امامت کی ضرورت
شیعی نقطۂ نظر امامت عقلاً ضروری ہے۔ یہ ایک لطف خدا ہے۔ لطف خدا اس فعل کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ ،بغیرکسی جبر کے بندے خدا کی فرمانبرداری سے قریب اور اس کی نافرمانی سے دور ہوجائیں اور شیعہ علم کلام میں یہ بات پایہ ثبوت تک پہونچ چکی ہے کہ ایسا لطف خدا پر واجب ہے۔ فرض کرو خدا اپنے بندے کو کوئی حکم دیتا ہے اور وہ یہ جانتا ہے کہ بندہ اس کام کو انجام نہیں دے سکتا اور بندہ کے لئے اس کی بجاآوری ناممکن یا بہت ہی دشوار ہے اور یہ دشواری یا عدم امکان اسی وقت ختم ہوگا جب خدا بندے کی مددکرے ۔ ایسی صورت میں اگر اللہ بندے کی مدد نہیں کرتا تو گویا خدا خود اپنے مقصد کو باطل کررہا ہے۔ ظاہر ہے ایسی غفلت عقلا ًقبیح ہے۔ اور خدا ہر قبیح سے مبرّا ہے، اسی مدد کو “لطف” کہتے ہیں اور لطف عقلاً اللہ پر واجب ہے۔
امامت ایک لطف خداوندی ہے، کیوں کہ ہم جانتے ہیں کہ جب عوام کے لئے ایک رئیس اور رہبر ہوگا، جس کی وہ اطاعت کرتے ہوں ، جو ظالموں سے مظلوموں کا حق دلوائے تو عوام نیکیوں سے قربت اور برائیوں سے دوری اختیار کریں گے۔
چونکہ امامت ایک لطف ہے لہذا اللہ پر واجب ہے کہ امام کو مقرر کرے تاکہ وہ رسولؐ کے بعد امت کی ہدایت کرتا رہے[1]۔
[1] شرح باب حادی عشر، علامہ حلی، ص۵۰ اور ۶۲-۶۴۔
اسی طرح ہمیشہ سے انبیاء کرام کا یہ طریقہ رہا ہے کہ وہ حکم خدا کے مطابق بغیرامت کی کسی قسم کی مداخلت کے اپنے خلیفہ اور جانشین کا اعلان کیا کرتے تھے۔ انبیاء سلف کی تاریخ ایک مثال بھی پیش کرنے سے قاصر ہے کہ کسی نبی کا جانشین امت کے “ووٹ” کے ذریعہ منتخب ہوا ہو لہذا کوئی وجہ نہیں کہ خاتم النبیینؐ کے جانشین کے سلسلے میں خدا کا ہمیشہ سے جاری رہنے والا یہ قانون بدل جائے۔ خدا فرماتا ہے :
“…لَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا”[1]۔ “…تم خدائی قانون میں کوئی تبدیلی نہیں پاؤگے!”۔
عقلی دلائل:
وہ تمام عقلی دلائل جن سے یہ ثابت کیاجاتا ہے کہ نبیؐ کا تقرّر خداوندعالم کا مخصوص اختیار ہے انہیں دلائل سے اتنی ہی طاقت سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ نبی ؐ کے جانشین کے تقرّر بھی خدا ہی کی جانب سے ہونا چاہئے۔
(1) نبی ہی کی طرح امام اور خلیفہ کا تقرّر بھی اسی لئے ہوتا ہے کہ وہ خدائی کاموں کو انجام دے، اسے خدا کے سامنے جواب دہ ہونا چاہئے اگر عوام اس کا تقرر کریں گے تو اس کی وفاداری اللہ کے لئے نہیں بلکہ عوام کے لئے ہوگی کہ جو اس کے اقتدار کی بنیادہوں گے، وہ ہمیشہ لوگوں کو خوش رکھنے کی کوشش کرے گا اس لئے کہ اگر اس پر سے امت کا اعتماد اٹھ گیا تو امت اسے معزول کرسکتی ہے۔ لہذا وہ اپنی مذہبی ذمہ داریوں کو بلا کھٹکے غیرجانب داری کے ساتھ پورا نہیں کرسکتا بلکہ اس کی نگاہیں ہمیشہ حالات کے رخ اور سیاسی اتار چڑھاؤ پر لگی رہیں گی، اس طرح خدا کا کام بگڑ جائے گا۔
تاریخ اسلام کے صفحات میں ایسی بے شمار مثالیں ملیں گی کہ صدر اسلام سے آخر تک، لوگوں کے بنائے ہوئے خلفاء نے کس طرح مذہب کے اصول دارکان کی بے محابا دھجیاں اڑائی ہیں۔ مقصد یہ کہ یہ دلیل صرف عقلی قیاس آرائی نہیں ہے بلکہ یہ ٹھوس تاریخی حقائق کی بنیاد پر قائم ہے۔
(2) انسان کے دل کی بات اور اندرونی خیالات و نظریات کو صرف خدا ہی جان سکتا ہے؛ ایک انسان کی طینت و فطرت کیسی ہے اوپر سے دیکھ کر کوئی بھی نہیں بتلا سکتا۔ ہوسکتا ہے کوئی شخص تصنّع سے اپنے کو متقی اور پرہیزگار اور احکام خدا کی پابندی کرنے والا ظاہر کرے تاکہ لوگ اس سے متاثر ہوں۔ لیکن ریاکارانہ دینداری سے اس کا اصل مقصد تحصیل دنیا ہو۔ تاریخ میں ایسی بہت سی مثالیں ملتی ہیں: عبدالملک بن مروان کو لیجئے جو سارا وقت مسجد میں عبادت اور قرآن کی تلاوت میں صرف کیا کرتا تھا وہ قرآن کی تلاوت کررہا تھا، جب اسے خبر ملی کہ اس کا باپ دنیا سے رخصت ہوگیا اور لوگ اس کی بیعت کرنے کے لئے جمع ہیں، اس نے قرآن بند کیا اور کہا:
“هذا فراق بینی و بینک”[2]۔ میرے اور تیرے درمیان اب چھٹم چھٹا[3]۔
چونکہ امام اور خلیفہ کے لئے جو صفات، خصوصیات اور شرائط لازمی ہیں ان کو حقیقت میں صرف اللہ ہی جان سکتا ہے لہذا صرف خدا ہی کو اس بات کا اختیار ہے کہ وہ امام اور خلیفہ کا تقرّر کرے۔
[1] سورہ احزاب، آیت64۔
[2] تاریخ الخلفاء سیوطی ، مطبوعہ قاہرہ، سنہ 1952ء، ص217۔
[3] یہ جملہ خود قرآنی آیت سے ماخوذ تھا جس میں حضرت خضرؑنے جناب موسی ؑ کی بے صبری پر فرمایاتھا کہ: اب ہمارے درمیان جدائی کا وقت آگیا ہے۔ (کہف، آیت۱۲)۔