خلافت کی بنیاد؟ کیا تشیع غیر جمہوری ہے؟
رئیس المبلغین علامہ سید سعید اختر رضوی کی کتاب امامت سے اقتباس۔ ۱۳
خلافت کی بنیاد؟
کیا تشیع غیر جمہوری ہے؟
جب اہل سنت پہلے چار خلفاء کی اور ہمارے آئمہ ؑ کی جانشینی کو دیکھتے ہیں تو وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ تشیع غیر جمہوری ہے۔ تمام بارہ آئمہؑ ایک ہی خاندان اور ایک ہی نسل سے تھے جبکہ سنیوں کے پہلے چار خلفاء مختلف خاندانوں میں سے تھے اور وہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ سنی مذہب اصولاً جمہوری ہے جس کے بارے میں آجکل یہ تصور کیا جاتا ہے کہ وہ بہترین نظام حکومت ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ تشیع وراثت پر مبنی ہے اور ظاہر ہے کہ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ کوئی اچھا نظام نہیں۔
جوابات:
۱- سب سے پہلے تو کوئی بھی نظام حکومت بذاتِ خود نہ اچھا ہوتا ہے نہ بُرا۔ بلکہ اتنا ہی اچھا یا برا ہوتا ہے جتنا وہ آدمی اچھا یا برا ہوتا ہے جس کے ساتھ میں حکومت کی باگ ڈور ہے۔ بنابریں شیعوں کا یہ عقیدہ کہ امام کو معصوم ہونا چاہئے اور ہر قسم کے گناہ و نقائص اور رجس سے پاک و منزہ ہونا چاہئے۔اور تمام صفات حسنہ میں سب سے افضل ہونا چاہئیے۔ اس بات کی ضمانت ہے کہ اس امام کی حکومت سب سے بہتر اور سب سے زیادہ عادلانہ ہوگی۔ شیعہ نظام میں ایک سرے پر حضرت علیؑ کا خالص عادلانہ نظام ہے جسے آپ نے اتنے مختصر دور حکومت میں نافذ کیا اور دوسرے سر پر رسولؐ کی متفق علیہ حدیث ہے جو آپؐ نے آخری امام مہدی (عج) کے بارے میں فرمائی ہے کہ “وہ زمین کو عدل و انصاف سے اسی طرح بھردیں گے جس طرح وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی”[1]۔ اس طرح ہمارا یہ استدلال عملی بنیادوں پر قائم ہے صرف ذہنی قیاس آرائی نہیں ہے۔
۲- دوسرے یہ کہ اہل سنت کے تمام خلفاء ابوبکر سے لے کر بنی عباس کے آخری خلیفہ المعتصم باللہ تک (جس کو ہلاکوخان نے ۶۵۶ ھ میں ہلاک کردیا ) قریش سے تھے۔ کیا اس کا یہ مطلب نہیں کہ سنیّ نظام نے مشرقی چین سے اسپین تک تمام مسلمانوں پر ساڑھے چھ سو برس تک ایک ہی خاندان کی حکومت مسلط کر رکھی۔
۳- تیسرے جیسا کہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے، اہل سنت کا نظام خلافت کبھی جمہوریت کی بنیاد پر قائم نہیں ہوا۔ پہلے خلیفہ کو مسلمانوں پر گنتی کے چند اصحاب نے مسلط کردیا ۔ دوسرے خلیفہ کو پہلے خلیفہ نے نامزد کیا۔ تیسرے خلیفہ کو نام کے لئے پانچ لیکن حقیقت میں ایک آدمی نے منتخب کیا۔ معاویہ نے فوجی تشدّد کے ذریعہ خلافت حاصل کی۔ معاویہ کے پہلے تک اسے زیادہ سے اولیگارچی (Oligarchy) یعنی چند بڑے لوگوں کے ذریعہ قائم ہونے والی سلطنت کہا جاسکتا ہے اور معاویہ کے بعد تو موروثی ملوکیت ہوگئی۔ یہ تو حال تھا اس دستور اساسی کی جمہوریت کا، جس کو استعمال میں لایا گیا۔
۴- چوتھے یہ کہ اگر ہم حضرت امام علیؑ کے علاوہ اہل سنت کے خلفاء کی خلافتوں کو دیکھیں تو شروع سے لے کر آخر تک تمام خلفاء ، ابتدائی خلافتیں ہوں یا بنی امیہ اور بنی عباس کے خلفاء سب کے سب خلفاء کی سیرت، ان کے کردار اور ان کے کارناموں میں سینکڑوں ایسے نمونے تاریخ نے بیان کئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کو پیغمبرؐ کی سیرت اور آپ کے کردار اور حکومت کے طور و طریقے سے کوئی مطلب نہیں تھا۔ بلکہ انہوں پیغمبراکرمؐ کے برخلاف بہت سے کام انجام دیئے جیسے انہوں عرب اور غیر عرب میں فرق قائم کیا۔ ایک غیر عرب کو عرب عورت سے شادی کرنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ ایک غلام آزادی کے بعد بھی آزاد عورت سے شادی نہیں کرسکتا تھا۔ مال غنیمت کی تقسیم میں خاندان اور نزدیکیوں کو فوقیت اور برتری دی جاتی تھی۔ خلیفہ اور حکمرانوں کے خاندان ، قبیلہ والوں کو بیت المال اور اسلامی حکومت کے مال و دولت سے بے حساب نوازا جاتا تھا۔
لیکن شیعہ اماموں کی سیرت و کردار کو دیکھا جائے تو سب کے سب پیغمبراکرمؐ کی سیرت اور آپ ؐ کے کردار کا نمونہ تھے۔ آپس میں بھی کسی کی بھی سیرت ، دوسرے کے برخلاف نہیں تھی۔ سب کا کردار ، سب کا اخلاق اور سب کی سیرت الہی اصول و قوانین کا بہترین نمونہ تھی اسی وجہ سے شیعہ پیغمبراکرمؐکی فرامین اور واضح ارشادات اور اعلانات کی روشنی میں صرف انہیں معصوم حضرات ؑکو امامت اور خلافت الہیہ کا حقیقی وارث جانتے اور مانتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نےبھی ان بارہ اماموں کی ذوات مقدسہ میں حکومت کے حق کو محدود کرکے ہر قسم کے باہمی تنازعہ، اختلاف، بدامنی اور دھوکہ پر مبنی الکشن بازی کی جڑ کاٹ دی اور اس کے ساتھ ساتھ سماجی اور نسلی عدم مساوات کا خاتمہ کردیا۔
[1] صحیح ابوداؤد، ج۲، ص۲۰۷۔ مسند احمد بن حنبل ، ج۱، ص ۳۷۷و ۴۰۳ ج۲، ص۸۔ مستدرک حاکم ، ج۴، مطبوعہ حیدر، ص ۳۶۵۔۵۵۷، ۱۳۳۴ش۔