خصوصیات قرآن (1)
«…وَ مَعَنا كِتابُ اللّه النّاطِقُ، وَ الْقُرْآنُ الصّادِقُ، وَ النُّورُ السّاطِعُ، وَ الضِّياءُ اللاّمِعُ، بَيِّنَةٌ بَصائِرُهُ، وَ آىٌ مُنْكَشِفَةٌ سَرائِرُهُ…».
شہزادی کائنات ؑ نے اس مقام پر مسلمانوں سے مخاطب ہوکر قرآن اور اہل بیتؑ کی ہمراہی اور قرآن کی خصوصیات کا ذکر فرمایا:
«اور ہمارے ساتھ ہے اللہ کی کتاب ناطق ۔ قرآن صادق و ساطع و چمکدار نور اور دوسروں کو نورانی کرنے والی روشنی ہے جس کی بصیرتیں روشن ہیں …»۔
اہم پیغامات:
حضرت فاطمہ زہراؑ نے اپنے خطبہ میں اس مقام پرحقیقیجانشین پیغمبرؐ اور اہل بیتؑ کی قرآن کے ساتھ معیت و ہمراہی کا ذکر فرماتے ہوئے قرآن مجید کی متعدد اہم صفات و خصوصیات کا بھی ذکر فرمایا ہےجن کے بارے میں اس سلسلہ تحریر میں مختصرمطالب کو بیان کیا جارہا ہے:
۱۔ کتاب خدا ناطق ہے یعنی اپنے متکلم کی باتوں کو واضح اور روشن طور پر دوسروں تک پہنچانے والی ہے ۔ اس کی باتوں اور اس کے بیان و مراد میں کوئی شک و ابہام نہیں پایا جاتا ہے۔ جو بھی اس قرآن کی طرف رجوع کرتا ہے وہ گذشتہ، آئندہ کی خبروں ، اوامر و نواہی الہی، اخلاقیات و آداب حسنہ کے علاوہ بے شمار معارف و مطالب کو پڑھنے والے اور اس کی طرف رجوع کرنے والوں تک پہنچاتا ہے۔ البتہ کتاب الہی کے ناطق ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ کتاب خودبخود باتوں اور اللہ کے مراد و مقصود کو بیان کرنے والی ہے بلکہ اللہ نے قرآن کے مراد و مقصود کو سمجھانے کے لئے قرآن صامت کے ساتھ قرآن ناطق یعنی اہل بیتؑ کو بھی رکھا ہے جو پیغمبرؐ کی ذات اور آپ کے بعد امام علیؑ اور تمام معصوم اماموں کی شکل میں ہیں۔ ان معصوم ہستیوں کے ذریعہ قرآن بات کرتا ہےجیساکہ امام علیؑ نے فرمایا کہ: «… ذلِكَ الْقُرْآنُ، فَاسْتَنْطِقُوهُ، وَ لَنْ يَنْطِقَ، وَ لَكِنْ أُخْبِرُكُمْ عَنْهُ…»؛ یہ قرآن ہے اس کو بولنے پر آمادہ کرو لیکن یہ خود بخود ہرگز نہیں بولے گا بلکہ میں تم لوگوں کو اس کے بارے میں خبر دوں گا( نہج البلاغہ، خطبہ۱۵۸)۔ اسی طرح امام علیؑ نے متعدد احادیث میں اپنی ذات کو “قرآن ناطق”، “کلام الہی” کے عنوان سے بیان فرمایا ہےجس میں سے جنگ صفین میں بعض اطرافیوں کے بہک جانے اور معاویہ کی جانب سے قرآن ظاہری کو نیزوں پر اٹھانے پر صلح کے لئے آمادہ ہوجانے کےقضیہ کو دیکھ کر فرمایا: “أنَا الْقُرآنُ النّاطِق” قرآن ناطق میں ہوں(ینابیع المودة قندوزی، ج۱، ص۲۱۴)۔ یعنی اے قوم مسلمان۔ تم صرف ظاہری قرآن کو نہ دیکھو بلکہ قرآن مجسم کو دیکھو جو قرآن کے حقیقی مراد و مقصود کو بیان کرنے والا ہے۔ اگر ایسا نہیں کروگے تو گمراہی اور انحراف سے دوچار ہو جاؤگے اور وہ قرآن مجسم میں ہوں۔
۲۔ کتاب خدا صادق ہے؛ یعنی اللہ کی کتاب قرآن مجید میں جو بھی باتوں بیان ہوئی ہیں وہ مکمل طور پر سچی اور صحیح ہیں ۔ اس کتاب میں کسی طرح کا جھوٹ نہیں پایا جاتا ہے۔ تمام باتیں حقیقت کے مطابق ہیں۔ البتہ یہ بات الگ ہے کہ جاہلوں اور نااہلوں نے اپنی طرف سے اس کتا ب کی باتوں کو سمجھنے اور اس کی تفسیر و توضیح بیان کرنے کی کوششیں کیں اور متعدد متضاد باتوں یا خلاف حقیقت باتوں کی نسبت اس کتاب کی جانب دے دی۔
