احادیثاسلامی معارف

حق باتوں کے ذریعہ باطل عمل کی توجیہ

فاطمہ زہراؑ کا درد دل اور خطبہ فدکیہ (31)

حق باتوں کے ذریعہ باطل عمل کی توجیہ

«… فأجابها أبوبكر عبداللَّـه بن عثمان، و قال: یا بِنْتَ رَسُولِ اللَّـهِ! لَقَدْ كانَ اَبُوكِ بِالْمُؤمِنینَ عَطُوفاً كَریماً، رَؤُوفاً رَحیماً، وَ عَلَی الْكافِرینَ عَذاباً اَلیماً وَ عِقاباً عَظیماً، اِنْ عَزَوْناهُ وَجَدْناهُ اَباكِ دُونَ النِّساءِ، وَ اَخا اِلْفِكِ دُونَ الْاَخِلاَّءِ، اثَرَهُ عَلی كُلِّ حَمیمٍ وَ ساعَدَهُ فی كُلِّ اَمْرٍ جَسیمِ، لایحِبُّكُمْ اِلاَّ سَعیدٌ، وَ لایبْغِضُكُمْ اِلاَّ شَقِی بَعیدٌ. فَاَنْتُمْ عِتْرَةُ رَسُولِ اللَّـهِ الطَّیبُونَ، الْخِیرَةُ الْمُنْتَجَبُونَ، عَلَی الْخَیرِ اَدِلَّتُنا وَ اِلَی الْجَنَّةِ مَسالِكُنا، وَ اَنْتِ یا خِیرَةَ النِّساءِ وَ ابْنَةَ خَیرِ الْاَنْبِیاءِ، صادِقَةٌ فی قَوْلِكِ، سابِقَةٌ فی وُفُورِ عَقْلِكِ، غَیرَ مَرْدُودَةٍ عَنْ حَقِّكِ، وَ لامَصْدُودَةٍ عَنْ صِدْقِكِ. وَ اللَّـهِ ما عَدَوْتُ رَأْی رَسُولِ اللَّـهِ، وَ لاعَمِلْتُ اِلاَّ بِاِذْنِهِ، وَ الرَّائِدُ لایكْذِبُ اَهْلَهُ، وَ اِنّی اُشْهِدُ اللَّـهَ وَ كَفی بِهِ شَهیداً، اَنّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّـهِ یقُولُ: «نَحْنُ مَعاشِرَ الْاَنْبِیاءِ لانُوَرِّثُ ذَهَباً وَ لافِضَّةًّ، وَ لاداراً وَ لاعِقاراً، وَ اِنَّما نُوَرِّثُ الْكِتابَ وَ الْحِكْمَةَ وَ الْعِلْمَ وَ النُّبُوَّةَ، وَ ما كانَ لَنا مِنْ طُعْمَةٍ فَلِوَلِی الْاَمْرِ بَعْدَنا اَنْ یحْكُمَ فیهِ بِحُكْمِهِ» وَ قَدْ جَعَلْنا ما حاوَلْتِهِ فِی الْكِراعِ وَ السِّلاحِ، یقاتِلُ بِهَا الْمُسْلِمُونَ وَ یجاهِدُونَ الْكُفَّارَ، وَ یجالِدُونَ الْمَرَدَةَ الْفُجَّارَ، وَ ذلِكَ بِاِجْماعِ الْمُسْلِمینَ، لَمْ اَنْفَرِدْ بِهِ وَحْدی، وَ لَمْ اَسْتَبِدْ بِما كانَ الرَّأْی عِنْدی، وَ هذِهِ حالی وَ مالی، هِی لَكِ وَ بَینَ یدَیكِ، لاتَزْوی عَنْكِ وَ لانَدَّخِرُ دُونَكِ، وَ اَنَّكِ، وَ اَنْتِ سَیدَةُ اُمَّةِ اَبیكِ وَ الشَّجَرَةُ الطَّیبَةُ لِبَنیكِ، لایدْفَعُ مالَكِ مِنْ فَضْلِكِ، وَ لایوضَعُ فی فَرْعِكِ وَ اَصْلِكِ، حُكْمُكِ نافِذٌ فیما مَلَّكَتْ یدای، فَهَلْ‌ترین اَنْ اُخالِفَ فی ذاكَ اَباكِ(ص)».

