اہل بیتؑ کی بے حرمتی پر خاموشی
«… ثم رمت بطرفها نحو الانصار، فقالت: یا مَعْشَرَ النَّقیبَةِ وَ اَعْضادَ الْمِلَّةِ وَ حَضَنَةَ الْاِسْلامِ! ما هذِهِ الْغَمیزَةُ فی حَقّی وَ السِّنَةُ عَنْ ظُلامَتی؟ اَما كانَ رَسُولُ اللَّـهِ صَلَّی اللَّـهُ عَلَیهِ وَ الِهِ اَبی یقُولُ: «اَلْمَرْءُ یحْفَظُ فی وُلْدِهِ»، سَرْعانَ ما اَحْدَثْتُمْ وَ عَجْلانَ ذا اِهالَةٍ، وَ لَكُمْ طاقَةٌ بِما اُحاوِلُ، وَ قُوَّةٌ عَلی ما اَطْلُبُ وَ اُزاوِلُ…»
«… آپؑ اس كے بعد انصار كى طرف متوجہ ہوئیں اور فرمایا: اے جوانوں کی جماعت۔اور اے ملت کے قوت بازو! اے اسلام کے مددگارو! کیوں میرےحق میں سستى كر رہے ہو اور جو ظلم مجھ پر ہوا ہے اس کے مقابلے میں خواب غفلت میں پڑے ہوئے ہو؟ كیا میرے والد نے نہیں فرمایا كہ “انسان كا احترام اس كى اولاد میں بھى محفوظ ہوتا ہے” ۔ لیکن تم كتنا جلدى فتنے میں مبتلا ہوگئے ہو اور کتنی جلدی تمہارے ناکوں سے چربی نکلنے لگی۔جبکہ تم ہمارےحق میں ہونے والے ظلم کو دور کرنے اور حق کی حمایت میں قیام کی طاقت و قدرت رکھتے ہو۔…»۔
اہم پیغامات:
شہزادی کائناتؑ نے اپنے خطبہ فدک کے اس حصہ میں اہل بیت ؑ، خاص طور سے اپنے بارے میں ہونے والے مظالم کے مقابلے میں قیام کرنے کے لئے انصار کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کے حوالے سے متعدد مطالب کا ذکر فرمایا۔ یہاں بعض باتوں کی وضاحت پیش کی جارہی ہے:
۱۔ شہزادی کائنات ؑ نےمفصل خطاب اور عمومی بیانات کے بعد یہاں انصار مدینہ کی طرف متوجہ ہوئیں اور ان سے خطاب فرمایا کہ : یا مَعْشَرَ النَّقیبَةِ وَ اَعْضادَ الْمِلَّةِ وَ حَضَنَةَ الْاِسْلامِ!؛ اے جوانوں کی جماعت۔ اور اے ملت کے قوت بازو! اے اسلام کے مددگارو!۔ یہاں تاریخی نقل اور انداز بیان کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ مسجد میں مہاجرین اور انصار کے گروہ الگ الگ طرف بیٹھے ہوئے تھے ۔ شہزادیؑ نے گذشتہ بیانات میں عمومی طورپر سب کو اور خاص طور پر مہاجرین کو خطاب فرمایا تھا اس لئے کہ غصب خلافت اور غصب فدک میں وہی لوگ آگے آگے تھے لہذا یہاں خاص طور پر انصار کو خطاب فرمایا کہ اے انصار کے گروہ، اے جوانو! تم تو گذشتہ میں اسلام اور پیغمبراکرمؐ اور ہم اہل بیت ؑکی مدد کے لئے سب سے آگے آگے رہتے تھے۔ اب تمہیں کیا ہوگیا ہے؟ تم نے ہمارے حق میں ہونے والے مظالم اور ہمارے حقوق کے غصب ہوجانے پر سستی اور خاموشی کیوں اختیار کر لی؟۔
