توحید کی گواہی
«… وَ اَشْهَدُ اَنْ لااِلهَ اِلاَّ اللَّـهُ وَحْدَهُ لاشَریكَ لَهُ، كَلِمَةٌ جَعَلَ الْاِخْلاصَ تَأْویلَها، وَ ضَمَّنَ الْقُلُوبَ مَوْصُولَها، وَ اَنارَ فِی التَّفَكُّرِ مَعْقُولَها، الْمُمْتَنِعُ عَنِ الْاَبْصارِ رُؤْیتُهُ، وَ مِنَ الْاَلْسُنِ صِفَتُهُ، وَ مِنَ الْاَوْهامِ كَیفِیتُهُ… »
میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اسکا کوئی شریک نہیں ہے۔ توحید وہ كلمہ ہےكہ اخلاص كو اس كى روح اور حقیقت قرار دیا گیا ہے اور اسی توحید کی گواہی و ادراک کو دلوں میں جاگزین فرمایا۔ اور اسی کلمہ کے ادارک سے فکروں کو روشنی بخشی۔ خدا وہ ہے جس كو آنكھ كے ذریعہ دیكھا نہیں جاسكتا اور زبان كے ذریعہ اس كى وصف اور توصیف نہیں كى جاسكتى اور وہم و خیال اس کو درک کرنے سے عاجز ہیں۔
اہم پیغامات:
حضرت فاطمہ زہراؑ نے اپنے عظیم خطبہ فدکیہ میں نعمات الہی پر حمد و شکر کے بعد توحید کی گواہی اور شرک سے بے زاری اور توحید کی گواہی میں کلمہ اخلاص کے کردار اور اس کی اہمیت کا ذکر فرماتے ہوئے ذات الہی کے سلسلے میں متعدد اہم باتوں کا ذکر کیا ہے؛ یہاں چند مطالب کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے:
۱- حضرات معصومینؑ کی سیرت اور سنت رہی ہے کہ آپ حضراتؑ جب بھی کوئی خطبہ لوگوں کے سامنے بیان فرماتے تھے تو اس کی ابتداء اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور اس کی وحدانیت کی گواہی سے فرماتے تھے ۔ اس بات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ جو حقیقی نعمت دینے والا ہے اس کی معرفت اور توحید کا اقرار کرنا بہت اہمیت کا حامل ہے اور انسان اسی اقرار اور معرفت کے نتیجے میں عملی طور پر بھی توحید کے مرحلہ تک پہنچتا ہے اورزندگی میں اس کے آثار و برکات کا مشاہدہ کرتا ہے۔
۲۔ کلمۂ توحید ہی ہے جس کی بنیاد پر خداوندعالم نے تمام انسانوں کو خلق کیا ہے جیسا کہ حدیث میں بیان ہوا ہے کہ: « فَطَرَهُمْ عَلَى التَّوْحِيدِ عِنْدَ الْمِيثَاقِ عَلَى مَعْرِفَتِهِ أَنَّهُ رَبُّهُمْ» اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو توحید کی بنیاد پر خلق کیا ہے جب ان سے اپنے ربّ ہونے کی معرفت کا اقرار لیا تھا(بحارالانوار، ج۳، ص۲۷۸)۔ اور یہ وہ اقراروہی ہے جس کو قرآن مجید نے “عہد الست” کے عنوان سے بیان کیا ہے(سورہ اعراف، آیت۱۷۲)۔
۳۔ تمام الہی پیغمبروں اور رہبروں اور اللہ کے دین کا اصلی اور بنیادی نعرہ بھی یہی”توحید” ہے اور سب نے اسی توحید کی تبلیغ فرمائی اور غافل اور بھولے بھٹکے لوگوں کو اسی توحید کو یاد دلانے کے لئے زحمات برداشت کیں جیسا کہ قرآن مجید کا ارشاد ہے کہ: «وَ ما أَرْسَلْنا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ إِلاَّ نُوحي إِلَيْهِ أَنَّهُ لا إِلهَ إِلاَّ أَنَا فَاعْبُدُونِ»؛ اور ہم نے آپ ؐسے پہلے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر یہ کہ اس کی طرف یہی وحی کرتے رہے کہ میرے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے لہذا سب لوگ میری ہی عبادت کرو (سورہ انبیاء، آیت۲۵).
۴۔ اسلام اور تمام معصومینؑ کی تعلیمات کا خلاصہ یہی توحید ہےاور اسی توحید کے سائے میں حقیقی کامیابی و کامرانی ہےجیسا کہ پیغمبر اسلامؐ نے فرمایا کہ: «قُولُوا لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ تُفْلِحُوا» کہو کوئی معبود نہیں ہے سوائے اللہ کے تاکہ کامیاب ہوجاؤ(بحار الانوار، ج۱۸، ص۲۰۲)۔
۵۔ توحید کا اقرار کرنا کافی نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ شرک و کفر و نفاق سے بھی دور رہنا ضروری ہے جیسا کہ شہزادیؑ نے توحید کے اقرار کے ساتھ ساتھ شرک کی نفی بھی فرمائی ہے اور بہت سی آیات اور احادیث میں اس مسئلہ کی تاکید کی گئی ہے۔ یعنی انسان کو چاہئے کہ زبانی اقرار کے ساتھ ساتھ عملی طور پر توحید کا دامن تھامے رہے۔
۶۔ کلمۂ “لا الہ الا اللہ” کی شہادت اور زبانی طور پر اس کے اقرار کے لئے ضروری ہے کہ انسان “اخلاص” کا دامن تھامے رہے۔ زبان سے اقرارکے ساتھ توحید کے مطابق عمل کرکے دکھائے جیسا کہ شہزادی ؑ فرماتی ہیں کہ توحید کے اقرار میں “اخلاص ” کا ہونا ضروری ہے اور یہی اخلاص ہے جو توحید کی روح اور حقیقت ہے۔ اور اسی اقرارتوحید میں اخلاص کے نتیجے میں دل سے گواہی نکلتی ہے تونظر و فکر روشن ہوتی ہے۔اور جس کی نظر و فکر روشن ہوتی ہے یقینی طور پر اس کے افکار و کردارو افعال میں حق و صداقت ہوتی ہے۔
۷۔ توحید کی گواہی اور اقرار کے دو طریقے ہیں جیسا کہ شہزادیؑ کے کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ کبھی کبھی خداوندمتعال خود توحید کے اقرار کو لوگوں کے دلوں میں جایگزین فرمادیتا ہے اور کبھی کبھی اس کے ادارک کو فکروں اور عقلوں میں قراردیتا ہے جس کے ذریعہ فکریں روشن ہوجاتی ہیں۔ اسی مطلب کو علماء نے معرفت فطری اور معرفت علمی و عقلی سے تعبیر کیا ہے۔
۸۔ توحید کی گواہی اور اس میں اخلاص کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی ذات کی کنہ اور انتہا و ابتداء کی تلاش میں لگ جائے اس لئے کہ اللہ کی ذات کی حقیقت تک کوئی نہیں پہنچ سکتا ہے۔ کسی کی عقل و فکر و وہم و گمان و نظر میں ذات الہی کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں ہے جیسا کہ قرآنی آیات اور بہت سی احادیث میں اس بات کا ذکر آیا ہے اور شہزادی نے بھی اپنے خطبہ کے اس حصہ میں بیان فرمایا کہ خدا کو نہ ہی آنکھوں سے دیکھا جاسکتا ہے۔ نہ ہی زبان سے اس کی حقیقت کو بیان کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس کی ذات کسی کے وہم و گمان میں آسکتی ہے۔ یعنی خدا کی وحدانیت کا اقرار کرنا ہم پر فرض ہے ۔ اس کی ذات کی شناخت و حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کرنا بھی ممنوع ہے۔ اس کی معرفت صرف اس کے اوصاف اور اس کے افعال کے ذریعہ آثار ہوسکتی ہے۔
۹۔ مذکورہ جملات کو اگر خلاصہ کے طور پر بیان کیا جائے تو یہ ہے کہ انسان کو توحید میں خلوص یعنی اعتقادات میں خلوص رکھنا چاہئے اس لئے کہ خلوص ہی کے نتیجہ میں دل و فکر روشن ہوتی ہیں اور یہی اخلاص نیک اور اچھے اعمال کا سبب بنتا ہے ۔ لیکن اگر خلوص نہیں ہوتا ہے تو انسان شرک و کفر اور بدعقیدوں سے دور رہتا ہے اور اس کے اعمال بھی فاسد اور خلاف توحید ہوتے ہیں جیساکہ حضرت فاطمہ زہراؑ جس مجمع سے مخاطب تھیں ان میں اکثر حاضرین کی توحید میں اخلاص کی کمی ہی کا نتیجہ تھا کہ وہ توحید کے خلاف اعمال کے مرتکب ہوگئے اورجن شخصیات کے وسیلے سے حقیقی طور پر توحید تک پہنچا جاسکتا ہے انہیں کے خلاف ہوگئے۔ یہ بات متعدد حدیثوں میں ذکر ہوئی ہے جن میں سے حدیث سلسلۃ الذھب مشہور و معروف ہے ۔ اسی طرح حضرت امام رضاؑ سے مروی امام زمانہ عج کے لئے ایک دعا کے آخر میں اس طرح آیا ہے کہ: «… فَإِنَّهُمْ مَعَادِنُ كَلِمَاتِكَ وَ خُزَّانُ عِلْمِكَ وَ أَرْكَانُ تَوْحِيدِكَ وَ دَعَائِمُ دِينِكَ وَ وُلاَةُ أَمْرِكَ وَ خَالِصَتُكَ مِنْ عِبَادِكَ وَ صَفْوَتُكَ مِنْ خَلْقِكَ وَ أَوْلِيَاؤُكَ وَ سَلاَئِلُ أَوْلِيَائِكَ وَ صَفْوَةُ أَوْلاَدِ نَبِيِّكَ وَ السَّلاَمُ (عَلَيْهِ وَ) عَلَيْهِمْ وَ رَحْمَةُ اللَّهِ وَ بَرَكَاتُهُ» ؛ یہ وہ بزرگوار ہیں جو تیرے کلمات کی کان ، علم کے خزانہ دار، توحید و معرفت کے ارکان، دین کے ستون اور تیرے امر کے والی و صاحب اختیار ہیں۔اور تیرے مخلص بندے ہیں۔ اورتیری مخلوق اور اولیاء میں منتخب ہیں اور تیرے پیغمبرؐ اور اولیاء کی پاک اولاد ہیں۔