں توشہزادیؑ کے ہر جملے کی تشریح و توضیح کے لئے مفصل تحریر کی  ضرورت ہے لیکن یہاں تفصیل کی گنجائش نہیں ہے لہذا صرف بعض مطالب کے بارے میں اشارہ کیا جارہا ہے:

۱۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا اور عقیدہ توحید میں اخلاص اور استحکام اور صرف اسی پر توکل و بھروسہ رکھنا انسان کی زندگی کا سب سے بنیادی مسئلہ ہے۔ اللہ پر ایمان کو شرک  جیسی پلیدگی سے بالکل پاک و خالص ہونا چاہئے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے ساتھ غیر اللہ پربھروسہ کرنا یہ سراسر ایمان کے خلاف ہے چونکہ اللہ پر ایمان اور غیر اللہ پربھروسہ جس سے شرک لازم آتا ہو یہ دونوں ہرگز ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتے ۔ اور ایک مومن بندے کو ایمان کی حفاظت کے لئے زیادہ ہی دھیان رکھنا چاہئے اس لئے کہ مضبوط ایمان والے بندے کو شیطان اور دنیاوی وسوسوں کے مقابلے میں زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔

۲۔ اللہ پر ایمان ہی دوسرے نیک اور صالح اعمال و افعال کی بنیاد بنتاہے اور دنیا و آخرت میں اس کے آثار و برکات و فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ ایمان کا فقدان یا ایمان کی کمزوری کا سیدھا اثر انسان کے نیک اعمال پر پڑتا ہے۔ کمزور ایمان والا شخص یا بے عملی کا شکار ہوتا ہے یا بدعملی  کا مرتکب ہوتا ہے ۔ اسی لئے جب انسان مضبوط و خالص ایمان کے ساتھ عمل کرتا ہے تو ان اعمال اور عبادات کا اثر بھی زندگی میں ظاہر ہوتا ہے جیسا کہ شہزادی کائناتؑ نے اپنے بیان میں متعدد اعمال و عبادات کا ذکر فرمایا اور قرآنی آیات اور احادیث کی روشنی میں ان کے بعض آثار اور ان کی حکمتوں کو بھی بیان فرمایا ہے مثلا نماز انسان کو غرور و تکبر سے دور رکھتی ہے۔ ظاہر ہے جو شخص اللہ تعالیٰ کی کبریائی کے سامنے خلوص کے ساتھ اپنے رخساروں کو خاک پر مل لیتا ہے وہ یقینی طور پر تکبر کا مرتکب نہیں ہوتا ہے۔  اسی طرح جو شخص اپنے خون پسینے کی کمائی کو دل سے لگائے رکھنے کے بجائے راہ خدا میں زکات وغیرہ کی شکل میں ضروری مواقع اور مصارف میں دے دیتا ہے اس کا دل یقینا پاک ہوجاتا ہےاس لئے کہ زکات اورخمس، صدقہ، انفاق، دوسروں کی مالی مدد وغیرہ کے ذریعہ راہ خدا میں خرچ کیا جانے والا مال انسان کے اندربخل، طمع، بے رحمی اور دولت پرستی جیسے برے اوصاف سے پاک کرکے سخاوت، ہمدردی اور ایثار و قربانی جیسے اوصاف کو پروان چڑھانے کے لئے ہے۔

انسان کو اس بات کی طرف متوجہ رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے جو بھی احکام و مسائل اور عبادات وغیرہ کو بندوں کے لئے فرض کیا ہے، واجب عمل یا مستحب عمل کی صورت میں طلب کیا ہے  یا حرام اور مکروہ عمل کی صورت میں ناپسند فرمایا ہے وہ سب انسان ہی کی مصلحتوں اور اسی سے مربوط مفاسد کی وجہ سے ہے۔ اللہ تعالیٰ ان احکام وشرعی تکالیف کے ذریعہ اپنا ذاتی فائدہ نہیں چاہتا ہے وہ ان  سب کا محتاج بھی نہیں ہے۔ اس کی ذات ان تمام چیزوں سے پاک و منزّہ ہے۔ اس نے سب کچھ بندوں کے لئے ہی  رکھا ہے اورانہیں کے دنیاوی اور اخروی فائدوں کے لئے دین و شریعت کے تمام امور کو رکھا ہے۔ لہذا انسان کو ان کی پابندی کے لئے خاص اہتمام کرنا چاہئے۔

