رحلت پیغمبرؐ اور عظیم مصائب
«… اَتَقُولُونَ ماتَ مُحَمَّدٌ؟ فَخَطْبٌ جَلیلٌ، اسْتَوْسَعَ وَهْیُه، وَاسْتَنْهَرَ فَتْقُهُ، وَ انْفَتَقَ رَتْقُهُ، وَ اُظْلِمَتِ الْاَرْضُ لِغَیبَتِهِ، وَ كُسِفَتِ الشَّمْسُ وَ الْقَمَرُ وَ انْتَثَرَتِ النُّجُومُ لِمُصیبَتِهِ، وَ اَكْدَتِ الْامالُ، وَ خَشَعَتِ الْجِبالُ، وَ اُضیعَ الْحَریمُ، وَ اُزیلَتِ الْحُرْمَةُ عِنْدَ مَماتِهِ. فَتِلْكَ وَاللَّـهِ النَّازِلَةُ الْكُبْری وَ الْمُصیبَةُ الْعُظْمی، لامِثْلُها نازِلَةٌ، وَ لابائِقَةٌ عاجِلَةٌ …»
«…كیا كہتے ہو كہ حضرت محمدؐ اس دنیا سے چلے گئے؟ جى ہاں۔ آنحضرت ؐ چلے گئے اوریہ ایك بہت بڑى مصیبت ہے كہ ہر روز اس كا شگاف بڑھ رہا ہے اور اس كا خلل زیادہ ہو رہا ہے۔ آنحضرت ؐ كى غیبت سے زمین تاریك ہوگئی اور سورج اور چاند بے رونق ہوگئے اور ستارے تتربتر ہوگئے اور امیدیں ٹوٹ گئیں اور پہاڑ متزلزل اور ریزہ ریزہ ہوگئے ہیں۔ اورآنحضرت ؐ کی حرمت کو ضائع کردیا گیا۔ اور آپ ؐ كے چلے جانے کے بعدان کے احترام كى رعایت نہیں كى گئی۔ خدا کی قسم! یہ واقعہ بہت بڑا حادثہ ہے جو وجود میں آیا ہے۔ اور یہ وہ عظیم مصیبت ہے جس کی کوئی مثال نہیں ہے۔…»۔
اہم پیغامات:
شہزادی کائناتؑ نے اپنے خطبہ فدک کے اس حصہ میں ظلم کے خلاف قیام نہ کرنے اور حق کی حمایت میں سستی اور غفلت سے کام لینے پر انصار کی مذمت کرتے ہوئے پیغمبراکرمؐ کی غمناک رحلت کو یاد اور اس عظیم مصیبت کے نتیجہ میں رونما ہونے والے حالات کی طرف اشارہ فرمایا۔یہاں بعض اہم مطالب کی وضاحت پیش کی جارہی ہے:
۱۔ شہزادی کائنات ؑنے سب سے پہلے انصار کی غفلت و سستی کے نتیجہ میں حقوق اہل بیتؑ کو جو غصب کیا گیا اور مظالم کئے گئے اور اہل بیتؑ کی ہتک حرمت پر خاموشی اختیار کرلی گئی اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ لوگوں نے سوچ لیا کہ اب تو پیغمبراکرمؐ کی رحلت ہوگئی ہے اور لوگوں نے خلافت کا منصب حقیقی وارث سے چھین لیا لہذا اب کسی طرح کی مقاومت اور تحریک کا فائدہ نہیں ہے۔ اس طرح وہ لوگ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر خاموش ہوگئے، سست پڑ گئے لہذا شہزادی ؑ نے سوالیہ انداز میں لوگوں کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا کہ: “اَتَقُولُونَ ماتَ مُحَمَّدٌ؟” تم لوگ یہ کہتے ہو کہ پیغمبرؐ رحلت پاگئے اور سب کچھ ختم ہو گیا؟یعنی تمہارے خیال میں ظلم کے خلاف اقدام اور حق کی حمایت صرف رسول اکرمؐ کی زندگی تک محدود تھی اور اب تم لوگوں کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے؟۔ یہاں شہزادی کائنات ؑنے جنگ احد کو بھی یاد دلایا جب پیغمبراکرمؐ کی شہادت کی افواہ پھیلی اور بہت سے مسلمان سستی کا شکار ہوکر فرار کرنے لگے اور کہنے لگے کہ اب جب پیغمبراکرمؐ ہی شہید ہوگئے تو سب کچھ ختم ہوگیا ہے۔ شہزادی کائنات ؑنے اسی بات کو یاد دلاتے ہوئے فرمایا کہ کیا آج تم پھر اسی طرح سستی کا شکار ہوگئے ہو اور سوچنے لگے کہ اب جبکہ پیغمبر ؐ اس دنیا سے چلے گئے تو ظلم کے خلاف قیام اور حق کی حمایت کا کوئی فائدہ نہیں ہے؟۔
