الہی امام کی خصوصیات
رئیس المبلغین علامہ سید سعید اختر رضوی کی کتاب امامت سے اقتباس - ۵
الہی امام کی خصوصیات
یہاں پر الہی امام کی اہم خصوصیات کا ذکر کیا جارہا ہے:
۱- افضلیت:
شیعوں کا عقیدہ ہے کہ پیغمبرؐ کی طرح امام بھی امت سے ہر صفت میں افضل ہوتا ہے، چاہے علم ہو یا شجاعت، تقویٰ ہو یا سخاوت، یا ایسے ہی دوسرے صفات اور اس کو الہی قوانین کا پورا علم ہونا چاہئے۔ اگر ایسا نہ ہو بلکہ یہ منصب اعلیٰ کسی ایسے کے حوالے کردیا جائے جو اپنے دور میں مفضول ہو، جبکہ اس سے افضل موجود ہو تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ مفضول کو افضل پر ترجیح دی گئی جو عقلاً قبیح اور عدل خداوندی کے خلاف ہے اس لئے خدا کسی افضل کے ہوتے ہوئے کسی مفضول کو عہدۂ امامت نہیں دے سکتا۔[1]
۲- عصمت:
امامت کی ایک دوسری صفت “عصمت” ہے اگر امام معصوم نہ ہوگا تو خطا کا امکان باقی رہے گااور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ امام جھوٹ بول دے[2]۔
اول تو امام کے معصوم نہ ہونے کی صورت میں جو حکم وہ دے گا اس کی صحت پر کامل بھروسہ نہیں کیا جاسکے گا۔
دوسرے یہ امام حاکم ہے اور امت کا رہنما ہے لہذا امت پر فرض ہے کہ بغیر کسی چوں و چرا کے ہر معاملہ میں اس کی پیروی کرے ۔ اب اگر امام گناہ کا مرتکب ہو تو امت پر بھی اس گناہ کا ارتکاب فرض ہوجائے گا۔اس صورت حال کی نامعقولیت اظہر من الشمس ہے کیونکہ گناہ میں اطاعت قبیح ، ناجائز اور حرام ہے۔ لہذا امام کی ایک ہی بات میں اطاعت بھی واجب ہوگی اور نافرمانی بھی اور ایک ہی وقت میں امام کی اطاعت اور نافرمانی دونوں واجب ہو، یہ صریحاً مہمل بات ہے۔
تیسرے اگر امام کے لئے گناہ کا ارتکاب ممکن ہوگا تو ادوسرے افراد پر یہ فرض عائد ہوگا کہ وہ امام کو گناہ سے روکیں۔ کیونکہ ہر مسلمان پر واجب ہے کہ دوسروں کو حرام کاموں سے روکے۔ ایسی صورت میں امام لوگوں کی نظر میں ذلیل ہوجائے گااور اس کی عزت ختم ہوجائے گی۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ امت کی قیادت و رہبری کے بجائے خود وہ امت کا پیروکار ہوجائے گا۔ لہذا اس کی امامت ہی بیکار ہوجائے گی۔
چوتھے یہ کہ امام الہی قوانین کا محافظ ہوتا ہے اور تحفظ قانون الہی ایک ایسی ذمہ داری ہے جو غیر معصوم ہاتھوں میں نہیں دی جاسکتی اور نہ غیر معصوم الہی قوانین کا کماحقہ تحفظ کرسکتا ہے یہی وجہ ہے کہ خود نبوت کے لئے “عصمت” ایک لازمی شرط تسلیم کی گئی ہے اور وہی اسباب جن کی بناء پر نبوت کے لئے “عصمت” لازمی سمجھی جاتی ہے انہیں اسباب کی بناء پر امامت اور خلافت کے لئے بھی “عصمت” ضروری ہے۔
اس سلسلے میں تیرہویں باب میں “اولوالامر” کی بحث میں “عصمت” کی ضرورت کو مزید واضح کیاجائےگا۔
۳- خدا کی طرف سے تعین:
جس طرح صرف ان صفات کے پائے جانے کی وجہ سے کوئی شخص خودبخود نبی نہیں ہوسکتا ہے اسی طرح خود بخود امام بھی نہیں ہوسکتا ہ۔ امامت کوئی اکتسابی عہدہ نہیں ہے کہ انسان محنت کرکے یہ عہدہ کسب کرلے بلکہ یہ خدائی عطیہ ہے[3]۔جو اس کے خاص بندوں کو ملتاہے، یہی وجہ ہے کہ شیعہ اثنا عشری فرقہ کا عقیدہ ہے کہ رسولؐ کا جانشین صرف خدا مقرر کرسکتا ہے، اس مسئلہ میں امت کا کوئی عمل دخل نہیں بلکہ امت کا فریضہ صرف یہ ہے کہ خدا کے مقرر کردہ امام یا خلیفہ کی پیروی کرتی رہے۔ اس کے مقابلے میں اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ یہ امت کی ذمہ داری ہے کہ وہ خلیفہ کا تقرّر کرے۔