۴۔ حضرت فاطمہ زہراؑ نے اپنے خطبہ کے اس حصے میں نماز ، زکات، روزہ، حج، عدالت، امامت کی پیروی ، جہاد، صبر،  نیکیوں کی تبلیغ، والدین کے ساتھ نیکی، صلہ رحم، تجارت و لین دین میں ایمانداری وغیرہ جیسے متعدد مسائل اور احکام کا ذکر فرمایا اور اس کی بعض حکمتوں اور ان کے آثار کو بیان فرمایا۔ یہاں ان چیزوں کے ذکر اور شہزادیؑ کے سامنے موجود مخاطبین کے احوال اور اسی طرح جہاں تک شہزادیؑ کا یہ پیغام پہنچ جائے ان تمام مسلمین کو ہمیشہ اس بات کا محاسبہ کرنا چاہئے کہ کیا ہماری زندگی میں ان چیزوں کا وجود پایا جاتا ہے؟  اور اگر پایا جاتا ہے تو کیا ہم ان کے آثار و برکات کو بھی اپنی زندگی میں دیکھتے ہیں؟۔  اگر ان آثار کو نہیں دیکھتے ہیں تو یقینی طور پر اپنے طرز عمل پر غور کرنا چاہئے اور اپنا محاسبہ کرنا چاہئے کہ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ہم صرف رسم ادا کررہے ہیں۔ واقعی طور پر عمل نہیں کررہے ہیں۔

۵۔ شہزادیؑ نے مذکورہ مسائل کے ساتھ ساتھ امامت اہل بیتؑ کی اطاعت اور پیروی کے فلسفے اور اس کی حکمت کا بھی ذکر فرمایا ہے کہ: “وَ طاعَتَنا نِظاماً لِلْمِلَّةِ، وَ اِمامَتَنا اَماناً لِلْفُرْقَةِ”  اللہ تعالیٰ نےہماری اطاعت کو ملت کا نظام اور ہماری امامت کو تفرقہ سے بچنے کیلئے امان قرار دیا  ہے۔ یہ وہ عظیم مسئلہ تھا جس کے بارے میں رسول اکرمؐ کی رحلت کے بعد عام مسلمانوں کی جانب سے لاپرواہی ہوئی تھی اور شہزادیؑ کی جانب سے صدائے احتجاج اور اپنے درد دل کے اظہار کی بھی اصلی وجہ یہی تھی کہ امت اہل بیتؑ کی اطاعت اور امامت سے دور ہوکر آپسی اختلافات اور خلفشار میں مبتلا ہوگئی تھی ۔ اگر امت اسلامیہ ائمہ اہل بیتؑ کی امامت پر مجتمع ہو جاتی تو اس امت میں تفرقہ وجود میں نہ آتا۔ امت محمدیہ ؐمیں جو بھی تفرقہ وجود میں آیا ہے وہ  ان معصوم ہستیوں سے دوری کی وجہ سے آیاہے۔ جبکہ پیغمبراکرمؐ کی مسلسل تاکید تھی، صراحت کے ساتھ اہل بیت علیہم السلام کی اطاعت اور امام علیؑ اور آپ کے بعد دوسرے معصوم اماموں  کی اطاعت و پیروی کا حکم دیا تھا اور اس کے آثار و فوائد و برکات کو بھی بیان فرمایا تھا جیسا کہ معروف حدیث میں فرماتے ہیں کہ: “میرے اہل بیتؑ ، کشتی  حضرت نوح ؑکے مانند ہیں؛ یہ اہل ارض کے لئے امان اور باب حطّہ ہیں”۔(صواعق محرقہ ابن حجر مکی،ص۱۷۸)۔

۶۔ شہزادیؑ نے نیکیوں کی ہدایت کے اہم اسلامی اصول امر باالمعروف  کے حوالے سے فرمایا کہ: “وَ الْاَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ مَصْلِحَةً لِلْعامَّةِ” یعنی نیکیوں کی ہدایت کرنا تمام لوگوں کی مصلحت و بھلائی کے لئے ہے۔ اور یقینی طور پر اصلاح معاشرہ کے لئے اسلام کا ایک زرین اصول ہے جس پر عمل پیرا ہونے کی صورت میں ایک متوازن سوچ کا حامل با شعور معاشرہ وجود میں آتا ہے، جس میں کسی ظالم کو ظلم کرنے اور کسی استحصالی کو استحصال کرنے کا موقع نہیں ملتا کیونکہ ایک آگاہ اور باشعور معاشرہ ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔اور جب امر و نہی کا فقدان ہوجاتا ہے تو ایک تاریک اور شعور سے خالی معاشرہ سامنے آتا ہے۔اور ادب و احترام و اخلاقیات وغیرہ کا شدید فقدان ظاہر ہوتا ہے۔  جس میں ہر قسم کی ظالم اور استحصالی قوتوں کے لیے کھلی چھوٹ مل جاتی ہے۔ جیسا کہ حضرت امام علیؑ کا ارشاد گرامی ہے کہ: “تم اگرامربالمعروف اور نہی از منکر کے عمل کو ترک کرو گے تو تم پر ایسے ظالم لوگ مسلط ہو جائیں گے جن سے نجات کے لئے تم دعا کرو گے لیکن تمہاری دعا قبول نہ ہو گی” (نهج‌البلاغه، نامه 47)۔

