اسلامی معارفبنیاد اختر تابان

رسالت و امامت کی بنیادی خصوصیت

علامہ سید سعید اختر رضوی کی کتاب امامت سے اقتباس (2)

رسالت و امامت کی بنیادی خصوصیت

تفصیلات میں جانے سے پہلے، یہ بہتر ہے کہ “امامت و خلافت” کی اہمیت و خصوصیت کے بارے میں جو اختلا ف ہے اس کی بنیادی وجہ کو واضح کردیا جائے۔

امامت کی بنیادی خصوصیت کیا ہے؟

کیا امام اولین حیثیت میں اور بنیادی طور پرسلطنت کا حاکم ہے؟

یا وہ اولین حیثیت میں اور بنیادی طور پر اللہ کا نمائندہ اور رسولؐ کا جانشین ہے؟

چونکہ یہ طے شدہ امر ہے کہ “امامت اور خلافت” رسولؐ کی جانشینی ہے لہذا یہ سوال اس وقت تک حل نہیں ہوسکتا جب تک یہ طے نہ ہوجائے کہ خود رسولؐ کی بنیادی حیثیت کیا تھی ؟ ہمیں یہ طے کرنا پڑے گا کہ کیا رسولؐ اپنی اولین حیثیت میں اور بنیادی طور پر ایک سلطنت کے حاکم تھے یا آپ اولین حیثیت میں اور بنیادی طور پر خداکے نمائندے تھے؟

اسلام کی تاریخ میں ہمیں نظر آتا ہے کہ ایک ایسا گروہ موجود تھا جو آنحضرت ؐ کے مشن کو حکومت قائم کرنے کی ایک کوشش سمجھتا تھا۔ اس کا نظریہ مادی تھا اور اس کا نصب العین زر، زمین اور اقتدار تھا۔ ہمیں تعجب نہیں ہوتا جب ہم دیکھتے ہیں کہ وہ رسولؐ کو بھی اپنے ہی آئینہ میں دیکھتے تھے اور  سمجھتے تھے کہ رسولؐ نے یہ مشن انہیں مقاصد کے حصول کے لئے شروع کیا ہے۔

ابوسفیان کے خسر عتبہ بن ربیعہ کو قریش نے پیغمبرؐ کے پاس یہ پیغام دے کر بھیجا: “محمدؐ  ! اگر تم اقتدار چاہتے ہو تو ہم تمہیں مکہ حاکم بنائے لیتے ہیں۔ اگر کسی بڑے خاندان میں شادی کرنا چاہتے ہو تو مکہ کی سب سے خوبصورت لڑکی سے شادی کردیں گے اگر مال و زر چاہتے ہو تو اس سے کہیں زیادہ مال و زر دینے کے لئے تیار ہیں، جتنا چاہتے ہولیکن اپنی اس تبلیغ سے باز آجاؤجس سے ظاہر ہوتا ہے مکہ ہمارے آباء و اجداد جو ان بتوں کی پرستش کرتے تھے احمق تھے”۔

قریش کو بالکل یقین تھا کہ محمدؐ ان کی پیش کش کو قبول کرلیں گے لیکن پیغمبرؐ نے جواب میں سورہ فصلت[1] کی تلاوت فرمائی جس کی تیرہویں آیت میں یہ تنبیہ موجود ہے کہ:

“فَإِنْ أَعْرَضُوا فَقُلْ أَنْذَرْتُكُمْ صَاعِقَةً مِثْلَ صَاعِقَةِ عَادٍ وَثَمُودَ”[2]

“اگر کفار منہ پھیر لیں تو میرے رسولؐ کہدو کہ تمہیں ایسی بجلی کے عذاب سے ڈراتا ہوں جیسی قوم عاد و ثمود پر گری تھی”۔

اس آیت کو سن کر عتبہ بہت زیادہ خوف زدہ ہوا۔ اس نے اسلام تو قبول نہیں کیا ، مگر قریش سے کہا: “محمدؐ کو ان کے حال پر چھوڑ دو اور یہ دیکھ کہ دوسرے قبیلے ان کے ساتھ کیا رویہ اختیار کرتے ہیں”۔ اس پر قریش نے کہا کہ عتبہ پربھی محمدؐ کا جادو چل گیا ہے۔ [3] دوسرے الفاظ میں عتبہ “محمدؐ” کو دوسرے قبیلوں کے ہاتھ میں چھوڑ دینا چاہتا تھا۔

