فاطمہ خاموش ہو گئیں (آخری قسط)
فاطمہ زہراؑ کا درد دل اور خطبہ فدکیہ (35) (آخری قسط)
فاطمہ خاموش ہو گئیں
شہزادی کائناتؑ نے اپنے خطبہ فدک کے بعد قبر پیغمبرؐ پر اپنے مصائب کا مرثیہ خود ہی پڑھا اور پھر غم و اندوہ کو سمیٹے ہوئے اپنے گھر پہنچی جہاں حضرت امیرالمومنین ؑ شہزادی کائنات کا انتظار کررہے تھے۔ اس سلسلے میں ایک تاریخی روایت اور جناب فاطمہ زہراؑ اور امام علیؑ کے درمیان ہونے والی گفتگو کو نقل کیا گیا ہے۔ اس روایت کے الفاظ بہت سخت ہیں اور ظاہری طور پر ترجمہ کی صورت میں بھی بعض لفظوں کی تلخیوں کی بنیاد پر کچھ شبہات سامنے آسکتے ہیں لیکن شہزادیؑ نے انہیں سخت الفاظ کو امیرالمومنین ؑکی مظلومیت اور آپؑ کو خاموش کردیئے جانےکی وجوہات اور اہل بیتؑ پرہونے والے مصائب و شہر مدینے کے حالات کو بیان کرنے کے لئے استعمال فرمایا تھا۔ اور روایت کے ترجمہ میں انہیں باتوں کا خیال رکھا گیا ہے تاکہ اصل مقصد اور اس وقت کے حالات کو بیان کیا جاسکےاور شبہات کے جواب بھی معلوم ہوجائیں۔
یہاں اس تاریخی گفتگو کا ذکر کیا جارہاہے جس کے ایک ایک بند میں اہل بیتؑ اطہار خاص طور پر علی ؑ و فاطمہ ؑ کی مظلومیت کا اظہار ہورہا ہے:
۱۔ روایت کی ابتداء یوں ہوتی ہےکہ: «ثُمَّ انْکَفَأَتْ(س) وَ أَمیرُالْمُؤمِنینَ(ع) یتَوَقَّعُ رُجُوعَها إِلَیهِ وَ یتَطَلَّعُ طُلُوعَها عَلَیهِ» خطبے اور قبر پیغمبرؐ کی زیارت کےبعد حضرت فاطمہ ؑ گھر واپس آئیں اور امیرالمؤمنینؑ اس وقت آپؑکے آنے کا انتظار کررہے تھے۔ یہاں تاکیدی طورپر “یتَطَلَّعُ طُلُوعَها” کا جملہ آیا ہے یعنی امیرالمومنینؑ بار بار سراٹھاکر دروازے کی طرف دیکھ رہے تھے اورشہزادیؑ کے آنے کا انتظار کررہے تھے یعنی امیرالمومنینؑ بہت زیادہ فکرمند تھے کہ شہزادیؑ ان لوگوں کے مجمع میں جانے کے لئے مجبور ہوئیں کہیں یہ لوگ دوبارہ فاطمہؑ کو نقصان پہنچانے کی جسارت نہ کردیں جس طرح پہلے خود گھر کے دروازے پر آکر ان لوگوں نے ہجوم کیا تھا۔
۲۔ آخرکار شہزادیؑ گھر پہنچ گئیں ۔ روایت میں مزید بیان ہوا کہ: «فَلَمَّا اسْتَقَرَّتْ بِهَا الدّارُ قالَتْ لِأمیرِالْمُؤْمِنینَ(ع): یابْنَ أَبی طالِبٍ: اشْتَمَلْتَ شِمْلَةَ الْجَنینِ وَ قَعَدْتَ حُجْرَةَ الظَّنینِ»؛ “جب حضرت فاطمہ زہراؑ گھر پہنچ گئیں تو حضرت علیؑ کی مظلومانہ حالت کو دیکھ کر فرمایا: “اے علیؑ ابن ابی طالبؑ آپ تو رحم مادر میں رہنے والے بچے کی طرح کونے میں بیٹھے ہوئے ہیں اور ایسے چھپے ہوئے ہیں جیسے کوئی مشکوک شخص ہو”۔ یہاں شہزادیؑ نے مظلومیت علیؑ کے بیان کے لئے دو مثالوں کا ذکر فرمایاکہ:
الف: لوگوں نے آپ ؑ کی ذات کو “جنین” کی طرح بنا دیا ہے جیسے وہ بغیر حرکت کے ماں کے شکم میں رہنے پر مجبور ہوتا ہے اور اگر شکم میں رہتے ہوئے وہ اپنے دائرے سے اضافی حرکت نہیں کرسکتا ہے ورنہ شکم مادر کو اور خود اپنی ذات کوخطرہ ہوجاتا ہے، اسی طرح لوگوں نے آپ ؑ کو بغیر حرکت، خاموش ہوکر رہنے والے ماں کے شکم میں بچے کی مانند بنا دیا ہےکہ آپؑ کونے میں بیٹھے رہیں اور ایسے حالات پیدا کر دیئے کہ اگر آپؑ ان حالات میں کوئی بھی قیام کریں گے تو اسلام خطرے میں پڑ جائے گا یعنی علیؑ جو اسلام کے حقیقی بیٹے ہیں آپؑ کو حرکت نہ کرنے پر مجبور ہونا پڑگیا کیونکہ آپ ؑ کے مخالفین کسی بھی حد تک جاسکتے تھے حتی کہ وہ لوگ جاہ و مقام و حکومت کی طلب میں خود اسلام کو بھی مٹا سکتے تھے۔
ب: شہزادی ؑ نے دوسری مثال میں امام علیؑ کو کونے میں چھپے ہوئے ایک مشکوک شخص کی مانند بیان فرمایا۔ اس تشبیہ سے یہ بیان کرنا چاہا کہ وہ علیؑ جس نے اسلام کے لئے، مسلمانوں کے لئے حیات پیغمبرؐ میں تمام تر خدمات انجام دیں، تمام تر مشکلات کو قبول فرمایا، کسی بھی طرح کی جانثاری اور فداکاری سے گریز نہیں کیا آج لوگوں نے انہیں کو مشکوک بنادیا گیا اور اگر آپؑ ان حالات میں خاموشی کے بجائے قیام یا کوئی مسلحانہ حرکت کرتے تو تمام اختلافات کے لئے آپؑ ہی کو ذمہ دار بنا دیا جاتا اور آپ ؑ سے مقابلے کے نام پر اسلام ہی کو مٹادیا جائے گا۔
۳۔ شہزادیؑ نے اپنی گفتگو میں آگے بیان فرمایا کہ: «نَقَضْتَ قادِمَةَ الْأَجْدَلِ فَخانَکَ رِیشُ الْأَعْزَلِ»؛ یا علیؑ آپ تو شکاری باز کے پروں کو توڑنے والے تھے، آج آپؑ کو کیا ہوگیا ہے کہ ان بے سلاح(نہتے) لوگوں نے آپؑ کو دھوکہ دے دیا ہے۔ یہاں شہزادیؑ نے امام علیؑ کی قوت و طاقت اور جنگی صلاحیت کا ذکر فرمایا اور آپ ؑ کی گذشتہ تاریخی خدمات کی طرف اشارہ فرمایا کہ علیؑ وہ تھے جنہوں نے ہرمیدان میں دشمن مقابلہ کیا ہے اور ہر حملہ ور کا مقابلہ کیا ہے چاہے وہ کتنی ہی بلند پرواز اور طاقت والا رہا ہو۔ لیکن آج علیؑ اسلام کی حفاظت کے لئے ایسے لوگوں کے مقابلے میں خاموش رہنے پر مجبور ہے جن کے ہاتھوں میں ہتھیار بھی نہیں ہے یا یہ کہ علیؑ کے مقابلے میں ان کو ہتھیار چلانے کی جرائت نہیں ہے، یہ تو لوگ ہمیشہ جنگی مقابلے میں کمزور تھے لہذا علیؑ کا تو مقابلہ تو کرہی نہیں سکتے ہیں لیکن آج ان لوگوں نے علیؑ سے دھوکہ کرکے ان کے حق خلافت کو چھین کر انہیں خاموش رہنے پر مجبور کردیا ہے۔
