زندگینامه رئیس المبلغین علامه سید سعید اختر رضوی (ره)
مختصر سوانح حیات رئیس المبلغین علامہ سعید اختر رضویؒ
ولادت اور تعلیم
رئیس المبلغین، آیت اللہ علامہ محقق الحاج سید سعید اختر رضوی ؒابن مرحوم استاذ العلماءحکیم الحاج سیدابوالحسن رضوی ؒ کی ولادت پہلی رجب، سنہ ۱۳۴۵ ہجری (بمطابق ۵ جنوری، سنہ ۱۹۲۷عیسوی) کو عشری خورد، ضلع سیوان، بہار، ہندوستان میں ہوئی۔
آپ اپنے خانوادےکے سلسلۂ علما ءکی پانچویں نسل میں سے تھے۔ آپ کے والد کے علاوہ آپ کے اجداد میں سلسلہ وار چار پشت تک علما ئے دین گزرے ہیں جن میں سب سے زیادہ شہرت یافتہ مولانا سید محمد مہدی (متوفی ۱۹۲۹ء) تھے جن کی شہرہ آفاق کتاب ’’لواعج الاحزان‘‘(دو جلد) آج بھی ہندوستان اور پاکستان میں نشر کی جا رہی ہے۔
آپ کےنانا،حکیم مولانا سید زین العابدینؒ بھی اپنے زمانے کے بڑے علماء، اطباء اور شعراء میں شمارہوتے تھے، ان کے گھر میں ایک بڑا کتابخانہ تھا، جس میں مطالعہ و تحقیق کے حوالے سے علامہ رضویؒ ، اپنی یادوں کو زندگی کے آخری ایام تک بیان فرمایا کرتے تھے۔
علامہ رضویؒ کے تعلیمی دور کا آغاز ان کے آبائی وطن گوپالپور (سیوان) سے ہوا اور پھر آٹھ برس کی عمر میں آپ پٹنہ منتقل ہوئے جہاں آپ کے والد مدرسہ عباسیہ کے نائب مدیر تھے۔ وہاں آپ نے اپنے والد اور دیگر علماء کے زیر سایہ تعلیم حاصل کی۔ پھر ۱۹۴۲ء میں آپ کا داخلہ جامعۃ العلوم جوادیہ، بنارس (اتر پردیش) میں ہوا جس کا شمار ہندوستان کے تین سب سے بڑے حوزات علمیہ میں ہوا کرتا تھا۔ بنارس ہی کے تعلیمی دور میں آپ نے الہ آباد بورڈ کے تحت منعقد ہونے والے عربی، فارسی اور اردو کی لسانیات کے اعلیٰ درجےکے امتحانات میں شرکت کی۔ ان تین زبانوں کے امتحانات میں کامیاب ہونے والوں کو بالترتیب فاضل، منشی اور قابل کے القاب سے نوازاجاتا تھا۔ علامہ ؒ نے ان تمام امتحانات میں بہترین نمبروں کے ساتھ ممتاز درجہ حاصل کیا۔
۱۹۴۶ء میں انیس برس کی عمر میں آپ جامعۃ العلوم جوادیہ سے بہترین امتیازات کے ساتھ فارغ التحصیل ہوئے اور آپ کو وہاں کے سب سے اعلیٰ تعلیمی اعزازفخر الافاضل سے نوازا گیا۔
وہ اساتذہ جن سے آپ نے اپنے تعلیمی دور میں استفادہ کیا ان کے اسماء درج ذیل ہیں:
۱۔ آپ کے والد، استاذالعلماء، حکیم سید ابو الحسن رضوی (پٹنہ)۔
۲۔ مولانا سید فرحت حسین (پٹنہ)۔
۳۔ مولانا سید غلام مصطفیٰ جوہرؔ(پٹنہ)۔
۴۔ مولانا سید مختار احمد (پٹنہ)۔
۵۔مولانا شیخ کاظم حسین (بنارس)۔
۶۔ مولانا علی سجاد بھیکپوری۔
۷۔ آیت اللہ سید ظفر الحسن رضوی (بنارس)۔
۸۔ حجۃ الاسلام و المسلمین سید محمد رضا زنگی پوری (بنارس)۔
ان علمائے کرام کی خدمت میں آپ نے عربی زبان اور ادبیات کےقدیمی متون کے ساتھ ساتھ منطق، فلسفہ، فقہ، اصول فقہ، علم کلام اور علم حدیث جیسے دروس کے لئے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔
ایک طویل مدت تک مذہبی اور تبلیغی حلقوں میں سرگرم رہنے کے با وجود آپ نےعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ہائی اسکول کے فائنل امتحانات میں شرکت کی اور وہاں سے بہترین امتیازات کے ساتھ سندیافتہ ہوئے۔
مذہبی اور سماجی سرگرمیاں
نوجوانی کے دنوں سے ہی علامہ رضویؒ پوری طرح سے اپنے معاشرے کی سماجی، تعلیمی اور مذہبی فلاح و بہبود کے لئے سرگرم رہے۔ ۱۹۴۸ء میں اکیس برس کی عمر میں آپ اپنے والد کی جگہ ہلّور، ضلع بستی، اترپردیش، کی جماعت کے امام مقرر ہوئے اور ۱۹۵۱ء تک اس ذمہ داری کو نبھاتےرہے۔
۱۹۵۲ءسے ۱۹۵۹ء تک آپ حسین گنج، سیوان (بہار) میں امام جمعہ کے فرائض انجام دیتے رہے اور حسین گنج ہایر سکنڈری اسکول میں اردو ا ور فارسی معلم کے طور پرخدمات انجام دیں۔
اس پورے عرصہ میں آپ نے اپنی تمام چھٹیاں اور فارغ اوقات قوم کی خدمت کرتے ہوئے گزارے، جس میں انجمنِ وظیفہ سادات و مومنین (AWSM) اور انجمنِ ترقیِ اردو (ATU) کے مقاصد کی ترویج شامل ہے۔ انجمن وظیفہ سادات و مومنین، شیعہ جوانوں میں تعلیم کو فروغ دینے کی غرض سے انہیں اعلیٰ تعلیم کے لئے وظیفہ دیتی تھی جب کہ انجمنِ ترقی اردو کا ہدف اردو زبان کو ہندوستان کے مسلمانوں کے درمیان رائج کرنا تھا۔ بعض شیعہ جوان جو آج اچھے عہدوں پر فائز ہیں ان کی اخلاقی اور مالی دونوں اعتبار سے علامہ نے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے میں مدد کی تھی۔
جس دوران آپ ہلّور میں تھے تب آپ نے وہاں کی مسجد کی تعمیر کو مکمل کروانے میں ایک اہم کردار نبھایا ۔ سنہ 1950 میں آپ گوپالپور کی مسجد اور امام باڑہ کےٹرسٹی [1]تھے اور جب ہندوستانی حکومت نے شیعوں کی ایک ایسی بے حد وسیع زمین (جہاں ایک زراعتی زمین کے ساتھ ساتھ بہت بڑا تالاب تھا جس میں فراوانی سے مچھلیاں پائی جاتی تھیں) پر قبضہ کر لیا جو کہ مسجد اور امامباڑہ کے تعمیری اور فلاحی اخراجات پورا کرنے کے لئے وقف تھی، تب آپ نے حکومت کے اس فیصلہ کے خلاف کامیابی کے ساتھ عدالت میں مقدمہ لڑا اور قوم کو وہ زمین واپس دلائی۔
چالیس کی دہائی کے آخری حصہ میں اور پچاس کی دہائی میں علامہؒ اردو زبان میں مختلف موضوعات پر مقالے اور کتابیں لکھنے میں انتہائی سرگرم رہے۔ جون ۱۹۴۹ء سے جون ۱۹۶۰ء تک آپ نے سلسلہ وار مقالے لکھے جو ماہنامہ الواعظ (لکھنو) میں ’’اسلام اور تدبیرِ منزل‘‘کے عنوان سے شایع ہوا کرتے تھے۔ انہیں دس مقالوں نے آپ کی انگریزی کی کتاب’’ The Family Life in Islam ‘‘(مطبوعہ ۱۹۷۱ء) کی بنیاد رکھی۔ اس کتاب کا اردو نسخہ ۱۹۹۷ء میں ’’اسلام کا نظام خانوادگی‘‘کے نام سے شایع ہوا۔
سنہ۱۳۷۴ ہجری میں ایک سنی ماہنامہ ’’رضوان‘‘ (لاہور) کے ایڈیٹر نے کچھ سوالات شیعوں کو چیلنج کرتے ہوئے اپنے جریدہ کے ذریعہ نشر کئے۔مرحوم علامہ سے بعض شیعوں نے درخواست کی کہ آپ اس چیلنج کا جواب دیں۔ آپ نے ان کی درخواست پر جو جواب لکھا وہ ’’مدیرِ رضوان سے دو دو باتیں‘‘کے عنوان سے بارہ مضامین کی شکل میں ماہنامہ الجواد (بنارس) میں ۱۹۵۵ء سے ۱۹۵۸ء تک شایع ہوا۔ ان مضامین کے سلسلہ کا دوسرا مضمون، جو عقیدہ ’’بداء‘‘جیسے پیچیدہ مسئلہ پر تحریر کیا گیا تھا دانشوروں کے حلقہ میں اتنا پسند کیا گیا کہ ادیبِ اعظم مولانا ظفر حسن (ایڈیٹر جریدہ نور، کراچی) نے اسے ۱۹۵۵ء میں ایک مکالمہ کی شکل میں ’’علامہ برزخی کا مکالمہ اپنی بیگم سے مسئلہ بداء میں‘‘ کے نام سے نشر کیا۔ آپ نے ساتھ ہی ایک نوٹ لکھا جس میں اس بات کا ذکر کیا کہ انہوں نے اس موضوع پر اردو زبان میں اس سے بہتر تحریر نہیں دیکھی تھی۔ ان بارہ مضامین (۴۴۴ صفحات)کو بعد میں ایک کتاب کی شکل میں ’’اتمامِ حجت‘‘کے نام سے ۱۹۸۶ء میں شایع کیا گیا۔
اسی دور میں علامہ نے ایک اور اہم کتاب تحریر فرمائی جو حضرت امام زمانہ(عج) کی والدہ گرامی سے مربوط تھی اور اس کا عنوان بھی“نرجس خاتون” تھا۔
مندرجہ بالا علمی کارنامے علامہ کی وہ چنداہم کاوشیں ہیں جنہیں آپ نے ہندوستان سے افریقا کی جانب مہاجرت سے پہلے انجام دیا تھا۔ ان کتابوں کے علاوہ بھی آپ نے اردو زبان میں دوسری کتابیں تحریر فرمائی تھی جو مختلف اداروں سے شائع ہوئیں۔اور افریقا میں تبلیغی سرگرمیوں کے دوران انگریزی اور سواحیلی زبان میں جو کتابیں تحریر فرمائی ان کی تو لمبی فہرست ہے جن کا تعارف کسی مستقل تحریر میں کروایا جائے گا۔
افریقا میں تبلیغ
دسمبر ۱۹۵۹ء میں آپ نے تنزانیہ (جو اس زمانہ میں تنگانیکا کہا جاتا تھا)کی جانب سفر کیا جہاں آپ نے مقامی عالمِ دین کے طور پر پہلے ’’لنڈی‘‘ میں (دسمبر ۱۹۵۹ء سے ۱۹۶۲ء تک) پھر ’’آروشا‘‘ میں (۱۹۶۳ء سے ۱۹۶۴ء تک) اور پھر ’’دار السلام‘‘ (۱۹۶۵ء سے ۱۹۶۹ءتک ) میں شیعہ جماعت میں امامت جمعہ و جماعت اورتبلیغ کے فرائض انجام دئیے۔
افریقا میں آمد کے ایک ہی ہفتہ کے اندر وہاں کے مقامی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئےمقامی باشندوں کے درمیان حقیقی اسلام کی ترویج کے مقصد سے آپ نے سواحلی زبان سیکھنا شروع کیا ۔ اُن دنوں پورے افریقی برِّ اعظم کے اصل افریقیوں میں ایک بھی شیعہ اثنا عشری موجود نہیں تھا اور شیعہ جماعت کے ساتھ ساتھ تمام علماء بھی اس فریضہ کی جانب متوجہ نہیں تھے کہ اصل افریقیوں کے درمیان بھی اہلبیت (علیھم السلام) کے پیغام کو پہنچایا جائے۔ لہذا ۱۹۶۲ء میں آپ نے تبلیغ کے لئے ایک منصوبہ بنایا اور اسے خوجہ شیعہ اثنا عشری سپریم کونسل ، جو اس زمانہ میں ’’آروشا‘‘ میں ہوا کرتا تھا، اس کے سکرٹریٹ کی جانب ارسال فرمایا۔