۷۔ شہزادی کائناتؑ نے مذکورہ اعتقادی اور عملی مسائل کی حکمتوں کے بیان کے بعد تین اہم چیزوں کی طرف خاص طور پر متوجہ رہنے کے لئے تاکید فرمائی جس کے بارے میں خود قرآن مجید نے بھی متعدد مقامات پر مختلف طریقوں سے تاکید کی ہے:

(الف) فَاتَّقُوا اللَّـهَ حَقَّ تُقاتِهِ؛ خدا سےایسے ڈرو جس طرح ڈرنے کا حق ہے ۔ یعنی اعمال و عبادات کے ساتھ ساتھ پرہیزگاری اور تقوی الہی کا دامن نہ چھوڑو  اور اس راہ میں پوری کوشش کرو۔اس لئے کہ تقویٰ اور پرہیزگاری ہی انسان کے  اعمال و عبادات کی قبولیت کا ذریعہ ہے: إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ؛ اللہ تعالیٰ فقط صاحبان تقویٰ  کے اعمال کو قبول کرتاہے(مائدہ، آیت۲۷)۔ اسی طرح  پرہیزگاری ہی ہے جو رحمت الہی کے حصول اور نجات تک لے جانے کا راستہ ہموار کرتی ہے؛ ارشاد ہوتا ہے: “وَاتَّقُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ”؛تقویٰ اختیار کروشاید رحمت الہی تمہارے شامل حال ہوجائے(انعام، آیت۱۵۵)۔  اسی طرح متقی افراد کے ساتھ ہمیشہ خداوندمتعال ہوتا ہے: “وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ”؛جان لو کہ بیشک اللہ اہل تقویٰ کے ساتھ ہے۔(توبہ، آیت۳۶)۔ 

 (ب) وَ لاتَمُوتُنَّ اِلاَّ وَ اَنْتُمْ مُسْلِمُونَ؛ اسلام پر رہتے ہوئے دنیا سے جانا۔ یہ ایک اہم قرآنی حکم ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے کہ: «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ»؛  ایمان والو اللہ سے اس طرح ڈرو جو ڈرنے کا حق ہے اور خبردار اس وقت تک نہ مرنا جب تک مسلمان نہ ہوجاؤ۔(آل عمران، آیت۱۰۲)۔ مسلمان رہتے ہوئے مرنا یعنی اللہ تعالیٰ کے احکام و فرامین اور پیغمبرؐ کے دستورات کے سامنے سرتسلیم خم کرنا اور عملی طورپر ان کا اظہار کرنا ہی حقیقت میں مسلمان ہونا ہے ۔ اب اس راہ میں جو جتنا ثبات قدمی کا مظاہرہ کرے گا اس کا اسلام اتنا ہی مضبوط ہوگا اور وہ مرتے وقت مسلمان ہی مرے گا اس لئے  کہ مسلمان مرنے کے لئے مسلمان جینا ضروری ہے۔

(ج)  وَ اَطیعُوا اللَّـهَ فیما اَمَرَكُمْ بِهِ وَ نَهاكُمْ عَنْهُ؛ اور اوامر میں خدا کی اطاعت کرو اور جن امور سے منع کیا ہے۔ ان سے رک جاؤ۔ اللہ کے اوامر کو انجام دینے اور ممنوع امور سے دور رہنے کی تاکید بہت سی آیات میں بیان ہوئی اور اس کے آثار کابھی ذکر کیا گیا ہے جو بندوں ہی سے مربوط و متعلق ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں قرآن مجید کی ایک آیت میں اس طرح ارشاد ہوا کہ: “يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ  فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ  ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا”؛ ایمان والو اللہ کی اطاعت کرو رسول اور صاحبانِ امر کی اطاعت کرو جو تم ہی میں سے ہیں پھر اگر آپس میں کسی بات میں اختلاف ہوجائے تو اسے خدا اور رسول کی طرف پلٹا دو اگر تم اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھنے والے ہو- یہی تمہارے حق میں خیر اور انجام کے اعتبار سے بہترین بات ہے (نساء، آیت59)۔

یقینی طورپر رحلت پیغمبراکرمؐ کے فورا بعد سے لے کر آج تک جو امت اسلامیہ کا حال ہوا ہے اور خاص طور پر آج جو مسلمان چاروں طرف مختلف مسائل میں گرفتار ہیں اس کے اصلی اسباب و عوامل  شہزادی کائناتؑ کے مذکورہ بیانات کی روشنی میں بعض اہم امور جیسے اطاعت اہل بیتؑ، جہاد اور امرباالمعروف و نہی عن المنکر جیسے بہترین اصولو ں سے فاصلہ اور کنارہ گیری کرنا ہے۔

متعلقہ مضامین

تبصره کریں

Back to top button
×