احادیثاسلامی معارف

حیرت و خاموشی کی وجوہات

فاطمہ زہراؑ کا درد دل اور خطبہ فدکیہ (28)

حیرت و خاموشی کی وجوہات

«… فَاَنَّی حِزْتُمْ بَعْدَ الْبَیانِ، وَ اَسْرَرْتُمْ بَعْدَ الْاِعْلانِ، وَ نَكَصْتُمْ بَعْدَ الْاِقْدامِ، وَ اَشْرَكْتُمْ بَعْدَ الْایمانِ؟ بُؤْساً لِقَوْمٍ نَكَثُوا اَیمانَهُمْ مِنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ “وَ هَمُّوا بِاِخْراجِ الرَّسُولِ وَ هُمْ بَدَؤُكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ، اَتَخْشَوْنَهُمْ فَاللَّـهُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشَوْهُ اِنْ كُنْتُمْ مُؤمِنینَ” اَلا، وَ قَدْ أَری اَنْ قَدْ اَخْلَدْتُمْ اِلَی الْخَفْضِ، وَ اَبْعَدْتُمْ مَنْ هُوَ اَحَقُّ بِالْبَسْطِ وَ الْقَبْضِ، وَ خَلَوْتُمْ بِالدَّعَةِ، وَ نَجَوْتُمْ بِالضّیقِ مِنَ السَّعَةِ، فَمَجَجْتُمْ ما وَعَبْتُمْ، وَ دَسَعْتُمُ الَّذی تَسَوَّغْتُمْ…»۔

«… پھر تم کیوں اقرار کے بعد اپنے ایمان پر حیران ہوگئے؟ اور اعلان و اظہار کے بعد کیوں چھپانے لگے؟ اور استقامت و پیش قدمی کے بعد پیچھے ہٹ گئے؟ اور ایمان کے بعد شرک کا انتخاب کرلیا؟ وائے ہو ان لوگوں پر جنہوں نے عہد کے بعد اپنی قَسموں کو توڑ دیا”اور پیغمبرؐ کو (وطن سے) نکالنے کا ارادہ کیا اور پھر تمہارے برخلاف لڑائی میں پہل بھی کی۔ تم ان سے ڈرتے ہو؟  جبکہ  اللہ زیادہ حقدار ہے اس بات کا کہ اس سے ڈرو اگر تم مؤمن ہو”۔ اےلوگو!  میں گویا دیكھ رہى كہ تم پستى كى طرف جارہے ہو۔ اور  اس شخص كو دور ہٹا دیا جو رہبری و حكومت  کی صلاحیت و لیاقت رکھتا ہے۔ اور تم  لوگ گوشہ میں بیٹھ كر عیش اور نوش میں مشغول ہوگئے ہو۔اور  تنگی و سختی کے سامنے آرام طلبى کے ساتھ وقت گزارنے میں  لگ گئے۔  پھر جو كچھ تمہارے اندر تھا اسے تم نے ظاہر كردیا ہے اور جو كچھ پى چكے تھے اسے اگل دیا ہے …»۔

اہم پیغامات:

شہزادی کائناتؑ نے اپنے خطبہ فدک کے اس حصہ میں گروہ انصار سے خطاب کرتے ہوئے ان کی حیرانی و سرگردانی اور ظلم کے خلاف خاموشی کے متعدد اسباب بیان فرمائے ۔ یہاں بعض اہم باتوں کی وضاحت پیش کی جارہی ہے:

