حضرت امام جعفرصادق (علیہ السلام) اور تقیہ کے حالات
رئیس المبلغین علامہ سید سعید اختر رضوی کی زبانی
مندرجہ ذیل تحریر مرحوم علامہ سید سعید اختر رضوی (اعلیٰ اللہ مقامہ) کی ایک تقریر سے اقتباس ہے:
انسان کو حالات کے لحاظ سے عمل کرنا چاہئے، ہر وقت ہر بات کو نہیں کہنا چاہئے…ہر چیز کا ایک حساب کتاب ہوتا ہے … آپ یہ بات ہمیشہ سنتے رہتے ہیں کہ حضرت امام جعفر صادق(ع) اور حضرت امام محمد باقر(ع)کو موقع ملا تو ان حضرات(علیہم السلام) نے دین کو پھیلایا۔ لیکن آپ حضرات کو جو بھی موقع ملا ہے اس میں کیا حال تھا؟ وہ ہم آپ کو بتائیں تب اندازہ ہوگا۔ اس وقت آپ حضرات کو جو موقع ملا تھا اس کا عالم یہ تھا کہ مشکل سے شاید دس یابارہ سال آزادی رہی ہوگی۔ اس میں کچھ وقت حضرت امام محمد باقر(ع) کا اور باقی وقت حضرت امام جعفر صادق(ع) کے دور میں تھا۔ اور حالت کیا تھی اس کا اندازاہ اس بات سے ہوجاتا ہے کہ ’’حیرہ‘‘یہ کوفہ کے پاس شہر تھا اور اس کو ابوالعباس سفاح جو پہلا عباسی بادشاہ تھا اس نے اپنا کیپیٹل [1] بنایا تھا۔ امام جعفر صادق(ع) کو وہاں بلایا لیکن ا س کے بعد اب حالت یہ ہے کہ کسی کو ملنے کی اجازت نہیں ۔بلایا بہت عزت و احترام سے، مکان بھی عالیشان دیا لیکن کوئی شخص ملنے کے لئے نہیں جا سکتا۔ حالت یہ ہوگئی کہ ایک شخص ایران کے کسی دور دراز علاقہ کا رہنے والا تھا اور اس میں اور اس کی بیوی میں کچھ زیادہ باتیں ہو گئیں تھیں اور اس نے کہہ دیا “طلاق” تو شیعیوں میں ایسی طلاق تو طلاق نہیں ہوتی ہے لیکن اب وہ بیوی الگ ہو گئی ، کہنے لگی ہم تمہارے ساتھ نہیں رہ سکتے تم ہمارے لئے نامحرم ہو گئے۔ اس نے کہا بھائی ہم لوگوں کے یہاں یہ نہیں ہے، ہماری زبان سے نکل گیا اور معاف کرو اب۔ اس نے کہا کہ نہیں جب تک کہ حضرت امام جعفرصادق(ع) سے پوچھ کر تم نہیں آؤگے ہم تمہارے سامنے نہیں آئیں گے ۔ اب وہ ایران سے چل کر کے کوفہ کے قریب “حیرہ” میں آتا ہے اور یہاں یہ معلوم ہوتا ہے کہ امام(ع) سے مل نہیں سکتا ، اب کیا کرے؟ واپس چلا جائے تو بیوی ہاتھ سے جاتی ہے اور یہاں بیٹھے تو امام سے ملنے کا ٹھکانہ نہیں ۔ ایک دو دن اس نے اسی طرح گزارے اس کے بعد اس نے دیکھا کہ ایک شخص ہے جو سبزی تر کاری کا بڑا سا ٹوکرا اپنے سر پر لئے ہوئے دیہات سے آ رہا ہے اور دروازے دروازے جا کرکے بیچ رہا ہے۔ اس کے ذہن میں ترکیب آ گئی ۔ اس کے پاس گیا کہا کہ بھائی تمہاری جتنی سبزی ترکاری ہے وہ سب ہم خرید لیتے ہیں۔ دام کتنا ہوگا؟ اس نے دام بتایا انہوں نے قیمت نکال کر دی اورکہا کہ اس کے علاوہ یہ ٹوکرا اور اپنا یہ کپڑا بھی تھوڑی دیر کے لئے مجھے دے دو ، اس کے بدلے میں ہم تم کو یہ اضافی رقم دیتے ہیں۔ پھر اس نے جاکر کے ایک گوشے میں وہ کپڑا سب پہنا دیہاتی والا اورپھر سر پر ٹوکری لئے ہوئے مختلف دروازوں پر جاتا ہے اور تر کاری بیچتا ہے۔ اور بیچتے بیچتے جب حضرت امام جعفر صادق (ع)کے دروازے پر پہونچا تو دیکھا کہ اِدھر اُدھر کوئی نہیں دیکھ رہا ہے تو دروازے میں داخل ہو گیا اور اس طرح سے جا کرکے وہ امام کی خدمت میں پہنچا اور امام(ع) سے مسئلہ پوچھا اور واپس آئے[2]۔ اب آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ جو کہا جاتا ہے کہ حضرت امام جعفر صادق(ع) کے زمانے میں بہت زیادہ آزادی تھی تو اس آزادی میں یہ حال تھا۔
اسی طرح ایک مرتبہ ایک شخص نے ایک ایسا مسئلہ پوچھا جو پبلک کے سامنے بیان نہیں کیا جا سکتا تھا کیونکہ وہ خاص اپنے مذہب کے متعلق تھا۔ حضرت امام جعفر صادق(ع) نے کچھ جواب اس کے سامنے بیان کیا لیکن اتنے میں کچھ دوسرے لوگ آگئے اور امام(ع) خاموش ہوگئے اور اس کے بعد اب ایسا اتفاق ہوا کہ یا تو وہ شخص دوسری جگہ کا تھا یا کبھی کبھار امام کی خدمت میں آتا تھا یا جب بھی وہ آیا تو دوسرے مزاج کے لوگ اور دوسرے عقیدے کے لوگ موجود تھے بہرحال جو بھی ہوا حضرت امام جعفر صادق(ع) کو بیس سال بعد موقع ملا کہ اس شخص سے یہ کہیں کہ تم نے بیس سال پہلے یہ بات پوچھی تھی اور ہم نے تم کو اتنا ہی سمجھایا تھا اور باقی جواب یہ ہے اور وہ شخص تو بھول بھی گیا تھا لیکن امام(ع)کو یاد تھا۔
[حضرت امام جعفر صادق (ع) کے حوالے اسی سفاح ملعون کے زمانے میں جو سخت دباو ٔ و سختیاں تھیں اور آپ کو تقیہ سے کام لینا پڑتا تھا، ایک اور واقعہ خود امام ہی کی زبانی یوں نقل ہوا ہے کہ آپ نے فرمایاکہ: جب مجھے ’’حیرہ‘‘ لے جایا گیا تھا تو وہاں مجھ سے (ماہ رمضا ن کے یوم الشک پر) پوچھا گیا کہ آج کے دن روزہ رکھا جانا چاہئے یا نہیں؟۔ مجھے(تقیہ کی وجہ سے) کہنا پڑا کہ تم لوگوں کے حکمران اور رہبر ہو، اگر روزہ رکھوگے تو ہم بھی رکھیں گے اور اگر آج افطار کرلوگے تو ہم بھی افطار کرلیں گے۔ جب اس نے افطار کرلیا تو ہمیں بھی مجبوراً افطار کرنا پڑا ، جبکہ خدا کی قسم ہم جانتے تھے کہ وہ دن رمضان المبارک ہی کا تھا، لیکن اس روزے کی قضا کرنا میرے لئے زیادہ آسان تھا کہ میری گردن اڑا دی جاتی اور میں عبادت خدا سے محروم ہوجاتا]۔[3]
تو مذکورہ واقعات سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ جو بڑی آزادی کا زمانہ کہا جاتا ہے اس زمانے کا یہ حال ہے کہ کس طرح سے زندگی بسر ہوتی تھی، بہت سے موقعوں پر تقیہ کی بناء پر گفتگو کرنی پڑتی تھی۔ تقیہ کا مطلب جان اور مال اور عزت و آبرو کے خوف کی بناء پر حقیقت کا اظہار نہ کرنا [یا برعکس بیان کرنا] اور یہ تقیہ کئی حیثیت سے ہوتا تھا؛ کبھی تو امام کو خود اپنی جان کا خطرہ ہوتا تھا اور کبھی چاہنے والوں کے لئے خطرہ ہوتا تھا۔
اسی طرح ایک مرتبہ حضرت امام جعفر صادق(ع)کے پاس ابوحنیفہ آئے کوفه سے مدینے میں۔ جب پہونچے امام(ع)کے سامنے فرسٹ ٹائم[4] اور ان کا تعارف کرایاگیا کہ یہ امام ابوحنیفہ ہیں، عراق کے مفتی ہیں تو انہوں نے کہا کہ آپ اجازت دیتے ہیں کہ آپ کے پاس بیٹھ جاؤں؟ امام(ع)نے کہا کہ تم ایک مشہور آدمی ہو اور میں یہ پسند نہیں کرتا ہوں کہ لوگ تم کو میرے پاس دیکھیں۔ اس میں تمہارے لئے بھی پرابلم[5] پیدا ہوگا اور میرے لئے بھی لہٰذا میں پسند نہیں کرتا ہوں۔ یہ کہنے کےباوجود وہ بیٹھ گئے۔ اب پہلا سوال کر رہے ہیں کہ عراق میں اورخصوصاً کوفے میں ایسے لوگ ہیں کہ جویہ کہتے ہیں کہ آپ امامِ وقت ہیں؟۔ اب اگر امام کہیں کہ ہاں تو یہ تمام اعلان کرتے پھریں۔ امام(ع) نے کہا کہ یہ ان کا عقیدہ ہے وہ جانیں مجھ سے کیا مطلب؟ اب دیکھئے یہ تقیہ اپنے لئے ہے ، اپنی عزت و آبرو کو بچانے کے لئے ہے کہ یہ عقیدہ ان لوگوں کا ہے مجھ سے کیا مطلب؟ تو وہ کہنے لگے کہ اگر ایسا ہے تو آپ ان کو لکھ دیجئے کہ وہ آپ کے بارے میں ایسا عقیدہ نہ رکھیں۔ امام(ع) نے کہا کہ میں لکھوں گابھی تب بھی وہ لوگ نہیں مانیں گے۔کہا کیسے نہیں مانیں گے؟ آپ لکھ دیں گے تو یقیناً وہ مانیں گے۔ امام(ع)نے کہاکہ تم اپنی ہی مثال لے لو تم میرے سامنے کھڑے تھے میں نے تم کو منع کیا تھا بیٹھنے کو، اس کے بعد بھی تم بیٹھ گئے تو جب سامنے ہوتے ہوئے تم ہماری مخالفت کر سکتے ہو تو خط کا کون خیال کرے گا اور اس کی مخالفت کیوں نہیں ہوگی[6]۔
… تو مطلب یہ کہ جو بات ہوتی ہے وہ کسی ماحول میں ہوتی ہے۔حالات کو مدنظر رکھ کر گفتگو کی جاتی ہے ۔ ہاں کچھ تو آئمہ حضرات(علیہم السلام)اپنی جان کے لئے اور کبھی ایسا ہوتا تھا کہ تقیہ کی بناء پر گفتگو کرنا پڑتی تھی جس شخص سے گفتگو کر رہے ہیں اس کے جان و مال کی حفاظت کے لئے جس کی مشہور مثال جناب علی ابن یقطین کے وضو والی ہے۔وہاں کسی دوسرے سے کچھ مطلب نہیں تھا لیکن جس کو خط لکھا گیا اس کی جان اور عزت و آبرو کو محفوظ رکھنے کے لئے یہ تقیہ والا حکم دیا گیا۔ یا اس سے بھی زیادہ واضح جناب زرارہ بن اعین یہ مذہب کےپلرس[7] میں ہیں اورامام جعفر صادق(ع) خود فرمایا کرتے تھے کہ’’اگر محمد ابن مسلم اور زرارہ بن اعین اور دو ایک حضرات کا نام لیا کہ اگر یہ لوگ نہ ہوتے تو میرے پدر بزرگوار کی حدیثیں سب ختم ہوجاتیں، ضائع ہو جاتیں، برباد ہو جاتیں‘‘{کامل حدیث اس طرح ہیں کہ امام صادق(علیہ السلام) نے فرمایا: «مَا أجِدُ أحَداً أحْيَى ذِكْرَنَا إلَّا زُرَارَةُ، وَ أبو بَصِيرٍ لَيْثٌ، وَ مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمٍ، وَ بُرَيْدٌ. وَ لَوْ لَا هَؤُلاءِ مَا كَانَ أحَدٌ يَسْتَنْبِطُ هَذَا. ثُمَّ قَالَ: هَؤُلاءِ حُفَّاظُ الدِّينِ وَ امَنَاءُ أبِى عَلَى حَلَالِ اللهِ وَ حَرَامِهِ، وَ هُمُ السَّابِقُونَ إلَيْنَا فِى الدُّنْيَا، وَ السَّابِقُونَ إلَيْنَا فِى الآخِرَةِ»؛ ہم نے زرارہ، ابوبصیر لیث، محمد بن مسلم اور بریدکی طرح کسی کو ایسا نہیں پایا ہے جو ہمارے تذکرے اور ہماری یاد کو زندہ رکھے، اگر یہ لوگ نہ ہوتے تو کسی بھی شخص میں یہ صلاحیت نہ ہوتی کہ وہ ہمارے امر کا استنباط کرے(اس کے بعد فرمایا:) یہ لوگ اللہ کے دین کی حفاظت کرنے والے اور میرے بابا کی طرف سے بیان کئے ہوئے حلال و حرام الہی کو پہونچانے میں امین ہیں، یہی لوگ ہیں جنہوں نے دنیا میں ہمارے طرف آنے میں سبقت کی ہے، یہی وہ لوگ ہیں جو آخرت میں ہمارے پاس آنے میں سبقت کریں گے۔( اختصاص، شیخ مفید، ص۶۶؛ رجال کشی(اختیار معرفۃ الرجال)، محمد بن عمر کشی، ص۱۲۴؛ بحارالانوار، محمد باقرمجلسی، ج۴۷، ص۳۹۰؛ شرح اصول كافي، ملا صدرا، ج2، ص 80)۔} ۔ ایسے شخص کے لئے ایک مرتبہ امام(ع)نے، وہ کوفہ میں رہتے تھے جناب زرارہ تو کوفه کے کچھ لوگ آئے ہوئے تھے ان کے سامنے امام(ع) نے زرارہ پر لعنت کی۔ اب وہ لوگ گئے اب تو کوفه میں بڑا ہنگامہ مچا کہ یہ زرارہ تو ایسی ایسی باتیں کرتے ہیں حالانکہ امام جعفر صادق(ع)تو ان کے اوپر لعنت کرتے ہیں، اب اس میں دوست بھی تھے، دشمن بھی تھے ہر طرح کے لوگ تھے۔جناب زرارہ بہت پریشان ہوئے انہوں نے فوراً اپنے بڑے لڑکے کو کہا کہ تم جاؤ مدینه اور جاکر کے پوچھوکہ بات کیا ہے، اصلیت کیا ہے؟ تو جب وہ آئے ہیں جناب زرارہ کے صاحب زادے امام(ع)کے پاس اور اپنے پدر بزرگوار کا پیغام دیا کہ کیا یہ صحیح بات ہے کہ آپ(ع)نے لعنت کی ہے اور اگر لعنت کی ہے تو میں نے کونسا قصورکیا ہے ؟۔امام(ع)نے کہا کہ بیٹھو اس کے بعد آپ نے مثال دی جو سولہویں پارے کے شروع میں حضرت موسیٰ(ع)اورحضرت خضر(ع)کا قصہ بیان فرمایا کہ یہ دونوں حضرات بیٹھے ایک کشتی میں اور کشتی چل رہی تھی تو جناب خضر(ع)نے اس کشتی میں سوراخ کر دیا۔ جناب موسیٰ(ع)نے یہ دیکھ کر کہ دوسرے کے مال کو یہ خراب کر رہے ہیں، برداشت نہیں کر سکے کہا کہ آپ نے اس میں سوراخ کیوں کر دیا، آپ چاہتے ہیں کہ سب لوگ اس میں ڈوب کرکے مرجائیں۔ تو جناب خضر(ع)نے کہا ہم نے آپ سے کہا تھا کہ جو کچھ آپ دیکھیں گے، آپ اس پر صبر نہیں کر سکیں گے۔ تو بعد میں جب علیٰحدہ ہونے لگے ہیں اس وقت جناب خضر(ع)نے کہا وہ جو کشتی تھی، کچھ غریب آدمیوں کی تھی اور وہی ان کی روزی کا ذریعہ تھا اور پیچھے ایک بادشاہ آرہا تھا کہ جس کو کشتیوں کی ضرورت تھی اور جو بھی اچھی کشتی نظر آتی تھی اس کو وہ چھین لیتا تھا۔ اس لئے میں نے اس کشتی میں ایک عیب پیدا کردیا تاکہ یہ کشتی چھینی نہ جائے اور ان مسکینوں کی روزی کا ذریعہ باقی رہے خراب نہ ہو اور وہ ذرا سا سوراخ وہ تو آسانی سے ریپئر[8] ہو سکتا ہے۔
جناب زرارہ کے صاحب زادے سے امام جعفر صادق(ع) نے فرمایا کہ میں نے زرارہ کی آبرو میں عیب پیدا کیا ہے تاکہ زرارہ کی جان بچ جائے یعنی لوگ یہ سمجھیں کہ جعفر صادق(ع) سے ان کا کوئی لگاؤ نہیں ہے ورنہ اب وہ نوبت آرہی تھی چونکہ تمہارا ہمارے ساتھ بہت زیادہ لگاؤ ہے تو اب تمہاری جان و مال کا خطرہ تھااور عزت و آبرو کا خطرہ تھا، اس لئے میں نے تمہاری آبرو میں عیب لگایا تاکہ تمہاری جان بچ جائے[9]۔
ایسے ماحول میں زندگی بسر کرنا(بہت سخت تھااور)ہاں ایسے بھی احکام کبھی کبھی دیئے گئے ہیں جو جنرل[10] ہیں اور ہر شیعہ کے لئے ہیں لیکن جب ایسا موقع آجائے جہاں پرتقیہ لازمی ہو تو وہاں پر اگرتقیہ نہ کیا جائے تو عمل باطل ہوجائے گا۔
حاشیہ جات:
[1] Capital
[2] بحارالانوار، محمد باقرمجلسی، ج 47 ، ص 171۔
[3] الکافی، محمد بن یعقوب کلینی، ج 4، ص 82، حدیث 7۔
[4] First Time
[5] Problem
[6] بحار الانوار، محمد باقرمجلسی، ج 10، ص 220۔
[7] pillars
[8] Repair
[9] رجال کشی(اختیار معرفۃ الرجال)، محمد بن عمر کشی، ص۱۲۵؛ مجالس المؤمنین، نوراللہ شوشتری، ج۱،مجلس پنجم، ص۳۴۴۔
[10] General