۴۔ شہزادیؑ مذکورہ باتوں کے بعد اپنی میراث و اپنے عطیہ کے غصب کئے جانے اور اس کے مطالبہ پر بھی خالی ہاتھ لوٹنے پر مجبور ہونے کی بات کا ذکر فرماتے ہوئے کہتی ہیں کہ: « هذَا ابْنُ أبی قُحافَةَ، یبْتَزُّنی نَحیلَةَ أبی وَ بُلْغَةَ ابْنَیَّ لَقَدْ أَجْهَدَ فی خِصامی وَ اَلْفَیتُهُ أَلَدَّ فی کلامی»؛ “یہ ابوبکر ہے جس نے میرے والدؐ کے عطیہ اور میرے بچوں کے وسائل زندگی کو مجھ سے چھین لیا ہے اور اس نے میرے ساتھ بہت بحث و مجادلہ کیا ہے، میں نے اس کو گفتگو میں بہت ضدی اور دشمنی کرنے والاپایا۔ یہاں شہزادیؑ کائنات نے خطبہ فدک اور اس کے آخری میں ابوبکر کی ناروا باتوں اور توجیہات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بیان کیا کہ اس شخص نے بلاوجہ میرا اور میرے بچوں کا حق تو چھین لیا لیکن مطالبہ پر بھی بحث و مجادلہ کرنے لگا اور ایک ضدی اور سرسخت دشمن کی طرح پایا اوراس نے میری کسی بھی دلیل اور بات کو قبول نہیں کیا۔
۵۔ شہزادیؑ نے اپنی بات میں آگے انصار کی خاموشی اور بے حسّی اور مسجد میں جانے اور وہاں سے واپسی پر اپنی حالت کا ذکر فرمایا کہ: «حَتّی حَبَسَتْنی قَیلَةُ نَصْرَها وَ الْمُهاجِرَةُ وَصْلَها وَ غَضَّتِ الْجَماعَةُ دُونی طَرْفَها فَلا دافِعَ وَ لا مانِعَ خَرَجْتُ کاظِمَةً وَ عُدْتُ راغِمَةً»؛ اے علیؑ! قبیلہ بنی قیلہ یعنی انصار نے بھی میری مدد نہیں اور مہاجرین نے بھی مجھ سے رشتہ داری کا حق ادا نہیں کیا اور مجھے تنہا چھوڑ دیا۔ اور باقی تمام لوگوں نے بھی میری کوئی مدد نہیں کی، کسی نے میرا دفاع نہیں کیا اور کوئی ان غاصبوں کو روکنے والا نہیں تھا۔ میری حالت تھی کہ میں غم و اندوہ کے ساتھ گھر سے نکل کر گئی تھی اور ذلیل ہوکر واپس لوٹی ہوں۔
یہاں شہزادیؑ نے انصار و مہاجرین سے مدد اور دفاع کے مطالبے اور ان کی خاموشی کا ذکر فرمایا اور ان تمام لوگوں کی جانب سے آپؑ سے آپ ؑ کے احترام و تقدس کو پائمال کرنے کا ذکر فرمایا۔
۶۔ شہزادیؑ نے اس مقام پر اپنی بے احترامی اور ہتک حرمت کو یاد کرتے ہوئے دوبارہ خود امیرالمومنینؑ کی بے احترامی کو یاد کرتے ہوئے فرمایا کہ : «أَضْرَعْتَ خَدَّکَ یوْمَ أَضَعْتَ حَدَّکَ وَ افْتَرَسْتَ الذِئابِ وَ افْتَرشْتَ التُّرابَ ماکفَفْتَ قائِلاً وَ لا أَغْنَیتَ قائِلاً أَوْ باطِلاً وَ لاخِیار لی! لَیتَنی مِتُّ قَبْلَ هُنَیتی»؛ اے علیؑ! جس دن سے آپؑ نے اپنی شمشیر کی تیر دھار کو ختم کرلیا اس دن سے آپ ؑ کو لوگوں کی جانب سے بے احترامی دیکھنا پڑا۔ ورنہ آپ ؑ تو (اسلام دشمن انسان نما) بھیڑیوں کو چیر پھاڑنے والے تھے لیکن آج آپؑ خاک نشین ہونے پر مجبور ہوگئے ہیں اور آپؑ کیوں لوگوں کی باتوں کو روکنے اور کسی کو کچھ کہنے کی حالت میں نہیں ہیں، کیوں آپؑ باطل کو دور نہیں کرپا رہے ہیں؟ میرے پاس تو اب کوئی اختیار نہیں ہے، کاش! میں اس ذلت اور آپ ؑ کی حالت کو دیکھنے سے پہلے ہی اس دنیا سے چلی گئی ہوتی۔
