خصوصیات قرآن (3)
«… وَ عَزائِمُهُ الْمُفَسَّرَةُ وَ مَحارِمُهُ الْمُحَذَّرَةُ وَ بَیِّناتُهُ الْجالِیةُ وَ بَراهِینُه الْکافِیةُ وَ جُمَلُهُ الشّافِيَةُ وَ فَضائِلُهُ الْمَنْدُوبَةُ وَ رُخَصُهُ الْمَوْهُوبَةُ وَ شَرائِعُهُ الْمَکْتُوبَةُ…»
«…اور اس کے ذریعہ احکام حتمی (واجبات) کی تفسیر اورمحرمات الہی جن سے ڈرایا(منع کیا) گیا ہے ان تک پہنچا جاسکتا ہے ۔ اور اس کے ذریعہ سے روشن اور کافی (ضروری)دلائل تک پہنچاجاسکتا ہے۔ اس کے جملات شفا بخش ہیں ۔ اس کے ذریعہ مستحب فضائل اور مباح کئے ہوئے حلال امور اور مکتوب و مقررہ شریعت کا چلتا ہے…»۔
اہم پیغامات:
حضرت فاطمہ زہراؑ نے اپنے خطبہ میں قرآن کی متعدد صفات اور خصوصیات کا ذکر فرمایا تھا ان میں سے بعض کا ذکر گذر چکا ہے اور بقیہ اوصاف کو مذکورہ ترتیب کے اعتبار سے آج کی تحریر میں بیان کیا جارہا ہے:
12سے 15۔ قرآن میں واجبات و محرمات، مستحبات و مباحات کا ذکر آیا ہے؛ قرآن مجید میں بہت سے واجبات اور محرمات الہی اور اسی طرح مستحبات و مباحات کا ذکر آیا ہے جن کی تفصیل و توضیح کو احادیث و روایات کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے۔ قرآن میں ذکر ہونے والے ان احکام کی متعدد انواع و اقسام بھی بیان ہوئی ہیں جن میں سے کچھ کا تعلق اعتقادی امور سے ہے اور کچھ عملی مسائل سے متعلق ہیں۔ اسی طرح کچھ ایسے امور و مسائل بھی ہیں جن کا تعلق انسان کے اخلاق و کردار سے ہے۔ بعض کتابوں کے مطابق قرآن مجید میں ذکر ہونے والے واجبات و محرمات سے مربوط تقریبا ۵۰۰ آیات ہیں۔ یہاں اس سلسلے میں تفصیل سے بیان کی گنجائش نہیں ہے لیکن اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ انسان کے لئےالہی احکام و مسائل میں انتخاب کا حق نہیں ہے کہ جو اپنی پسند کے مطابق ہو ان کو مانیں گے اور ان پر عمل کریں اور جو ناپسند ہوں ان کا انکار کردیں گے اور ان پر عمل نہ کریں گے۔ اس طرح کرنےوالے بہت نقصان و خسارے میں رہیں گےجیساکہ ارشاد ہوتا ہے کہ: « أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ فَمَا جَزَاءُ مَنْ يَفْعَلُ ذَلِكَ مِنْكُمْ إِلَّا خِزْيٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يُرَدُّونَ إِلَى أَشَدِّ الْعَذَابِ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ»؛ کیا تم کتاب کے ایک حصّہ پر ایمان رکھتے ہو اور ایک کا انکار کردیتے ہو. ایسا کرنے والوں کی کیا سزاہے سوائے اس کے کہ زندگانی دنیا میں ذلیل ہوں اور قیامت کے دن سخت ترین عذاب کی طرف پلٹاد یئے جائیں گے . اور اللہ تمہارے کرتوت سے بے خبر نہیں ہے۔ (بقره، آیت۸۵)۔ اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو بھی حکم دیا ہے اور اس کو واجب یا مستحب قرار دیا ہے اس میں خود انسان ہی کا فائدہ ہوتا ہے ۔ اسی طرح جس کام اور جس بات سے منع کیا ہے اس میں انسان ہی کا نقصان ہوتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : «إِنْ تَجْتَنِبُوا كَبَائِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَنُدْخِلْكُمْ مُدْخَلًا كَرِيمًا»؛ اگر تم بڑے بڑے گناہوں سے جن سے تمہیں روکا گیا ہے پرہیز کرلو گے تو ہم دوسرے گناہوں کی پردہ پوشی کردیں گے اور تمہیں باعزّت منزل تک پہنچادیں گے۔ (سورہ نساء، آیت۳۱)
واضح رہے کہ شہزادیؑ کے بیانات کی ترتیب کے لحاظ سے قرآن کے ذریعہ واجبات و محرمات تک پہنچنے کی بات کے ذکر کے بعد کچھ دیگرخصوصیات کا ذکر آیا ہے اس کے بعد قرآن کے ذریعہ مستحبات الہی و مباحات تک بھی پہنچنے کی بات بیان ہوئی ہے لیکن یہاں اس تحریر میں چاروں باتوں کی وضاحت ایک ساتھ پیش کردی گئی ہے۔ البتہ اس مقام پر خطبہ فدکیہ کے ان جملات کی ترتیب میں متعدد نسخوں میں اختلاف بھی پایا جاتا ہے۔
16-17۔ قرآن کے بیّنات و براہین روشن اور کافی ہیں؛ قرآن کے دلائل و بینات و براہین کے حوالے سے توضیح گذشتہ بحث میں ذکر ہوچکی ہے لہذا یہاں دوبارہ بیان کرنےکی ضرورت نہیں ہےلیکن اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ شہزادیؑ نے واجبات و محرمات کے ذکر کے بعد اور اس کے بعد مستحبات اور مباحات کے ذکر سے پہلے قرآن بینات و براہین و دلائل کے روشن اور کافی ہونے کا ذکر فرماکر شاید اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ الہی احکام جو بھی ہوں وہ بہترین حکمت اور فلسفے کے مطابق ہیں۔ انسان ہی کے فائدے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو رکھا ہے۔ اور ان کے لئے روشن و واضح دلائل بھی موجود ہیں۔
اسی طرح “وَ بَراهِینُه الْکافِیةُ” یعنی قرآن کے براہین اور دلائل کافی ہیں۔ اس کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ قرآن مجید کی طرف رجوع کرنے والوں کے لئے احکام و معارف الہی کے لئے کافی اور ضروری مقدار میں دلائل پائے جاتے ہیں۔ بس شرط یہ ہے کہ صحیح طریقے سے رجوع کیا جائے اور قرآن کے حقیقی عالم و حامل کے دروازے پر آیا جائے اور وہ صرف اہل بیت اطہارؑ کی ذات ہے۔
18- قرآن کے جملات شفابخش ہیں؛ قرآن مجید ظاہری اور باطنی امراض کے لئے شفابخش کتاب ہے۔ اس سلسلے میں بہت سی روایات بھی بیان ہوئی ہیں اور قرآن سے شفاحاصل کرنے کے بہت سے شواہد موجود ہیں۔ اور خاص طور پر قرآن انسان کے باطنی اور قلبی امراض کے لئے تو واضح طور پر شفابخش کتاب ہے جیسا کہ خود ارشادہوتا ہے کہ: «يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُمْ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَ شِفَاءٌ لِمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ» اے لوگو!تمہارے پاس پروردگار کی طرف سے نصیحت اور دلوں کی شفا کا سامان اور ہدایت اور صاحبانِ ایمان کے لئے رحمت قرآن آچکا ہے۔( یونس، آیت۵۷)۔ اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے کہ: «وَ نُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ ما هُوَ شِفاءٌ وَ رَحْمَه لِلْمُؤْمِنِینَ» ؛ اور ہم قرآن میں وہ سب کچھ نازل کررہے ہیں جو صاحبان ایمان کے لئے شفا اور رحمت ہے ۔(سوره اسراء، آیه82)۔ قرآن کے شفا ہونے کا ذکر احادیث میں بھی متعدد مقامات پر آیا ہے جیسا کہ ایک مقام پر حضرت امام علیؑ فرماتے ہیں: “اس کتاب کے ذریعہ اپنی بیماریوں میں شفا طلب کرو، اور اپنی مشکلات میں اس سے مدد مانگو کیوں کہ یہ کتاب بڑی بیماریوں کے لئے علاج ہے”۔(نهج البلاغه، خطبه ۱۷۶)۔
19- قرآن میں شریعت کابیان ہے؛ قرآن مجید میں الہی شریعت کا ذکر ہے ۔ شریعت یعنی تمام وہ امور جو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں نازل کئے ہیں اور اپنے پیغمبرؐ کے اقوال و افعال کے ذریعہ لوگوں تک پہنچایا ہےبلکہ آپؐ کی ذات کو مجسمہ شریعت بناکر بھیجا ہے۔حدیث میں آیا ہے کہ آنحضرتؐ نے فرمایا: «الشَّریعَةُ اَقْوَالی و الطَّریقَةُ أفعالی و الحقیقَةُ أحوَالِی و المَعْرِفَةُ رَأسُ مالِی وَ العَقْلُ أصْلُ دینی وَ الحُبُّ أسَاسِی وَ الشَّوْقُ مَرکَبِی و الخَوْفُ رَفیقی و العِلْمُ سِلاحِی و الحِلْمُ صاحِبی و التَّوکُّلُ زادی و القناعةُ کَنْزِی وَ الصِّدْقُ مَنْزِلی و الیَقینُ مَأوایَ والفَقْر فَخْرِی وَ بِهِ أفتَخِرُ علی سائِرِ الأنبیاءِ وَ المُرْسَلِین»؛ میری گفتار شریعت ہے۔ میرے افعال طریقت ہے اور میرے حال و احوال حقیقت ہے ۔ میرا سرمایہ حق کی شناخت ہے۔ عقل میرے دین کی اصل ہے۔ خدا کی محبت میری بنیاد ہے۔ حق کا شوق رکھنا میری سواری ہے۔ خدا کا خوف میرا ساتھی ہے۔ علم میرا اسلحہ ہے۔ صبر میرا ساتھی ہے۔ اللہ پر بھروسہ کرنا میرا زاد راہ ہے۔ قناعت میرا خزانہ ہے۔ صداقت میری منزل ہے۔ خدا پر یقین میری پناہ گاہ ہے۔ فقر و غریب ہونا میرے لئے فخر کا سبب ہے اور اس کے ذریعہ میں تمام پیغمبروں اور رسولوں پر افتخار کرتا ہوں۔ (تحف العقول، ح ۲۷۹)۔