خصوصیات حدیث غدیر
یہاں حدیث غدیر کی اہم خصوصیات کا ذکر کیا جارہا ہے:
الف؛حدیث غدیر متواتر ہے:
پیغمبراسلامؐ کے اس خطبہ میں حدیث ثقلین اور حدیث ولایت بڑی اہمیت کی حامل ہیں جو کہ اہل سنت کی مستند کتابوں میں درج ہیں کہ پیغمبرخداؐ نے فرمایا:
“میں تمہارے درمیان دو گراں بہا چیزیں چھوڑ رہا ہوں … 1 ۔ کتاب خدا … 2۔ میری عترت جوکہ میرے اہل بیتؑ ہیں اور یہ ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوض کوثر پر آئیں، اللہ میرا ولی ہے اور میں ہر مومن کا مولا ہوں”۔ پھر آپ ؐ نے حضرت علیؑ کا ہاتھ پکڑکر فرمایا : “جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علیؑ بھی مولا ہیں”۔
ان دونوں حدیثوں کو “حدیث ثقلین” اور “حدیث ولایت” کہتے ہیں ۔ دونوں سینکڑوں محدثین نے ملاکر اور الگ الگ درج کیا ہے۔
نواب صدیق حسن خان بھوپال تحریر فرماتے ہیں:
“حاکم ابوسعید کہتا ہے کہ حدیث موالات اور حدیث غدیر خم کو ایک جماعتِ صحابہ نے روایت کیا ہے اور اس کی نقل متواتر چلی آرہی ہے حتیٰ کہ حدِ تواتر کے اندر داخل ہوچکی ہے اور محمد بن جریر طبری نے حدیث غدیر خم کے لئے پچھتر(75) طرق اسناد ذکر کئے ہیں اور اس کے لئے اس نے ایک علیٰحدہ کتاب لکھی ہے جس کا نام “کتاب الولایت” رکھا ہے اور حافظ ذہبی نے بھی اس کے اسناد میں ایک مستقل رسالہ لکھ کر اس حدیث کے متواتر ہونے کا حکم دیا ہے۔ اور ابوالعباس بن عقدہ نے حدیث غدیر خم کو ایک سو پچاس اسانید سے بیان کیا ہے اور اس پر ایک مستقل کتا ب لکھی ہے”[1]۔
بعض مصنفین نے یہ کوشش کی ہے کہ حدیث غدیر کی صحت پر شبہہ پیدا کردیں اس لئے یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ یہ حدیث متواتر ہے اور مشہور محقق علامہ امینی ؒ نے اپنی کتاب “الغدیر” کی پہلی جلد میں مکمل حوالوں کے ساتھ ایک سو دس اصحاب رسولؐ کے نام درج کئے ہیں جنہوں نے اس حدیث کی روایت کی ہے۔ میں یہاں وہ چند نام درج کررہا ہوں جو الف سے شروع ہوتے ہیں اور ان کا سن وفات بھی قوسین میں درج ہے:
۱۔ ابولیلیٰ انصاری(متوفی ۳۷ ھ)؛ ۲۔ ابوزینب بن عوف الانصاری ؛ ۳۔ ابوفضالہ انصاری(متوفی ۳۸ ھ)؛ ۴۔ ابوقدامہ انصاری؛ ۵۔ ابوعمرہ بن عمر محصّن الانصاری۔ ۶۔ ابوالھیثم بن تیہان(متوفی ۳۷ ھ؛ ۷۔ابورافع القبطی( آپ پیغمبرؐ کے غلام تھے)؛ ۸۔ ابودوئیب خویلد یا خالد الہذلی؛ ۹۔اسامہ بن زید بن حارثہ (متوفی ۵۴ھ)؛ ۱۰۔ ابی بن کعب الانصاری(متوفی ۳۰ یا ۳۲ ھ)؛ ۱۱۔ اسعد بن زرارہ الانصاری؛ ۱۲۔ اسماء بنت عمیس۔ ۱۳ ام المومنین ام سلمہ؛ ۱۴۔ ام ہانی بن ابیطالبؑ؛ ۱۵۔ ابوحمزہ انس بن مالک الانصاری؛ ۱۶۔ ابوبکر بن قحافہ؛ ۱۷۔ ابوہریرہ؛ ۳۲۔ ان ایک سو دس صحابہ کے علاوہ تقریباً ۸۴ تابعین نے بھی اس حدیث کو مندرجہ بالا صحابہ کرام سے روایت کیا ہے ان میں چند الف سے شروع ہونے والے نام یہاں بطور مثال لکھے جاتے ہیں:
۱۔ ابوراشد الجرانی الشامی؛ ۲۔ ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف؛ ۳۔ ابوسلیمان المؤذن؛ ۴۔ ابوصالح السمان ذکوان المدنی؛ ۵۔ ابوعنفوانہ المأزنی؛ ۶۔ ابوعبدالرحمٰن الکندی؛ ۷۔ ابوقاسم اصبغ بن نباتۃ التمیمی ؛ ۸۔ ابولیلی الکندی؛ ۹۔ ایاس بن نذیر۔ [2]
محدثین نے ہر دور میں اس حدیث کو اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے؛ یہاں پر ہم دوسری صدی ہجری کے چند محدثین کے نام دے رہے ہیں:
۱۔ ابومحمد عمرو بن دینار الجمحی (متوفی ۱۱۵/۱۱۶ھ)؛ ۲۔ ابوبکرمحمد بن مسلم بن عبیداللہ القرشی الزہری؛ (متوفی ۱۲۴ھ)؛ ۳۔ عبداللہ بن قاسم بن ابی بکر التیمی المدنی(متوفی ۱۲۶ھ) ؛ ۴۔ بکر بن سوادہ بن ثمانہ ابوثمامہ البصری(متوفی ۱۲۸ ھ)؛ ۵۔ عبداللہ بن ابی نجیح یسار الثقفی ابویسارالملکی(متوفی ۱۳۱ھ)؛ ۶۔ الحافظ مغیرہ بن مقسم ابوہشام الضبی الکوفی (متوفی 133ھ)؛ ۷۔ ابوعبدالرحمٰن خالد بن زیاد الجمحی البصری(متوفی 139 ھ)؛ ۸۔ حسن بن الحکم النخعی الکوفی (متوفی تقریباً 140 ھ)؛ ۹۔ ادریس بن یزید ابوعبداللہ الآوی الکوفی؛ ۱۰۔ یحیی بن سعید بن حیان التیمی الکوفی (متوفی 145ھ) ؛ ۱۱۔ عوف بن ابی جمیلہ العبدی الہجری البصری(متوفی 146ھ)؛ ۱۲۔ حافظ عبدالملک بن ابی سلیمان العرزمی الکوفی(متوفی 145ھ)؛ ۱۳۔ عبیداللہ بن عمر بن حفص بن عاصم بن عمر بن الخطاب العددی المدنی (متوفی 147 ھ)؛ ۱۴۔ نعیم الحکیم المدائنی (متوفی 148ھ)؛ ۱۵۔ طلحہ بن یحییٰ بن طلحہ بن عبیداللہ التیمی الکوفی (متوفی148ھ)؛ ۱۶۔ ابومحمد کثیر بن زیاد الاسلمی(متوفی تقریباً 150 ھ)؛ ۱۷۔ الحافظ محمد بن اسحاق المدنی (متوفی 151-152ھ)؛ ۱۸۔ الحافظ معمر بن راشد ابوعروہ الازدی البصری (متوفی153-154ھ)؛ 19۔ الحافظ مسعر بن کدام بن ظہیر الہلالی الرواسی الکوفی (متوفی 153/154ھ)؛ ۲۰۔ابوعیسیٰ حکم بن ابان العدنی (متوفی 154/155ھ)؛۲۱۔ عبداللہ بن شوذب البلخی البصری(متوفی 157ھ)؛ ۲۲۔ الحافظ شعبہ بن الحجاج ابوبسطام الواسطی(متوفی 160ھ)؛ ۲۳۔ الحافظ ابوالعلاء کامل بن العلاء التمیمی الکوفی (متوفی تقریباً 160ھ)؛ ۲۴۔ الحافظ سفیان بن سعید الثوری ابوعبداللہ الکوفی (متوفی 161ھ)؛ ۲۵۔ الحافظ اسرائیل بن یونس بن ابی اسحاق السبیعی ابویوسف الکوفی(متوفی 161ھ)؛ ۲۶۔ جعفر بن زیاد الکوفی الاحمر(متوفی 165ھ/167ھ)؛ ۲۷۔ مسلم بن سالم النہدی ابوفروہ الکوفی؛ ۲۸۔ حافظ قیس بن الربیع ابومحمد الاسدی الکوفی (متوفی 165ھ) ؛ ۲۹۔ حافظ حماد بن سلمہ ابی سلمہ البصری(متوفی 167ھ)؛ ۳۰۔حافظ عبداللہ بن لھیعہ ابوعبدالرحمٰن البصری (متوفی 174ھ)؛ 31۔ حافظ ابوعوانہ الوضاح بن عبداللہ الیشکری الواسطی البزار (متوفی 175 ھ / 176 ھ)؛ ۳۲۔ القاضی شریک بن عبداللہ ابوعبداللہ النخعی الکوفی (متوفی 177ھ)؛ ۳۳۔ حافظ عبداللہ یا عبیداللہ بن عبیدالرحمٰن یا عبدالرحمٰن الکوفی ابوعبدالرحمٰن الاشجعی (متوفی 182ھ)؛ ۳۴۔ نوح بن قیس ابوروح الحدانی البصری (متوفی 183ھ)؛ ۳۵۔ المطلب بن زیاد ابن ابی زہیر الکوفی ابوطالب(متوفی 185ھ)؛ ۳۶۔ قاضی حسان بن ابراہیم الغزی ابوہاشم (متوفی 186ھ)؛ ۳۷۔ حافظ جریر بن عبدالحمید ابوعبداللہ الضبی الکوفی الرازی(متوفی 188ھ)؛ ۳۸۔ الفضل بن موسی ابوعبداللہ المروزی السینانی (متوفی 192ھ)؛ ۳۹۔ حافظ محمد بن جعفر المدنی البصری(متوفی 193ھ)؛ ۴۰۔ حافظ اسمٰعیل بن علیہ ابوبشربن ابراہیم الاسدی(متوفی 193ھ)؛ ۴۱۔ حافظ محمد بن ابراہیم ابوعمرو بن ابی عدی السلمی البصری(متوفی 194ھ)؛ ۴۲۔ حافظ محمد بن حازم ابومعاویہ التمیمی الضریر(متوفی 195ھ)؛ ۴۳۔ حافظ محمد بن فضل ابوعبدالرحمٰن الکوفی(متوفی 195ھ)؛ ۴۴۔ حافظ الوکیع بن الجراح الرواسی الکوفی (متوفی 196ھ)؛ ۴۵۔ حافظ سفیان بن عینیہ ابومحمد الھلالی الکوفی (متوفی 198ھ)؛ ۴۶۔ حافظ ابوعبداللہ بن نمیر ابوہشام الہمدانی الخریفی (متوفی 199ھ)؛ ۴۷۔ حافظ حنش بن الحرث بن لقیط النخعی الکوفی؛ ۴۸۔ ابومحمد موسی بن یعقوب الزمعی المدنی؛ ۴۹۔ العلاء بن سالم العطار الکوفی؛ ۵۰۔ الارزق بن مرزوق الاغرا رواسی الکوفی (متوفی تقریباً 160ھ)؛ ۵۱۔ ہانی بن ایوب الحنفی الکوفی۔ ۵۲۔ فضیل بن مرزوق الاغر الرواسی الکوفی (متوفی 160ھ)؛ ۵۳۔ ابوحمزہ سعد بن عبیدہ السلمی الکوفی؛ ۵۴۔ موسیٰ بن مسلم الحزامی الشیبانی ابوعیسیٰ الکوفی الطحان (موسیٰ الاصغر)؛ ۵۵۔ یعقوب بن جعفر بن ابی کثیر الانصاری المدنی(متوفی 243ھ)؛ ۵۶۔ عثمان بن سعد بن مرۃ القرشی ابوعبداللہ ابوعلی الکوفی … .[3]۔
یہ واضح ہوگیا کہ اس حدیث کو ہر طبقہ میں اتنے راویوں نے بیان کیا ہے کہ جو اس کو متواتر کردینے کے لئے کافی ہے۔ رہا علماء و محدثین کا مسئلہ جنہوں نے اپنی احادیث کی کتابوں میں اس حدیث کو بیان کیا ہے تو یہ لکھ دینا کافی ہے کہ علامہ امینی ؒ نے ہر قرن کے مصنفین کے نام درج کئے ہیں جن کی تعداد ۳۶۰ ہوتی ہے[4]۔
بعض لوگوں نے اس حدیث کے اسناد میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کی ہے جیسا کہ علم حدیث کے ہر طالب علم کو معلوم ہے کہ اگر حدیث متواتر ہے تو ایک ایک سند کا جانچنا اور پرکھنا ضروری نہیں ہے لیکن اس اعتراض کے کھوکھلے پن کو ظاہر کرنے کے لئے کچھ مشہور محدثین کے اقوال یہاں درج کئے جاتے ہیں:
ب؛ اسنادِ حدیث غدیر:
الف: حافظ ابوعیسیٰ الترمذی (متوفی ۲۷۹ ھجری) نے اپنی کتاب صحیح ترمذی میں ۔ جو کہ صحاح ستہ میں سےایک ہے۔ کہا ہے: هذه حدیث حسن صحیح؛ یہ حدیث حسن اور صحیح ہے[5]۔
ب: حافظ ابوجعفرالطحاوی (متوفی ۲۷۹ ھجری) نے اپنی کتاب “مشکل الآثار” میں لکھا ہے: فهذا الحدیث صحیح الاسناد و لایطعن الاحد فی روایة؛ “یہ حدیث صحیح الاسناد ہے اور اس کے راویوں کے بارے میں کسی نے کوئی قدح نہیں کی ہے”[6]۔
