خصوصیات قرآن (2)
«… و بُرْهانٌ فِينا مُتَجَلِّيَةٌ ظَواهِرُهُ، مُغْتَبِطَةٌ بِهِ اَشْياعُهُ، قائِدٌ اِلَى الرِّضْوانِ اتِّباعُهُ، مُؤَدٍّ اِلَى النَّجاةِ اسْتِماعُهُ، وَ بِهِ تَنالُ حُجَجِ اللهِ الْمُنَوَّرَةِ (فِيهِ تِبْيانُ حُجَجِ اللّهِ الْمُنَوَّرَةِ) وَ مَواعِظُهُ الْمُكَرَّرَةُ…»
«… اور اس کتاب میں ہمارے بارے میں روشن اور آشکار دلائل موجودہیں۔اور اس کتاب کے پیروکار قابل رشک ہیں۔ اور اس کی اتباع رضایت الہی تک پہنچانے والی ہے ۔ اور اس کو توجہ سے سننا نجات کے لئے زمینہ ساز ہے۔ اور اس کے ذریعہ اللہ کی روشن جحتوں (دلائل) تک پہنچاجاسکتا ہے۔ اور اس کی نصیحتیں مکرّر بیان ہوئی ہیں…»۔
اہم پیغامات:
حضرت فاطمہ زہراؑ نے اپنے خطبہ میں قرآن کی متعدد صفات اور خصوصیات کا ذکر فرمایا تھا ان میں سے بعض کا ذکر گذر چکا ہے اور بعض دوسرے اوصاف کو مذکورہ ترتیب کے اعتبار سے آج کی تحریر میں بیان کیا جارہا ہے:
۷۔ قرآن کے دلائل اور براہین، اہل بیتؑ کے بارے میں روشن ہیں؛ شہزادی فاطمہ زہراؑنے یہاں قرآن کے مزید اوصاف کا ذکر فرماتے ہوئے بیان کیا کہ “و بُرْهانٌ فِينا مُتَجَلِّيَةٌ ظَواهِرُهُ” یعنی قرآن مجید میں جو دلائل اور براہین ہمارے بارے میں، ہماری ولایت اور خلافت کے بارے میں ذکر ہوئے ہیں وہ سب واضح اور روشن ہیں۔ یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ خطبہ فدکیہ کے بعض نسخوں کے مطابق اس مقام پر صرف “وَ بُرْهَانٌ مُتَجَلِّيَةٌ ظَوَاهِرُهُ” یا بعض نسخوں کے مطابق صرف “مُتَجَلِّيَّةٌ ظَواهِرُهُ” اور بعض مقامات پر تو “مُنجَلِّيَةٌ ظَوَاهِرُهُ” آیا ہے۔ البتہ یہاں بھی معنی و مفہوم تقریبا نزدیک ہے اور وہ یہ کہ قرآن میں موجود دلائل اور براہین واضح اور روشن ہیں۔ اور اب چاہے وہ اہل بیتؑ کی شان و منزلت اور مقام و منصب کے بارے میں ہوں یا دوسرے اعتقادی اور عملی معارف و مسائل کے سلسلے میں ہوں۔ قرآن نے واضح دلائل کے ساتھ باتوں کو بیان فرمایا ہے۔
۸۔ قرآن کے پیروکار قابل رشک ہیں؛ قرآن کی پیروی کرنا واقعاً انسان کو دنیا و آخرت میں عظیم مقام پر پہنچاتا ہے اسی وجہ سے واقعی طور پر قرآن کی پیروی کرنے والے قابل رشک ہوتے ہیں۔ آخرت میں تو ایسے افراد کے مقام و منزلت پر سب رشک کریں گے۔ ان کے مقام و منزلت کو دیکھ کر وہاں تک پہنچنے کے آرزومند ہوں گے؛جیسا کہ پیغمبراکرمؐ نے فرمایا: “حَمَلةُ القُرآنِ عُرَفاءُ اَهلِ الجَنَّةِ”؛ قرآن کے حامل و پیروکار افراد جنت کے مشہور و معروف لوگوں میں سےہیں (اصول کافی 2/606)۔ اور دنیا میں بھی قرآن پر عمل کرنے والے، قرآن کی اتباع اور پیروی کرنے والے قابل قدر ہوتے ہیں اور اس بات کو وہی جانتا اور سمجھتا ہے جو قرآن کی عظمت و اہمیت کو خود بھی سمجھتا ہے۔ اس بات کو معصومینؑ کی بہت سی حدیثوں میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے جیسا کہ پیغمبراکرمؐ نے فرمایا کہ: «اَشرافُ اُمَّتی حَمَلةُ القُرآنِ»؛ میری امت کے شریف افراد وہ ہیں جو قرآن کے حامل و پیروکار ہیں۔ (خصال صدوق 1/7)۔
۹۔ قرآن کی اتباع رضایت خداوندی تک پہنچاتی ہے؛ قرآن کے احکام و معارف کے مطابق زندگی گزارنا انسان کو اللہ کی رضایت و خشنودی تک پہنچانے کاسبب ہے ؛ اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے میں متعدد مقامات پر تاکید کی ہے اور اس کے آثار و فوائد کا ذکر کیا ہے اور قرآن مجید چونکہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور اسی کلام کی روشنی میں انسان اپنی زندگی کو بہتر بنا سکتا ہے اور خداوندعالم نے اس کتاب کے نزول کا ایک مقصد بھی یہی بیان فرمایا ہے؛ جیسا ارشاد ہوتا ہے: كِتَابٌ أُنْزِلَ إِلَيْكَ فَلَا يَكُنْ فِي صَدْرِكَ حَرَجٌ مِنْهُ لِتُنْذِرَ بِهِ وَ ذِكْرَى لِلْمُؤْمِنِينَ اتَّبِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَ؛ یہ کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کو حکم خدا سے تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف لے آئیں اور خدائے عزیز و حمید کے راستے پر لگادیں۔(اعراف، آیت۳)۔ اسی طرح دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے کہ: «یَهدی بِهِ اللّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضونَهُ سُبُلَ السَّلـمِ ویُخرِجُهُم مِنَ الظُّـلُمـتِ اِلَی النُّورِ بِاِذنِهِ ویَهدیهِم اِلی صِرط مُستَقیم»؛ جس کے ذریعہ خدا اپنی خوشنودی کا اتباع کرنے والوں کو سلامتی کے راستوں کی ہدایت کرتا ہے اور انہیں تاریکیوں سے نکال کر اپنے حکم سے نور کی طرف لے آتا ہے اور انہیں صراط مستقیم کی ہدایت کرتا ہے۔(مائدہ، آیت۱۶)
۱۰۔ قرآن کی سماعت نجات کے لئے زمینہ ساز ہے؛ قرآن مجید کی سماعت کے سلسلے میں آیات و احادیث میں بہت زیادہ تاکید ہوئی ہے اس لئے کہ قرآن کاسننا اور خاص طور پر غور سے سننا انسان کو الہی پیغام اور راہ ہدایت سے نزدیک کرتا ہے جس کے نتیجہ میں انسان نجات کی منزل تک پہنچ سکتا ہے ۔البتہ یہاں اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ قرآن کو بغیر توجہ کے سننے میں وہ اثر نہیں ہے جو اس کو توجہ کے ساتھ سننے کے نتیجے میں انسان کے لئے حاصل ہوتے ہیں اسی وجہ سے احادیث میں توجہ سے سننے کی تاکید کی گئی ہے اور لفظ “استماع” کا استعمال ہوا ہے جیسا کہ شہزادیؑ نے بھی اپنے خطبہ میں فرمایا کہ: مُؤَدٍّ اِلَى النَّجاةِ اسْتِماعُهُ ؛ قرآن کو توجہ سے سننا نجات کے لئے زمینہ ساز ہے۔ قرآن مجید بھی غور سے سماعت کی تاکید فرماتا ہے کہ: «وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ»؛ اور جب قرآن کی تلاوت ہو رہی ہوتو اسےغور سے سنو کہ شاید تم پر رحمت نازل ہو۔(اعراف، آیه204) اسی طرح قرآن اور پیغمبرؐ کی باتوں کو غور سے سننےاور ان کی پیروری کرنے والوں کے بارے میں آیا ہے کہ: “الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ أُولَئِكَ الَّذِينَ هَدَاهُمُ اللَّهُ وَأُولَئِكَ هُمْ أُولُو الْأَلْبَابِ” جو لوگ باتوں کو غورسے سنتے ہیں اور جو بات اچھی ہوتی ہے اس کا اتباع کرتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جنہیں خدا نے ہدایت دی ہے اور یہی وہ لوگ ہیں جو صاحبانِ عقل ہیں۔(زمر، آیت۱۸)
۱۱۔ قرآن اللہ کی روشن دلائل کی طرف ہدایت کرتا ہے؛ قرآن مجید صاحبان عقل و فکر کے لئے بہترین کتاب ہےاس لئے کہ اس کتاب میں کائنات کے خالق و مالک اور اس کی جانب سے بیان ہونے والے تمام مسائل و معارف کو بہترین دلیلوں کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اسی وجہ سے خود اللہ تعالیٰ نے بہت سے مقامات پر ان نورانی دلیلوں کے بیان کے بعد انسان کو غور و فکر کرنے کا حکم دیا ہے ۔ اسی طرح حقائق و معارف کے ذکر کے ساتھ ساتھ صاحبان عقل و فکر کو سوچنے سمجھنے اور درک کرنے کی دعوت دی ہے۔ اسی وجہ سے یہ ہےکہ جس نے بھی قرآن کی باتوں میں غور و فکر کیا وہ حقیقتوں تک پہنچا ہے اور خود اعتراف بھی کیا ہے جیسا کہ بعض ایمان لانے والوں کے بارے میں آیا ہے کہ : «وَإِذَا سَمِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَى الرَّسُولِ تَرَى أَعْيُنَهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوا مِنَ الْحَقِّ يَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ وَ مَا لَنَا لَا نُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَمَا جَاءَنَا مِنَ الْحَقِّ وَنَطْمَعُ أَنْ يُدْخِلَنَا رَبُّنَا مَعَ الْقَوْمِ الصَّالِحِينَ»؛ اور جب اس کلام کو سنتے ہیں جو رسول پر نازل ہوا ہے تو تم دیکھتے ہو کہ ان کی آنکھوں سے بےاختیار آنسو جاری ہوجاتے ہیں کہ انہوں نے حق کو پہچان لیا ہے اور کہتے ہیں کہ پروردگار ہم ایمان لے آئے ہیں لہذا ہمارا نام بھی تصدیق کرنے والوں میں درج کرلے ۔ بھلا ہم اللہ اور اپنے پاس آنے والے حق پر کس طرح ایمان نہ لائیں گے جب کہ ہماری خواہش ہے کہ پروردگار ہمیں نیک کردار بندوں میں شامل کرلے(مائدہ، آیت ۸۳-۸۴)۔ اس کے علاوہ بہت سی مثالیں اس سلسلے میں ذکر ہوئی ہیں جن کا ذکر کرنا یہاں ممکن نہیں ہے۔
۱۲۔ قرآن میں مکرّر نصیحتیں بیان ہوئی ہیں؛ قرآن مجید میں گذشتہ و آئندہ زمانوں کے بارے میں بہت سے امور و مسائل کا ذکر کیا گیا ہے اور ہر مقام پر کسی نہ کسی نصیحت و موعظہ کو بیان کیا گیا ہے تاکہ انسان بیدار ہو، اپنے آپ کو راہ نجات و راہ ہدایت پر گامزن کرے اور گمراہی سے دور رکھے۔ قرآن مجید کو خود ایک موعظہ و نصیحت کا بہترین منبع بیان کیا گیا ہے جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے کہ: « وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَمَا أَنْزَلَ عَلَيْكُمْ مِنَ الْكِتَابِ وَالْحِكْمَةِ يَعِظُكُمْ بِهِ» خدا کی نعمت کو یاد کرو؛ اس نے کتاب و حکمت کو تمہاری نصیحت کےلئے نازل کیا ہے۔ (بقرہ، آیت۲۳۱)اسی طرح ارشاد ہوتا ہے کہ: «يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُمْ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ» اے لوگو!تمہارے پاس پروردگار کی طرف سے نصیحت اور دلوں کی شفا کا سامان اور ہدایت اور صاحبانِ ایمان کے لئے رحمت قرآن آچکا ہے۔( یونس، آیت۵۷)۔
حضرت فاطمہ زہراؑ نے اپنے خطبے کے اس حصہ میں قرآن مجید کے متعدد اوصاف کا ذکر فرمایا جس میں قرآن مجید کا نورانی دلائل اور براہین اور بہترین نصائح کے پائے جانے اور ان کے بارے میں غور و فکر کرنے، ان کو غور سے سننے، سمجھنے اور درک کرنے والوں کے لئے نجات و کامیابی کا زمینہ فراہم ہونے کی باتوں کا ذکر ہے اور یقینی طورپر قرآن کی روشن دلیلوں کے سامنے سرتسلیم خم کرنے والا ہی کامیاب و کامران ہوسکتا ہے اور دین و دنیا میں بہترین مقام پر پہنچ سکتا ہے لیکن جو قرآن کے روشن دلائل اور اس کی باتوں کے سامنے کفر و انکار اور منافقت سے کام لیتا ہے اور تعلیمات قرآن کے سامنےاپنے آپ کو عمل اور اتباع کے میدان سے دور رکھتا ہے یقینی طورپر وہ نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوتا ہے۔ حضرت امام صادق علیہ السلام سے “حجت بالغہ” کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ؑنے فرمایا: اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ہر ایک بندہ سے سوال فرمائے گا کہ تو دنیا میں عالم تھا یا جاہل؟ اگر جواب دے گا کہ میں عالم تھا تو فرمائے گا: پھر تو نے اس پر عمل کیوں نہیں کیا؟ اور اگر کہے گا کہ جاہل تھا تو فرمائے گا کہ تو نے علم حاصل کیوں نہیں کیا تاکہ تو اس پر عمل کرتا؟ (امالی شیخ طوسی ، ص ۹) لہذا معلوم ہوا کہ اگر انسان قرآنی تعلیمات حاصل کر کے اس پر عمل کرے تو اس صورت میں حجت اور دلیل اس کے پاس ہوتی ہے اور وہ نجات حاصل کرسکتا ہے لیکن اگر علم و عمل سے دور رہے تو اللہ تعالیٰ اس کے خلاف حجت و دلیل قائم کرے گا۔