عصمت امام کے دلائل
مندرجہ ذیل آیتیں شیعوں کے عقیدے کی تصدیق و تائیدکرتی ہیں:
۱۔” وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَارُ ۗ مَا كَانَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ ۚ سُبْحَانَ اللَّهِ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ”[4]۔
“اور تمہارا پروردگارجوچاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے منتخب کرتا ہے اور یہ انتخاب لوگوں کے اختیار میں نہیں اور جس چیز کو یہ لوگ خدا کا شریک بناتے ہی اس سے خدا پاک اور کہیں برتر ہے”۔
اس آیت سے بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ انسان کو کسی قسم کے انتخاب کا کوئی حق نہیں بلکہ یہ کام مکمل طور پر خدا کے اختیار میں ہے۔
۲۔ حضرت آدم ؑ کی تخلیق سے قبل خداوندعالم نے ملائکہ سے فرمایا:
” وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً ۖ”[5]۔
“اور یاد کیجئے جب آپ کے پروردگار نے ملائکہ سے کہا کہ بہ تحقیق میں زمین پر ایک خلیفہ بنانے والا ہوں”۔
جب ملائکہ نے خدائی اسکیم کے خلاف مودبانہ لہجے میں اعتراض کیا تو ان کے اعتراض کو ایک مختصر سے جواب سے اڑا دیا گیاکہ : “… إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ”[6]۔ “جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے ہو”۔
اگر خلیفہ کی تقریری میں معصوم ملائکہ کی دخل اندازی نہیں پسند کی گئی تو غیر معصوم افراد کون ہوتے ہیں کہ ان کو پورا اختیار دے دیا جائے کہ جس طرح چاہیں خلیفہ بنالیں؟
۳۔ اللہ نے حضرت داؤد نبیؑ کو روئے زمین پر خود خلیفہ بنایا ہے ؛ فرمایا:
“يَا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ”[7]۔ “اے داؤد بہ تحقیق ہم نے تمہیں روئے زمین پر اپنا خلیفہ قرار دیا”۔
ملاحظہ فرمائیں کہ خلیفہ یا امام کے تقرر کو کس طرح خدانے ہر جگہ صرف اپنی ذات اقدس کی طرف منسوب فرمایا ہے۔
۴۔ حضرت ابراہیم ؑ کو آواز دی جارہی ہے:
“… قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا ۖ قَالَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي ۖ قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ”[8]۔
“… خدانے فرمایا میں تم کو لوگوں کا “امام” بنانے والا ہوں(حضرت ابراہیمؑ نے) عرض کی : اور میری اولاد میں سے۔ فرمایا: (ہاں) لیکن میرا عہد ظالمین تک نہیں پہونچے گا”۔
امامت کے متعلق سے سوالات کے جوابات اس آیت سے معلوم ہوجاتے ہیں:
الف: اللہ نے فرمایا: “بہ تحقیق میں تمہیں لوگوں کا امام بنانے والا ہوں”۔ اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ امامت ایک خدائی عہدہ ہے جو امت کے دائرہ اختیار سے بالکل باہر ہے۔
ب: “میرایہ عہد ظالمین کو نہیں پہونچے گا”۔ اس سےیہ واضح ہوگیا کہ غیر معصوم “امام” نہیں ہوسکتا ۔ منطقی طور پر ہم بنی نوع انسان کو چار گروہوں میں تقسیم کرسکتے ہیں:
۱۔ جو ساری زندگی ظالم رہا ہو۔
۲۔ جنہوں نے زندگی بھر ظلم ہی نہیں کیا۔
۳۔ جو پہلے ظالم تھے اور بعد میں توبہ کرلی اور عادل ہوگئے۔
۴۔ جو ابتدائی زندگی میں ظالم نہیں تھے، بعد میں ظالم بن گئے ہیں۔
حضرت ابراہیمؑ کی شان اس سے کہیں بلند ہے کہ آپ پہلے اور چوتھے گروہ کی امامت کے لئے خداسے سوال کرتے، اب دو گروہ باقی رہ جاتے ہیں یعنی دوسرا اور تیسرا جو اس دعا میں شامل ہوسکتا ہے، اللہ نے ان میں سے بھی ایک کو مسترد کردیا ہے یعنی وہ گروہ جو ابتدائی زندگی میں ظالم رہا ہو مگر آخر میں ظلم سے توبہ کرکے عادل ہوگیا ہو، اب صرف ایک ہی گروہ باقی رہ جاتا ہے جو امامت کا مستحق ہے جس نے زندگی بھر کبھی کوئی ظلم نہ کیا ہو یعنی جو معصوم ہو۔
ج: آخری جملہ جس میں فرمایا کہ”میرا عہد ظالمین تک نہیں پہونچے گا”۔ یہ بات قابل غور ہے کہ اللہ نے یہ نہیں فرمایاکہ: “ظالمین میرے اس عہدہ تک نہیں پہونچ سکتے” کیونکہ اس جملے سے یہ سمجھا جاسکتا تھا کہ یہ انسان (البتہ جوعادل ہو) کے اختیار میں ہے کہ عہدہ امامت تک پہونچ جائے۔ مگر جو جملہ اللہ نے استعمال فرمایا ہے اس سے اس طرح کی کسی غلط فہمی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی بلکہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ حصول امامت فرزند آدم کے اختیار میں بالکل نہیں بلکہ صرف اللہ کے اختیار میں ہے اور وہ جس کو چاہتا ہے یہ عہدہ عطا کرتا ہے۔
پھر ایک عام قاعدہ کے طور پر فرمایا:
” وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا …”[9]۔
“ان سب کو (لوگوں کا) امام بنایا کہ ہمارے حکم سے ان کی ہدایت کرتے تھے…” ۔
۵۔ جب حضرت موسیؑ کو ایک وزیر کی ضرورت ہوئی کہ وہ ان کی نبوت کے کاموں میں ان ہاتھ بٹائے تو انہوں نے خود اپنے اختیار سے کسی کو اپنا وزیر نہیں مقرر کیا بلکہ انہوں نے خدا سے دعا کی :
” وَاجْعَلْ لِي وَزِيرًا مِنْ أَهْلِي هَارُونَ أَخِي “[10]۔
“اور میرے کنبہ والوں میں سے میرے بھائی ہارون کو میرا وزیر بنادے”۔
خدا نے جواب دیا:
” قَالَ قَدْ أُوتِيتَ سُؤْلَكَ يَا مُوسَىٰ”[11]۔
فرمایا”اے موسیٰؑ تمہاری سب درخواستیں منظور کرلی گئیں”۔
اس خدائی انتخاب کا امت کے درمیان اعلان یا نبیؐ کے ذریعہ ہوتا ہے یا سابق امام ؑ اعلان کرتا ہے اور اس اعلان کو “نص” کہتے ہیں جس کے لفظی معنی ہیں: “توضیح اور تعین” اور اصطلاحی معنی ہیں: “نبی یا سابق امام کے ذریعہ مابعد کے امام کا اعلان “۔ شیعہ عقیدہ کے مطابق امام کو منصوص من اللہ یعنی اللہ کی طرف سے معین کردہ ہونا چاہئے۔
۴- معجزہ:
اگر کسی امامت کے دعویدار کے بارے میں کوئی “نص” نہ معلوم ہو تو صرف ایک ہی طریقہ اس کی سچائی کے معلوم کرنے کا ہے اور وہ ہے “معجزہ”۔ [12] ویسے تو کوئی انسان یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ وہ امام یا خلیفہ رسول اور معصوم ہے۔ ایسی صورت میں حقیقت حال معلوم کرنے کا واحد اور یقینی طریقہ صرف معجزہ ہے۔ اگر امامت کا دعویدار اپنے دعوے کے ثبوت میں کوئی معجزہ دکھلانے میں ناکام رہا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ امامت و خلافت کے شرائط کو پورا نہیں کرسکتا اور وہ اپنے دعوے میں جھوٹا ہے