 شہزادی  کائنات ؑ نے ظلم کے مقابلے میں انصار کی خاموشی پر ان کی مذمت کرتے ہوئے انہیں ان کا روشن ماضی یاد دلایا اور ان کی قوت و طاقت اور گذشتہ خدمات کی روشنی میں انہیں ظلم و ستم کے خلاف قیام کرنے کی واضح طور پر دعوت دینے کے بعد بھی ان لوگوں کی خاموشی اور حیرانی کا مشاہدہ کیا تو پھر ان کی مذمت کی اور خود ہی ان کی حیرت و خاموشی کی وجوہات کو اس طرح بیان فرمایا کہ: «… فَاَنَّی حِزْتُمْ بَعْدَ الْبَیانِ، وَ اَسْرَرْتُمْ بَعْدَ الْاِعْلانِ، وَ نَكَصْتُمْ بَعْدَ الْاِقْدامِ، وَ اَشْرَكْتُمْ بَعْدَ الْایمانِ؟»؛ “… پھر تم کیوں اقرار کے بعد اپنے ایمان پر حیران ہوگئے؟ اور اعلان و اظہار کے بعد کیوں چھپانے لگے؟ اور استقامت و پیش قدمی کے بعد پیچھے ہٹ گئے؟ اور ایمان کے بعد شرک کا انتخاب کرلیا؟”  ان جملات کی روشنی میں انصار کی حیرانی و خاموشی کی اہم وجہ ان کا باطنی طور پر منقلب ہوجانا اور باطنی تبدیلی تھی۔ جو لوگ پیغمبرؐ کے زمانے میں اسلام اور پیغمبر و اہل بیتؑ کی نصرت و مدد کے لئے ہمیشہ کھڑے رہتے تھے۔ ایمان و اظہار ایمان، استقامت و صبر میں آگے آگے رہتے تھے اب وہ بدل گئے ۔ اب انہوں نے سختیوں کا سامنا کرنا چھوڑ دیا اور جس حق کا واضح طور پر اعلان کیا تھا اس کو چھپانے لگے۔ جس  کام کے لئے پیش قدمی کی تھی اب اس سے پیچھے ہٹ گئے۔ اور ایمان کے اعلان و اظہار کے بعد شرک کا  راستہ اختیار کرلیا۔

شہزادی کائناتؑ کے خطبہ کے دیگر مطالب اور تاریخی حقائق کی روشنی میں یہاں حق کے اعلان اور اس کو چھپانے کا مطلب وہی حق ولایت امیرالمومنین علی علیہ السلام تھا جس کا اقرار اور اظہار لوگوں نے پیغمبراکرمؐ کی حیات میں، خاص طور پر میدان غدیر میں کیا تھا ۔ اسی طرح اسی ولایت و امامت کی راہ میں استقامت و پیش قدمی دکھائی تھی لیکن آنحضرت ؐ کی رحلت کے بعد، علی الاعلان ولایت کا اظہار و اقرار کرنے والے ان لوگوں نے اپنے قدم پیچھے ہٹا لئے اور اس اقرار و اعلان کو چھپانے بھی لگے۔ مختلف بہانےبنانے لگےکہ میں بھول گیا، میں بوڑا ہوگیا ہوں یاد نہیں ہے، ہم صحیح سے سمجھ نہیں پائے یا ہم سن نہیں پائے وغیرہ۔  اسی طرح شہزادی ؑ نے اسی روشنی میں فرمایا کہ  “وَ اَشْرَكْتُمْ بَعْدَ الْایمانِ” تم لوگوں نے اظہار ایمان کے بعد شرک کی راہ اختیار کرلی۔ یعنی نظام ولایت الہیہ کو قبول کرنے سے پیچھے ہٹ گئے۔ یہاں شرک سے مراد کفر و بت پرستی اور چندخداپرستی نہیں ہے بلکہ خدا ئی حکومت و ولایت کے مقابلے میں طاغوت کی حکومت کو قبول کرلینا ہے۔ یہاں چونکہ صرف اللہ، رسول اور اس کی جانب سے معین ہونے والے اولیاء اور رہبروں کی اطاعت و پیروی کرنا ہے لہذا جو کوئی بھی ان کے مقابلے میں کسی دوسرے کی اطاعت و پیروی کرےگا۔ ان کے مقابلے میں کسی دوسرے کی بیعت و فرمانبرداری میں چلا جائے گا وہ گویا شرک کا مرتکب ہوگا جیسا کہ خود قرآن مجید نے اس سلسلے میں بیان فرمایا ہے کہ: «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ  فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ  ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُوا بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَنْ يَتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوا أَنْ يَكْفُرُوا بِهِ…»؛ «ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو رسول اور صاحبانِ امر کی اطاعت کرو جو تم ہی میں سے ہیں پھر اگر آپس میں کسی بات میں اختلاف ہوجائے تو اسے خدا اور رسول کی طرف پلٹا دو اگر تم اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھنے والے ہو- یہی تمہارے حق میں خیر اور انجام کے اعتبار سے بہترین بات ہے۔ کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کا خیال یہ ہے کہ وہ آپ پر اور آپ کے پہلے نازل ہونے والی چیزوں پر ایمان لے آئے ہیں اور پھر یہ چاہتے ہیں کہ سرکش لوگوں کے پاس فیصلہ کرائیں جب کہ انہیں حکم دیا گیا ہے کہ طاغوت کا انکار کریں…”۔

