اسلامی معارفسیرت معصومین(ع)

میرے پیارے بابا

حضرت فاطمہ زہرا (علیہاالسلام) کے طرز زندگی کی ایک مثال (۵)

      جنگ احزاب کا زمانہ ہے۔ مدینہ چاروں طرف سے دشمنوں سے گھرا ہوا ہے۔ ہر شخص اپنی حیثیت و طاقت کے مطابق  جنگ میں مدد کر رہا ہے۔ جناب فاطمہ زہرا (علیہاالسلام)  نے بھی روٹیاں  پکانے کے کام میں لگی رہتی تھیں اور مجاہدین کی ضروریات کا کچھ حصہ فراہم کیا کرتی تھیں۔ ایک دن جب آپؑ نے گھر میں تازہ روٹیاں تیار کیں تو بابا کی یاد آگئی،  اکیلے کھانے کا دل نہیں چاہا لہذا  میدان جنگ میں فرنٹ لائن پر اپنے والد کے پاس  پہونچ گئیں اور کہا:

          باباجان! “میں نے کچھ  روٹیاں  پکائی ہیں، آپ کے بغیر کھانا نہیں چاہتا تھی لہذاآپ کے لئے لے آئی  ہوں۔

      رسول اللہﷺ  شاید منتظر تھے، آپ نے  مہربانی کے ساتھ اپنی بیٹی کا دیدار کرتے ہوئے آرام سے تھکی  ہوئی آواز میں فرمایا:

      ” بیٹی! تین دن کے بعد آج پہلا نوالہ ہے جو منھ میں رکھ رہا ہوں”۔

     فتح مکہ کے  موقع پر حضرت فاطمہ زہرا (علیہاالسلام) نے اپنے والد کے لئے ایک خیمہ نصب فرمایا ، اس میں پانی کا انتظام کیا تاکہ  مسجد الحرام کی طرف کی طرف روانہ ہونے سے پہلے آپ کے بابا اپنے بابا کے ہاتھ پاؤں دھو سکے جوخاک آلود ہوگئے تھے۔

   حضرت فاطمہ (س) کی پیغمبر اکرم (ص) سے محبت ایک عبادت تھی۔ آپ  دونوں کے تعلقات میں ایک آسمانی نور تھا۔ آپ  ہمیشہ  اپنے والد کو بڑے پیار سے “بابا” کہہ کرپکارتی تھیں۔ پیغمبراکرمﷺ بھی آپ سے بہت محبت کرتے تھے اور آپ کا بہت زیادہ احترام کیا کرتے تھے۔

    حضرت فاطمہ زہرا(علیہاالسلام) اپنے پیارے بابا کی احادیث کو حفظ کرنے اور انہیں سنبھال کر رکھنے میں بہت   اہتمام کرتی تھیں۔ 

     آپؑ نے ہمیشہ رسول اللہ(ص) کی  خوشنودی کو اپنی خوشنودی پر مقدم رکھا تھا اور کئی بار اپنے بچوں کے کھانے کا سامان، کپڑے، پردے، ہار  یہاں تک کہ بچوں کے کنگن  وغیرہ کو راہ خدا میں قربان کردیا تھا۔

     رسول خدا (ص) کی وفات کے بعد فاطمہ زہرا (علیہاالسلام)، اپنے بابا کو  بہت یاد کیا کرتی تھیں۔ ایک موقع جب حضرت فاطمہ (علیہاالسلام) نے اپنے بابا کو بہت یاد کیا  تھا وہ تھا  جب اہل بیت (ع) کے حقوق پر غاصبوں  نے قبضہ کرلیا تھا اور اس کے مقابلے میں جب  حضرت فاطمہ  (علیہاالسلام)  نے دلائل  پیش کئے تو  لوگوں نے  ایک جھوٹی حدیث پیش کردی  کہ “آپ کے والد نے  فرمایا ہے کہ:  ہم ، گروہ انبیاء نہ کسی کے وارث بنتے ہیں اور نہ ہی اپنے بعد کوئی میراث چھوڑتے ہیں”۔

     حضرت فاطمہ زہرا (علیہاالسلام) نے  اس ناحق الزام  و تہمت کی وجہ سے بہت  گریہ فرمایا اور روتے ہوئے اپنے بابا  کی قبر  کی طرف مخاطب ہوکر اس طرح فریاد کی کہ:

       “اے بابا! آپ کے بعد ایسی خبریں اور مسائل  سامنے آئے ہیں کہ اگر آپ ہوتے تو یہ سب چیزیں ظاہر نہ ہوتیں۔

ہم نے آپ کو ایسے کھو دیا ہے  جیسے بارش سے زمین محروم ہوجاتی ہے۔ اور آپ کے بعد آپ کے چاہنے والے متفرق ہوگئے ہیں ۔آئیے دیکھئے یہ لوگ کس طرح  راہ راست سے منحرف ہوگئے ہیں۔

جیسے ہی آپ ہم سے رخصت ہوئے اور ہمارے اور آپ کے درمیان خاک کا پردہ  پڑا ،  آپ کی امت میں سے ایک گروہ نے اپنے سینوں کے راز فاش کردئیے ہیں۔

آپ کی امت کے ایک گروہ نے ہم سے منھ موڑ لیا ہے اور ہماری اہمیت ختم کردیا اور ہماری میراث کو غصب کرلیا ہے۔

اے  کاش ! ہم  آپ سے  پہلے ہی  مر جاتے۔ آپ چلے گئے اور آپ کو خاک نے  اپنے نیچے دبا لیا “۔

    حضرت فاطمہ زہرا(علیہاالسلام) ، آخری دم تک اپنے  بابا کو یاد کرتی  رہیں کہ  بابا! آپ کتنے اچھے تھے اور آپ کے بعد لوگ کیسے ہوگئے !!!۔

(تفصیل کے لیے مراجعہ کریں: بحار الانوار، جلد 38، ص202؛ سیرۂ  ابن ہشام، ج3، ص106؛ طبقات ابن سعد، ج1، ص400، مستدرک الوسائل، ج12، ص12) صفحہ 81، خطبہ فدکیہ۔)

متعلقہ مضامین

تبصره کریں

Back to top button
×