«اس کے جوا ب میں ابو بکر (عبد اللہ بن عثمان)نے یوں جواب دیتے ہوئے کہا: اے دختر رسول خداؐ: آپ کے بابا مومنین پر بہت مہربان۔ رحم وکرم کرنے والے اور صاحب عطوفت تھے۔ وہ کافروں کے لئے دردناک عذاب اور سخت ترین قہرالہی تھے۔ آپ اگر ان کی نسبتوں پر غور کریں تو وہ تمام عورتوں میں صرف آپ کے باپ تھے اور تمام چاہنے والوں میں صرف آپ کے شوہر کے چاہنے والے تھے اور انھوں نے بھی ہر سخت مر حلہ پر نبیؐ کا سا تھ دیا ہے۔ آپ کا دوست نیک بخت اور سعید انسان کے علاوہ کوئی نہیں ہو سکتا ہے او ر آ پ کا دشمن شقی اور بد بخت کے علاوہ کوئی نہیں ہوسکتا۔ آپ رسول اکرمؐ کی پاکیزہ عترت اور آنحضرتؐ کے منتخب و پسندیدہ ہیں۔ آپ ہی حضرات راہ خیر میں ہمارے رہنما اور جنت کی طرف ہمیں لے جانے والے ہیں۔ اور خود آپ اے تمام خواتین عالم میں منتخب اور خیر الانبیاء کی دختر۔ یقیناً اپنے کلام میں صادق اور کمال عقل میں سب پر مقدم ہیں۔آپ کو نہ آپ کے حق سے روکا جا سکتا ہے اور نہ آپ کی صداقت کا انکار کیا جا سکتا ہے مگر خدا کی قسم میں نے رسولؐ کی رائے میں عدول نہیں کیا ہے اور نہ کو ئی کام ان کی اجازت کے بغیر کیا ہے اور میر کارواں قافلہ سے خیانت بھی نہیں کر سکتا ہے۔ میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں اور وہی گواہی کے لئے کافی ہے کہ میں نے خود رسول اکرمؐ سے سنا ہے کہ ہم گر وہ انبیأ۔ سونے چاندی اور خانہ و جائداد کا مالک نہیں بناتے ہیں۔ ہماری وراثت کتاب، حکمت، علم و نبوت ہے اور جو کچھ مال دنیا ہم سے بچ جاتا ہے وہ ہمارے بعد ولی امر کے اختیار میں ہوتا ہے۔وہ جو چاہے فیصلہ کر سکتا ہے۔ اور میں نے آپ کے تمام مطلوبہ اموال کو سامان جنگ کے لئے مخصوص کر دیا ہے جس کے ذریعہ مسلمان کفار سے جہاد کریں گے اور سرکش فاجروں سے مقابلہ کریں گے اور یہ کام مسلمانوں کے اتفاق رائے سے کیا ہے۔ یہ تنہا میری رائے نہیں ہے اور نہ میں نے ذاتی طور پر طے کیا ہے۔ یہ میرا ذاتی مال اور سرمایہ آپ کے لئے حاضر ہے اور آپ کی خدمت میں ہے جس میں کو ئی کوتاہی نہیں کی جا سکتی ہے۔ آپ تو اپنے باباؐ کی امت کی سردار ہیں اور اپنی اولاد کے لئے شجرۂ طیبہ ہیں۔آپ کے فضل وشرف کا انکار نہیں کیا جا سکتا ہے اور آپ کے اصل و فرع کو گرایا نہیں جا سکتا ہے۔ آپ کا حکم تو میری تمام املاک میں بھی نافذ ہے تو کیسے ممکن ہے میں اس مال میں آپ کے بابا کی مخالفت کر دوں؟…»۔

اہم پیغامات:

شہزادی کائناتؑ نے  اس مقام پر اپنے خطبے کو تمام کردیا تھا لیکن شہزادی ؑ کی باتوں اور خاص طور پر فدک و خلافت کے غصب کرنے پر ابوبکر نے اپنی طرف سے صفائی پیش کی اور یہاں شہزادیؑ کی عظمتوں اور فضیلتوں کے اعتراف کے ذریعہ اپنے باطل عمل کی توجیہ کرنا چاہی جس کا شہزادیؑ نے بہترین جواب دیا۔ اس سلسلے میں یہاں بعض اہم مطالب کا ذکر کیا جارہا ہے:

۱۔ شہزادی کائنات ؑ کی عظمت و فضیلت اور برتری تمام لوگوں خاص طورپر آپ کے مخالفین کے لئے واضح اور روشن تھی کیونکہ پیغمبراکرمؐ  نے اپنے عمل و گفتار سے بارہا اس کا اظہار فرمایا تھا۔ یہاں ابوبکر نے جن باتوں کا اعتراف کیا تھا وہ یہ ہیں:

۱۔ آپ کے باباؐ، مومنین پر بہت مہربان، رحم وکرم کرنے والے اور صاحب عطوفت تھے۔

۲۔  آپ کے باباؐ،   کافروں کے لئے دردناک عذاب اور سخت ترین قہرالہی تھے۔

۳- آنحضرتؐ تمام خواتین میں صرف آپؑ کے بابا تھے۔

۴۔ آپ ؐ کے بابا سب سے زیادہ آپ ؑکے شوہر کو  دوست رکھتے تھے۔

۵۔   آپؑ کے شوہرؑنے  ہر سخت مر حلہ میں  نبیؐ کا سا تھ دیا ہے۔

۶۔ آپؑ کا دوست نیک بخت اور سعید انسان کے علاوہ کوئی نہیں ہو سکتا ہے۔

۷۔ آ پؑ  کا دشمن شقی اور بدبخت کے علاوہ کوئی نہیں ہوسکتا۔

۸۔ آپؑ رسول اکرمؐ کی پاکیزہ عترت اور آنحضرتؐ کے منتخب وپسندیدہ ہیں۔

۹۔ آپؑ ہی حضرات راہ خیر میں ہمارے رہنما اور جنت کی طرف لے جانے والے ہیں۔

۱۰۔  آپؑ تمام خواتین عالم میں منتخب اور خیر الانبیاء کی دختر ہیں۔

۱۱۔ آپؑ اپنے کلام میں صادق اور کمال عقل میں سب پر مقدم ہیں۔

۱۲۔ آپؑ  کا حق اور آپؑ کی صداقت قابل انکار نہیں ہے۔

۱۳۔  آپؑ امت اسلامی کی سردار ہیں۔

۱۴۔ آپؑ کی اولاد شجرۂ طیبہ سے ہیں۔

۱۵۔ آپ ؑ کی فضیلت اور آپؑ کے شرف کا انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔

۱۶۔ آپ ؑکے اصل و فرع(حسب و نسب) کو کمتر نہیں کہا جاسکتا ہے۔

۱۷۔ آپؑ کا حکم تمام لوگوں اور ان کی ملکیت میں تصرّف کرنے کے لئے نافذ ہے۔

۲۔ اس مقام پر شہزادی کائنات ؑکے اہم فضائل و مناقب کے اعتراف اور ان کے ذکر کے ساتھ ساتھ ابوبکر نے فدک کی ملکیت اور خلافت و حکومت پر قبضہ کرنے  کے سلسلے میں  کچھ دلیلوں اور توجیہات کو پیش کیا ہے  کہ:

الف۔  میں نے خود رسول اکرمؐ سے سنا ہے کہ آنحضرتؐ نے فرمایا کہ:”ہم گر وہ انبیاء سونے چاندی اور خانہ وجائداد کا مالک نہیں بناتے ہیں۔ہماری وراثت کتاب، حکمت، علم و نبوت ہے اور جو کچھ مال دنیا ہم سے بچ جاتا ہے وہ ہمارے بعد ولی امر کے اختیار میں ہوتا ہے، وہ جو چاہے فیصلہ کر سکتا ہے”۔

ب۔  میں نے یہ کام مسلمانوں کے اتفاق رائے سے کیا ہے۔یہ تنہا میری رائے نہیں ہیں اور نہ میں نے ذاتی طور پر طے کیا ہے۔

ج۔ یہ میرا ذاتی مال اور سرمایہ آپؑ کی خدمت میں حاضر ہےآپؑ جس طرح چاہیں اس کو استعمال کریں۔

۴۔ شہزادی کائنات ؑ نے ابوبکر کی باتوں اور توجیہات کے جواب میں چند اہم جوابات دیئے ہیں  جن کو آئندہ قسط میں بیان کیا جائے گا  لیکن یہاں پر ابوبکر کے انداز جواب و طریقۂ گفتگو کو سامنے رکھتے ہوئے  چند  اہم مطالب اور اس کے اعترافات کی حقیقت کا بیان  ضروری ہے:

الف:  شہزادیؑ کی عظمت و منزلت اور آپ کی صداقت کے اعتراف کے باوجود ان لوگوں نے آپؑ کے حق کو غصب کرکے آپؑ پر ظلم و ستم کیا اور امیرالمومنینؑ کو خلافت و حکومت سے ناحق طریقے سے دور کردیا تھا جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کاموں  میں جہالت اور نسیان یا خطا نہیں ہوئی ہے بلکہ ان تمام کاموں کو عمدی طور پر اورجان بوجھ کر کیا گیا تھا اور رسول اکرمؐ ، حضرت امام علیؑ اور شہزادی  کائناتؑ  کے احترام کو جان بوجھ کر پائمال کیا تھا اور ان کے حق میں جان بوجھ کر ظلم و ستم کیا گیا تھا۔

ب: شہزادی کائناتؑ نے اپنے پورے خطبے میں ایک مضبوط اور منطقی دلائل پر مبنی بحث کو پیش فرمایا تھا اور جن لوگوں نے آپ کے حقوق کو پائمال کیا تھا اور جو لوگ فدک و خلافت کے ڈائریکٹ طور پر غاصب تھے اور جن انصار و مہاجرین نے ظلم و ستم اور غاصبانہ کاموں پر خاموشی اختیار کی تھی ان سب کے سامنے اپنے شدید اعتراض کا اظہار فرمایا اور ان کے کاموں کی سخت الفاظ  میں مذمت فرمائی تھی۔ شہزادیؑ کے انداز بیان اور آپ کی دلیلوں کے مقابلے میں کسی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ اور عام حالت کو تصور کیا جائے تو یہاں پورا ماحول شہزادی ؑکے حق میں ہونا چاہئے تھا لیکن جب ابوبکر جواب کے لئے بولنے لگا تو اس نے یہاں پوری کوشش کی کہ شہزادیؑ کے منطقی اور مضبوط دلائل اور آپ کے شدید اعتراض کو بے اثر کردے اور حق باتوں اور اخلاقی مسئلہ کو درمیان میں رکھ کر عوام پسندانہ طریقۂ  کار اپنایا تاکہ خود کو تمام چیزوں سے بری کرسکے اور اپنے آپ کو ہی مظلوم دکھاتے ہوئے اس بات کو ثابت کرسکے کہ ہم نے غلط کیا تو وہ اپنی جگہ پر ہے لیکن معاذ اللہ شہزادی کائناتؑ نے بے جا اور غیر ضروری دعویٰ پیش کیا ہے اور آپ کی باتوں پر توجہ دینے کی ضرورت نہیں ہے۔یعنی جس انداز میں شہزادی ؑ کی باتوں کا جواب دیا گیا یہاں پھر سے آپ کی توہین کی گئی۔

ج: شہزادی کائنات ؑ کے مقام و منزلت کے اعتراف اور اس سلسلے میں چند حقائق کو پیش کرکے کوشش کی گئی کہ شہزادیؑ کو اپنے غصب کئے گئے حق کا مطالبہ ہی نہیں کرنا چاہئے تھا اور ان پر ہونے والے مظالم پر خاموشی اختیار کرنا چاہئے تھا اس لئے آپ کا مقام اور آپ کا مرتبہ ان چیزوں کو بہت بڑا ہے۔ اس لئے کہ آپؑ کے بابا پیغمبرؐتھے۔ آنحضرتؐ  تو مسلمانوں اور مومنین کے لئے مہربان تھے۔ آنحضرتؐ کی سختی تو صرف کافروں کے لئے تھی۔ وغیرہ وغیرہ۔ حقیقت میں غور کیا جائے تو اس طرح کی باتیں کسی مظلوم اور ستائے ہوئے شخص کو خاموش کردینے کےلئے ہوتی ہیں اور یہاں بھی  ظاہری  طور پر اخلاقی مسائل کو پیش اور شہزادی ؑ کی واقعی عظمتوں اور فضیلتوں کو بیان کرکے گویا حق باتوں کے ذریعہ اپنے باطل اور شیطانی کاموں پر پردہ ڈالنے اور آپؑ  کےحق کی پائمالی اور شان و منزلت کی مزید بے احترامی کی کوشش تھی۔

د: ابوبکر کے اعترافات اور اس کے الفاظ پر غور کیا جائے  تو چند باتیں واضح ہوتی ہیں، اولاً؛ چونکہ حضرت فاطمہ (س) نے اپنے خطبے میں متعدد مقامات پر چند سوال کئے تھے کہ : “کیا میں تمہارے پیغمبرؐ کی بیٹی نہیں ہوں؟ کیا میرے علاوہ کوئی  اورآنحضرتؐ  کی یادگارہے ؟ اور کیا میرے شوہر کے علاوہ کوئی دوسرا پیغمبرؐ سے نزدیک اور ہرمشکل میدان میں آگے آگے رہتا تھا؟ اور کیا  تم لوگ ہم  اہل بیتؐ کے ذریعہ جاہلیت اور ذلت کی زندگی سے باہر نہیں آئے تھے؟ ” وغیرہ ۔ تو یہاں ابوبکر کو ظاہری طور پر ان تمام باتوں کی تصدیق کرنا تھا اور  اس نے یہی کام کیا ، سب کچھ اعتراف کیا لیکن شہزادی ؑ کےسوالات کے پیچھے جو حقیقی مقصد تھا اس کو لوگوں کے ذہنوں سے دور کرنا تھا لہذا اس نے کہا کہ آپ ؑ کی تمام باتیں صحیح ہیں،  آپ ؑ اپنی جگہ پر بالکل درست ہیں ، آپؑ  سچی و صادق بھی ہیں،  آپؑ سے بڑا کوئی سچا  بھی نہیں ہے لیکن یہاں ہم لوگوں نے فدک و خلافت کے حوالے سے جو کام کیا ہے وہ پیغمبرؐ سے سنی ہوئی حدیث اور لوگوں کے اجماع اور ان کی رائے کے مطابق کیا ہے۔

ھ: ابوبکر نے اپنے شیطانی طریقے سےوہی کام کیا جو عموماً ظالم اور غاصب اور طاقت ور لوگ مظلوموں اور کمزوروں کے حق میں کرتے ہیں۔ وہ مظلوموں اور کمزوروں کی باتوں  اور حقائق سے صاف طور پر انکار تو نہیں کرتے ہیں لیکن  اپنی باتوں اور اپنے اظہارات سے اصل مسئلہ کو حاشیہ پرکردیتے ہیں ۔ اصل مطالبے کومنظر سے ہٹاکر لوگوں کے ذہنوں کو دوسری باتوں میں مشغول کردیتے ہیں۔ اور اس طرح سے ماحول کو بھی پرسکون کرلیتے ہیں اور مظلوم کو تنہا کرکے اس کے حق کو پائمال کردیتے ہیں۔ عموماً سیاسی کھلاڑی اور شیطانی لوگ اس طریقے کا استعمال کرتے ہیں۔شہزادی ؑکے حقوق کے غصب کئے جانے اور آپ ؑپر ہونے والے ظلم کے سلسلے میں بھی اسی سیاست اور شیطانی حربے کا سہارا لیا گیا اور آپؑ کو خاموش رکھنے اورمزید تنہا کرنے کی کوشش کی گئی۔

مذکورہ تمام باتوں کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ شہزادی کائناتؑ کی منطقی دلیلوں اور بہترین باتوں کا غاصبوں کے پاس کوئی جواب نہیں تھا اسی وجہ سے شہزادی ؑ نے اپنے خطبے میں جن دلائل اور حقائق کو پیش فرمایا تھا اور اپنے حق کے اثبات میں جن قرآنی آیات کا ذکر کیا تھا، ان پر کوئی جواب نہیں دے سکے تو  پھر ان لوگوں نے شیطانی سیاست کا سہارا لیا اس لئے کہ شہزادیؑ کے دلائل کا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا لہذا وہ شہزادیؑ کو خاموش کرنے اور الٹا آپؑ کے عمل اور آپؑ کے احتجاج کو (معاذاللہ)  غلط اور غیرضروری ثابت کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ لیکن شہزادیؑ نے اپنے جوابات سے ان کی تمام کوششوں پر پانی پھیر دیا اور اصل مقصد اور اصل احتجاج کو گم ہونے نہیں دیا اور تمام منافقوں و غاصبوں کے چہروں سے نقابیں الٹ کر ان کے باطل عمل  کی توجیہ کو برملا کردیا۔ آئندہ قسط میں شہزادیؑ کے بہترین جوابات کو بیان کیا جائے گا۔

متعلقہ مضامین

تبصره کریں

Back to top button
×