شہزادی کائناتؑ  نے انصار کی جانب ولایت الہیہ میں شرک کے مسئلہ کو مزید واضح طور پر یوں بیان فرمایا کہ: «بُؤْساً لِقَوْمٍ نَكَثُوا اَیمانَهُمْ مِنْ بَعْدِ عَهْدِهِمْ»؛ “وائے ہو ان لوگوں پر جنہوں نے عہد کے بعد اپنی قَسموں کو توڑ دیا” یہاں شہزادی ؑ نے غدیری عہد و پیمان کویاد دلاتے ہوئے بیان کیا کہ تم ہی لوگ تھے جنہوں نے میدان غدیر میں حضرت علیؑ کی ولایت و خلافت کے اعلان کے بعد عہد و پیمان کیا تھا۔ ان کے ہاتھوں پر بیعت کی تھی اور اب تم اسے چھپا رہے ہو۔ گویا اظہار ایمان کے بعد مشرک ہوگئے ہو ۔

 شہزادی کائنات ؑنے یہاں انصار کے حق کی حمایت و نصرت سے پیچھے ہٹ جانے کی بات کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا : “وَ هَمُّوا بِاِخْراجِ الرَّسُولِ وَ هُمْ بَدَؤُكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ، اَتَخْشَوْنَهُمْ فَاللَّـهُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشَوْهُ اِنْ كُنْتُمْ مُؤمِنینَ”»؛ “اور پیغمبرؐ کو (وطن سے) نکالنے کا ارادہ کیا اور پھر تمہارے برخلاف لڑائی میں پہل بھی کی۔ تم ان سے ڈرتے ہو؟  جبکہ  اللہ زیادہ حقدار ہے اس بات کا کہ اس سے ڈرو اگر تم مؤمن ہو” (توبہ، آیت۱۳)۔ شہزادی کائناتؑ نے  یہاں مذکور ہ بیان میں قرآنی آیت کا حوالہ دیتے ہوئے پیغمبراکرمؐ کے حق میں یہودیوں کی طرف سے کی جانے والی خیانت کو یاد دلایا۔ اور اس کے واقعہ کو سقیفہ  کے واقعہ سے تطبیق دیتے ہوئے شاید یہ فرمانا چاہا کہ جس طرح یہودیوں نے آنحضرتؐ کے ساتھ خیانت کی اور اس کوشش میں تھے کہ پیغمبرؐ کو منظر عام سے ہٹادیں اسی طرح سقیفہ والوں نے بھی حضرت علیؑ کے حق میں خیانت کی اور انصار نے مختلف وجوہات کی بنا پر ان کا ساتھ دیا  جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اصلی حقدار یعنی حضرت علیؑ کو خلافت سے دور کر کے منظرعام سے ہٹادیا گیا۔

شہزادی کائنات ؑ نے مذکورہ آیت کو پیغمبراکرمؐ اورحضرت علیؑ کے حق میں خیانت کویاد دلاتے ہوئے  بیان فرمایا ۔ اوریہ وہ آیت ہے جو یہودیوں اور منافقین کی خیانتوں کے بارے میں ہے اور یہاں مسلمانوں کو ان سے جنگ کرنے اور ان سے ڈرنے کے بجائے صرف اللہ سے ڈرنے کا حکم دیا گیا ہے؛ آیت  کی ابتداء میں ارشاد ہوتا ہے کہ: “أَلَا تُقَاتِلُونَ قَوْمًا نَكَثُوا أَيْمَانَهُمْ…”؛ “کیا تم اس قوم سے جہاد نہ کرو گے جس نے اپنے عہد و پیمان کو توڑ دیا ہے…”۔ اس آیت اور شہزادی کائنات ؑکے شاہد مثال  کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے انصار کے گروہ کی سستی اور خاموشی کی ایک وجہ اللہ کے بجائے “لوگوں کا ڈر” بھی تھا جو ان کے دلوں میں بیٹھ گیا تھا۔