۲۔ شہزادی کائنات ؑ نے اس مقام پر پیغمبراکرم ؐ کی شہادت کے نتیجے میں ظاہر ہونے والے مصائب کا ذکر فرمایا جس میں سے سے پہلے فرمایاکہ : “فَخَطْبٌ جَلیلٌ، اسْتَوْسَعَ وَهْیُه وَاسْتَنْهَرَ فَتْقُهُ وَانْفَتَقَ رَتْقُهُ” بے شک آنحضرتؐ کی رحلت ایک بڑی مصیبت تھی جس کی وجہ سے ایک وسیع شگاف پیدا ہوا اور لوگوں میں آپسی اتحاد ٹوٹ گیا اورمسلمان بٹ گئے یعنی جب تک پیغمبر اکرمؐ زندہ تھے، مسلمان ایک ہاتھ کی طرح تھے۔ متحد تھے، لیکن جیسے ہی آنحضرتؐ رحلت کر گئے، ان کے درمیان شگاف پیدا ہو گیا اور ان کا اتحاد ختم ہو گیا۔ مسلمان مختلف افکار اور گروہ میں بٹنا شروع ہوگئے۔ یہ اختلاف اور شگاف سقیفہ کے واقعہ کا نتیجہ تھا جس نےقیادت اور امامت کے مسئلہ میں مسلمانوں میں انحراف پیدا کردیا، اہل بیت کو خلافت سے دور کردیا گیا۔ یہیں سے تشتت اور گروہ بندیوں کی ابتدا ہوگئی اور سب مسلمان ہونے کا دعویٰ کررہے تھے لیکن ان میں اکثریت نے پیغمبرؐ کی جیسے ہی رحلت ہوئی، آپؐ کی سفارشات کو فراموش کردیا۔ امامت و خلافت کے مسئلہ میں اختلاف کرکے مسلمانوں کے درمیان شگاف پیدا کردیا۔ لہذا یہاں ذات پیغمبراکرم ؐکا معجزہ تھا کہ جب تک آپ ؐ باحیات تھے سب کو متحد رکھا تھا۔
۳۔ آنحضرت ؐ کی رحلت کی مصیب کا اثر صرف انسانوں پر نہیں ہوا تھا بلکہ اس مصیبت کا اثر زمین و آسمان وغیرہ پر بھی ہوا جیسا کہ شہزادی کائنات ؑ بیان فرماتی ہیں کہ: “وَ اُظْلِمَتِ الْاَرْضُ لِغَیبَتِهِ، وَ كُسِفَتِ الشَّمْسُ وَ الْقَمَرُ وَ انْتَثَرَتِ النُّجُومُ لِمُصیبَتِهِ، وَ اَكْدَتِ الْامالُ، وَ خَشَعَتِ الْجِبالُ”؛ “آنحضرت ؐ كى غیبت سے زمین تاریك ہوگئی اور سورج اور چاند بے رونق ہوگئے اور ستارے تتربتر ہوگئے اور امیدیں ٹوٹ گئیں اور پہاڑ متزلزل اور ریزہ ریزہ ہوگئے ہیں”۔شہزادی کائنات ؑنے مذکورہ جملات میں آنحضرتؐ کی رحلت اور اس عظیم مصیبت کے نتیجہ میں زمین و آسمان، چاند، ستارو اور پہاڑوں کے متاثر ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ واضح طور پر آنحضرت ؐ کی رحلت کی مصیبت کا مذکورہ چیزوں پر کیا اثر ہوااس بات کی وضاحت نہیں کی جاسکتی ہے لیکن اتنا کہا جاسکتا ہے کہ زمین، سورج، چاند وغیرہ بھی جو وجود پیغمبراکرمؐ کی نورانیت سے فیض اٹھا رہے تھے وہ سب اب محروم ہوگئے۔ اسی طرح امیدوں کے ناامیدی میں بدل جانے کا مطلب شاید یہ ہے کہ آنحضرت ؐ خود متعدد مسائل کے حوالے سے پرامید تھے لیکن وہ امیدیں آپ ؐ کی حیات میں پوری نہ ہوسکیں۔ جیسے اسلام کے پوری دنیا میں پھیل جانے کی امید وغیرہ۔ پہاڑوں کے خاشع ہونے کا مطلب بھی آنحضرتؐ کی رحلت کی عظیم مصیبت یا آپ ؐکی رحلت کے فورا بعد بعض لوگوں کی جانب سے نافرمانی کی وجہ سے اپنی جگہ سے ہٹنے کی کوشش کرنا ہے۔