ابتداء میں اس کی مخالفت ہوئی لیکن علامہ اور بعض حامیوں کے اصرار کی وجہ سے ۱۹۶۳ء میں اس منصوبہ کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ اُس مرحلہ پر مذکورہ منصوبہ کو ا س انداز میں نافذ نہیں کیا جا سکا جیسا کہ مشورہ دیا گیا تھا لیکن ایک ابتدائی منصوبہ عمل میں لایا گیا۔ (۱۹۶۳ء میں ہی آپ نے مشرقی افریقا کی اکثر جماعتوں کا دورہ کیا اور مدارس کے نظام کو تقویت بخشنے اور اس کا جائزہ لینے کی تاکید کی اور اس دورہ کے نتیجہ میں آپ تمام مدارس (مذہبی اسکولوں) کے نصاب کو منظم کرنے میں بھی کامیاب ہوئے)۔ ۱۹۶۴ء میں سکرٹریٹ نے آپ کی تبلیغی تجویز پر ایک لائحہ عمل تیار کیا جسے افریقا کی خوجہ شیعہ اثنا عشری جماعتوں کے فڈریشن کی ’’ٹانگا‘‘ میں منعقد ہونے والی تین سالہ کانفرنس کے ایجنڈے میں شامل کیا گیا۔ اور اس طرح ’’بلال مسلم مشن‘‘ وجود میں آیا۔
اس دن سے علامہ رضویؒ نے اپنے تمام فارغ اوقات کو مذکورہ ادارے کے توسط سےتبلیغی کاموں میں صرف کرنا شروع کردیا۔ ۱۹۶۸ء میں تنزانیہ کے’’بلال مسلم مشن‘‘ کا رجسٹریشن ہوا۔ جب کام بہت بڑھ گیا تو مرحوم آیت اللہ سید محسن الحکیم(رحمۃ اللہ علیہ) (نجف، عراق) نے خوجہ شیعہ اثنا عشری جماعت سے کہا کہ وہ علامہ کو جماعت کی ذمہ داریوں سے بری کر دیں اور اس وقت سے آپ پوری طرح سےمقامی باشندوں میں تبلیغ حق میں مشغول ہوگئے۔
بلال مسلم مشن کی عالمی رسائی
رئیس المبلغین علامہ سید سعید اختر رضویؒ کی سربراہی میں بلال مسلم مشن کی زحمتوں کے نتیجہ میں ہزاروں افریقیوں نے مذہبِ تشیع قبول کر لیا۔ تعلیم، مطبوعات اور کورسپونڈنس کورس[2] (فاصلاتی تعلیم) کے ذریعہ آہستہ آہستہ اس مشن کی فعالیت کا دائرہ کار وسیع تر ہوتا گیا اور مشرقی ممالک میں تھائی لینڈ، انڈونیشیا اور جاپان کے ساتھ ساتھ مغرب کی جانب یورپ، امریکہ اور کریبین جزیرےبھی اس ادارے کی خدمات سے بہرہ مند ہونے لگے۔
اسلامی فاصلاتی تعلیم کے بلا واسطہ اثرات سے اب شیعہ قوم لطیف علی صاحب کے زیر نگرانی ’’گیانا‘‘ میں ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور لطیف صاحب ’’ٹرینیڈاڈ‘‘ اور ’’ٹوباگو‘‘ تک پیغام دین پہنچانے میں کامیاب ہوئے۔ علی صاحب جو کہ ۱۹۷۲ء میں شیعہ ہوئے ، ’’گیانا‘‘ میں تشیع کی ترقی کے دو اہم عناصر کو یوں بیان کرتے ہیں: علامہ رضوی، ایک انتہائی محنتی معلم اور لطیف علی ایک مشتہر کرنے والا۔
بلال مسلم مشن کا مبلغین کے لئے دار السلام میں ایک تربیتی مرکز (حوزہ علمیہ) ہےجس میں ایک وسیع و عریض خوابگاہ بھی ہے۔ نرسری، پرائمری اور سکنڈری اسکولوں کے ساتھ ساتھ قرآنی مدرسے ہیں اور معلمین کے لئے ایک تربیتی کالج بھی ہے۔ متعدد حوزات ہیں جہاں سے کئی طلاب فارغ التحصیل ہو کر قم، نجف، شام اور لبنان میں اسکالرشپ حاصل کر چکے ہیں۔ بلال مشن افریقی شیعوں کے لئےکئی خیراتی منصوبوں پر بھی کام کر رہا ہے۔
بلال مسلم مشن کی جانب سے تین فاصلاتی تعلیم کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے جس کے ذریعہ تشیع کی روشنی دور دور تک پہنچ چکی ہے۔ بلال مسلم مشن کی جانب سے سو سے زیادہ کتابیں انگریزی اور سواحلی میں شایع ہو چکی ہیں جن میں سے زیادہ ترحصہ علامہ رضویؒ کی کتابوں اور ان کے ترجموں کا ہے۔
بلال مسلم مشن کے شعبے کینیا (جس کی بنیاد تنزانیہ کے مشن کے ساتھ ہی رکھی گئی تھی)، برونڈی، مڈگاسکر، کنگو، راوندا اور موزامبیق میں بھی موجود ہیں۔تنزانیہ کے بلال مسلم مشن سے متاثر ہو کر اسی نام سے کئی اور اداروں کی بنیاد سنگال، نیجیریا، غانا، سویڈن اور امریکہ میں بھی رکھی گئی ہے۔
رئیس المبلغین علامہ سید سعید اختر رضویؒ کی سرپرستی و سربراہی میں ملک تنزانیہ میں ’’بلال مسلم مشن‘‘ نے بہت سی خدمات انجام دی ہیں جن میں چند مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ دارالسلام میں مدرسۂ اہل بیت ؑ کا قیام: یہ مدرسہ تین طبقوں پر مشتمل ایک عمار ت میں قائم ہے جہاں مختلف افریقی ممالک کے طلاب دینی علوم کی تعلیم و تحصیل میں مشغول ہیں۔