 دوسری طرف جب پیغمبرؐ نے مدینہ ہجرت فرمائی اور قریش نے جنگ پر جنگ شروع کی تو دوسرے قبیلے والوں نے یہی مناسب سمجھا کہ پیغمبرؐ کو خود ان کے قبیلہ والوں کے ہاتھ میں چھوڑ دیاجائے ۔ رسول خداؐ کے صحابی عمرو بن سلمہ کا بیان ہے کہ “عرب اس بات کے انتظار میں تھے کہ قریش  اسلام قبول کریں، وہ لوگ یہ کہتے تھے کہ محمدؐ کو خود ان کے قبیلہ والوں کے ہاتھ میں چھوڑدو، اگر پیغمبرؐ اپنے قبیلے والوں پر غالب آگئے تو یقیناًسچے نبی ہیں اس لئے جب مکہ فتح ہوگیا تو تمام قبائل نے بڑھ بڑھ کر اسلام قبول کرلیا”۔[4]

لہذا عربوں کے مطابق حق و صداقت کی کسوٹی فتح و نصرت تھی۔ اگر خدانخواستہ پیغمبرؐ کو جنگ میں شکست کا سامنا ہوتا تو عرب رسول خداؐ کو جھوٹا سمجھتے !  ۔

یہ نظریہ کہ پیغمبرؐ کا مقدس مشن حصول اقتدار کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ اس کو ابوسفیان اور اس کے اہل خاندان نے کئی مرتبہ بہ بانگ دہل دہرایا۔ فتح مکہ کے موقع پر جب ابوسفیان مکہ سے اس مقصد کے لئے باہر نکلا کہ مسلمانوں کی عسکری قوت کا اندازہ لگائے تو اس کو پیغمبرؐ کے چچا جناب عباس بن عبدالمطلب نے دیکھ لیا اور اسے لے کر پیغمبرؐ کی خدمت میں آئے اور حضورؐ سے عرض کیا کہ ابوسفیان کو امان دیں اور کوئی خاص اعزاز عطا فرمائیں تاکہ وہ اسلام قبول کرلے۔ قصہ مختصر یہ کہ جناب عباس، ابوسفیان کو اسلامی لشکر کا معائنہ کرانے کے لئے اپنے ساتھ لے گئے اور انہوں نے مختلف قبیلوں اور ان کے سربرآوردہ لوگوں کی جانب اشارہ کرکےابوسفیان کو پہچنوایا جو اس وقت لشکر اسلام میں موجود تھے۔ اسی اثناء میں پیغمبر ؐ اپنے اصحاب کے ساتھ ادھر سے گذرے  جو سب کے سب سبز لباس زیب تن کئے ہوئے تھے۔ ابوسفیان چلا اٹھا، عباس  ! حقیقت میں تمہارے بھتیجے نے ایک بہت بڑی سلطنت قائم کرلی ہے! عباس نے کہا: وائے ہو تجھ پر یہ سلطنت نہیں؛نبوت ہے[5]۔

یہاں دونوں متضاد نظریے پہلو بہ پہلو نظر کے سامنے ہیں؛ ابوسفیان نے اپنا نظریہ کبھی نہیں بدلا۔ جب عثمان خلیفہ ہوگئے تو ابوسفیان نے ان کے پاس آکر کہا: “اے آل امیہ ! اب جبکہ حکومت تمہارے پاس آگئی ہے، اس سے اسی طرح کھیلو، جس طرح بچے گیند سے کھیلتے ہیں اور اس کو اپنے خاندان میں ایک سے دوسرے کی طرف اچھالتے جاؤ ۔ یہ سلطنت ایک حقیقت ہے اور ہمیں نہیں معلوم کہ جنت و دوزخ اور قیامت کا کوئی وجود ہے بھی یا نہیں!!”[6]۔

پھر وہ احد پہنچا اور رسولؐ کے چچا حمزہؑ کی قبر پر ٹھوکر مارکر کہنے لگا: اے ابویعلیٰ!  دیکھو ، اسی حکومت کے لئے تم ہم سے جنگ کررہے تھے آخرکار وہ ہمارے قبضے میں آگئی ہے۔[7]

