احادیثاسلامی معارف

حقوق اہل بیتؑ کے غاصبوں کا سرانجام

فاطمہ زہراؑ کا درد دل اور خطبہ فدکیہ (30)

حقوق اہل بیتؑ کے غاصبوں کا سرانجام

«… فَدُونَكُمُوها فَاحْتَقِبُوها دَبِرَةَ الظَّهْرِ نَقِبَةَ الْخُفِّ، باقِیةَ الْعارِ، مَوْسُومَةً بِغَضَبِ الْجَبَّارِ وَ شَنارِ الْاَبَدِ، مَوْصُولَةً بِنارِ اللَّـهِ الْمُوقَدَةِ الَّتی تَطَّلِعُ عَلَی الْاَفْئِدَةِ. فَبِعَینِ اللَّـهِ ما تَفْعَلُونَ، “وَ سَیعْلَمُ الَّذینَ ظَلَمُوا اَی مُنْقَلَبٍ ینْقَلِبُونَ”، وَ اَنَا اِبْنَةُ نَذیرٍ لَكُمْ بَینَ یدَی عَذابٌ شَدیدٌ، فَاعْمَلُوا اِنَّا عامِلُونَ، وَ انْتَظِرُوا اِنَّا مُنْتَظِرُونَ…»

 «… اب اس ( فدک) کی رسّی کو خوب مضبوطى سے پكڑے رہو مگر یاد رکھنا  اس کی پشت زخمی ہے اور اس کے پاؤں لنگڑے ہیں۔ اس كا ننگ و عار ہمیشہ كے لئے تمہارے دامن پہ باقى رہے گا، خدا کا غضب ہمیشہ تم لوگوں پر رہے گا اور ابدی تنگ و عار تمہیں نصیب ہوگا اور یہ کام تمہیں جہنم كى طرف لے جائے گا جو اللہ تعالى نے روشن کی ہے جو دلوں پر مسلّط ہوگی ۔ بہت جلد ستم گار اپنے اعمال كے نتائج دیكھ لیں گے۔ اللہ تمہارے تمام کاموں کو دیکھ رہا ہے۔ “اورعنقریب ظالمین کو معلوم ہوجائے گا کہ وہ کس جگہ پلٹا دیئے جائیں گے” (شعراء، آیت ۲۲۷) اور اے لوگو! میں تمہارے اس نبىؐ كى بیٹىؑ ہوں كہ جو تمہیں اللہ كے شدید عذاب سے ڈراتا تھا۔ تم لوگ جو كچھ كرسكتے ہو اسے انجام دو ہم بھى اپنا کام کریں گے۔ تم لوگ انتظار كرو ہم بھى منتظر ہیں…»۔

اہم پیغامات:

شہزادی کائناتؑ نے اپنے خطبہ فدک کے اس حصہ میںمذکورہ تمام بیانات اور مطالب کے ذکر کے بعد اپنے دل کے درد کا اظہار اور اتمام حجت کرتے ہوئے غاصبان فدک و خلافت اور ان کے حامیوں کو ان کے ان کاموں کے دنیوی اور اخروی برے نتائج اور ا ن کے سرانجام سے آگاہ فرمایا۔ اس سلسلے میں یہاں بعض اہم باتوں کی وضاحت پیش کی جارہی ہے:

۱۔ شہزادی کائنات ؑ نے یہاں  ظلم و ستم کے خلاف قیام  اور امامت امیرالمومنین ؑ اور حقوق اہل بیتؑ کے دفاع کی دعوت کے  لئے لوگوں کے سامنے اتمام حجت کرنے کے بعد جب دیکھا کہ کوئی ہمارے حق میں نہیں بول رہا ہے اور کسی پر ہماری باتوں کو کوئی اثر نہیں ہورہا ہے اور غاصبین بھی اپنے غصب و ظلم سے پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں تو آپ ؑ نے ان کے سامنے اس غصب و ظلم کے دنیاوی اور اخروی نتائج سے آگاہ کردیااور اپنے بابا حضرت رسول اکرمؐ کی طرح ان کاموں کے برے انجام سے ڈرایا۔ اور فرمایا کہ: «…فَدُونَكُمُوها فَاحْتَقِبُوها دَبِرَةَ الظَّهْرِ نَقِبَةَ الْخُفِّ، باقِیةَ الْعارِ …»؛ «… اب اس (فدک) کی رسّی کو خوب مضبوطى سے پكڑے رہو مگر یا رکھنا  اس کی پشت زخمی ہے اور اس کے پاؤں لنگڑے ہیں۔ اس كا ننگ و عار ہمیشہ كے لئے تمہارے دامن پہ باقى رہے گا»۔ یہاں جملات میں شہزادی ؑ نے سب سے پہلے فرمایا کہ ہمارے حقوق اور ہمارے اموال کو غصب کرکے تم گویا ایسے اونٹ کو اپنے قبضہ میں کررہے ہو جس پر سامان بندھا ہوا ہے لیکن یہ ایسے اونٹ کی مانند ہے جس کی پشت زخمی اور ان کے پیر لنگڑے ہیں۔ یعنی یہ تمہارے سوار ہونے کے قابل نہیں ہے۔ تم اس کے اموال کے ذریعہ اپنے مقاصد اور اہداف تک نہیں پہنچ سکتے ہو۔ اس سے حاصل ہونے والے اموال بھی تمہارے لئے غصبی  اور غیرحلال ہی رہیں گے اور تم  ہمیشہ مشکلات اور پریشانیوں میں مبتلا رہوگے۔

۲۔ شہزادی کائنات ؑ نے غصب فدک کو غاصبوں کے لئے ایک ننگ و عار قرار دیا ہے یعنی یہ جو کام غاصبوں نے انجام دیا ہے یہ ایک ایسی خطا و غلطی تھی جس کے داغ کو کبھی مٹایا نہیں جاسکتا ہے اس لئے کہ طاقت و حکومت کے ذریعہ اسے چھین تو  لیا ہے لیکن غصبی ہونے کے عنوان کو  کسی طرح کی طاقت سے چھپایا نہیں جاسکے گااور یہ خیانت تاریخ کے دامن میں ہمیشہ باقی رہے گی اور ہمیشہ لوگ اس کے بارے میں سوال پوچھیں گے کہ بنت رسولؐ کے مسلّمہ حق کو کیوں چھینا گیا؟ اور یہی وہ غصبی کارنامہ تمہارے دوسرے کاموں کی حقیقت کو بھی بیان کرتا رہے گا۔ اور امیرالمومنینؑ کے حق خلافت و حکومت پر تمہارے ناجائز اور ظالمانہ قبضہ کو بھی روشن کرتا رہے گا۔

۳۔ شہزادی کائنات ؑنے یہاں غاصبان حقوق اہل بیتؑ کے لئے اخروی عذاب سے مربوط بعض چیزوں کا بھی ذکر فرمایا ہے کہ: «… الْجَبَّارِ وَ شَنارِ الْاَبَدِ، مَوْصُولَةً بِنارِ اللَّـهِ الْمُوقَدَةِ الَّتی تَطَّلِعُ عَلَی الْاَفْئِدَةِ. فَبِعَینِ اللَّـهِ ما تَفْعَلُونَ..»؛ «خدا کا غضب ہمیشہ تم لوگوں پر رہے گا اور ابدی تنگ و عار تمہیں نصیب ہوگا اور یہ کام تمہیں اس كى جزا جہنم كى طرف لے جائے گا جو اللہ تعالى نے روشن کی ہے جو دلوں پر مسلّط ہوگی۔ بہت جلد ستم گار اپنے اعمال كے نتائج دیكھ لیں گے۔ اللہ تمہارے تمام کاموں کو دیکھ رہا ہے…»۔ مذکورہ جملات میں  واضح فرما دیا کہ تم نے جو ہمارے حقوق کو غصب کیا ہے۔ ہم پر ظلم کیا ہے اور اکثریت نے جو ظلم و غصب کے سامنے خاموشی اختیار کر لی ہے اور اسلام و قرآن کے برخلاف اپنی خواہشات نفسانی اور دنیاپرستی  میں مبتلا ہوئے ان تمام چیزوں کو خدا دیکھ رہا ہے۔ سب کچھ اس کی آنکھوں کے سامنے ہے لہذا اس کا غضب اور اس کا عذاب دنیا اور آخرت میں ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گا۔ ان کاموں کا نتیجہ جہنم کی آگ ہے جس کو خدا نے خود روشن کیا ہے اور جو دلوں کو بھی جلاتی ہے۔  اور تم لوگوں نے اپنے ان کاموں کے ذریعہ بہت ہی برے سرانجام کا انتخاب کیا ہے۔ ہم تمہارے کاموں کے مقابلے میں صبر اور انتظار کریں گے اور عنقریب سب کو معلوم ہوجائے گا کہ ظالموں کا کتنا برا انجام ہوتا ہے۔

