میراث فاطمهؑ اور دوہری پالیسی (1)
«… وَ اَنْتُمُ الانَ تَزْعُمُونَ اَنْ لا اِرْثَ لَنا أَفَحُكْمَ الْجاهِلِیةِ تَبْغُونَ، وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللَّـهِ حُكْماً لِقَومٍ یوقِنُونَ، أَفَلاتَعْلَمُونَ؟ بَلی، قَدْ تَجَلَّی لَكُمْ كَالشَّمْسِ الضَّاحِیةِ أَنّی اِبْنَتُهُ. اَیهَا الْمُسْلِمُونَ! أَاُغْلَبُ عَلی اِرْثی؟ یابْنَ اَبی قُحافَةَ! اَفی كِتابِ اللَّـهِ تَرِثُ اَباكَ وَ لااَرِثُ اَبی؟ لَقَدْ جِئْتَ شَیئاً فَرِیاً، اَفَعَلی عَمْدٍ تَرَكْتُمْ كِتابَ اللَّـهِ وَ نَبَذْتُمُوهُ وَراءَ ظُهُورِكُمْ…»
«… اور کیا تم نے یہ گمان کرلیا ہے کہ ہمارے لیے کوئی میراث نہیں ہے۔ کیا تم جاہلیت کا فیصلہ پسند کرتے ہیں جبکہ یقین رکھنے والی قوم کیلئے خدا سے بہتر فیصلہ کرنے والاکوئی نہیں ہے؟! کیا تمہیں قرآنی قانون کا علم نہیں ہے؟! کیوں نہیں۔ بے شک تم اس بات کو روز روشن کی طرح جانتے ہو کہ میں پیغمبر کی بیٹی ہوں۔ اے مسلمانو! کیا تم اس بات پر راضی ہو کہ میری میراث مجھ سے چھین لی جائے؟اور اے ابو قحافہ کے بیٹے! کیا اللہ کی کتاب میں ہے کہ تو اپنے باپ کی میراث پائے اور میں اپنے باپ کی میراث نہ پاؤں؟! تو نے یہ کیا ہی بری بات پیش کی ہے۔ کیا تم نے جان بوجھ کر اللہ کی کتاب کو چھوڑ دیا ہے اور اسے پس پشت ڈال دیا ہے؟».
اہم پیغامات:
شہزادی کائناتؑ نے اپنے خطبہ فدک کے اس حصہ میں غصب خلافت کے مسئلہ کے ساتھ غصب فدک کے بارے میں اہل سقیفہ کی متعدد توجیہات اور ناروا دلائل کا جواب دیا ہے؛ اس سلسلے میں یہاں چند مطالب کی وضاحت پیش کی جارہی ہے:
۱۔ فدک ایک علاقہ تھا جس میں متعدد باغات تھے جو جنگ خیبر کی فتح کے بعد یہودیوں نے بغیر کسی لڑائی کے پیغمبرؐ کے حوالے کردیا تھا اور یہ ملکیت کسی طرح سے اسلامی فتوحات کا حصہ نہیں تھی لہذا مسلمانوں کا اس میں کوئی حق نہیں تھا اور صرف پیغمبرؐ کی ذاتی ملکیت تھی اورجب آیت «وَ اتِ ذَا القُرْبی حَقَّهُ» نازل ہوئی، یعنی اپنے رشتہ داروں کا حق ادا کرو( اسراء، آیت۲۶) تو پیغمبر اکرم (ص) نے اپنی زندگی میں حضرت فاطمہ زہراءؑ بلاکر فدک کی ملکیت کو تحریری سند کے ساتھ آپؑ کے حوالے کردیا تھا۔ اس کے بعد پیغمبراکرمؐ کی رحلت تک یہ ملکیت حضرت فاطمہ زہراؑ کے ہاتھ میں تھی اور آپ کے کارکنان اس میں کام کرتے تھے اور اس ملکیت سے حاصل ہونے والی آمدنی غریبوں اور فقراء اور تمام ضرورتمندوں کے لئے خرچ کی جاتی رہی۔ فدک حکم الہی کے بعد پیغمبرؐ کی جانب سے اپنی بیٹی کو ملنے والا ایک ہدیہ و عطیہ تھا۔ جس کو غاصب حکمرانوں نے امام علیؑ کے حق خلافت کے ساتھ ساتھ اہل بیتؑ کو اقتصادی لحاظ سے کمزور کرنے کے مقصد سے غصب کرلیا گیا۔
۲۔ شہزادی کائنات حضرت فاطمہ زہراؑ نے غصب فدک کے خلاف آواز اٹھانے اور غاصبان فدک کے ظلم و ان کے غاصبانہ کارناموں کو برملا کرنے کے مقصد سے احتجاج کیا۔ سب سے پہلے پیغمبراکرمؐ کی جانب سے اپنے لئے فدک کے عطیہ و ہدیہ ہونے کے کا مسئلہ پیش فرمایا جس پر گواہ طلب کئے گئے تو آپؑ نے معصوم ہستیوں جیسے امام علیؑ، امام حسن ؑ اور امام حسینؑ کو گواہ کے عنوان سے پیش فرمایا جن کی گواہی کو قبول نہیں کیا گیا تو شہزادیؑ نے پیغمبراکرمؐ کو خود آپ کے والد حضرت عبداللہ سے میراث میں ملنے والی کنیز “ام ایمن” کو پیش کیا گیا لیکن ان کی بھی گواہی کو قبول نہیں کیا گیا۔ جب ان تمام گواہیوں کو قبول کرنے سے انکار کردیا تو حضرت فاطمہ زہراؑ نے آیات قرآنی سے قانون میراث کے ذریعہ اپنے لئے فدک کے “میراث” ہونے کے مسئلہ کو ثابت فرمایا اور مخالفین کے متعدد شبہات کا بھی جواب دیا۔