۳۔ کتاب خدا نور ساطع ہے؛ قرآن مجید کے نور ہونےکے مختلف معنی بیان ہوئے ہیں لیکن اہم معنی یہ ہے کہ کتاب الہی اہل ایمان اور اپنے مخاطب کے قلب و ذہن میں بصیرت ، معرفت اور ہدایت کی روشنی کو داخل کرتی ہے جس کے نتیجہ میں انسان کا وجود نورانی ہوجاتا ہے اور وہ فضائل و کمالات کی طرف گامزن ہوجاتا ہے۔ یعنی وہ ظلمت سے نور کی جانب حرکت کرتا ہے جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے کہ: «الر كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَیْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِ رَبِّهِمْ إِلَى صِرَاطِ الْعَزِیزِ الْحَمِیدِ» الر – یہ کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کو حکم خدا سے تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف لے آئیں اور خدائے عزیز و حمید کے راستے پر لگادیں۔ اسی طرح خود قرآن مجید کے نور ہونے کی صفت کو متعدد آیات میں ذکر کیا گیا ہے جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے: «وَأَنْزَلْنَا إِلَیْكُمْ نُوراً مُبِیناً» اے لوگوں ہم نے تمہاری جانب واضح اور آشکار نور کو نازل کیا ہے۔ (سوره نساء، آیت۱۷۴)۔ اسی طرح ارشاد ہوا کہ: «فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَالنُّورِ الَّذِي أَنْزَلْنَا وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ»؛ «لہذا خدا اور رسول اور اس نور پر ایمان لے آؤ جسے ہم نے نازل کیا ہے کہ اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے» (سوره تغابن، آیت۸).
۴۔ کتاب چکمدار نور ہے؛ قرآن مجید کو “نور”بھی کہا گیا ہے اور “ضیاء” بھی یہاں “نور” اور “ضیاء” ہونے میں ایک اہم فرق ہے کہ نور ممکن ہے بہت لطیف اور خفیف ہو اور غیر محسوس طریقے سے بھی سامنے والے کے لئے روشنی اور ہدایت کا سبب بن جائے جیسے چاند کا نور ہوتا ہے۔ اور لیکن جب ضیاء کی بات آتی ہے تو “ضیاء” ایسا نور ہے جو بہت واضح اور چکمدار ہوتا ہے لہذا قرآن کے واضح اور روشن نور ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی شعاع میں آنے والا دور ہونے کے باوجود بھی متاثر ہوسکتا ہے اور اس کا باطن نورانی بن سکتا ہے جیسے سورج کا نور ہوتا ہے اور قرآن بھی سورج کے نور کے لئے لفظ “ضیاء” کا استعمال کررہا ہے:«جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَآءً»؛ ہم نے سورج کو ضیاء عطا فرمائی(یونس، آیت۵)۔ اسی طرح چاند اور سورج کے سلسلے میں دوسری آیت میں ارشاد ہوتا ہے کہ: «هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَاء وَالْقَمَرَ نُورًا وَ قَدَّرَهُ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُواْ عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسَابَ مَا خَلَقَ اللّهُ ذَلِكَ إِلاَّ بِالْحَقِّ يُفَصِّلُ الآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ»؛ اسی خدا نے آفتاب کو روشنی اورچاند کو نور بنایا ہے پھر چاند کی منزلیں مقرر کی ہیں تاکہ ان کے ذریعہ برسوں کی تعداد اور دوسرے حسابات دریافت کرسکو -یہ سب خدا نے صرف حق کے ساتھ پیدا کیا ہے کہ وہ صاحبان علم کے لئے اپنی آیتوں کو تفصیل کے ساتھ بیان کرتا ہے۔
