قرآن میں اعلان ولایت
اس کے بعد بہت سے مواقع پر بہت سی آیات اور احادیث مسلمانوں کو علیؑ کی ولایت کی جانب متوجہ کرتی ہیں کہ علیؑبعد پیغمبرؐ ان کے ولی و حاکم ہیں ان اہم آیات میں سے ایک آیت ولایت ہے:
“إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ ٱللَّهُ وَرَسُولُهُۥ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ ٱلَّذِينَ يُقِيمُونَ ٱلصَّلَوٰةَ وَيُؤۡتُونَ ٱلزَّكَوٰةَ وَهُمۡ رَٰكِعُونَ”[1]۔
“بس تمہارا ولی صرف اللہ ہے اور اس کا رسولؐ ہے اور وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکٰوۃ دیتے ہیں”۔
شیعہ و سنّی علماء متفق ہیں کہ یہ آیت حضرت علیؑ کی شان میں نازل ہوئی ہے ۔ اس آیت سے پوری طرح وضاحت ہوجاتی ہے کہ مسلمانوں کے ولی صرف تین ہیں: سب سے پہلے اللہ ہے۔ پھر اس کا رسول اور تیسرے حضرت علیؑ (اور آپ کی اولاد میں گیارہ امام)۔
ابوذر غفاری کہتے ہیں کہ “ایک دن وہ پیغمبرؐ کے ساتھ نماز میں مشغول تھے کہ ایک سائل مسجدالنبی ؐ میں داخل ہوا اور اس نے سوال کیا کسی نے اسے کچھ نہیں۔ اب سائل نے اپنا ہاتھ آسمان کی طرف بلند کیا اور کہا: خدایا! گواہ رہنا کہ میں تیرے نبیؐ کی مسجد میں سوالی بن کر آیا اور کسی نے مجھے نہیں دیا”۔اس وقت حضرت علیؑ رکوع میں تھے آپ نے اپنی انگشت مبارک سے(جس میں انگوٹھی تھی) اشارہ کیا، سائل نے بڑھ کر انگوٹھی اتارلی اور چلا گیا۔
یہ واقعہ رسولؐ کی موجودگی میں پیش آیا اور آنحضرتؐ نے اپنا روئے مبارک آسمان کی طرف بلند کیا اور دعا کی:
“خدایا! میرے بھائی موسیٰؑ نے یہ دعا کی کہ: ان کے لئے شرح صدر کردے، ان کے کام کو آسان کردے، ان کی زبان کی گرہ کھول دے تاکہ لوگ ان کی بات سمجھنے لگیں اور ان کے اہل سے ان کے بھائی ہارون کو ان کا وزیر بنادے اور ہارون کے ذریعہ ان کی پشت کو مضبوط کردے اور ہارون کو ان کے کام میں ان کا شریک قراردے۔ خدایا! تو نے موسیٰؑ سے فرمایا: “ہم تیرے بازو کو تیرے بھائی کے ذریعہ مضبوط کردیں گے اور کوئی تم دونوں میں سے کسی ایک تک بری نیت سے نہیں پہنچ سکتا”۔ خدایا! میں محمدؐ ہوں اور تو نے مجھے فضیلت عطا کی ہے، میرے سینے کو میرے لئے کشادہ کردے، میرے امور کو میرے لئے آسان کردے اور میرے اہل سے میرے بھائی علیؑ کو میرا وزیر قرار دے اور ان کے ذریعہ میری پشت کو مضبوط کر”۔ابھی پیغمبرؐ کی دعا ختم بھی نہ ہونے پائی تھی کہ جبرئیلؑ مذکورہ بالا آیت لے کر نازل ہوئے[2]۔
اس جگہ اس حدیث کے سینکڑوں حوالوں کو بیان کرنے کی گنجائش نہیں۔ یہ آیت اور پیغمبرؐ کی دعا دونوں مل کر اور علیٰحدہ علیٰحدہ اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ خدا نے حضرت علیؑ کو پیغمبرؐ کے بعد مسلمانوں کا ولی و حاکم مقرر کیا تھا۔
[1] مائدہ، آیت 55۔
[2] دراالمنثور سیوطی۔ تفسیر کبیر امام فخرالدین رازی، ص۲۶، مطبوعہ تہران، نورالابصار شبلنجی، تفسیر کشاف زمخشری، ج۱، ص۶۴۹۔