۲۔ شہزادی کائناتؑنے انصار کے لئے “وَ حصَنَةً الإسْلامِ” کی تعبیر بیان فرمائی یہاں اگر یہ لفظ “حِصْنِه” ہو تو اس کا مطلب ہے کہ آپ “حافظ اسلام” تھے اور اگر یہ “حَضَنَةَ” ہو تو اس کا مطلب ہے کہ آپ “اسلام کے مددگار” تھے۔ یعنی اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جب پیغمبر اکرمؐ، تمہارے شہر کی طرف ہجرت کرکے آئے تھے توتم انصار ہی نے آنحضرتؐ کی حمایت کی تھی اور اسی وجہ سے اسلام کی توسیع اور تبلیغ کا زمینہ فراہم ہوا تھا۔ اسی طرح یہاں یہ بات بھی مراد ہوسکتی ہے کہ پیغمبر اکرمؐ جو اسلام کی روح تھے اور تم ہی لوگ تھے جہنوں نے آنحضرتؐ کو پناہ دی تھی اور حفاظت فرمائی تھی۔ یعنی تم لوگوں کو کیا ہوگیا؟ تم کیوں اتنا جلدی سست ہوگئے اور خواب غفلت میں پڑ گئے؟۔
۳۔ شہزادی کائناتؑنے انصار کی گذشتہ خدمات کے بارےمیں اشارہ فرماکر فرمایا: “ما هذِهِ الْغَمیزَةُ فی حَقّی وَ السِّنَةُ عَنْ ظُلامَتی؟” کیوں میرےحق میں سستى كر رہے ہو اور جو ظلم مجھ پر ہوا ہے اس کے مقابلے میں خواب غفلت میں پڑے ہوئے ہو؟ ۔ یہاں شہزادی ؑ نے اس بات کو واضح کردیا ہے کہ کسی کا سابقہ اور گذشتہ اس بات کی ضمانت نہیں دیتا ہے کہ وہ آئندہ بھی حق کا ساتھ دے گا۔ اور آئندہ بھی اسلام، پیغمبرؐ اور اہل بیت ؑ کے حق میں نصرت کرے گا لہذا ضروری ہے کہ کبھی بھی اس راہ میں سستی اور غفلت کو اپنے نزدیک نہ آنے دے۔ اس لئے کہ یہ دونوں وہ چیزیں ہیں جن کا سرانجام بہت ہی برا ہوتا ہے اور انسان حق و حقیقت کی راہ سے بہت دور ہوجاتا ہے۔
۴۔ شہزادی کائنات ؑنے یہاں آنحضرت ؐکے بعد اہل بیت ؑکی ہتک حرمت اوران کی عزت و احترام کی پائمالی کا مسئلہ پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ: “أَما کانَ رَسُولُ اللهِ(ص) أَبی یقُولُ: اَلْمَرْءُ یُحْفَظُ فی وُلْدِهِ” كیا میرے والد نے نہیں فرمایا كہ “انسان كا احترام اس كى اولاد میں بھى محفوظ ہوتا ہے”۔ یہاں شہزادی ؑ نے اہم اسلامی اصول کو یاد دلایا کہ جس طرح ایک باپ کی عزت اور اس کا احترام اس کی زندگی میں ہوتا ہے اسی طرح اس کی رحلت کے بعد اس کی اولاد کا بھی احترام رہنا چاہئے۔ کسی طرح کوئی ہتک حرمت نہیں ہونا چاہئے۔ یہ مسئلہ ایک عام باپ اور اس کی اولاد کے لئے ہے۔ تو اگر باپ خاتم الانبیاء ہواور اس کی اولاد سیدہ عالم ہو تو اس کی ہتک حرمت کیسے کی جاسکتی ہے۔ اور اے مسلمانوں تم نے اپنے ہی پیغمبرؐ کے بعد اس کی اولاد، اس کے اہل بیتؑ کی حرمت کا پاس و لحاظ نہیں رکھا۔ یہ تمہاری سستی اور غفلت کا نتیجہ ہے۔
۵۔ شہزادی کائناتؑ نے یہاں انصار کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا کہ: “سَرْعانَ ما اَحْدَثْتُمْ وَ عَجْلانَ ذا اِهالَةٍ، وَ لَكُمْ طاقَةٌ بِما اُحاوِلُ، وَ قُوَّةٌ عَلی ما اَطْلُبُ وَ اُزاوِلُ”۔ ہمارے بابا ؐنے ہمارے لئے احترام اور ہماری نصرت و مدد کی سفارش فرمائی تھی لیکن تم كتنا جلدى فتنے میں مبتلا ہوگئے ہو اور کتنی جلدی تمہارے ناکوں سے چربی نکلنے لگی۔ جبکہ تم ہمارےحق میں ہونے والے ظلم کو دور کرنے اور حق کی حمایت میں قیام کی طاقت و قدرت رکھتے ہو… یہاں شہزادی ؑ نے انصار کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا کہ تمہاری سستی اور غفلت اور پیغمبراکرمؐ کی سفارش کو فراموش کردینے کا نتیجہ یہ ہوا کہ تم ہمارے حق میں ہونے والے تمام مظالم کے سامنے خاموش تماشائی بنے رہےاور عملی طور پر جو کچھ ہوا اسے قبول کرلیا۔ لہذا تم یا تو راہ حق سے منحرف ہوگئے ہو جو اب حق و صداقت کی حمایت نہیں کررہے ہو یا تمہارے اندردفاع حق کی طاقت اور صلاحیت ختم ہوگئی ہے جس طرح ایک بکری کے ناک سے دھیرے دھیرے چربی کی شکل میں اس کی طاقت نکل جاتی ہے اسی طرح تمہارے جسم سے دفاع حق اور ظلم کے مقابلے میں قیام کرنے کی طاقت و صلاحیت ختم ہوچکی ہے۔ شہزادیؑ نے یہاں بہت خوبصورت مثال کے ذریعہ مسئلہ کو بیان فرمایا؛ عربوں میں ایک ضرب المثل ہے کہ ایک لاغر بکری کے بارے میں کہتے ہیں جو ہمیشہ ناک سے پانی بہاتی رہتی ہے۔ لوگ اس کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ یہ جانور کی چربی ہے جو اس کے ناک سے نکل رہی ہے اور پھر آہستہ آہستہ وہ مر جاتی ہے یعنی اس کی روح ناک کے ذریعہ نکل جاتی ہے۔ شہزادیؑ نے وہی مثال انصار کے لئے استعمال فرمائی کہ کیا تم لوگ بھی ایسے ہو گئے ہیں جیسے کوئی اپنی جان آہستہ آہستہ کھو رہا ہو؟ حالاکہ تمہارے اندر اب بھی طاقت بچی ہے۔ تم میرا دفاع کرسکتے ہو۔ تم ظلم کے خلاف قیام کرسکتے ہو۔ تم حرکت کرو۔ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہ بیٹھو۔ سستی اور غفلت کی حالت سے نکل کر راہ حق میں حرکت کرو جس طرح پہلے تم نے اسلام اور پیغمبراکرم ؐکی حمایت و نصرت کی تھی۔
۶۔ شہزادی کائنات ؑ نے یہاں اس مسئلہ کا بھی جواب دے دیا کہ کہیں لوگ آئندہ نہ کہیں کہ فدک اور خلافت اگر اہل بیت ؑ کا حق تھا تو قیام کیوں نہیں کیا؟ یہاں حضرت علی ؑ اکیلے قیام و حرکت نہیں کرسکتے تھے اس لئے کہ تنہا قیام کرنے کے منفی اثرات ظاہر ہوتے ۔ لیکن شہزادی ؑ نے واضح طور پر انصار کو ظلم کے خلاف قیام کرنے اور میدان میں آنے کی دعوت دی اور پیغمبرؐ کی بیٹی نے ہرگز خاموشی اختیار نہیں کی اور دوسروں کو بھی اس ظلم اور غصب حقوق پر خاموش رہنے پر سرزنش فرمائی ۔ شہزادی ؑ کا یہ اقدام قیامت تک تاریخ بشریت کی پیشانی پر ثبت رہے گا کہ آپؑ نے تن تنہا بھی ظلم کے خلاف قیام کیا اور دوسروں کو بھی اس قیام میں نصرت و حمایت کی دعوت دی۔ شہزادی کائناتؑ نے اپنے اسی خطبے میں متعدد مقامات پر اور اس کے علاوہ دوسرے بیانات میں بھی لوگوں کو ظلم کے خلاف قیام کرنے اور سکوت و غفلت بیدار ہوکر حق کی حمایت میں آواز بلند کرنے کی دعوت دی تھی۔