۲۔ خواب گاہ غدیرکا قیام: یہ عمارت مدرسہ ٔاہل بیت ؑ سے مربو ط ہے جس میں ۱۰۰ سے زائد طلاب قیام کرسکتےہیں۔
۳۔ شعبۂ خواتین: اس شعبہ میں ایک حصہ میں خواتین کا دینی مدرسہ ہے اور دوسرا حصہ سلائی سیکھانے، انگریزی اور ریاضی کی تعلیم دینے سے مربوط ہے۔
۴۔ علوم دینی کے تعلیمی کورس: یہ کورس تین حصوں پر مشتمل تھا؛ ایک حصہ سواحلی زبان میں اور د و حصے انگریزی میں ۔ یہ دورے مذہب اہل بیت ؑ کی تبلیغ و ترویج کے لئے بہت موثر تھے اور اس کے نتیجہ میں بہت سے افراد نے مذہب اہل بیت ؑ کو قبول کرلیا تھا یہاں تک کہ پورپ و امریکہ میں بھی ان دوروں کا اچھا استقبال ہوا تھا۔
۵۔ قیدیوں کے لئے تبلیغ: خود علامہ رضویؒ اور آپ کی طرف سے متعدد مبلغین قیدیوں کے پاس جاتے تھے اور انہیں اسلامی تعلیمات سے آشنا کیا کرتے تھے۔
۶۔ انگریزی زبان میں اسکول کا قیام: سنہ ۲۰۰۱ عیسوئی میں ’’ Bilal Comprehensive School‘‘ نام سے ایک اسکول کا قیام عمل میں آیا، آج بھی اس اسکول میں سینکڑوں بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں۔
۷۔ تربیت معلمین کے مرکز کا قیام؛ علامہ رضویؒ نے تنزانیہ میں معلمین حضرات کی تربیت و ٹرینگ کے لئے ایک مرکز قائم فرمایا تھا جو اب تنزانیہ کے تعلیمی شعبہ سے ملحق ہوگیا ہے۔
۸۔ آنکھوں کے علاج کا مرکز: اس ادارے میں ضرورتمندوں کے علاج کی خدمات انجام پاتی ہیں۔
۹۔ ضرورتمند شیعوں کے لئے گھر بنوانا: بلال مسلم مشن نے متعدد ضرورتمند افریقی شیعہ حضرات کے لئے گھروں کی تعمیر کا کام انجام دیاہے۔
۱۰۔ کتابوں کی نشر و اشاعت: تبلیغی میدان میں کتابوں کی نشر و اشاعت بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہے لہذا بلال مسلم مشن نے ابھی تک سینکڑوں کتا بوں کی طباعت اور نشر و اشاعت کا کام انجام دیا ہے، یہ کتابیں انگریزی اور سواحلی زبانوں میں ہیں اور ان میں سے زیادہ تر کتابیں خود علامہ رضویؒ کے ذریعہ سے تحریر کی گئی ہیں۔
۱۱۔ مجلات کی نشر و اشاعت: ادارۂ بلال مسلم مشن کی جانب سے دو مجلے شائع ہوتےہیں:
۱۔ مجلہ ٔالنور(The light): یہ مجلہ دو مہینہ میں ایک مرتبہ ’’انگریزی‘‘ زبان میں شائع ہوتا ہے ۔
۲۔ مجلۂ صدای بلال (sauti ya bilal): یہ مجلہ بھی دو مہینوں میں ایک مرتبہ ’’سواحلی‘‘ زبان میں شائع ہوتا ہے ۔
قابل ذکر ہے کہ علامہ رضویؒ کی افریقا میں تبلیغی خدمات اور بلال مسلم مشن کی ترقی و کامیابی میں آپ کے سب سے چھوٹے بیٹے مرحوم سید مرتضیٰ بھی اپنے والد گرامی کی ہمراہی کرتے رہے۔خاص طور پر علامہ ؒ کی زندگی کے آخری دس سالوں میں مرحوم سید مرتضیٰ، علامہؒکی طرف سے بلال مسلم مشن کے تحت مختلف علاقوں میں مبلغین کے اعزامی امور، ان کی مالی تعاون اور مشکلات کو حل کرنے میں ہمہ تن کوششیں کرتے رہے۔ اسی طرح علامہ ؒکی زندگی میں اور آپ کی زندگی کے بعدعلامہؒ اوربلال مسلم مشن کے کاموں کے سلسلےمیں مختلف جگہوں پر سفر کیا کرتے تھے۔ ۲۰۰۴ م میں ایران بھی تشریف لے گئے جہاں ایک ایکسیڈینٹ کی وجہ سے آپ شدید زخمی ہوگئے اور واپسی پر جب تک زندہ رہے،نامساعد صحت کے باوجود ہمت و حوصلہ سے کام کیا اور علامہؒ کے آثار کی حفاظت فرماتے رہے۔ خاص طورپر علامہ ؒ کی انگریزی اور سواحلی زبان کی کتابوں کی آمادگی اور نشر و اشاعت کی راہ میں مختلف خدمات انجام دیتے رہے۔
ہندوستان واپسی
۱۹۷۸ء میں علامہ رضویؒ مستقل قیام کی غرض سے ہندوستان واپس آئے جہاں آپ نے مرحوم علامہ محمد حسین طباطبائی(رحمۃ اللہ علیہ) کی تفسیر ’’المیزان‘‘ کا انگریزی میں ترجمہ شروع کیا۔ ابھی تک اس ترجمہ کی دس جلدیں شایع ہو چکی ہیں۔ اس مدت میں آپ علمی کارناموں کے علاوہ کئی خیراتی امور کے لئے بانی اور ذریعہ بھی بنے جن میں گوپالپور کی عید گاہ اور امام بارگاہ کی تعمیر ِنو اور مسجد کی مرمّت شامل ہے۔
علامہ رضویؒ ہندوستان میں زیادہ مدت تک مقیم نہیں رہ سکے اور دوبارہ تنزانیہ ہجرت کر گئے لیکن ہرگز انہوں نے اپنے وطن کو فراموش نہیں کیا؛ چنانچہ سنہ ۱۹۹۵ء میں آپ نے گوپالپور ہندوستان میں ’’بلال چیریٹیبل ٹرسٹ‘‘ قائم کیا۔ اس ٹرسٹ کی بنیاد رکھنے کا اصل مقصد ان تمام خیراتی امور کو منظم شکل دینا تھا جو خود علامہ کی جانب سے اور ان کے توسط سےکئی دہائیوں سے صوبۂ بہار میں انجام پارہے تھے۔ افریقا فڈریشن، الایمان فاؤنڈیشن ممبئی اور متعدد ممالک بالخصوص کینیڈا کے مومنین کرام عرصۂ دراز سے بلال چیریٹیبل ٹرسٹ کو تقویت بخشتے رہے ہیں۔ ابھی تک ۲۵ سے زائد مساجد اور امام بارگاہیں اور ۳۹ بے گھر افراد کے لئے گھروں کی تعمیر اس ٹرسٹ کی جانب سے کی جاچکی ہے۔ بلال چیریٹیبل ٹرسٹ ہی نے گوپالپور میں ’’المہدی انٹیٹیوٹ‘‘ کا قیام بھی کیا ہے جس کے تحت المہدی انگریزی میڈیم اسکول اور المہدی انسٹیٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی چل رہے ہیں۔ یہ سب ان بنیادی خیراتی امور کے علاوہ ہیں جن میں اس خطہ کے مستحق برادرانِ ایمانی کے لئے کھانے، کپڑے، شادی کے اخراجات اور علاج کی امداد فراہم کی جاتی ہے۔اس ٹرسٹ کی جانب سے بہار کے مختلف علاقوں میں آئی کیمپ [3]بھی قائم کئےجاتے ہیں۔
تنزانیہ واپسی
آپ ۱۹۸۶ء میں ایک مختصر دورہ کے لئےتنزانیہ واپس آئے لیکن تنزانیہ کے ’’بلال مسلم مشن‘‘ کی صورتِ حال نے آپ کو مجبور کر دیا کہ آپ وہاں مستقل طور پر قیام پذیر ہو کر اس کی نگرانی کریں اور مشن کی کارکردگی کو تقویت بخشیں۔ لہذا آپ نے اپنا مرکز ’’دار السلام‘‘ کو قرار دینے کا فیصلہ کیا اور اپنے وقت کو تنزانیہ، ہندوستان اور کینیڈا کے درمیان تقسیم کیا۔
۱۹۹۱ء میں ایران کے دار الحکومت تہران میں ’’اہل البیت ورلڈ اسمبلی‘‘ کی بنیاد رکھی گئی اور علامہ رضویؒ کو اسکی سپریم کونسل کے کمیٹی ممبر کے طور پر منتخب کیا گیا۔ ساتھ ہی آپ اہل البیت اسمبلی تنزانیہ، کے بانی اور چیئر مین بھی قرار پائے۔
مختلف ممالک میں تبلیغی سفر
علامہ رضویؒ نے مذہب تشیع کی تبلیغ کے میدان میں کبھی بھی اپنے آپ کو کسی خاص منطقہ اور ملک تک محدود نہیں رکھا، آ پ مختلف اسلامی سیمینار اور جلسات میں شریک رہتے تھے، آپ نے ایران، عراق، کینیڈا، امریکہ اور مشرقی افریقا کے ممالک تنزانیہ، کینیا وغیرہ جیسے تقریباً ۳۰ ممالک میں تبلیغی سفر انجام دیئے ۔
۸۰ کی دہائی کے آخر میں آپ کو شمالی امریکہ کے شہر نیویارک کے قریۂ مدینہ میں پہلا دینی حوزہ، (حوزہ ٔعلمیہ ولی عصرعج) قائم کرنے کے لئے مدعو کیا گیا ۔
۱۹۸۱ء میں آپ نے برطانیہ اور امریکہ کی جانب تبلیغی سفر کیا تھا جس کا اصلی مقصد ماہ رمضان میں تبلیغ دین تھا لیکن آپ نے موقع غنیمت جان کر انجمنِ وظیفہ سادات کے مرکزی دفتر سے ان شیعوں کی فہرست طلب کی جنہیں اعلیٰ تعلیم کے لئےقرض حسنہ دیا گیا تھا اور امریکہ میں ان کے حالات پوری طرح سے مستحکم ہونے کے باوجود انہوں نے قرض کی ادائیگی نہیں کی تھی۔ یہ کام آپ نے ان افراد سے رابطہ کر کے قرض لوٹانے کے مطالبہ کے لئے کیا تھا تاکہ اس رقم کے ذریعہ مستحق شیعہ طلاب کی مدد کی جا سکے۔
دسمبر ۱۹۸۲ء میں آپ امام صاحب الزمان ٹرسٹ کی دعوت پر لندن روانہ ہوئے۔ اسی دوران آپ نے مرحوم حجۃ الاسلام سید مہدی الحکیم کے ساتھ ورلڈ اہل البیت اسلامک لیگ ’’WABIL ‘‘قائم کرنے میں تعاون کیا؛آپ اس لیگ کے تین بنیادی ٹرسٹیوں میں سے تھے۔ آپ اس انتظامی کمیٹی کے ڈائریکٹر تھے جس نے’’ WABIL‘‘ کا دستور العمل بنایا تھا اور اسکی پہلی آئینی کانفرس کا انعقاد کیا تھا۔ اس کانفرنس کا انعقاد اگست ۱۹۸۳ء میں ہوا اور تاریخ تشیع میں پہلی بار کسی کانفرنس میں دنیا کے ۳۰ ممالک سے ۸۰ مہمانوں نے شرکت کی۔ اس کانفرنس میں علامہ رضویؒ کو دو سال کی مدت کے لئے’’ WABIL‘‘ کا ڈائریکٹر جنرل منتخب کیا گیا۔
۱۹۸۲ء۔۱۹۸۳ء میں آپ نے ریاستہائے متحدہ امریکہ اور کینیڈا کے تقریباً تمام بڑے شیعہ مراکز کا دورہ کیا اور آپ نے ٹورانٹو میں قائم ہونے والے پہلے شیعہ سمر کیمپ میں تقریریں بھی کیں۔
علامہ رضویؒ متعدد مرتبہ ایران کے سفر پر بھی تشریف لائے تھے اور یہاں بھی آپ فرصت ملتے ہی اپنی علمی خدمات کی تکمیل میں لگے رہتے تھے۔
علامہ کی تصنیفات اور مطبوعات
۱۹۴۹ء سے ۲۰۰۲ء تک علامہ رضویؒ نے مختلف موضوعات کی تقریباً ۱۲۵ کتابیں تحریر فرمائیں جو علم کلام سے ادیانی موازنہ تک، قانون سے لے کر اخلاقیات اور تاریخ تک، تفسیر سے حدیث تک، اردو شاعری سے لے کر علماء کے علمی کارناموں اور انکی سوانح حیات وغیرہ پر مشتمل ہیں۔
ان میں سے ۸۵ کتابیں انگریزی میں، ۳۲ اردو میں، ۱۲ عربی میں اور ۱۷ سواحلی میں ہیں اور ان تقریبا سبھی کتابیں نشر کی جا چکی ہیں [4]۔اپنی زندگی کے آخری ایام میں آپ اردو، انگریزی اور عربی میں کتابیں لکھنے میں مصروف تھے۔ آپ کی بعض کتابیں ۲۲ زبانوں میں ترجمہ کی گئی ہیں جن میں جاپانی، گجراتی، انڈونیزی، تھائی، برمیز، اردو، ہندی، سندھی، کشمیری، فارسی، سواحلی، حوسہ، شونہ، اطالوی، فرانسیسی، سویڈش، ترکی، بوسنی، عربی اور ہولنڈی زبانیں شامل ہیں۔
آپ کی علمی مہارت کا اندازہ اسلامی فاصلاتی تعلیم کے لئے لکھی گئی دوسری کتاب’’ گاڈ آف اسلام‘‘سے لگایا جاسکتا ہے۔ یہ کتاب ۱۹۷۱ء میں شایع ہوئی تھی۔ کتاب گاڈ آف اسلام کا موضوع پروردگار عالم کے وجود اور توحید پر مبنی ہے۔ اس کتاب کا علامہ طباطبائی کی کتاب ’’اصول فلسفہ‘‘ اور ’’روشِ رئالیزم‘‘ کی پانچویں جلد جس پر شہید مرتضی مطہری نے تفصیلی شرح لکھی اور جو ۱۹۷۵ء میں منظر عام پر آئی تھی، سے موازنہ کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ علامہ رضویؒ کو اسلامی الٰہیات پر کس درجہ مہارت حاصل تھی۔ دونوں کتابوں میں بحث کی بنیاد بہت مشابہ ہے مگر ان میں ایک نمایاں فرق یہ ہے کہ شہید مطہری کی شرح فلسفی انداز میں ہے اور اس میں فلسفی مباحث کے تاریخی ارتقا کو بیان کیا گیا ہے، جبکہ گاڈ آف اسلام میں علامہ کبھی بھی اپنے قارئین کو یہ احساس نہیں ہونے دیتے کہ وہ فلسفیانہ دائرہ ٔ مہارت میں قدم رکھ رہے ہیں۔ اور اسی سے علامہ رضویؒ کی کتاب کی خوبصورتی ظاہرہوتی ہے کہ آپ نے انتہائی پیچیدہ الٰہیاتی اور فلسفی بحث کو بے حد آسان اور سادہ الفاظ میں بغیر کسی اصطلاحاتی پیچیدگی کے پیش کر دیا۔
۱۹۷۲ءمیں حرمِ امام رضاؑ مشہد سے، نامہ آستانِ قدس(جلد ۹، شمارہ نمبر ۱۔۲)نے علامہ کی کتاب’’نبوت‘‘کے بعض حصوں کا فارسی ترجمہ شایع کیا۔ اس کے تعارفی نوٹ میں ایڈیٹر لکھتا ہےکہ:
’’متعدد ابواب میں انتہائی مفید اور دقیق موضوعات کو آسان زبان میں بیان کیا گیا ہے جس سے اس کی افادیت اور قارئین کی دلچسپی میں اضافہ ہوتا ہےلہذا ہم اس مفید کتاب کے بعض ابواب کا ترجمہ پیش کر رہے ہیں‘‘۔
امیرالمومنین علی ابن ابی طالبؑ کی امامت کے موضوع پر آپ کی کتاب جس کا عنوان ’’امامت:رسول(ص) کی خلافت‘‘ ہے ’’ورلڈ آرگنائزیشن فار اسلامک سرویسز‘‘ [5](WOFIS)کی جانب سے متعدد بار شایع کی جا چکی ہے اور دنیا بھر میں نشر ہوئی ہے۔ ڈاکٹر خلیل طباطبائی نے اپنے ایک بیان میں فرمایا تھا کہ:
’’علامہ رضویؒ کی کتاب، امامت اور اصولِ دین کے موضوعات پر دیگر کتب کے مقابلے میں، اپنے اختصار کے باوجودتمام اہم مباحث کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اور آپ کی کتابوں کو عربی زبان میں بھی فراہم کیا جانا چاہئے‘‘۔
انہوں نے مزید لکھا کہ :
’’ان موضوعات پر عربی کتابیں یا تو انتہائی مختصر ہیں یا بے حد طولانی‘‘۔
لہذا علامہ رضویؒ نے اس کتاب کا ترجمہ خود انجام دیا اور اسے ڈاکٹر طباطبائی نے ’’امام حسین ع فاؤنڈیشن‘‘ بیروت، کے ذریعہ ۱۹۹۹ء میں شائع کروایا۔
علامہ رضویؒ نے مرحوم محقق ودانشور آیت اللہ سید عبد العزیز طباطبائی کے ساتھ مل کرقم المقدسہ میں مرحوم آقا بزرگ تہرانی(رحمۃ اللہ علیہ)کی ۲۰ جلدوں پرمشتمل مجموعہ فہرست تصنیفات پر معرکۃ الآراء کتاب ’’الذریعہ‘‘ کی تصحیح اور تجدید کا کام بھی انجام دیا۔ علامہ رضویؒ نے ’’الذریعہ‘‘ کے پورے مجموعہ کا مطالعہ کیا اور عربی میں اس کتاب پر ایک ضمیمہ لکھا جس کے ہزار نوٹ اور ہزار نئے عناوین مرحوم علامہ طباطبائی(رحمۃ اللہ علیہ) نے اپنی کتاب ’’اضواء الذریعہ‘‘میں اضافہ کئے۔
علامہ رضویؒ کی ذات علمی خدمات کے لحاظ سےمراجع و بزرگان کے نزدیک بہت اہمیت کی حامل تھی چنانچہ ایک مرتبہ جب معالجہ کے لئے دفتر رہبر معظم کی درخواست پر ایران تشریف لائے اور حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای(حفظہ اللہ تعالیٰ)سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا تو انہوں نے آیت اللہ کاشف الغطاء کی کتاب ’’اصل الشیعۃ‘‘ کا سواحلی زبان میں ترجمہ کرنے کی تاکید فرمائی جس کو علامہ رضویؒ نے نہایت خوشی کے ساتھ قبول کیا اور عرض کیا کہ: ’’اب مجھ پر لازم و واجب ہوگیا ہے کہ میں اس کام کو انجام دوں‘‘۔
علامہ رضوی (ره) کی تصنیفات میں سے ’’خورشید خاور ‘‘ بھی ہے جس میں آپ نے ۳۵۰ سے زائد ہندوپاک سے متعلق علماء و مبلغین کا زندگی نامہ تحریر فرمایا اور ان کی مختصر خدمات اور ان کے آثار کا تعارف فرمایا۔
دنیا کی سات رائج زبانوں پر عبور
علامہ رضویؒ دنیا کی سات رائج زبانوں؛ اردو، فارسی، عربی، انگریزی، ہندی، گجراتی اور سواحلی پر عبور رکھتے تھے اور یہ بات آپ کی مذکورہ زبانوں میں تحریر یافتہ کتابوں سے بخوبی معلوم ہوتی ہے۔ مختلف زبانوں سے آشنائی حاصل کرنےکے بارے میں آپ دینی طلاب کرام کوبھی بہت زیادہ تاکید فرمایا کرتےتھے، آپ کی نصیحت تھی کہ’’ ایک طالبعلم کو اسلام اور مذہب تشیع کی تبلیغ کے لئے کم سے کم دنیا میں ایک رائج زبان پر تسلط حاصل ہونا چاہئے‘‘۔ آپ خود بھی جب تنزانیہ میں مشغول تبلیغ ہوئے تو آپ نے جاتے ہی درسی کتابیں خرید کر سواحلی زبان سیکھنا شروع کردیا اور اپنی عمر کے آخری ایام میں بھی آپ اسپینیائی زبان سیکھنے میں مشغول تھے۔
شوق شاعری اور مہارت
علامہ رضویؒ ایک زبردست شاعر بھی تھے، آپ نے اردو زبان میں بہت سے اشعار بھی کہے تھے، آپ کے اشعار کا مجموعہ’’کلیات تپش‘‘ نامی کتاب کی شکل میں شائع ہوا ہے۔
ہندوستان کے ایک مشہور ادیب جناب ’’مرحوم سید محمد نقوی‘‘، علامہ رضویؒ کے اشعار کہنے کےطرز و سلیقے کو اردو کےمشہور شاعر ’’میرزا غالب‘‘(خدائے سخن)جیسا جانتے ہیں؛ چنانچہ وہ اس بارے میں لکھتے ہیں کہ:
’’علامہ رضویؒ کے اشعار غالبؔ کے اشعار سے اتنے زیادہ ملتے جلتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے جیسے وہ غالبؔ کے اشعار ہی کا حصہ تھے جو پہلے شائع نہیں ہوئے ہیں اور اب تازہ ہمارے سامنے آئےہیں‘‘۔
نجف و قم کے بزرگ مراجع کرام سے اجازات
رئیس المبلغین علامہ سید سعید اختر رضوی ؒ اپنے بلند علمی مقام کی وجہ سے ہمیشہ مراجع کرام کے نزدیک خاص توجہ اور عنایات کے حامل تھے، آپ کو نجف اور قم کے 20 بزرگ مراجع کرام کی طرف سے نقل ِروایات و احادیث، قضاوت اور امور حسبیہ سے مربوط اجازات حاصل تھے، ان بزرگان میں حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ سید محسن حکیم، حضرت آیۃ اللہ العظمی ٰسید ابوالقاسم خوئی، حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ سید شہاب الدین مرعشی نجفی، حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ سید عبدالاعلیٰ سبزواری، حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ محمد علی اراکی، حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمد رضا گلپایگانی، حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ میرزا جواد تبریزی، حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ سید علی سیستانی اور حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ وحید خراسانی شامل ہیں۔
علامہ رضویؒ کا علمی مقام و منزلت مراجع اور بزرگ علما٫ کے نزدیک بہت بلند تھا، اس سلسلے میں متعدد شواہد مراجع کرام کے اجازات اور دیگر اقوال میں موجود ہیں۔ چنانچہ جب دارالسلام تنزانیہ کے شیعہ حضرات اپنی مشکلات کے حل یا مذہبی سوالات و احکام کے لئے مراجع کرام سے رجوع کرتے تھے تو مراجع کرام ان سےفرمایا کرتے تھےکہ:
’’جب تم لوگوں کے یہاں علامہ رضویؒ جیسی شخصیت موجود ہیں تو کیوں تم لوگ ہم سے رجوع کرتے ہو اور ان کے پاس نہیں جاتےہو ‘‘۔
اسی طرح افریقی شیعوں نے آیۃ اللہ العظمیٰ محسن حکیم(رحمۃ اللہ علیہ) اورآیۃ اللہ العظمیٰ خوئی (رحمۃ اللہ علیہ)سے پوچھا کہ ہم اپنے مذہبی مسائل کے لئے کس کی طرف رجوع کریں؟ تو انہوں نے الگ الگ جواب میں فرمایا کہ:
’’تم لوگ جناب سید سعید اختر رضوی کی طرف مراجعہ کرو اور جو کچھ وہ کہیں اسے قبول کرو‘‘۔
اپنے محبوب سے ملاقات کا سفر