۷۔ اس مقام پر شہزادیؑ نے جب احساس کیا کہ امیرالمومنینؑ کو ان کی مظلومیت کا ذکر کرکےغمناک کردیا ہے تو کچھ دلاسہ و تسلّی دیتے ہوئے فرمایا: «عَذیری اللهُ مِنْهُ عادِیاً وَ مِنْکَ حامِیاً، وَیلای فی کُلِّ شارِقٍ وَیلای فی کُلِّ غارِبٍ»؛ “خدایا! میرے عذر کو قبول فرما۔ علیؑہی وہ ہیں جنہوں نے بہت سے مقام پر میری حمایت کی ہے اور انہوں نے ہی لوگوں کے ظلم کو مجھ سے دور کیا ہے۔ افسوس میرے حال پر ہر صبح و شام۔ اس مقام پر حضرت علیؑو فاطمہؑ کی نہایت مظلومیت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور مقام افسوس کا خود ہی شہزادیؑ نے اظہار کیا کہ ہم پر ہر صبح، ہر شام ظلم و ستم کیا گیا ہے اور میری حمایت اور میرے دفاع میں علیؑ کے علاوہ کوئی کھڑا نہیں ہوا ہے لیکن بعض مقامات اور موارد ایسے بھی آئے ہیں جب علیؑ بھی ہماری مدد و نصرت نہ کرپانے پر مجبور رہے اور ہم نے تنہا خود ہی لوگوں کے ظلم کو برداشت کیا۔
۸۔ شہزادی کائنات ؑ نے اس مقام پر اپنے باباؐ کو یاد فرمایا: «ماتَ الْعَمَدُ وَ وَهَنَ الْعَضُدُ۔شَکوای إلی أَبی وَ عَدْوایَ إِلی رَبّی۔ اَللّهُمَّ أَنْتَ أَشَدُّ مِنْهُمْ قُوَّةً وَ حَوْلاً۔ وَ أَشَدُّ بَأْساً وَ تَنْکیلاً»؛ “ہمارا سہارا اس دنیا سے چلا گیا اور ہماری قوت کمزور ہو گئی۔ میں اپنی شکایت اپنے باباؐ سے اور اپنی حالت اپنے رب کے سامنے پیش کرتی ہوں!، پروردگار تو ہی ان لوگوں سے زیادہ طاقتور اور صاحب قوت ہے، تیرا عذاب و انتقام بہت زیادہ سخت ہے”۔
۹۔ شہزادی کائناتؑنے جب حالات زمانہ اور اپنی شکایات کا اظہار امیرالمومنینؑ کے سامنے کیا اور اپنی اور خود امیرالمومنینؑ کی مظلومیت کو بیان کیا تو امیرالمومنینؑ نے شہزادیؑ کو تسلّی دیتے ہوئے فرمایا: «فَقالَ أَمیرُالْمُؤمنینَ(ع): لاوَیلَ لَکِ بَلِ الْوَیلُ لِشانِئِکِ. ثُمَّ نَهْنِهی عَنْ وَجْدِکِ یا ابْنَةَ الصَّفْوَةِ وَ بَقِیةِ النُّبُوَّةِ، فَما وَنَیتُ عَنْ دینی وَ لا أَخْطَأْتُ مَقْدُوری فَإِنْ کُنْتِ تُریدینَ الْبُلْغَةَ فَرِزْقُکِ مَضْمُونٌ وَ کَفیلُکِ مَأْمُونٌ وَ ما اُعِدَّ لَکِ أفْضَلُ مِمّا قُطِعَ عَنْکِ، فَاحْتَسِبِی اللهَ»؛ اے شہزادیؑ! افسوس آپ پر نہیں بلکہ ان لوگوں پر ہے جنہوں نے آپ ؑ سے دشمنی کی ہے۔ پھر فرمایا: اے بنت رسولؐ اور یادگار نبی ؐ!۔ آپ ؑ تھوڑا اپنے غموں پر قابو کیجئے۔ میں نے ہر گز دین کے معاملے میں کسی طرح سے بھی کوئی کمی نہیں کی ہے اور نہ ہی اپنی طاقت و توانائی میں کوتاہی کی ہے۔ اور اے شہزادیؑ ! آپ کو جتنی مقدار میں روزی روٹی چاہئے وہ یقینی طور پر آپؑ کو مل کر رہے گی اور اس روزی کو پہنچانے والا امین ہے جس کی تقدیر میں کوئی غلطی نہیں ہوسکتی ہے۔ اور جو کچھ آپ ؑ کے لئے آمادہ کیا گیا ہے وہ اس سے بہت بہتر ہے جو آپؑ سے چھین لیا گیا ہے۔ لہذا تمام امور کو اللہ تعالیٰ کے بھروسہ چھوڑ دیجئے۔
