احادیثاسلامی معارف

رحلت پیغمبرؐ اور لوگوں کا جاہلیت کی طرف پلٹنا

فاطمہ زہراؑ کا درد دل اور خطبہ فدکیہ (26)

رحلت پیغمبرؐ اور لوگوں کا جاہلیت کی طرف پلٹنا

«… أَعْلَنَ بِها كِتابُ اللَّـهِ جَلَّ ثَناؤُهُ فی اَفْنِیتِكُمْ، وَ فی مُمْساكُمْ وَ مُصْبِحِكُمْ هُتافاً وَ صُراخاً وَ تِلاوَةً وَ اَلْحاناً، وَ لَقَبْلَهُ ما حَلَّ بِاَنْبِیاءِ اللَّـهِ وَ رُسُلِهِ، حُكْمٌ فَصْلٌ وَ قَضاءٌ حَتْمٌ “وَ ما مُحَمَّدٌ اِلاَّ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ اَفَاِنْ ماتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلی اَعْقابِكُمْ وَ مَنْ ینْقَلِبْ عَلی عَقِبَیهِ فَلَنْ یضُرَّ اللَّـهَ شَیئاً وَ سَیجْزِی اللَّـهُ شَیئاً وَ سَیجْزِی اللَّـهُ الشَّاكِرینَ”…».

«… آنحضرت ؐ کی رحلت کا  واضح اعلان ، اللہ كى كتاب نے تمہارے دروازوں پر صبح و شام کیا ہے ۔اس کتاب کو تم بلند آواز سے یا آہستہ آہستہ، عام طریقے سےیا لحن و آواز کے ساتھ پڑھتے ہو ۔ پیغمبرؐسے پہلے  گذشتہ انبیاء ؑ و مرسلینؑ بھى موت کا حتمی امر اور الہی فیصلہ جاری ہوچکا ہے(اور آنحضرت ؐ کے بارے میں بھی آیا ہے کہ ) “اور حضرت محمد ؐ نہیں ہیں مگر پیغمبر جن سے پہلے تمام پیغمبر  دنیا سے رحلت کرچکے ہیں تو کیا اگر وہ وفات پا جائیں یا قتل کر دیئے جائیں تو تم الٹے پاؤں (کفر کی طرف) پلٹ جاؤگے اور جو کوئی الٹے پاؤں پھرجائے گا تو وہ ہرگز اللہ تعالیٰ کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا اور عنقریب خدا شکرگزار بندوں کو جزا دے گا”…»۔

اہم پیغامات:

شہزادی کائناتؑ نے اپنے خطبہ فدک کے اس حصہ میں انصار اور دیگر مسلمانوں کی طرف سے ظلم کے مقابلے میں خاموشی اور سستی کی مذمت کرتے ہوئے ان کے جاہلیت کی جانب پلٹنے کے خطرے کا ذکر فرمایا۔ اس سلسلے میں متعدد مطالب کی وضاحت پیش کی جارہی ہے:

۱ ۔ “أَعْلَنَ بِها کِتابُ اللهِ جَلَّ ثَناؤُهُ فی أَفْنِیتِکُمْ فی مُمْسَاکُمْ وَ مُصْبَحِکُمْ هُتافاً وَ صُراخاً وَ تِلاوَةً وَ إلْحاناً”؛ آنحضرت ؐ کی رحلت کا  واضح اعلان ، اللہ كى كتاب نے تمہارے دروازوں پر صبح و شام کیا ہے ۔اس کتاب کو تم بلند آواز سے یا آہستہ آہستہ، عام طریقے سےیا لحن و آواز کے ساتھ پڑھتے ہو ۔یعنی  تم میں سے ہرشخص قرآن کو کسی نہ کسی طریقے سے دن رات میں پڑھتا ہے اور اس کے مضامین سے آگاہ ہے اور اسی کتاب میں اس بات کا بھی واضح طور پر اعلان کیا گیا ہے کہ جس طرح گذشتہ انبیاء و مرسلین اس دنیا سے رحلت فرما گئے ہیں اسی طرح  اللہ کے آخری پیغمبرؐ بھی رحلت فرمائیں گے اور یہ کوئی غیر متوقع واقعہ نہیں تھا کہ کوئی کہنے لگے کہ ہم کو اس کی امید نہیں تھی کہ پیغمبراکرمؐ رحلت پاجائیں گے ۔

۲۔  شہزادی کائنات ؑ نے یہاں رحلت پیغمبراکرمؐ کے بعد رونما ہونے والے حالات خاص طور پر لوگوں کے جاہلیت کی طرف پلٹ جانے اور اسلامی اصول و قوانین و اقدار کو نظر انداز کرکے مادی امور کو نگاہ میں رکھتے ہوئے جاہلانہ امور میں ملوث ہوجانے اور حق وعدالت و حقیقت سے دوری اختیار کرلینے اور ظلم و غصب کے مقابلے میں غفلت اور سستی دکھانے وغیرہ کی طرف اشارہ کیا اور قرآنی آیت کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ:  «وَ لَقَبْلَهُ ما حَلَّ بِاَنْبِیاءِ اللَّـهِ وَ رُسُلِهِ، حُكْمٌ فَصْلٌ وَ قَضاءٌ حَتْمٌ “وَ ما مُحَمَّدٌ اِلاَّ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ اَفَاِنْ ماتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلی اَعْقابِكُمْ وَ مَنْ ینْقَلِبْ عَلی عَقِبَیهِ فَلَنْ یضُرَّ اللَّـهَ شَیئاً وَ سَیجْزِی اللَّـهُ شَیئاً وَ سَیجْزِی اللَّـهُ الشَّاكِرینَ”…»۔ پیغمبرؐسے پہلے  گذشتہ انبیاء ؑ و مرسلینؑ بھى موت کاحتمی امر اور الہی فیصلہ جاری ہوچکا ہے(اور آنحضرت ؐ کے بارے میں بھی آیا ہے کہ) “اور حضرت محمد ؐ نہیں ہیں مگر پیغمبر جن سے پہلے تمام پیغمبر  دنیا سے رحلت کرچکے ہیں تو کیا اگر وہ وفات پا جائیں یا قتل کر دیئے جائیں تو تم الٹے پاؤں (کفر کی طرف) پلٹ جاؤگے اور جو کوئی الٹے پاؤں پھرجائے گا تو وہ ہرگز اللہ تعالیٰ کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا اور عنقریب خدا شکرگزار بندوں کو جزا دے گا”…» (آل عمران، آیت۱۴۴)۔ یعنی شہزادیؑ نے اپنے بیان اور مذکورہ آیت کی روشنی میں بیان کیا کہ موت ایک حقیقت ہے جو سب کو آنا ہے۔ ایسا نہیں کہ کوئی نبی و رسول  اس سے مستثنیٰ ہے۔ پیغمبرؐ سے پہلے بھی اللہ کے نبی و رسول  بھی اس دنیا سے گئے ہیں اور اللہ کی کتاب نے خود پیغمبراکرمؐ کی رحلت یا شہادت کی خبر دی ہے۔ لہذا کسی بھی الہی رہبر کے جانے کے بعد یہ بہانہ نہیں پیش کیا جاسکتا ہے کہ وہ اب دنیا سے چلے گئے ہیں تو ہماری کوئی ذمہ داری نہیں ہے یا ان کی تعلیمات پر عمل کرنے کا اب کوئی فائدہ نہیں ہے۔ لہذا ہم اپنی گذشتہ حالت پر پلٹ جائیں۔

۳۔ قرآن مجید کی مذکورہ آیت پیغمبراکرمؐ کی زندگی ہی میں نازل ہوئی تھی اور اس آیت میں ان مسلمانوں کی مذمت کی گئی ہے جنہوں نے جاہلیت کی طرف لوٹنے کا خیال کر لیا تھا اور شہزادی کائناتؑ نے رحلت پیغمبراکرمؐ کے بعد جو حالات رونما ہوئے تھے ان کا مشاہدہ کرتے ہوئے اسی آیت کی تلاوت فرمائی اور لوگوں کی مذمت کی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ؐ کی رحلت کے بعد بہت سے لوگوں نے جاہلیت کی طرف واپسی کرلی تھی یعنی ظاہرطورپر تو وہ اسلام کا اظہار کرتے تھے لیکن حقیقی طور پر انہوں اسلام اور پیغمبرؐ کی تعلیمات اور تاکیدات کو فراموش کردیا اور راہ حق سے منحرف ہوگئے تھے۔ آنحضرتؐ کی رحلت کے بعد لوگوں کے جاہلیت کی طرف پلٹنے کے مسئلہ کو خود اہل سنت کی متعدد کتابوں میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ سورهمائدہ، آیت ۱۱۷ : «وَكُنتُ عَلَيهِم شَهِيدا مَّا دُمتُ فِيهِم فَلَمَّا تَوَفَّيتَنِي كُنتَ أَنتَ ٱلرَّقِيبَ عَلَيهِم وَأَنتَ عَلَى كُلِّ شَيء شَهِيدٌ»؛ اورخدایا!  میں جب تک ان کے درمیان رہا ان کا گواہ اور نگراں رہا -پھر جب تو نے مجھے اٹھالیا تو تو ان کا نگہبان ہے اور تو ہر شے کا گواہ اور نگراں ہے”۔اس آیت کے ذیل میں اہل سنت کی کتابوں میں متعدد احادیث و روایات کو بیان کیا گیا ہے کہ جب قیامت میں بعض اصحاب کو جہنم کی طرف لے جایا جارہا ہوگا تو آنحضرتؐ کہیں گے خدایا! یہ تو میرے اصحاب ہیں۔ یا جب ایک گروہ کو جہنم کی طرف ڈھکیلا جائے گا تو آنحضرتؐ کہیں گے خدایا!یہ تو میرے امتی ہیں تو جواب دیا جائے گا : “إنَّکَ لاتَدْری ما أحْدَثُوا بَعْدَکَ”؛ آپؐ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ ؐ کے بعد کیا حادثہ ایجاد کیاہے “مُرْتَدّین عَلی اَعْقابِهِمْ”؛ یہ لوگ اپنی جاہلیت کی طرف لوٹ گئے تھے (صحیح مسلم، ج۲۵، ص۴۴۶+ صحیح بخاری، ج۹، ص۴۸۲وغیرہ)۔ اسی طرح صحیح بخاری میں “حدیث باب حوض” کے عنوان سے آنحضرتؐ کے بعد لوگوں کے ارتداد اور جاہلیت کی طرف پلٹنے سے مربوط متعدد روایات ( ۶۲۰۵-۶۲۲۰ تک) بیان ہوئی ہیں جن میں سے پیغمبرؐ کو اس طرح جواب دیا جانا بیان ہوا ہےکہ:”لا تدري ما أحدثوا بعدك”؛ آپ ؐ نہیں جانتے ہیں کہ ان لوگوں نے آپؐ کے بعد کیا کیا ہے۔