۴۔ شہزادی کائناتؑ نے اپنے ان بیانات میں قرآنی آیات سے بہترین انداز میں استفادہ فرمایا ہے اور غاصبوں و ظالموں اور ان کے حامیوں کے دنیاوی اور اخروی سرانجام کی خبر دی ہے کہ ان کو اپنے کاموں کا انجام دیکھنا ہی ہوگا۔پہلے سورہ شعراء کی آیت ۲۲۷ کی تلاوت فرمائی جس میں ظالموں کے سرانجام کے بارے میں ارشاد ہوا کہ: “وَ سَیعْلَمُ الَّذینَ ظَلَمُوا اَی مُنْقَلَبٍ ینْقَلِبُونَ”؛ “اور عنقریب ظالمین کو معلوم ہوجائے گا کہ وہ کس جگہ پلٹا دیئے جائیں گے” (شعراء، آیت ۲۲۷)۔ اس کے بعد آخر میں سورہ یوسف کی  آیت ۱۲۱ اور  ۱۲۲ سے استناد فرمایا جس میں ارشاد ہوتا ہے کہ:  «وَقُلْ لِلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ اعْمَلُوا عَلَى مَكَانَتِكُمْ إِنَّا عَامِلُونَ وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ»؛ ” اور آپ ان بے ایمانوں سے کہہ دیں کہ تم اپنی جگہ پر کام کرو اور ہم اپنی جگہ پر اپنا کام کررہے ہیں۔ اور پھر انتظار کرو کہ ہم بھی انتظار کرنے والے ہیں”۔ ان آیات کی روشنی میں شہزادیؑ نے جہاں غاصبوں کے ظلم اور ان کی بے ایمانی کو ثابت فرمایا ہے وہیں ان کے سرانجام کی بھی خبر دی ہے اور اپنے صبر و انتظار کا بھی اظہار فرمایا ہے۔

۵۔  شہزادی ؑ نے یہاں غاصبوں اور ظالموں کو ان کے سرانجام کی خبر دیتے ہوئے اپنے بابا کی طرح اپنے الہی فریضہ کی طرف بھی اشارہ فرمایا کہ میں بھی اپنے باباؐ کی طرح تمہیں  ظلم و کفر کے برے انجام سے آگاہ کررہی ہوں، ڈرا رہی ہوں:   «… وَ اَنَا اِبْنَةُ نَذیرٍ لَكُمْ بَینَ یدَی عَذابٌ شَدیدٌ…»؛ “اور اے لوگو! میں تمہارے اس نبىؐ كى بیٹىؑ ہوں كہ جو تمہیں اللہ كے شدید عذاب سے ڈراتا تھا”۔ شہزادی ؑ نے یہاں پیغمبرؐ کی اہم صفت “نذیر” یعنی عذاب الہی سے ڈرانے والے کا ذکر فرمایا   کہ میرے باباؐ  جس طرح ایمان و عمل صالح کی طرف دعوت دینے والے تھے اور ان سے دور رہنے والوں کو عذاب الہی سے ڈراتے تھے تو میں بھی اسی نبی ؐ کی بیٹی ہوں۔ میں بھی تمہیں تمہارے برے کارناموں کے نتیجہ میں عذاب شدید سے ڈرانے کے لئے آئی ہوں۔ اور اپنے فریضہ کو انجام دے رہی ہوں  لہذا اب تمہارے اوپر ہے کہ تم اپنی ذمہ داریوں کو یاد رکھو اور اس کے مطابق عمل کرو یا پھر ان کے برخلاف عمل کرو۔ «…وَ انْتَظِرُوا اِنَّا مُنْتَظِرُونَ…» یہاں شہزادی ؑ نے جس آیت کا ذکر فرمایا ہے اس میں “اِنَّا” جمع کی ضمیر کا ذکر آیا ہے یہاں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہوا ہےکہ  ہم سب اہل بیتؑ اپنے الہی فریضے کو انجام دیتے رہیں گے۔

متعلقہ مضامین

تبصره کریں

Back to top button
×