۱۰۔ اس مقام پر بیان ہوا کہ شہزادی کائناتؑ نے یہاں فرمایا: «حَسْبِی اللهُ» ؛ اللہ میرے لئے کافی ہے۔ اور اس کے بعد روایت میں بیان ہوا ہے کہ « وَ اَمْسَکَتْ» یہ کہہ کر شہزادی کائناتؑ خاموش ہوگئیں۔
۱۱۔ روایت میں بیان ہوا ہے کہ حضرت فاطمہ زہراؑ اور امیرالمومنینؑ کی گفتگو جب اس مقام پر پہنچی تو مسجد پیغمبرؐ سے اذان کی آواز بلند ہوئی اور جب اس میں توحید اور پھر رسالت حضرت محمد مصطفی ؐ کی گواہی دی جانے لگی تو امام علیؑ نے سر اٹھایا اور حضرت فاطمہؑ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا: «اے فاطمہؑ! میں ہرگز نہیں بدلہ ہوں، میں وہی ہوں جو جنگ کے میدانوں میں لڑتا تھا، لیکن کیا آپؑ چاہتی ہیں کہ آپؑ یا کوئی اور اس گواہی کو نہ سنیں؟» یعنی اگر میں قیام کروں تو اسلام کو ایسا نقصان پہنچے گا کہ کچھ بھی باقی نہیں رہے گا۔ اور قیامت تک مجھے اس کام کا حساب دینا پڑے گا لہذا میری خاموشی اسلام کی مصلحت کو مدنظر رکھتے ہوئے ہے۔ اس مقام پر حضرت فاطمہؑ نے فرمایا: «میں بھی صبر کروں گی تاکہ اسلام اور پیغمبرؐ کی رسالت ہمیشہ باقی رہے »۔
شہزادی کائنات ؑ اور امیرالمومنین ؑ نے یہاں واضح طور پر بیان کردیا ہے ہمارا بولنا اور ہماری خاموشی، ہماری طرف سے اظہار و اعلان حقائق کے لئے اور ہمارا صبر اسلام کی حفاظت کے لئے تھا۔ اگر شہزادی کائنات ؑمسجد میں جاکر انصار و مہاجرین اور غاصبان فدک و خلافت کے سامنے خطبہ دیا اور اپنے “درد دل” کا اظہار فرمایا اور ادھر امیرالمومنینؑ تمام قوت و طاقت کے باوجود بھی خاموشی پر مجبور رہے تو ان تمام امور میں صرف اسلام کی حفاظت مد نظر تھیں اور حقیقی طور پر دنیا و آخرت میں جو نقصان و خسارے میں رہیں گے وہ آپ حضراتؑ کے دشمن ہیں۔
الحمد للہ۔ شہزادی کائناتؑ کے خطبہ فدک اور امیرالمومنینؑ سے آپؑ کی گفتگو کی مختصر وضاحت کاسلسلہ آج تمام ہوگیا ہے لیکن آخر میں اس بات کی وضاحت کردینا ضروری ہے کہ شہزادیؑ کے تمام بیانات اور خود امام علیؑ سے مخاطب ہوکر کئے جانے والے سوالات یہ سب کے سب شہزادی کائناتؑ کے قیام و جہاد کا حصہ ہیں اور پوری تاریخ انسانیت کے ذہنوں میں پیدا ہونے والے شکوک و شبہات کو برطرف کرکے حقیقت کو ظاہر کرنے والے ہیں اس لئے کہ آپؑ نے مختلف مسائل اور سوالات اٹھاکر روشن کردیا کہ رحلت پیغمبرؐ کے بعد کس نے اسلام کی نصرت و حفاظت کے لئے سارے مشکلات و مصائب کو برداشت کیا اوروہ کون لوگ تھے جنہوں نے لوگوں کو راہ اسلام اور الہی نظام خلافت سے منحرف کیا جس کا نقصان آج تک امت مسلمہ کی اکثریت برداشت کر رہی ہے۔
وَ صَلَّی اللهُ عَلَی مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ.