فاطمہ زہراؑ کا درد دل اور خطبہ فدکیہ (23)
میراث فاطمهؑ اور دوہری پالیسی (2)
«… إذْ یقُولُ «وَ وَرِثَ سُلَیمانُ داوُدَ» وَ قالَ فیما اقْتَصَّ مِنْ خَبَرِ زَكَرِیا اِذْ قالَ: «فَهَبْ لی مِنْ لَدُنْكَ وَلِیاً یرِثُنی وَ یرِثُ مِنْ الِ یعْقُوبَ» وَ قالَ: «وَ اوُلُوا الْاَرْحامِ بَعْضُهُمْ اَوْلی بِبَعْضٍ فی كِتابِ اللَّـهِ» وَ قالَ «یوصیكُمُ اللَّـهُ فی اَوْلادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیینِ»، وَ قالَ «اِنْ تَرَكَ خَیراً الْوَصِیةَ لِلْوالِدَینِ وَ الْاَقْرَبَینِ بِالْمَعْرُوفِ حَقّاً عَلَی الْمُتَّقینَ». وَ زَعَمْتُمْ اَنْ لاحَظْوَةَ لی، وَ لااَرِثُ مِنْ اَبی، وَ لارَحِمَ بَینَنا، اَفَخَصَّكُمُ اللَّـهُ بِایةٍ اَخْرَجَ اَبی مِنْها؟ اَمْ هَلْ تَقُولُونَ: اِنَّ اَهْلَ مِلَّتَینِ لایتَوارَثانِ؟ اَوَ لَسْتُ اَنَا وَ اَبی مِنْ اَهْلِ مِلَّةٍ واحِدَةٍ؟ اَمْ اَنْتُمْ اَعْلَمُ بِخُصُوصِ الْقُرْانِ وَ عُمُومِهِ مِنْ اَبی وَ ابْنِ عَمّی؟ فَدُونَكَها مَخْطُومَةً مَرْحُولَةً تَلْقاكَ یوْمَ حَشْرِكَ. فَنِعْمَ الْحَكَمُ اللَّـهُ، وَ الزَّعیمُ(والغریم) مُحَمَّدٌ، وَ الْمَوْعِدُ الْقِیامَةُ، وَ عِنْدَ السَّاعَةِ یخْسِرُ الْمُبْطِلُونَ، وَ لاینْفَعُكُمْ اِذْ تَنْدِمُونَ، وَ لِكُلِّ نَبَأٍ مُسْتَقَرٌّ، وَ لَسَوْفَ تَعْلَمُونَ مَنْ یأْتیهِ عَذابٌ یخْزیهِ، وَ یحِلُّ عَلَیهِ عَذابٌ مُقیمٌ…».
«… اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: سلیمان داؤد کے وارث بنے (نمل، ۱۶) اور اللہ تعالیٰ نے زکریاؑ کا قصہ بیان کرتے ہوئے ان کی دعا نقل کی۔ زکریا نے عرض کی تھی: خدایا! مجھے اپنے پاس سے وارث عطا فرما جو میری میراث پائے اور آل یعقوب کا ورثہ پائے(مریم، ۶)۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اللہ کی کتاب میں رشتہ دار ایک دوسرے کی میراث کے زیادہ حقدار ہیں(انفال، ۷۵)۔ اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری اولادکے بارے میں حکم کرتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے(نساء، ۱۰)۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: اگر کوئی مرنے والا مال چھوڑ جائے تو وہ والدین اور قریبی رشتہ داروں کیلئے اچھائی کے ساتھ وصیت کرے، یہ پرہیزگاروں کی گردن پر ایک حق ہے(بقرہ، ۱۸۰)۔ اور تم نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ میراث میں میرا کوئی حق نہیں ہے اور میں اپنے باپ کی کوئی وراثت حاصل نہیں کر سکتی تو کیا اللہ نے میراث کے متعلق تم کو کسی آیت کے ساتھ مخصوص کیا ہے جس سے میرے والد کو مستثنیٰ کیا ہے؟!یا تمہارا خیال یہ ہے کہ دو ملت والے ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوتے۔ تو کیا میں اور میرے والد ایک ہی ملت پر نہیں ہیں؟! یا پھر تم لوگ قرآن کے عموم و خصوص کو میرے والد اور میرے چچا کے بیٹے(علیؑ) سے زیادہ جانتے ہو؟! اچھا! آج تم مہار اور پالان بندھے ہوئے ناقے کی طرح آمادہ فدک پرقبضے کرلو لیکن اس کے نتائج کا علم تمہیں قیامت میں ہو گا؛ جہاں خدا بہترین فیصلہ کرنے والا اور حضرت محمدؐ بہترین قیادت کرنے والے (ضامن و وکیل) اور قیامت بھی بہترین وعدہ گاہ ہے۔ “وہاں باطل پرست گھاٹے میں رہیں گے”(جاثیہ، ۲۷) ۔ اس وقت کی ندامت تمہیں کوئی فائدہ نہ دے گی۔ “ہر امر کیلئے ایک وقت مقرر ہے”(انعام، ۶۷) اور “عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گاکہ کس پر عذاب نازل ہو کر اسے رسوا کرے گا اور اس کے لیے دائمی عذاب مقرر ہو گا”((ہود، ۳۹-۴۰) …»۔
اہم پیغامات:
شہزادی کائناتؑ نے اپنے خطبہ فدک کے اس حصہ میں فدک کی ملکیت کے وارث ہونے کے بارے میں متعدد مطالب اور قرآنی آیات و دلائل کا ذکر فرمایا ہے جن میں سے بعض کے بارے میں گذشتہ قسط میں اشارہ کیا جاچکا ہے اور مابقیہ کی مختصر وضاحت یہاں پیش کی جارہی ہے:
۱۔ شہزادی کائناتؑ نے سب سے پہلے پیغمبروں اور انبیاء کے بارے میں مال و متاع کی وراثت کے بارے میں ذکر ہونے والی خصوصی آیات کا ذکر فرمایا تاکہ اس بات کو واضح کیا جاسکے کہ پیغمبروں کی اولاد بھی دنیاوی مال و متاع سے میراث پانے کی حقدار ہیں۔ اور تمہاری طرف سے پیش کی جانے والی جعلی حدیث کی کوئی حقیقت نہیں ہے بلکہ یہ واضح طور پر قرآنی آیات کے مخالف بھی ہے؛ آیات مندرجہ ذیل ہیں:
الف: «وَ وَرِثَ سُلَیمانُ داوُدَ»؛ اور سلیمان، داود کے وارث بنے (نمل، آیت16)۔
ب: «رَبِّ… فَهَبْ لی مِنْ لَدُنْکَ وَلیاً یرِثُنی وَ یرِثُ مِنْ آلِ یعْقُوبَ»؛ «پروردگار! … مجھے اپنے پاس سے ایک ولی عطا فرما جو میرا وارث بنے اور آل یعقوب سے بھی وراثت پائے» (مریم، آیت5-6)۔
مذکورہ دونوں آیات کے سیاق و سباق اور تفاسیر کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ یہاں مال ومتاع کو وراثت کی صورت میں پانا ہے۔ جناب سلیمانؑ، حضرت داودؑ کے وارث ہوئے یعنی ان کی حکومت اور ان کا مال انہوں نے میراث میں پایا ہے۔ نبوت اور علم نبی ؑمیراثی نہیں ہوتا ہے اور بلکہ خداوندعالم نبی یا امام کے وصی اور جانشین کو خود اپنی جانب سے عطا فرماتا ہے۔ اسی طرح جناب زکریاؑ اور جناب یحییؑ کے قصے میں بھی واضح طور پر آیا ہے کہ جناب زکریاؑ نے اظہار کیا کہ: مجھے اپنے موجودہ وارثین (جو میرے چچا کے بیٹے ہیں) کے سلسلے میں ڈر ہے (کہ کہیں یہ میرے لئے صالح وارث قرار نہ پائے اور باطل کا راستہ اپنا لے) اور میری زوجہ بھی عقیم ہے لہذا تو اپنے خاص لطف سے مجھے فرزند عطا فرما (مریم۔ ۵)۔ شہزادی کائناتؑ یہاں انبیاء کی میراث کے حوالے سے دو مثالیں پیش فرماکر بیان کرنا چاہتی ہیں کہ جب قرآن سے واضح طور پر ثابت ہے کہ نبی و رسول کی اولاد کو میراث ملنے کا حق ہے تو پھر کیوں میں جو پیغمبر ؐکی بیٹی ہوں وراثت سے محروم کردی جاؤں؟ قرآن کے اس وراثت کے قانون سے میرے اور گذشتہ پیغمبروں کی اولادوں میں کون سا فرق ہے جس کی وجہ سے تم نے جعلی حدیث پیش کردی؟ کیا اس حدیث کو جعل کرتے وقت تمہیں ان آیات کا خیال نہیں آیا؟۔
۲۔ شہزادی کائناتؑ نے مذکورہ آیات کے بعد میراث کے قرآنی قانون کے بارے میں مندرجہ ذیل تین عمومی آیات کو بیان فرمایا:
الف: «وَ اُولُو الأرْحامِ بَعْضُهُمْ أَوْلی بِبَعْضٍ فی کِتابِ اللهِ»؛ اللہ کی کتاب میں نسبی رشتہ دارمیراث کے حکم میں بعض دوسروں کے مقابلے میں ترجیح رکھتے ہیں۔ (احزاب، آیت ۶)۔
ب: «یوصِیکُمُ اللهُ فی أَوْلادِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَیینِ»؛ خدا تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں وصیت کرتا ہے کہ لڑے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے(نساء، آیت ۱۱)۔
ج: «إنْ تَرَکَ خَیراً الوَصِیَّةُ لِلْوالِدَینِ وَ الْأَقْرَبینَ بِالْمَعْرُوفِ حَقّاً عَلَی الْمُتَّقینَ»؛جب انسان اپنی موت کی علامات دیکھے تو اگر اس کے پاس کچھ ہو تو اسے اپنے والدین اور نزدیکی رشتہ داروں کے لیے نیکی کے ساتھ وصیت کرنی چاہیے، یہ متقین پر حق ہے۔ (بقرہ، آیت ۱۸۰)۔
مذکورہ آیات میں میراث کے عمومی قانون کو بیان کیا گیا ہے کہ تمام اولادوں کو اپنے باباؐ کی میراث پانے کا حق ہے اور اس سلسلے میں کسی باپ کو کوتاہی بھی نہیں کرنا چاہئے اس لئے کہ خداوندعالم نے اس کے بارے میں سفارش بھی کی ہے اور آخری آیت کی روشنی میں یہ صاحبان تقویٰ کے لئے ایک مکتوب حق ہے۔
۳۔ شہزادی کائنات ؑ نے مذکورہ آیات پیش کرنے کے بعد فرمایا: «فَزَعَمْتُمْ أَنْ لاحُظْوَةَ لِی وَ لا إِرْثَ لی مِنْ أَبی وَ لاْرَحِمَ بَیْنَنا»؛ کیا ان تمام آیات اور قرآن کے واضح فرامین کے بعد بھی تم نے گمان کرلیا کہ میرے لیے کوئی حصہ نہیں ہے اور میں اپنے باباؐ سے میراث نہیں پاؤں گی؟! یا میرے اور میرے باپ کے درمیان کوئی نسبت و رشتہ داری نہیں ہے!؟ تمام پیغمبروں کی اولاد اور تمام عام مسلمانوں کی اولاد کو میراث پانے کا حق ہے لیکن مجھے یہ حق حاصل نہیں ہے؟ اور تم نے کیسے سوچ لیا کہ میرے باباؐ قرآن کے ان واضح احکام و قوانین کے باوجود اپنی بیٹی کو میراث سے محروم کرکے گئے ہیں؟ اور اسی طرح تم نے کیسے میرے باباؐ کے ذاتی مال اور میری میراث کو ہڑپنے کے لئے قرآن کے مقابلے میں جعلی حدیث پیش کردی؟۔ یہاں شہزادیؑ نے فرمایا کہ یا تو تمہیں قبول کرنا ہوگا کہ قرآن کا یہ حکم میرے لئے نہیں ہے یا میں پیغمبرؐ کی بیٹی نہیں ہوں۔ تیسرا راستہ تمہارے پاس نہیں ہے۔ اور دوسری طرف تم سب تسلیم کرتے ہو کہ میں پیغمبر کی بیٹی ہوں اور قرآن کی آیات میں بھی وراثت کے حکم میں کوئی استثنا نہیں ہے۔ «أَفَخَصَّکُمُ اللهُ بِآیةٍ أَخْرَجَ أَبی مِنْها؟» کیا اللہ کی طرف سے تمہارے پاس کوئی خاص طور آیت آئی ہے جس میں میرے باباؐ کو مستثنیٰ کیا ہے۔ لہذا تم میرے حق کے غاصب ہو اور قرآن کے مقابلے میں جعلی حدیث پیش کرکے تم نے پیغمبرؐ ، قرآن اور میرے حق میں ظلم کیا ہے۔ اور ظالمین کو الہی امامت و خلافت حاصل نہیں ہوسکتی ہے۔
۴۔ شہزادی کائنات ؑ نے یہاں ایک دوسرے مسئلہ کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ: «أَمْ تَقُولُونَ إنَّ أَهْلَ مِلَّتَینِ لایَتَوارَثانِ؟ أَوَ لَسْتُ أَنَا وَ أَبی مِنْ أهْلِ مِلَّةٍ واحِدَةٍ؟» کیا تم یہ کہتے ہو کہ اگر دو لوگ دو مختلف مذاہب کے ہوں تو وہ ایک دوسرے سے وراثت نہیں پاتے۔ جی ہاں میں بھی اس بات کو تسلیم کرتی ہوں، لیکن: کیا میں اور میرے باباؐ ایک ہی دین پر نہیں ہیں؟ یعنی کیا تم مجھے مسلمان نہیں سمجھتے ہو؟ اگر اس بات کا گمان بھی تمہارے ذہنوں میں آگیا ہے تو جان لو کہ تم خود امت مسلمہ سے خارج ہوگئے ہو۔
۵۔ شہزادی کائناتؑ نے حق میراث کے بارے میں قرآنی دلائل اور مخالفین کے شبہات کے جواب کے بعد اس بات کو واضح فرما دیا کہ اگر تم میں سے کوئی اس بات کا گمان کرتا ہے کہ دین و قرآن کے بارے میں تم لوگ زیادہ جانتے ہو تو یہ تمہاری جہالت ہے۔ آپؐ یہاں پر سوالیہ انداز میں فرماتی ہیں کہ: «أَمْ أَنْتُمْ أَعْلَمُ بِخُصُوصِ الْقُرْآنِ وَ عُمُومِهِ مِنْ أَبی وَ ابْنِ عَمّی؟»؛ کیا قرآن کے خصوص اور عموم کے بارے میں تم میرے بابا اور میرے چچا کے بیٹے(علیؑ) سے زیادہ جانتے ہو؟ یعنی فدک کے غاصب کہہ سکتے تھے کہ میراث کے بارے میں قرآن میں بیان ہونے والی آیات میں عمومی حکم پایا جاتا ہے جو پیغمبرؐ کی حدیث کے ذریعہ خصوصی اور مستثنیٰ ہوگیا ہے۔ لہذا شہزادیؑ نے فرمایا کہ یہ جو حدیث تم پیش کررہے ہو یہ جھوٹی ہے اور قرآن کا عمومی حکم باقی ہے، یہاں کسی طرح سے کوئی تخصیص نہیں ہے۔اور کیا تم قرآن کی عمومی اور خاص آیات کے بارے میں تم لوگ میرے بابا اور علیؑ سے زیادہ جانتے ہو؟ جبکہ قرآن کا نزول ہی میرے باباؐ پر ہوا ہے اور آنحضرتؐ کے بعد علم ہی وہ ہیں جو قرآن کے بارے میں سب سے زیادہ علم رکھتے ہیں۔ قرآن کے تمام معارف و اسرار کو جانتے ہیں اور سب اس بات کا اعتراف بھی کرتے ہیں۔لہذا حدیث کے ذریعہ قانون میراث کی تخصیص ہوئی ہے یا نہیں اس کے بارے میں تم جانتے ہو لیکن میرے بابا اور میرے ابن عم علیؑ اس تخصیص سے بے خبر ہیں؟