۴۔ مذکورہ آیت اوراس کے ذیل میں تفسیری احادیث اور تصریحات کی روشنی میں واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرتؐ کی رحلت کے بعد لوگوں کے جاہلیت کی طرف پلٹنے کا اہم مصدا ق لوگوں کا اہل بیتؑ سے دوری اختیار کرلینااور خلافت کے حقیقی وارث کو خلافت سے دور کرکے اس منصب الہی کو غصب کرلینا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے لوگ حق کے راستے سے منحرف ہوگئے اور اپنی آراء و افکار کے ذریعہ تمام امور و مسائل کو حل کرنے لگے اور دین اسلام کے حقیقی معارف و مسائل سے دور ہوگئے۔ اور حقیقت میں انہوں نے اپنا ہی نقصان کیا تھا جیسا کہ آیت کے آخری میں اس بات کا ذکر بھی ہوا ہے کہ “تمہارے جاہلیت کی طرف پلٹنے سے  ہرگز اللہ تعالیٰ کو کوئی نقصان نہیں ہے۔ حضرت امام علیؑ نے بھی اس مسئلہ کے بارے میں بیان فرمایا کہ: “…حَتَّى إِذَا قَبَضَ اللَّهُ رَسُولَهُ ؐ رَجَعَ قَوْمٌ عَلَى الْأَعْقَابِ وَ غَالَتْهُمُ السُّبُلُ وَ اتَّكَلُوا عَلَى الْوَلَائِجِ وَ وَصَلُوا غَيْرَ الرَّحِمِ وَ هَجَرُوا السَّبَبَ الَّذِي أُمِرُوا بِمَوَدَّتِهِ وَ نَقَلُوا الْبِنَاءَ عَنْ رَصِّ أَسَاسِهِ فَبَنَوْهُ فِي غَيْرِ مَوْضِعِهِ. مَعَادِنُ كُلِّ خَطِيئَةٍ وَ أَبْوَابُ كُلِّ ضَارِبٍ فِي غَمْرَةٍ، قَدْ مَارُوا فِي الْحَيْرَةِ وَ ذَهَلُوا فِي السَّكْرَةِ، عَلَى سُنَّةٍ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ، مِنْ مُنْقَطِعٍ إِلَى الدُّنْيَا رَاكِنٍ، أَوْ مُفَارِقٍ لِلدِّينِ مُبَايِن” یعنی  جب اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبرؐ کی روح قبض کی تو ایک قوم اپنے گذشتہ زمانے کی طرف پلٹ گئی اور مختلف راستوں پر چل پڑی جو ان کی ہلاکت کا سبب  بنے۔ انہوں نے اپنے دلوں میں موجود باطل آراء پر اعتماد کیا، رشتہ داروں سے قطع تعلق کر لیا اور اس وسیلے(اہل بیتؑ) سے دور ہو گئے جس کی دوستی کے لیے انہیں حکم  تھا اور بنیاد کو اس کی مضبوطی سے اکھاڑ پھینکا اور کسی اور جگہ جو اس کے لائق نہیں تھی، قائم کر دیا۔ یہ لوگ ہر خطا کا منبع تھے اور ایسے دروازوں کی مانند تھے کہ جو کوئی بھی باطل اور گمراہی کا خواہاں ہوتا، ان کے ذریعے داخل ہو جاتا۔ وہ حیرت و سرگردانی میں راستہ طے کرتے رہے اور آل فرعون کے طریقے پر بے ہوشی، گمشدگی اور غفلت میں بسر کرتے رہے۔ ان میں سے بعض نے آخرت سے قطع تعلق کر لیا اور دنیا کی طرف مائل ہو گئے اور کچھ نے اپنے دین سے رشتہ توڑ لیا۔(نہج البلاغہ ، خطبہ ۱۵۰)۔

متعلقہ مضامین

تبصره کریں

Back to top button
×