شہزادی کائنات ؑ نے اپنے بیان میں مزید انصار کی خاموشی اور سستی اور امامت و ولایت کے دفاع میں اٹھ کھڑے نہ ہونے کی ایک اہم وجہ ان کی “آرام طلبی” کو بیان فرمایا ہے: ” اَلا، وَ قَدْ أَری اَنْ قَدْ اَخْلَدْتُمْ اِلَی الْخَفْضِ، وَ اَبْعَدْتُمْ مَنْ هُوَ اَحَقُّ بِالْبَسْطِ وَ الْقَبْضِ، وَ خَلَوْتُمْ بِالدَّعَةِ، وَ نَجَوْتُمْ بِالضّیقِ مِنَ السَّعَةِ …»؛ “اےلوگو!  میں گویا دیكھ رہى كہ تم پستى كى طرف جارہے ہو۔ اور  اس شخص كو دور ہٹا دیا جو رہبری و حكومت کے لئے سب سے زیادہ  اہلیت رکھتا ہے۔ اور تم  لوگ گوشہ میں بیٹھ كر عیش اور نوش میں مشغول ہوگئے ہو۔ اور  تنگی و سختی کے سامنے آرام طلبى کے ساتھ وقت گزارنے میں  لگ گئے…”۔ یعنی انصار ظاہری اعتبار سے بھی بدل گئے تھے اور باطنی لحاظ سے بھی ان کے اندر لوگوں کا ڈر اور  آرام طلبی وجود میں آگئی تھی۔ ان لوگوں نے اسلام و امامت کی حمایت کے بجائے خودپسندی کو مقدم کرکے اپنے مادی منافع کو بچانا زیادہ اہم سمجھ لیا تھا لہذا حقدار کا حق چھین لیا گیا لیکن وہ لوگ  عیش و نوش ہی میں مبتلا رہے۔ وہ لوگ جو جنگوں کے میدان میں ماہر اور شجاعت دکھانے میں مشہور تھے۔ اب ان کو دنیاوی جاذبوں نے اپنی طرف کھینچ لیا اور حق کی راہ میں فداکاری سے دور کردیا۔

مذکورہ جملات میں شہزادی ؑ نے انصار کی آرام طلبی اور عیش و نوش کی زندگی میں مبتلا ہونے کے ذکر کے درمیان حضرت امام علیؑ کے استحقاق خلافت کے بارے میں فرمایا کہ: « وَ اَبْعَدْتُمْ مَنْ هُوَ اَحَقُّ بِالْبَسْطِ وَ الْقَبْضِ»؛ یعنی تم لوگوں نے اس شخص کو دور ہٹا دیا جو حکومت و خلافت کا حقدار تھا۔ یہاں لفظ “اَحَقُّ “  صفت تفضیلی کے معنی میں نہیں ہے۔ یعنی یہ نہیں کہ دوسرے بھی مستحق تھے اور حضرت علیؑ ان کے مقابلے میں زیادہ مستحق تھے بلکہ یہاں مراد یہ ہےکہ صرف حضرت علیؑ ہی کی ذات اس خلافت الہیہ کا اسحقاق رکھتی ہے جس کا اعلان پیغمبراکرمؐ نے متعدد مرتبہ کیا اور میدان غدیر میں پورے اہتمام کے ساتھ کیا اور تم لوگوں سے اس پر بیعت بھی لی تھی۔ اسی طرح مذکورہ جملے میں لفظ “بسط” کا مطلب حکم دینا اور لفظ “قبض” کا مطلب نہی کرنا ہے  جو حکمرانی اور رہبری کے لئے سب ابتدائی امور ہیں۔ یعنی شہزادی ؑ نے بیان کیا کہ اے انصار تم نے ایسے شخص کو حکومت سے دور کردیاہے جو حکم و نہی کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جو اسلامی اصولوں، احکام، حدود وغیرہ سے حقیقی طور پر آگاہ ہے اور خدا کی طرف سے اس کا انتخاب کیا گیا ہے۔ اور ان کے مقابلے میں آنے والے غاصب نہ ہی اس خلافت کے حقدار و مستحق تھے اور نہ ہی اسلامی اصول و قوانین سے آگاہ ہیں۔