یہی وہ عقائد و نظریات تھے جو ابوسفیان کے پوتے یزید لعین کو وراثت میں ملے تھے جب ہی تو اس نے کہا تھا:

“لعبت هاشم بالملك فلا          خبر جاء ولا وحى نزل”

یعنی بنی ہاشم نے سلطنت کے لئے ایک ڈھونگ رچایا تھا ورنہ نہ تو خدا کی طرف سے کوئی خبر آئی تھی اور نہ ہی کوئی وحی نازل ہوئی تھی۔[8]

اگر کوئی مسلمان یہی نظریہ رکھتا ہے تو وہ مجبور ہے کہ “امامت” کو “حکومت” سمجھے۔ اس مکتب فکر کے مطابق پیغمبرؐ کا اصل کام “حکومت” کا قیام تھا۔ لہذا جس کے ہاتھ میں بھی عنان حکومت آجائے گی وہ پیغمبرؐ کا حقیقی جانشین ہوجائے گا۔

لیکن مشکل یہ ہے کہ نوے فیصد سے زیادہ انبیاء ایسے گذرے  ہیں جن کو کسی قسم کا بھی سیاسی اقتدار حاصل نہیں تھا اور ان میں سے اکثر ایسے تھے جن پر ان کے دور کے ارباب اقتدار، مظالم کے پہاڑ توڑ تے رہے اور کوئی ان کی مدد کرنے والا نہیں تھا۔ ان کی شان و شوکت تاج و تخت کی نہیں بلکہ ابتلاء و شہادت کی مرہون تھی۔

اگر نبوت کی بنیادی خصوصیت سیاسی اقتدار اور حکومت ہے تو شاید ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء میں سے مشکل سے پچاس بھی اپنے منصب نبوت کو باقی نہیں رکھ سکیں گے۔

اب یہ بالکل واضح ہوگیا کہ پیغمبرؐ کی بنیادی خصوصیت یہ نہیں تھی کہ وہ کسی سیاسی اقتدار کے مالک تھے۔ بلکہ یہ تھی کہ وہ اللہ کے نمائندہ تھے۔ یہ نمائندگی ان کو آدمیوں سے نہیں ملی تھی بلکہ اللہ نے عطا کی تھی۔

اسی طرح ان کے جانشین کی بنیادی خصوصیت سیاسی اقتدار نہیں ہوسکتی بلکہ یہ بات ہوگی کہ وہ اللہ کے نمائندہ ہے اور یہ نمائندگی کسی کو بندوں کے ہاتھ سے نہیں مل سکتی ۔ اللہ ہی کی جانب سے ملنا چاہئے۔ مختصر یہ کہ اگر امام اللہ کی نمائندگی کرنے آیا ہے تو اس کو اللہ کی طرف سے مقرر ہوناچاہئے۔

[1] حم سجدہ

[2] فصلت،  آیت۱۳۔

[3] سیرت ابن ہشام، ج۱، ص ۲۹۳-۲۹۴۔

[4]  البدایہ و النہایہ ، ابن کثیر ، مطبوعہ مکتبۃ المعارف، بیروت، پہلا ایڈیشن ، ج۵، ص۴۰۔

[5] المختصر فی اخبار البشرہ الابوالفداء عماد الدین اسمعیل، ج۱، مطبوعہ بیروت، ص143-144۔ تاریخ یعقوبی ، ج۲، ص 59۔ مطبوعہ بیروت 1960 ء۔

[6] الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، ج ۴، ص1679، مطبوعہ قاہرہ۔ شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید معتزلی ، مطبوعہ دوسرا ایڈیشن، 1386۔ ج ۹ ، ص 53۔ میں ابوسفیان کے جملے یہ ہیں:  فوالذی یحلف بہ ابوسفیان ما من عذاب ولا حساب، ولاجنۃ ولا نار، والا بعث و لا قیامۃ۔

[7] شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج16، ص136۔مطبوعہ قاہرہ۔

[8] تذکرۃ الخواص الامۃ، سبط ابن جوزی ، تصحیح سید محمدکبرالعلوم، مطبوعہ تہران، ص261۔

متعلقہ مضامین

تبصره کریں

Back to top button
×