علامہ رضویؒ ، ۸ ربیع الثانی ۱۴۲3ہجری قمری(مطابق20 جون ۲۰۰۲م) ، بروز پنجشنبہ، تقریبا ۷8 سال کی عمر میں جب آپ علامہ طباطبائی(رحمۃ اللہ علیہ) کی مشہورتفسیر’’المیزان‘‘ کے انگریزی ترجمہ میں مشغول تھے ، اسی موقع پر دماغی اٹیک آیا اور جب اسپتال لے جایا گیا تو آپ وہاں صرف ۱۲ گھنٹہ ہی زندہ رہے اور اس کے بعد اپنے گھروالوں، نجف و قم و ہندوستان اور دنیا کے علمی حلقوں، افریقا کے محروم و مظلوم شیعوں کواپنی جدائی کا غم دے کر اپنے محبوب حقیقی سے جاملے ۔ آپ اپنے وطن ثانی ’’دارالسلام‘‘ افریقا کے قبرستان میں مدفون ہیں۔
آپ کی اچانک ہونے والی وفات نے دنیائے تشیع اور خاص طور پر افریقی شیعوں کو بہت زیادہ رنج و غم میں مبتلا کردیا تھا اور دنیائے اسلام کے بزرگ مراجع کرام اور علمائے عظام اور دینی اداروں کی جانب سے موصول تعزیتی اور تسلیتی پیغامات سے معلوم ہوتا ہے کہ علمی حلقوں میں ایک عظیم شگاف پیدا ہوگیا ہے جیسا کہ آیۃ اللہ العظمیٰ مکارم شیرازی(حفظہ اللہ تعالیٰ) علامہ رضویؒ کی پربرکت زندگی کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے اپنے تسلیتی پیغام میں لکھتے ہیں کہ:
’’سعیداختر رضویؒ نے ایک پر برکت عمر افریقا کی محروم سرزمین پر مکتب اہل بیت ؑ کی تبلیغ، دین اسلام کی ترویج ، دینی طلاب کی تعلیم و تربیت اورحوزات علمیہ کے قیام میں گزاری ہے، مرحوم نے نہ صرف درس و تدریس اور منبر سے تبلیغی کام انجام دیے بلکہ اپنے مضبوط قلم اور دنیا کی سات زندہ زبانوں کے ذریعہ بھی بہت ہی قیمتی خدمات انجام دی ہیں‘‘۔
واضح رہے کہ علامہ رضویؒ کے چھوٹے بیٹے مرحوم سید مرتضیؒ اپنے والد گرامی کی اچانک رحلت کے بعد مجمع جہانی اہل بیت ؑ شعبۂ افریقا اور بلال مسلم مشن افریقا کی نمائندگی کرتے رہے اور اسی سلسلے میں انہوں نے متعدد بار ایران کا بھی سفر کیا تھا اور ۲۰۰۴ء قم میں ایک ایکسڈینٹ میں شدید زخمی بھی ہوگئے تھے جس کی وجہ سے تنزانیہ لوٹنے کے بعد کئی سال تک بیماری کی تکلیفیں برداشت کرتے رہے۔ مرحوم اس دوران بھی علامہ رضویؒ کے آثار کی حفاظت اور ان کے مشن کو آگے بڑھانے کے لئے کوشاں رہے اور آخرکار آپ بھی ۱۔مئی 2016ء(مطابق ۲۳ رجب المرجب، سنہ۱۴۳۷ ہجری) کو اس دارفانی سے کوچ کرگئے۔
(اللہ دونوں مرحوم کی خدمات کو قبول کرے اور ان کے درجات میں بلند ی عطا فرمائے)۔
تعزیتی پیغامات
جن مراجع کرام، علمائے عظام، بزرگان قوم و ملت اور اداروں کی جانب سے علامہ رضوی مرحوم کی رحلت کے موقع پر تعزیت نامہ موصول ہوئے ہیں، ان کے اسمائے گرامی مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ دفتر آیۃ اللہ العظمیٰ مرجع عالیقدر تشّیع حاج آقای سید علی سیستانی (مدظلہ العالی)۔
۲۔ دفتر آیۃ اللہ العظمیٰ مرجع عالیقدر تشّیع رہبر معظم حاج آقای سید علی خامنہ ای (مدظلہ العالی)۔
۳۔ دفتر آیۃ اللہ العظمیٰ مرجع عالیقدر تشّیع حاج آقای مکارم شیرازی (مدظلہ العالی)۔
۴۔ دفتر آیۃ اللہ العظمیٰ حاج آقای سید محمد سعید طباطبائی (مدظلہ العالی)۔
۵۔ حجۃ الاسلام محمد تقی ملبونی، مدیر کل اعزام مبلغ بہ خارج از کشور(سازمان فرہنگ ارتباطات اسلامی ایران)۔
۶۔ حجۃ الاسلام محمد رضا نور اللہیان، مشہد مقدس، ایران۔
۷۔ حجۃ الاسلام سید مرتضیٰ نوری، تہران۔
۸۔ حجۃ السلام آقای محمد تقی انصاریان، موسس انصاریان الطباعۃ و النشر، قم، ایران۔
۹۔ الحاج فدا حسین غلام حسین، ٹورنٹو، کینیڈا۔
۱۰۔ الحاج روشن داؤد ناصر(چیرمین ایمان فاؤنڈیشن و الایمان چیریٹیبل ٹرسٹ)، بمبئی۔
۱۱۔ الحاج محمد رضا، ٹرسٹی ایمان فاؤنڈیشن، بمبئی۔
۱۲۔ حجۃ الاسلام الحاج سید صفی حیدر، سکریٹری تنظیم المکاتب، لکھنؤ۔
۱۳۔ مجمع جہانی اہل بیت ؑ ، تہران ، ایران۔
۱۴۔ بلال مسلم مشن آف تنزانیہ، دارالسلام۔
۱۵۔ اسلامک ریپبلک نیوز ایجنسی، تہران(خود اس ایجنسی نے مسلسل کئی شخصیات کے تعزیتی پیغامات نشر کئے ہیں)۔
۱۶۔ مذکورہ تعزیتی پیغامات کے علاوہ ہندوستان، پاکستان،عراق، ایران وغیرہ سے بہت سے علمائے کرام نے بھی تعزیتی پیغامات ارسال کئے تھے۔
[1] Trustee
[2] Correspondence Course
[3] Eye camp
[4] البتہ اکثر و بیشتر کتابیں فی الحال کمیاب ہوگئی ہیں لہذا علامہ رضوی فاؤنڈیشن(بنیاد اختر تابان) کی جانب سےانہیں دوبارہ طبع و نشر کرنے پر کام کیا جارہا ہے۔
[5] World Organization for Islamic Services