مظالم کے خلاف قیام کا مطالبہ
«… اَیها بَنی قیلَةَ! ءَ اُهْضَمُ تُراثَ اَبی وَ اَنْتُمْ بِمَرْأی مِنّی وَ مَسْمَعٍ وَ مُنْتَدی وَ مَجْمَعٍ، تَلْبَسُكُمُ الدَّعْوَةُ وَ تَشْمَلُكُمُ الْخُبْرَةُ، وَ اَنْتُمْ ذَوُو الْعَدَدِ وَ الْعُدَّةِ وَ الْاَداةِ وَ الْقُوَّةِ، وَ عِنْدَكُمُ السِّلاحُ وَ الْجُنَّةُ، تُوافیكُمُ الدَّعْوَةُ فَلاتُجیبُونَ، وَ تَأْتیكُمُ الصَّرْخَةُ فَلاتُغیثُونَ، وَ اَنْتُمْ مَوْصُوفُونَ بِالْكِفاحِ، مَعْرُوفُونَ بِالْخَیرِ وَ الصَّلاحِ، وَ النُّخْبَةُ الَّتی انْتُخِبَتْ، وَ الْخِیرَةُ الَّتِی اخْتیرَتْ لَنا اَهْلَ الْبَیتِ، قاتَلْتُمُ الْعَرَبَ، وَ تَحَمَّلْتُمُ الْكَدَّ وَ التَّعَبَ، وَ ناطَحْتُمُ الْاُمَمَ، وَ كافَحْتُمُ الْبُهَمَ، لانَبْرَحُ اَوْ تَبْرَحُونَ، نَأْمُرُكُمْ فَتَأْتَمِرُونَ، حَتَّی اِذا دارَتْ بِنا رَحَی الْاِسْلامِ، وَ دَرَّ حَلَبُ الْاَیامِ، وَ خَضَعَتْ نُعْرَةُ الشِّرْكِ، وَ سَكَنَتْ فَوْرَةُ الْاِفْكِ، وَ خَمَدَتْ نیرانُ الْكُفْرِ، وَ هَدَأَتْ دَعْوَةُ الْهَرَجِ، وَ اسْتَوْسَقَ نِظامُ الدّینِ…»
«اے فرزندان قیلہ! (گروہ انصار) کیا یہ مناسب ہے كہ مجھ پر میرے بابا كى میراث سے محروم کرکے ظلم کیا جائے اور تم دیكھتے اور سنتے رہو۔ تم سب ایک ساتھ جمع ہو۔ میری پکار و فریاد کو تم سب نے سنا ہے۔ تم میرے حالات سے بھی آگاہ ہو۔تم تعداد اور افراد کے لحاظ سے زیادہ ہو، تمہارے پاس طاقت اور اسلحے، زرہ اور ڈھال بھی ہے۔ پھر بھی میری صدائے استغاثہ کو سن کر تم لبیک کیوں نہیں کہہ رہے ہو۔ میری فریاد کو سنتے ہوئے بھی مدد و فریادرسی نہیں کررہے ہو۔ (اے گروہ انصار!) تم لوگ تو بہادرى میں مشہور اور نیكى و خیر سے جانے جاتے تھے۔ منتخب کئے ہوئے اور ہم اہل بیتؑ كے نزدیک برگزیدہ تھے۔ عربوں كے ساتھ تم نے جنگیں كیں اور سختیوں كو برداشت كیا۔ قبائل کفر سے لڑے ہواور بہادروں سے پنجہ آزمائی كى ہے۔ اور جب ہم اٹھ كھڑے ہوتے تھے تو تم بھى اٹھ كھڑے ہوتے تھے ۔اورہم حكم دیتے تھے تو تم اطاعت كرتے تھے۔یہاں تک کہ ہمارے وسیلے سے اسلام نے رونق پائی اور غنائم زیادہ ہوئے اور مشركین تسلیم ہوگئے اور ان كا جھوٹا وقار اور جوش ختم ہوگیا اور کفر کی آگ بجھ گئی اور ہرج و مرج کی صدائیں خاموش ہوگئیں اور دین كا نظام مستحكم ہوگیا»۔
اہم پیغامات:
شہزادی کائناتؑ نے اپنے خطبہ فدک کے اس حصہ میں گروہ انصار سے خطاب کرتے ہوئے ان کو ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے اور اپنی صدائے استغاثہ پر لبیک کہنے کے لئے دعوت دی اور ان کو ان کا روشن ماضی یاد دلاتے ہوئے عصر پیغمبراکرمؐ میں اسلام کو عظمت و برتری دلانے میں انصار اور اہل بیتؑ کے کردار کو بیان فرمایا۔ یہاں بعض اہم باتوں کی وضاحت پیش کی جارہی ہے:
۱۔ شہزادی کائنات ؑ نے اس مقام پر سب سے پہلے گروہ انصار کی ملامت و سرزنش فرمائی کہ: “اَیها بَنی قیلَةَ! ءَ اُهْضَمُ تُراثَ اَبی وَ اَنْتُمْ بِمَرْأی مِنّی وَ مَسْمَعٍ وَ مُنْتَدی وَ مَجْمَعٍ”؛ اے فرزندان قیلہ! (گروہ انصار) کیا یہ مناسب ہے كہ مجھ پر میرےبابا كى میراث سے محروم کرکے ظلم کیا جائےاور تم دیكھتے اور سنتے رہو۔ تم سب ایک ساتھ جمع ہو”۔ یہاں شہزادی ؑ نے قبیلہ اوس و خزرج پر مشتمل لوگ جو “انصار” کےعنوان سے جانے جاتے تھے ان کو ان کی مادری نسبت سے یاد کیا اور “فرزندان قیلہ” کے عنوان سے خطاب کیا۔ یہ دونوں قبیلے “قیله بنت كاهل” نامی خاتون کی اولاد تھے۔ لہذا شہزادیؑ نے ان کو ان کی ماں کی نسبت سے یاد کرکے “بیدار” کرنے کی کوشش فرمائی اور ان کو آزادی فکر سے کام لینےاور ہوشیار رہنے کے لئے کہا اور فرمایا کہ مجھے اپنے بابا کی میراث سے محروم کیا جارہا ہے۔ مجھ پر ظلم ہورہا ہے اور سب کچھ تم لوگ دیکھ سن رہے ہو، سب ایک ساتھ موجود بھی ہو پھر بھی تم خاموشی اختیار کرچکے ہو۔ تم لوگ میری مظلومیت اور میری حالت کو سامنے سے دیکھ رہے ہو پھر بھی میری فریادرسی نہیں کررہے ہو۔ تمہیں کیا ہوگیا ہے؟ تمہارا ماضی اور سابقہ تو ایسا نہیں تھا۔
۲۔ شہزادی کائنات ؑ نے گروہ انصار کے سامنے اپنی فریاد و پکار کو پیش کرتے ہوئے ان سے ظلم کے خلاف قیام کرنے اور حق کا ساتھ دینے کے لئے آمادہ کرنے کی کوشش فرمائی اور ان کے تمام بہانوں کے دروازوں کو بند کردیا اور انصارسے فرمایا کہ: « تَلْبَسُكُمُ الدَّعْوَةُ وَ تَشْمَلُكُمُ الْخُبْرَةُ، وَ اَنْتُمْ ذَوُو الْعَدَدِ وَ الْعُدَّةِ وَ الْاَداةِ وَ الْقُوَّةِ، وَ عِنْدَكُمُ السِّلاحُ وَ الْجُنَّةُ، تُوافیكُمُ الدَّعْوَةُ فَلاتُجیبُونَ، وَ تَأْتیكُمُ الصَّرْخَةُ فَلاتُغیثُونَ»؛ “میری پکار و فریادکو تم سب نے سنا ہے۔ تم میرے حالات سے بھی آگاہ ہو۔تم تعداد اور افراد کے لحاظ سے زیادہ ہو، تمہارے پاس طاقت اور اسلحے، زرہ اور ڈھال بھی ہے۔ پھر بھی میری صدائے استغاثہ کو سن کر تم لبیک کیوں نہیں کہہ رہے ہو۔ میری فریاد کو سنتے ہوئے بھی مدد و فریادرسی نہیں کررہے ہو”۔ یہاں شہزادیؑ نے موجودہ حالات کو بیان کیا کہ میری مظلومیت تمہارے سامنے ہے۔ تمام باتوں کی تمہیں خبر رہے۔ سب کچھ دیکھ رہے ہو۔ میں نصرت و مدد کے لئے فریاد کررہی ہوں۔ اور تمہارے پاس طاقت و قوت سب کچھ ہے۔ انسانی طاقت کے ساتھ ساتھ جنگی وسائل بھی موجود ہیں۔ پھر بھی تم ظلم اور غصب حقوق کے مقابلے میں خاموش ہو۔ اب تو تمہارے پاس کوئی عذر و بہانہ نہیں ہونا چاہئے۔ یہاں قابل توجہ مسئلہ ہے کہ اسلامی قوانین کے مطابق اگر کوئی عام شخص، عام خاتون کسی کو مدد کے لئے پکار رہی ہو۔ ظالم کے مظالم سے نجات حاصل کرنے کے لئے فریاد بلند کررہی ہو تو سب پر واجب و لازم ہے وہ اس کی مدد کے لئے دوڑیں اور اس کو ظلم سے نجات دیں ۔ لیکن یہاں شہزادی کائناتؑ، پیغمبراکرمؐ کی بیٹی مجمع عام میں کھڑی مدد کے لئے مطالبہ کررہی تھی لیکن لوگوں نے آپ کی آواز پر لبیک نہیں کہا۔ آپؑ کی مدد کے لئے دوڑنا تو دور کی بات کوئی اٹھ کھڑا نہیں ہوا۔ یہاں تک تاریخ کی مسلّم روایات کے مطابق شہزادی کائناتؑ حضرت امام علیؑ اور اپنے بچوں کے ساتھ انصار کے دورازوں تک بھی نصرت و مدد کے لئے تشریف لے گئیں تھیں لیکن لوگوں نے آپ کی درخواست کا جواب نہیں دیا اور مختلف بہانے بناکر کنارہ کشی کرلی تھی۔
۳۔ شہزادی کائنات ؑ نے انصار کی جانب سے دیگر ممکنہ بہانوں کا بھی جواب دیا کہ : «وَ اَنْتُمْ مَوْصُوفُونَ بِالْكِفاحِ، مَعْرُوفُونَ بِالْخَیرِ وَ الصَّلاحِ، وَ النُّخْبَةُ الَّتی انْتُخِبَتْ، وَ الْخِیرَةُ الَّتِی اخْتیرَتْ لَنا اَهْلَ الْبَیتِ، قاتَلْتُمُ الْعَرَبَ، وَ تَحَمَّلْتُمُ الْكَدَّ وَ التَّعَبَ، وَ ناطَحْتُمُ الْاُمَمَ، وَ كافَحْتُمُ الْبُهَمَ، لانَبْرَحُ اَوْ تَبْرَحُونَ، نَأْمُرُكُمْ فَتَأْتَمِرُونَ»؛ “اے گروہ انصار! تم لوگ تو بہادرى میں مشہوراور نیكى و خیر سے جانے جاتے تھے۔ منتخب کئے ہوئے اور ہم اہل بیتؑ كے نزدیک برگزیدہ تھے۔ عربوں كے ساتھ تم نے جنگیں كیں اور سختیوں كو برداشت كیا۔ قبائل کفر سے لڑے ہو اور بہادروں سے پنجہ آزمائی كى ہے۔ اور جب ہم اٹھ كھڑے ہوتے تھے تو تم بھى اٹھ كھڑے ہوتے تھے ۔اورہم حكم دیتے تھے تو تم اطاعت كرتے تھے”۔ شہزادی ؑ نے ان الفاظ و عبارات کے ذریعہ انصار کی تاریخ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایاکہ جس طرح آج تم لوگ سستی اور غفلت دکھا رہے ہو تمہارے گذشتہ تو ایسے نہیں تھے یا گذشتہ وقت میں تم لوگ ایسے نہیں تھے بلکہ تم ہی لوگوں نے پیغمبرؐ اور دین خدا کی حمایت میں کافر ومشرک عربوں اور قبائل کے مقابلے میں جنگیں کیں اور اس راہ میں سختیوں اور مصائب کو برداشت کیا اور بے منطق لوگوں کے ساتھ مقابلہ کیا۔ ہمارے حکم و امر کو ماننے کے لئے آمادہ رہتے تھے۔ ہماری قیادت و رہبری کے اشاروں پر چلتے تھے۔ اب تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم خاموش ہوگئے۔
۴۔ شہزادی ؑ نے یہاں عصر پیغمبراکرمؐ میں اسلام کی رونق اور عظمت کا بھی اشارہ فرمایا کہ: « حَتَّی اِذا دارَتْ بِنا رَحَی الْاِسْلامِ، وَ دَرَّ حَلَبُ الْاَیامِ، وَ خَضَعَتْ نُعْرَةُ الشِّرْكِ، وَ سَكَنَتْ فَوْرَةُ الْاِفْكِ، وَ خَمَدَتْ نیرانُ الْكُفْرِ، وَ هَدَأَتْ دَعْوَةُ الْهَرَجِ، وَ اسْتَوْسَقَ نِظامُ الدّینِ…» ؛ “یہاں تک کہ ہمارے وسیلے سے اسلام نے رونق پائی اور غنائم زیادہ ہوئے اور مشركین تسلیم ہوگئے اور ان كا جھوٹا وقار اور جوش ختم ہوگیااور کفر کی آگ بجھ گئی اور ہرج و مرج کی صدائیں خاموش ہوگئیں اور دین كا نظام مستحكم ہوگیا”۔ یعنی اسے گروہ انصار! ماضی میں ہماری قیادت و رہبری اور تمہاری جانب سے فرمانبرداری اور جانفشانی اور نصرت و مدد ہی کا نتیجہ تھا کہ اسلام سرافراز ہوا۔ مشرکیں تسلیم و تنہا ہوئے اور دین کا نظام مضبوط و مستحکم اور حق کامیاب ہوگیا تھا۔ یہاں شہزادی کائنات ؑ شاید یہ کہنا چاہتی ہیں کہ اے گروہ انصار! اگر آج تم لوگوں نے ہماری قیادت و رہبری کے حق میں خاموشی سے کام لیا اور ہم پر ہونے والے مظالم کے مقابلے میں قیام نہیں کیا تو یاد رکھنا کہ بہت جلد ہی ان تمام معنوی اور روحانی نعمتوں سے محروم ہو جاؤگے اور سب سے اہم الہی نظام حکومت کے مقابلے میں مادی اور غیرالہی نظام حاکم ہو جائے گا۔
شہزادی کائنات ؑ نے اس مسئلہ کے بارے میں مزید باتوں کا بھی ذکر فرمایا ہے جن کو آئندہ قسط میں بیان کیا جائےگا۔