اسلامی معارف

 حدیث غدیر میں لفظ مولا کے صحیح معنی

رئیس المبلغین علامہ سید سعید اختر رضوی کی کتاب امامت سے اقتباس- ۱۰

 حدیث غدیر میں لفظ مولا کے صحیح معنی

چونکہ سنی حضرات حدیث غدیر کا انکار نہیں کرسکتےاس لئے وہ یہ کوشش کرتے ہیں کہ اس حدیث میں “لفظ” مولا کے مفہوم کو ہلکا کردیں۔ لہذا وہ یہ کہتے ہیں کہ آنحضرت ؐ نے فقط یہ اعلان کرنا چاہا تھا کہ “جس کا میں دوست ہوں اس کے یہ علی بھی دوست ہیں”۔ مشکل یہ ہے کہ میدان غدیر کے مجمع میں ایک آدمی بھی ایسا نہیں تھا جس نے مولا کے معنی “دوست” سمجھے ہوں۔

(یہاں مولا کے معنی “دوست” نہیں بلکہ”اولیٰ بالتصرف” اور “حاکم و سردار”   ہیں جس کی چند دلیلیں مندرجہ پیش کی جارہی ہیں:)

۱- بارگاہ رسالت کے مشہور شاعر حسان بن ثابت نے اسی وقت قصیدہ کہا اور اسی مجمع میں پڑھا اور سامعین سے داد لی جس کی ایک بیت یہ ہے:

فقال له قم یا علی فاننی                    رضیتک من بعدی اماما و هادیا

“پیغمبرؐ نے ان سے فرمایا: اے علیؑ ! اٹھو! اس لئے کہ میں اس بات سے خوش ہوں کہ اپنے بعد تمہیں امام اور ہادی مقرر کروں”۔

۲۔ حضرت عمر بن خطاب نے حضرت علیؑ کو ان الفاظ میں مبارکباد پیش کی:  “هنیاً لک یا بن ابیطالب اصبحت و امسیت مولیٰ کل مومن و مومنة”[1]۔ “اے ابوطالبؑ کے فرزند۔ مبارک ہو کہ آج کے دن تم ہر مومن و مومنہ کے مولا ہوگئے”۔ اگر مولا کے معنی “دوست” کے ہیں تو یہ مبارکباد کا ہے کی ہے؟ اور کیا اس دن سے پہلے علیؑ مومنین اور مومنات کے “دشمن” تھے جو حضرت عمر نے یہ کہا کہ “آج” کے دن تم سب کے دوست ہو گئے؟‍!!۔

 ۳۔ حضرت علیؑ نے خود بھی معاویہ کو لکھا : “…  پیغمبر ؐخدا نے روز غدیر خم اپنے تمام اختیارات مجھے سونپ کر تمہارا مولا بنایا تھا”[2]۔

۴۔ اس کے علاوہ رسول ؐ کے بہت سے صحابہ کرام نے بھی اپنے اشعار میں غدیر خم کا واقعہ نظم کیا ہے جہاں انہوں نے “مولا” کے معنی “حاکم” کے لئے ہیں۔

۵۔ علوم قرآن  اور عربی ادب کے سینکڑوں ماہرین نے “مولا” کے معنی “اولیٰ” کے بیان کئے ہیں جس کا مطلب “اولیٰ بالتصرف” ہوتا ہے ۔ مثال کے طور پر چند نام یہاں درج کئے جاتے ہیں:

ابن عباس  (تفسیر ابن عباس میں)۔

 الکلبی اور الفراء (جن کے اقوال تفسیر کبیر میں درج ہیں)۔

 ابوعبیدہ معمر بن مثنی البصری (جن کا قول تفسیر کبیر  اور شرح المواقف الجرجانی میں ہے)۔

  اخفش(جن کا قول نہایۃ العقول میں درج ہے)۔

  امام بخاری (صحیح بخاری، ج۷، ص ۲۴۰ میں)۔

  ابن قتیبہ (قرطین میں)۔

الشیبانی  (شرح السبعۃ المعلقہ الزوزانی میں)۔

طبری  (اپنی تفسیر میں)۔

الواحدی  (الوسیط میں)۔

الثعلبی  (الکشف و البیان میں)۔

الزمخشری  (الکشاف میں)۔

البیضاوی  (تفسیر بیضاوی میں)۔

النسفی  (اپنی تفسیر میں)۔

الخازن البغدادی  (اپنی تفسیر میں)۔

محب الدین آفندی  (تنزیل آیات میں)۔[3]

۶- مولا کے معنی سیاق و سباق میں: اب دیکھنا یہ ہے کہ اس حدیث کے سیاق و سباق سے مولا کے کیا معنی ظاہر ہوتے ہیں ۔ اگر کوئی لفظ ایک سے زیادہ معنوں میں استعمال ہوتو اس کے صحیح معنی معلوم کرنے کا صحیح ترین طریقہ یہ ہے کہ اس کے قرائن اور سیاق و سباق پر نظرکی جائے۔ اس حدیث میں بہت سے قرائن ایسے ہیں کہ جس سے یہ بات بالکل عیاں ہوجاتی ہے کہ یہاں پر “مولا” سے سوائے “حاکم و سردار” کے دوسرے معنی مراد لئے ہی نہیں جاسکتے؛ جن میں چند قرینے حسب ذیل ہیں:

اولاً: اس اعلان سے قبل رسولؐ خدا نے مجمع سے سوال کیا:

ألستُ اَوْلی بِکُمْ مِنْ اَنْفُسِکُمْ؟  کیا میں تمہارے نفسوں پر تم سے زیادہ اولیٰ بالتصرف نہیں ہوں؟

جب مجمع نے جواب دیا:  بَلی  یا رَسُولَ الله؛ ہاں بیشک یارسول ؐاللہ  !۔ تب پیغمبرؐ نے اعلان فرمایا:

“مَنْ کُنْتُ مَوْلاهُ فَهذا عَلِی مَوْلاهُ”؛ جس کا میں مولا ہوں، اس کے یہ علیؑ  بھی مولا ہیں۔

اوراس میں کوئی شک و شبہ  کی گنجائش نہیں کہ یہاں “مولا” کے وہی معنی ہوں گے جو اس کے ماقبل کے سوال میں “اولیٰ بکم” کے ہیں۔ کہ تم پر “اولیٰ بالتصرف” ہوں اور کم از کم ۶۴ سنّی محدثین نے پیغمبرؐ کے اس سوال کو نقل کیا ہے ان میں امام احمد بن حنبل ، ابن ماجہ، نسائی اور ترمذی شامل ہیں[4]۔

دوسرے: پیغمبرؐ نے اعلان کے فوراً بعد یہ دعا فرمائی:

” اللهمَّ والِ مَنْ والاهُ و عادِ مَنْ عاداهُ وَانْصُرْمَنْ نَصَرَهُ واخْذُلْ مَنْ خَذَلَهُ”۔

خدایا ! تواس کو دوست رکھ جو علیؑ کو دوست رکھے اور اس کو دشمن رکھ جو علیؑ کو دشمن رکھے۔ اس کی مدد کر جو علیؑ کی مدد کرے اور اس کو چھوڑ دے جو علیؑ کو چھوڑ دے”۔

اس دعا سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس دن علیؑ کو کوئی ایسی اہم ذمہ داری سونپی گئی تھی جس کا فطری نتیجہ یہ تھا کہ کچھ لوگ ان کے دشمن ہوجائیں(اور وہ غیرمعمولی ذمہ داری سوائے حکمران بنانےکے اور کوئی نہیں ہوسکتی) اور جس فریضہ کی انجام دہی میں ان کو ناصرو مددگار کی ضرورت پڑے گی۔ کیا کبھی کسی نے سنا ہے کہ دوستی نبھانے کے لئے مددگار کی ضرورت ہو۔

تیسرے: پیغمبرؐ کا یہ اعلان کہ: “وہ وقت قریب ہے کہ مجھے بلایا جائےگااور میں دعوت قبول کرلوں گا”۔  نیز آخرمیں یہ کہنا کہ “یہ آخری موقع ہے کہ میں ایسے مجمع میں کھڑا ہوں”۔ان جملوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ رسولؐ اللہ اپنی وفات کے بعد مسلمانوں کی رہبری کا انتظام کررہے تھے۔

چوتھے:صحابہ کرام کی مبارکباد یا ان کے اظہار مسرت کے بعد لفظ “مولا” کے معنی میں شک و شبہہ کی گنجائش نہیں رہتی۔

پانچویں: موقع، جگہ اور وقت، غور کرو کہ پیغمبرؐ دوپہر میں اپنا سفر روک دیتے ہیں اور عرب کے اس تپتے ہوئے صحرا میں اپنے ساتھ چلنے والے کم ازکم ایک لاکھ حاجیوں کو بھی رکنے کا حکم دیتے ہیں اور ان کو یہ بھی حکم ہوتا ہے کہ کانٹوں سے بھری اسی جلتی زمین پر بیٹھ جاؤ اور پھرپالان شتر کا منبر بنایا جاتاہے اور اس کے بعد یہ تصور کرو کہ پیغمبرؐ ایک طویل خطبہ ارشاد فرماتے ہیں اور ان تمام اہتمامات کے بعد آخر میں صرف اتنا سا اعلان کرتے ہیں کہ : “جو مجھ سے محبت کرتا ہے وہ علیؑ سے محبت کرے یا جس کا میں دوست ہوں اس کے لئے یہ علیؑ بھی دوست ہیں”۔ !!!

 ایسا طریقۂ کار کیا کسی انسان کے لئے پسند کیا جاسکتا ہے جو تھوڑی سی بھی عقل رکھتا ہو؟ !

جواب واضح ہے کہ نہیں !

مگر کچھ لوگ رسولؐ خدا پر ایسے بچگانہ فعل کا الزام لگانے سے نہیں شرماتے ! ! !

[1] مشکوۃ المصابیح، حبیب السیر۔ تفسیر طبری۔ المسند الشیبانی ۔ المصنف ابی شیبہ۔ المسند احمد بن علی بویعلی۔ الولایۃ احمد بن یعقوب۔وغیرہ۔

[2] الغدیر، ص ۳۴۰۔

[3] تفصیلی حوالوں کے لئے علامہ امینی کی الغدیر، ج۱، ص۳۴۴- ۳۵۰ ملاحظہ فرمائیں۔

[4] الغدیر ، ص ۳۷۰۔ ۳۷۱۔

متعلقہ مضامین

تبصره کریں

Back to top button
×