شہزادی کائنات ؑ نے اپنے مذکورہ بیانات کے بعد نتیجہ کے طور پر انصار کی حالت کو یوں بیان کیا کہ  «فَمَجَجْتُمْ ما وَعَبْتُمْ، وَ دَسَعْتُمُ الَّذی تَسَوَّغْتُمْ…»؛ “اے انصار!  جو كچھ تمہارے اندر تھا اسے تم نے ظاہر كردیا ہے اور جو كچھ پى چكے تھے اسے اگل دیا ہے”۔  یہاں یہ جملات ان لوگوں کی باطنی اور اندرونی حالت کے ظاہر ہوجانے کی طرف اشارہ کررہے ہیں کہ انصار نے گذشتہ میں بہت کچھ کیا ہے لیکن اس وقت انہوں نے حق کی حمایت، مظلوم کی فریاد پر فریارسی کے بجائے غفلت و خاموشی، آرام طلبی، خودپرستی، بے توجہی اور نتیجہ میں منافقت اور خیانت کاری سے کام لے کر اپنی اندرونی حالت کا اظہار کردیا ہے۔ اور ایمانداری، اخلاص، وفاداری، فداکاری، صداقت، اطاعت پیغمبرؐ، صبر و شجاعت وغیرہ جیسے صفات و اوصاف کو اپنے باطن میں اتارا تھا آج اس کو باہر نکال دیا اور اگل دیا۔ یعنی حق پر ایمان، ظلم کے خلاف قیام اور استقامت کا جو جذبہ ایک خوشگوار غذا کی مانند تھا جو انہوں نے کھایا تھا اس کو جسمانی اور ظاہری سختیوں کے نتیجے میں باہر نکال کر پھینک دیا۔ یہی وجہ تھی کہ پیغمبرؐ کی بیٹی ان سے مدد مانگ رہی تھیں، ان کو ظلم کے خلاف بولنے اور قیام کی دعوت دے رہی تھیں لیکن وہ حیران و خاموش تھے یا مختلف بہانوں کو پیش کررہے تھے۔

خلاصہ یہ ہے کہ شہزادی ؑ کے مذکورہ جملات خاص طورپر نتیجے کے عنوان سے بیان کیا جانے والا فقرہ ہم سب کے لئے نشان راہ ہے اور چراغ ہدایت اور ہوشیار کرنے والا ہے کہ انسان کو ہمیشہ اپنے ایمان و اخلاص کی حفاظت کرنا چاہئے اور ضرورت اور موقع پر خاموشی اور مصلحت کی چادر اوڑھ کر اپنے ظاہری اور مادی منافع کو بچانے اور اپنی آرام طلبی کے لئے دین کو قربان نہیں کرنا چاہئے۔  اور ہمیشہ اپنے آپ سے سوال کرنا چاہئے کہ کہیں ہم بھی حضرت فاطمہ زہراؑ کی باتوں کے مصداق تو نہیں ہیں؟  کیا ہم حق و حقیقت سے دستبردار تو نہیں ہوگئے ہیں۔ کہیں ہم دین کے مقابلے میں محض آرام طلبی کی طرف تو نہیں بڑھ رہے ہیں؟ کیا ہم جائز خواہشات اور دنیوی آرام پر اثر پڑنے کے بعد بھی دین، ایمان، ولایت کی راہ میں اور اس کے دفاع میں مضبوطی سے کھڑے ہیں یا نہیں؟

متعلقہ مضامین

تبصره کریں

Back to top button
×