۳۔ حضرت فاطمہ زہراؑ نے سب سے پہلے قرآن سے میراث کے عمومی حق کے بارے میں فرمایا کہ: «وَ أَنْتُمْ تَزْعُمُونَ أَنْ لا إِرْثَ لَنا۔ أَفَحُکْمُ الْجاهِلِیةِ تَبْغُونَ؟ وَ مَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللهِ حُکْماً لِقَوْمٍ یوقِنُونَ، أَفَلا تَعْلَمُونَ؟ بَلی قَدْ تَجَلّی لَکُمْ کَالشَّمْسِ الضّاحِیةِ أَنِّی ابْنَتُهُ اَیهَا الْمُسْلِمُونَ أَاُغْلِبَ عَلی إِرْثی؟»؛ اب تم یہ گمان کرنے لگے ہو کہ ہمارے لیے میراث نہیں ہے۔ کیا وہ جاہلیت کا فیصلہ پسند کرتے ہیں اور یقین رکھنے والی قوم کیلئے خدا سے بہتر فیصلہ کرنے والا کون ہو سکتا ہے؟! کیا تمہیں علم نہیں؟! کیوں نہیں بے شک تم جانتے ہو اور تمہارے لیے یہ امر آفتاب نصف النہار کی طرح واضح ہے کہ میں پیغمبر کی بیٹی ہوں۔ اے مسلمانو! کیا تم اس بات پر راضی ہو کہ میری میراث مجھ سے چھین لی جائے؟۔ ان جملات میں حضرت فاطمہ زہراؑ نے اپنے مخاطبین کی سرزنش کرتے ہوئے فرمایا کہ تم نے اس بات کا کیسے گمان کرلیا کہ میرے لئے میرے بابا کی کوئی میراث نہیں ہے۔ کیا تم زمانہ جاہلیت کی طرح کوئی بھی قانون بنا لوگے؟ یاد رکھو! صرف اللہ کا قانون ہی سب سے بہتر ہے اور اس بات کو اہل یقین اچھی طرح جانتے ہیں۔ اس کے بعد شہزادیؑ نے فرمایا کہ: تم تو اس بات کو روز روشن کی طرح جانتے ہو کہ میں ہی رسول اکرمؐکی تنہا بیٹی ہوں اور میرے بابا کی میراث میں میرا حق ہے۔ لیکن کیا پھر بھی تم چاہتے ہو کہ میں اپنے “حق میراث” کا مطالبہ چھوڑ دوں اور مغلوب ہوجاؤں؟۔ یہاں پر شہزادی ؑ نے فرمایا “أَنِّی ابْنَتُهُ” میں آنحضرت ؐ کی بیٹی ہوں۔ یہ جملہ شہزادیؑ کے تنہا وارث پیغمبرؐ ہونے پر بھی دلالت کرتا ہے اور خاص طورپر شہزادیؑ یہاں فدک کی ملکیت کے تنہا وارث ہونے کی بات کو بیان فرما رہی ہیں اوراس گمان و خیال کو بھی ردّ کررہی ہیں کہ پیغمبرؐ کی رحلت کے بعد آنحضرت ؐکی زوجات بھی تو ہیں ان کو بھی میراث ملنا چاہئے تھا۔ لیکن شہزادی ؑ یہاں اسلامی قانون وراثت اور احادیث کی طرف بھی اشارہ فرما رہی ہیں کہ شوہر کی میراث میں سے زوجہ کو غیرمنقولہ چیزوں جیسے کھیتی باڑی کی زمین و ملکیت سے میراث نہیں ملتی ہے۔ لہذا یہاں پیغمبرؐ کی متعدد ازواج کے بعد بھی فدک کی ملکیت کی تنہا وارث بس فاطمہؑ ہے۔
۴۔ حضرت فاطمہ زہراؑ اپنے حق میراث کے ناروا طور پر غصب کئے جانے کے اعلان و اظہار کے بعد غاصبان اصلی کو مخاطب کرتی ہیں اور فرماتی ہیں کہ: «یابْنَ أَبی قُحافَةَ أَفی کِتابِ اللهِ أَنْ تَرِثَ أَباکَ وَ لاأَرِثَ أَبی؟» اے ابوقحافہ کے بیٹے ! کیا تو نے قرآن میں پڑھا ہے کہ تم اپنے باپ کی میراث پاؤ لیکن میں اپنے بابا کی میراث نہ لوں؟ یہاں شہزادی فاطمہ زہراؑنے مسلمانوں اور غاصبان فدک کے دوہرے رویے اور ان کی دوہری پالیسی کا ذکر فرمایاکہ ہم پر لازم ہے کہ ہم احکام اور قوانین الہی کو قرآن سے معلوم کریں لہذا تم خود بتاؤ کہ قرآن نے میرے اور تمہارے درمیان وراثت کے معاملے میں کوئی فرق رکھا ہے؟ یعنی اگر معیار اللہ کی کتاب کو قرار دیا جائے تو اس میں تومیرے اور تمہارے درمیان وراثت میں کوئی فرق نہیں ہے اور ہر اولاد کو اپنے باپ سے وراثت پانے کا حق ہے۔ یہاں غاصبان فدک کہہ سکتے تھے اور جیسا کہ انہوں نے پلاننگ کے تحت ایک جھوٹی حدیث بناکر کہا بھی کہ “ہم تو حدیث پیغمبرؐ کے مطابق عمل کررہے ہیں کہ آنحضرت ؐ کو ہم نے فرماتے ہوئے سنا کہ : ہم گروہ انبیاء نہ ہی میراث پاتے ہیں اور نہ ہی اپنے بعد کے لئے میراث چھوڑ کرجاتے ہیں” ۔ شہزادی ؑ نے یہاں بھی اور آئندہ بیانات میں ان لوگوں کے اس دعوے کو ردّ کیا ہے اور فرمایا کہ: «لَقَدْ جِئْتَ شَیْئاً فَرِیّاً» تم نے قانون قرآنی کے مقابلے میں ایک جھوٹی بات کا سہارا لیا ہے۔ یہاں لفظ “فری” کا استعمال ہوا ہے جس کے معنی واضح اور روشن ہوتے ہیں یعنی تم نے بہت ہی واضح طور پر جھوٹ بولا ہے۔ اس کے بعد شہزادیؑ نے پھر فرمایا کہ: «أَفَعَلی عَمْدٍ تَرَکْتُمْ کِتابَ اللهِ وَ نَبَذْتُمُوهُ وَراءَ ظُهُورِکُمْ؟»؛ کیا تم نے جان بوجھ کر اللہ کی کتاب کو چھوڑ دیا اور اس کے قوانین سے منھ موڑ لیا ہے۔ یہاں مراد شاید یہ ہے کہ تمہاری خودساختہ باتیں اور تمہاری طرف سے پیش کی جانے والی جعلی اور من گھڑت حدیث سراسر قرآنی قانون میراث کے خلاف ہے۔ اور یہ یا تو تمہاری بے شعوری اور بے خبری کی بھی دلیل ہے یا تم نے سب جانتے سمجھتے ہوئے قرآنی آیات کے خلاف ایک حدیث بنا لی ہے۔
۵۔ شہزادی کائنات ؑ نے غاصبان فدک کے مقابلے میں ، ان کی طرف سے پیش کی جانے والی جعلی حدیث کا جواب قرآن کی متعدد آیات سے دیا ہے۔ جس میں سب سے پہلے ان آیات کو پیش فرمایا جن میں اس بات کا بیان کیا گیا ہے کہ اللہ کے تمام پیغمبر اور رسول خود بھی مالی میراث پاتے ہیں اور ان کی اولاد بھی میراث پاتی ہیں۔ اس کے بعد قانون میراث کے حوالے سے عمومی آیات کو بیان فرمایا اور واضح کردیا کہ جب قرآن کی روشنی میں پیغمبروںؐ اور تمام انسانوں کی اولادوں کے لئے میراث کا مسلّم حق ہے تو مجھے کیوں میراث سے محروم کیا گیا اور کیوں ایک جھوٹی اور جعلی حدیث کو پیش کیا جارہا ہے؟۔
خلاصہ یہ ہے غاصبان فدک نے قرآن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حضرت فاطمہ زہراؑ سے فدک کی ملکیت کو غصب کرلیا تھا اور شہزادیؑ نے اس مسئلہ میں پرزور احتجاج کرتے ہوئے اپنے حق کا مطالبہ فرمایا اور ساتھ ہی ساتھ حکومت و خلافت اسلامی پر غاصبانہ اور ظالمانہ طور پر قبضہ کرنے والوں کو بے نقاب کردیا اور واضح کردیا ہے کہ فدک تو دور کی بات ہے خلافت و حکومت بھی ان کا حق نہیں ہے اس لئے کہ رسولؐ کی خلافت و حکومت پر فائز ہونے والا شخص صرف معصوم ہوسکتا ہے کسی بھی ظالم و غاصب کو اس پر بیٹھنے کا حق نہیں ہے۔ یہ قرآنی آیات کی واضح طور پر خلاف ورزی ہے۔
یاد رہے کہ آئندہ قسط میں شہزادیؑکی جانب سے پیش کی جانے والی آیات اور متعدد وضاحتی مطالب کا ذکر کیا جائے گا۔