۴۔ آنحضرت ؐ کی رحلت کی وجہ سب سے اہم اور عظیم مصیبت جو سامنے آئی وہ حریم پیغمبرؐ کی حرمت کو پائمال کیا جانا تھا جس کے بارے میں شہزادی ؑ نے فرمایا کہ: “وَ اُضیعَ الْحَریمُ، وَ اُزیلَتِ الْحُرْمَةُ عِنْدَ مَماتِهِ…”؛ ” اورآنحضرت ؐ کی حرمت کو ضائع کردیا گیا۔ اور آپ ؐ كے چلے جانے کے بعدان کے احترام كى رعایت نہیں كى گئی…”۔ یہاں شہزادیؑ نے آنحضرت ؐ کی رحلت کے آخری دنوں میں رونما ہونے والے متعدد واقعات کی طرف اشارہ کیا جہاں آنحضرت کی حرمت اور آپ کے احترام کو پائمال کیا گیا تھا جیسے آپ ؐ کی مقدس ذات پر ہزیان کا الزام لگایا گیا۔ آپ ؐکے فرامین کی صریحی طور پر مخالفت کی گئی ۔ آنحضرتؐ کی زندگی کے آخری دنوں میں حرمت شکنی اور بعض مسلمانوں کی ناقابل بخشش جسارت ہی کا نتیجہ تھا کہ جیسے ہی آنحضرت ؐ کی رحلت ہوئی تو آنحضرت ؐ کے ساتھ ساتھ آپ کے اہل بیت اطہارؑ کی بھی حرمت کو بھی پائمال کردیا گیا۔ جس دروازے پر رسول اکرمؐ آکر تعظیم کا اظہار فرماتے تھے۔ اہل بیت ؑکو سلام کیا کرتے تھے۔ اس دروازے کی حرمت کو پائمال کردیا گیا اور وہاں آگ لگا دی گئی…۔
۵۔ پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد حرمت شکنی سب سے عظیم مصیبت تھی اس اس لئے کہ جیسے ہی آنحضرت ؐ اس دنیا سے گئے بعض مسلمانوں نے اکثریت کی سستی اور خاموشی کے نتیجہ میں اسلامی قیادت اور رہبری پر ناجائز قبضہ کرلیا اور امت کے اتحاد و انسجام اور ہدایت و نجات کے راستے میں موانع ایجاد کردیئے۔ یہی وجہ ہے کہ شہزادی ؑ نے فرمایا: “فَتِلْکَ وَ اللهِ النّازِلَةُ الْکُبْری وَ الْمُصیبَةُ العُظمی لامِثْلَها نازِلَةٌ وَ لا بائِقَةٌ عاجِلَةٌ”؛ خدا کی قسم! یہ واقعہ بہت بڑا حادثہ ہے جو وجود میں آیا ہے۔ اور یہ وہ عظیم مصیبت ہے جس کی کوئی مثال نہیں ہے۔
خلاصہ یہ کہ شہزادی کائنات ؑ نے انصار کے گروہ کی سستی اور غفلت کو یاد دلاتے ہوئے ان کی جانب سے پیش ہونے والے رحلت پیغمبراکرمؐ کے ممکنہ بہانے کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ آنحضرت ؐ کی رحلت واقعا عظیم مصیبت تھی۔ زمین و آسمان و پہاڑ ، چاند ستاروں پر بھی اس کا اثر ہوا ہے لیکن کیا رحلت پیغمبرؐ کے بہانے سے تم ظلم کے خلاف خاموشی اختیار کرلوگے۔ کیا تم ہمارے حقوق کو پائمال ہوتے ہوئے دیکھتے رہوگے۔ اگر ایسا کروگے تو یقینی طور پر تم زمانہ جاہلیت کی جانب حرکت کررہے ہو اور اسلام سے دور ہورہے ہو۔ آئندہ قسط میں شہزادی ؑ کے بیان کی روشنی میں رحلت پیغمبرؐ کے بعد لوگوں کا جاہلیت کی طرف پلٹنے کے مسئلہ کو پیش کیا جائے گا۔