5۔ قرآن کے دلائل اور اس کی بصیرتیں واضح ہیں؛ یعنی قرآن مجید نے جو بھی دلائل اور استدلال اور بصیرت افروز باتوں کا ذکر فرمایا ہے وہ اس طرح واضح اور قانع کرنے والی ہیں کہ کوئی بھی اس کے سامنے بہانہ نہیں بناسکتا ہے۔ قرآن مجید نے متعدد موضوعات میں مختلف دلائل اور بصائر کی دعوت دی ہے اور پیغمبراکرمؐ کو بھی حکم دیا گیا ہے کہ آپ لوگوں کو بصیرت کی جانب دعوت دیں یعنی قرآنی دلائل سے آگاہ کریں تاکہ حقائق ان کے لئے واضح ہوجائیں اور بہانے کا کوئی موقع نہ مل سکے۔ جیساکہ ارشاد ہوتا ہےکہ: «قُلْ هَذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّهِ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي…»؛ آپ کہہ دیجئے کہ یہی میرا راستہ ہے کہ میں بصیرت کے ساتھ خدا کی طرف دعوت دیتا ہوں اور میرے ساتھ میرا اتباع کرنے والا بھی ہے۔
۶۔ قرآن کے اسرار آشکار ہیں؛ قرآن مجید میں بہت سے راز و اسرار پائے جاتے ہیں لیکن ان کی صفت یہ ہے کہ وہ راز و سرّ ہونے کے باوجود ظاہر اور آشکار ہیں۔یہ بات ظاہری طورپر قابل فہم نہیں ہے اس لئے کہ “سرّ “کہتے ہی اسے ہیں جو ظاہر اور روشن نہ ہو لیکن شہزادیؑ نے فرمایا کہ: «مُنکَشِفَةٌ سَرائِرُهُ» یعنی قرآن کے اسرار روشن ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے “اسرار” سب کے لئے روشن نہیں ہوتے ہیں بلکہ جو اس کے اصلی مخاطَب اور اس کے اہل اور اسرار کے حامل و لائق ہوتے ہیں ان کے لئے واضح اور روشن ہیں لہذا اگردوسروں کو ان اسرار تک پہنچناہو تو لازمی طورپر حاملان قرآن، عالمان قرآن کی طرف رجوع کرنا ہوگا جیسا کہ خود قرآن مجید کا ارشاد ہے کہ: «فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ» اگر تم نہیں جانتے ہو تو صاحبان ذکر سے سوال کرلو۔(نحل، آیت ۴۳) اور کئی روایات کی روشنی میں صاحبان علم اور قرآن مجید کے حقیقی حامل اور عالم سے مراد محمدؐ و آل محمدؑ ہی ہیں۔ اور انہیں حضرات کی تعلیمات کی روشنی میں انسان قرآن مجید کے نور اور اس کی ضیاء تک پہنچ سکتا ہے اور ہدایت پاسکتا ہے۔
شہزادیؑ کائنات نے قرآن مجید کے متعدد اوصاف کا ذکر فرمایا ہےخاص طور پر مذکورہ جو صفات بیان ہوئے ہیں ان میں قرآن کے نور ہونے کا ذکر آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کو لوگوں کے لئے نور بنا کر بھیجا تاکہ وہ اس کے نورانی دلائل اور بیانات کی روشنی میں اپنی زندگی کو نورانیت عطا کریں ۔اور اس مقصد تک پہنچنے کے لئے ضروری ہے کہ اس نور پر ایمان رکھا جائے اور اس کی اتباع و پیروی کی جائے جیسا کہ قرآن مجید فرماتا ہے: «وَ اتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِی أُنْزِلَ مَعَهُ»؛ جو نور ان کے ساتھ نازل ہوا ہے اس کی تم سب اتباع کرو۔(سوره اعراف، آیه 157)۔
شہزادی کائناتؑ نے یہاں قرآن مجیدکے متعدد دوسرے صفات کا بھی ذکر فرمایاہے جن کی وضاحت آئندہ بیان کی جائے گی۔