ج: ابوعبداللہ حاکم نیشاپوری (متوفی ۴۰۵ ھجری) نے اپنی کتاب مستدرک میں اس حدیث کو کئی اسناد سے بیان کرنے کے بعد لکھا ہے : “یہ حدیث صحیح ہے”[7]۔
د: ابومحمد بن محمد العاصمی نے لکھا ہے : “هذا حدیث تلقته الامة بالقبول و هو موافق بالاصول”؛ اس حدیث کو امت نے قبول کیا ہے اور یہ اصول کے عین مطابق ہے[8]۔
اسی طرح سینکڑوں محدثین میں سے مندرجہ ذیل محدثین نے بھی اس حدیث کو صحیح لکھا ہے:
۱۔ ابوعبداللہ المحاملی البغدادی نے اپنی کتاب الامالی میں۔
۲۔ ابن عبدالبر القرطبی نے الاستیعاب میں۔
۳۔ ابن المغازلی الشافعی نے المناقب میں۔
۴۔ ابوحامد الغزالی نے سرالعالمین میں۔
۵۔ ابوالفرج ابن الجوزی نے المناقب میں۔
۶۔سبط ابن الجوزی نے تذکرۃ الخواص الامۃ میں۔
۷۔ ابن ابی الحدید المعتزلی نے شرح نہج البلاغہ میں۔
۸۔ ابوعبداللہ الگنجی الشافعی نے کفایۃ الطالب میں۔
۹۔ ابوالمکارم علاء الدین سمنانی نے العروۃ میں۔
۱۰۔ ابن حجر العسقلانی نے تہذیب التہذیب میں۔
۱۱۔ ابن کثیر الدمشقی نے اپنی تاریخ میں۔
۱۲۔ جلال الدین سیوطی۔
۱۳۔ القسطانی نے المواھب اللدینیہ میں۔
۱۴۔ ابن حجر مکی نے صواعق محرقہ میں۔
۱۵۔ عبدالحق دہلوی نے شرح المشکوٰۃ میں ۔ وغیرہ وغیرہ اس کے علاوہ اور بہت سے محدثین نے نقل کیا ہے[9]۔
مندرجہ بالا تمام محدثین سنی ہیں اور سنیوں کی اصطلاح میں حدیث کو “صحیح” اس وقت کہا جاتا ہے جبکہ حدیث کو تسلسل کے ساتھ ایسے رواۃ نقل کریں جو عادل ہوں، جن کا حافظہ قوی ہو نیز اس میں کوئی نقص نہ ہو اور وہ شاذ نہ ہو[10]۔
اگر حدیث کی سند میں مندرجہ بالا شرائط پائی جاتی ہوں لیکن اس کے ایک یا زیادہ رواۃ کا حافظہ اس معیار کا نہ ہو جو حدیث کو صحت کے درجے تک پہنچانے کے لئے ضروری ہے تو اس حدیث کو “حسن” کہتے ہیں[11]۔
لہذا جب سنی علماء یہ کہیں کہ “حدیث غدیر” “صحیح” ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی نظر میں اس کے روات عادل ہیں یعنی ان کے عقیدہ یا عمل میں کوئی نقص نہیں، ان کا حافظہ قوی ہے اور نہ اس حدیث میں کوئی نقص ہے اور نہ یہ “شاذ” ہے۔
[1] منہج الوصول الی اصطلاح احادیث الرسولؐ، نواب صدیق حسن خان ، مطبع شاہجہانی دہلی، ص۱۲-۱۳ و ص۹۲۔
[2] الغدیر ، علامہ امینی،ج۱ ، ص۶۲۔۶۳۔
[3] الغدیر ، علامہ امینی،ج۱ ، ص73۔8۳۔
[4] الغدیر ، علامہ امینی،ج۱ ، ص73۔151۔
[5] صحیح ترمذی ، مطبوعہ قاہرہ ، ج۲، ص 298، 1992ء۔
[6] مشکل الآثار طحاوی، مطبوعہ حیدرآباد، ج۲، ص۳۰۸، ۱۳۳۳ ھ۔ق۔
[7] مستدرک الحاکم نیشاپوری، مطبوعہ بیروت، ج۳، ص ۱۰۹-۱۱۰۔
[8] زین الفتیٰ العاصمی۔
[9] الغدیر، ج۱، ص ۲۹۴-۳۰۴۔
[10] علوم الحدیث و مصطلحاتہ صبحی صالح، مطبوعہ بیروت، ص ۱۴۵، ۱۹۷۸ء۔
[11] علوم الحدیث و مصطلحاتہ صبحی صالح، مطبوعہ بیروت، ص ۱۵۶، ۱۹۷۸ء۔