۶۔ شہزادی حضرت فاطمہ زہراؑ، مخالفین کے غاصبانہ کارنامے اور ان کی حیثیت کو برملا اور نمایان کرنے کے بعد فرماتی ہیں کہ: «فَدُونَکَها مَخْطُومَةً مَرْحُولَةً تَلْقاک یوْمَ حَشْرِکَ فَنِعْمَ الْحَکَمُ اللهُ وَ الزَّعیمُ مُحَمَّدٌ وَ الْمَوْعِدُ الْقِیامَةُ وَ عِنْدَ السّاعَةِ ما تُخْسِرُونَ (یخْسَرُ الْمِبْطِلُونَ) وَ لاْینْفَعُکُمْ إذْ تَنْدَمُونَ «وَ لِکُلِّ نَبَأٍ مُسْتَقَرٌّ» «فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ مَنْ یأْتِیهِ عَذابٌ یُخْزیهِ» «وَ یَحِلُّ عَلَیهِ عَذابٌ مُقیمٌ»؛ اچھا! آج تم مہار اور پالان بندھے ہوئے ناقے کی طرح آمادہ فدک پر قبضہ کرلو لیکن اس کے نتائج کا علم تمہیں قیامت میں ہو گا؛ جہاں خدا بہترین فیصلہ کرنے والا اور حضرت محمدؐ بہترین قیادت کرنے والے (ضامن و وکیل) اور قیامت بھی بہترین وعدہ گاہ ہے۔ “وہاں باطل پرست گھاٹے میں رہیں گے” (جاثیہ، ۲۷)۔ اس وقت کی ندامت تمہیں کوئی فائدہ نہ دے گی۔ “ہر امر کیلئے ایک وقت مقرر ہے” (انعام، ۶۷) اور “عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گاکہ کس پر عذاب نازل ہو کر اسے رسوا کرے گا اور اس کے لیے دائمی عذاب مقرر ہو گا” (ہود، ۳۹-۴۰) …»۔
۷۔ شہزادی کائنات ؑ نےفدک کے مسئلہ پر اتمام حجت کرتے ہوئے قیامت سے مربوط چند آیات کا ذکر کر اپنے صبر کے اظہار کے ساتھ ساتھ، غاصبان فدک کے قیامت سے مربوط ایمان و عقیدے کو بھی واضح کردیا کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی حسابرسی، روز حشر، وہاں کے عذاب و نقصان پر ایمان نہیں رکھتے ہیں اور یا ان کا ایمان صرف ظاہری اور دکھاوا ہے ورنہ یہ لوگ ہم اہل بیتؑ کے حق میں اتنے مظالم نہ ڈھاتے اور ہمارے حقوق کو پائمال نہ کرتے لیکن آج ہم تو صبر کرلیں گے لیکن قیامت کے دن جب سارے حقائق کھلیں اور حساب و کتاب ہوگا تو ان کے ہاتھوں میں صرف پشیمانی آئے گی اور یہ لوگ ذلیل و خوار ہوکرسخت عقاب و عذاب میں مبتلا ہونگے۔
۸۔ شہزادی کائناتؑ نے قیامت اور اس سے مربوط جن آیات کی تلاوت فرمائی ہے وہ قوم حضرت نوحؑ و ہودؑ پر دنیاوی عذاب و ان کی ذلت کے بیان کے ضمن میں آئی ہیں۔ اسی طرح شہزادیؑ نے یہاں اپنے خطاب و بیانات میں جمع کی ضمیروں کا استعمال کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خطاب صرف اصلی غاصبوں سے نہیں تھا بلکہ ان کی نصرت و مدد کرنے اور اہل بیتؑ کے حقوق کی پائمالی کرنے والےتمام لوگوں سے تھا۔ اسی طرح شہزادیؑ نے ان آیات کے انتخاب سے اس بات کی پیش گوئی بھی فرمائی کہ تم لوگ قیامت میں تم تو عذاب و ذلت کا سامنا کروگے ہی لیکن دنیاوی لحاظ سے بھی رہتی تاریخ تک تمہیں عزت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا اور آج ہم شہزادیؑ کی اس خبر کو مسلمانوں کی حالت زار اور دنیا میں ذلت و خواری کی شکل میں دیکھ سکتے ہیں۔ یہ ذلت و خواری اسی شیطانی اعمال کا نتیجہ ہے جس کی بنیاد غاصبان حقوق اہل بیتؑ نے سقیفہ میں رکھی تھی اور مسلمانوں کو حقیقی اسلام کے راستے سے منحرف کیا تھا۔ حقیقت میں یہ حضرت زہراءؑکے عظیم علم اور آپ کے معجزات میں سے ہے کہ آپ ؑ نے مستقبل کے بارے میں اتنی دقیق پیشنگوئی فرمائی تھی۔