۵۔ عصمت اہل بیت ِپیغمبرؐ
آئیے اب دیکھیں کہ اہل بیت ِپیغمبرؐ کے بارے میں قرآن کیا کہتا ہے۔ قرآن کے مطابق وفات رسولؐ کے وقت یہ چار ذوات مقدسہ ہر قسم کے گناہ سے پاک اور معصوم تھے؛ علیؑ، فاطمہؑ، حسنؑ اور حسینؑ۔ جن کے بارے میں خدا فرماتا ہے:
” … إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا”[1]۔
“اے (پیغمبرؐ کے)اہلبیتؑ خدا تو بس یہ چاہتا ہے کہ تم کو ہر طرح کی برائی سے دور رکھے اور جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے ویسا پاک و پاکیزہ رکھے”۔
ملت اسلامیہ کا متفقہ فیصلہ ہے کہ مندرجہ بالا چار حضرات یقیناً اہل بیتِ پیغمبرؐ ہیں جو ہر قسم کے رجس سے پاک و منزّہ اور معصوم ہیں۔ اس آیت کے پہلے اور بعد کی آیتوں میں ازواج پیغمبرؐ کو خطاب کیا گیاہے اور مونث ضمیریں استعمال کی گئی ہیں لیکن اس آیت میں مذکر ضمیریں استعمال ہوئی ہیں، یہ اندازہ کرنا کہ یہ آیت اس جگہ کیوں رکھی گئی ہے کوئی مشکل بات نہیں ہے۔ مشہور عالم علامہ یوپا مرحوم نے ایس وی میراحمد علی مرحوم کے ترجمہ قرآن کریم کے حاشیہ نمبر 1857 میں تحریر فرمایا ہے :
“آیت کریمہ کا یہ حصہ جس میں اہل بیت طاہرین ؑ کی خدائی عصمت کا ذکر کیا گیا ہے، اس کی سیاق و سباق کی آیات کے ساتھ توضیح و تشریح کرنا ضروری ہے آیت کا یہ حصہ بالکل علیحدہ ہے جو ایک خاص موقع پر علیحدہ نازل ہوئی لیکن اسے ازواج رسول ؐ کا تذکرہ کرنےوالی آیات کے ضمن میں رکھا گیا ہے۔ اگر آیت کی ترتیب پر غور کیا جائے تو یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ اس ترتیب کے پیچھے ایک اہم مقصد کارفرماہے۔ اس آیت کے ابتدائی حصہ میں تانیث کی ضمیریں استعمال ہوئی ہیں لیکن اس ٹکڑے میں تانیث سے ہٹ کر مذکر ضمیریں استعمال ہوئی ہیں جہاں پر ازواج پیغمبرؐ کا ذکر ہے ضمیریں مسلسل ہیں۔ جب مردوں اور عورتوں کے مخلوط مجمع کو خطاب کرنا ہوتا ہے تو عام طور سے مذکر استعمال کی جاتی ہے۔ عربی زبان و قواعد کے ماتحت ضمائر کی یہ تبدیلی اس بات کو بالکل واضح کردیتی ہے کہ یہ جملہ جو پہلے گروہ سے علیٰحدہ ہے اور اس جملے کو یہاں اس لئے رکھا گیا ہے کہ ازواج رسولؐ اور اہل بیت رسولؐ کے باہمی مدارج کا فرق واضح کردیا جائے؛ ربیب رسولؐ حضرت عمرو بن ابی سلمہ فرماتے ہیں: جب یہ آیت نازل ہوئی اس وقت پیغمبرؐ، جناب ام المومنین ام سلمہ کے گھر پر تھے کہ خدا نے یہ آیت نازل فرمائی: “اے (پیغمبرؐ کے) اہل بیتؑ خدا تو بس یہ چاہتا ہے کہ تم کو ہر طرح کی برائی سے دور رکھے اور جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے ویسا پاک و پاکیزہ رکھے”اس وقت پیغمبرؐ نے اپنی بیٹی فاطمہؐ اور ان کے دونوں فرزند حسنؑ اور حسینؑ اور شوہر یعنی اپنے ابن عم کو اپنے پاس جمع کیا اور پھر سب کو اپنے ساتھ اپنی چادر اڑھاکر خدا سے دعا کی، خدایا! یہ میرے اہل بیتؑ ہیں ان سے ہر قسم کے رجس کو دور رکھ اور اس طرح طاہر و مطہر قرار دے جس طرح طاہر و مطہر رکھنے کا حق ہے۔ رسولؐ کی صاحب خیر زوجہ حضرت ا م سلمہ نے اس عظیم الشان موقع پر رسولؐ سے عرض کیا: یارسول اللہ! کیا میں بھی اس بزم میں شامل ہوجاؤں ؟ حضورؐ نے جواب دیا: “نہیں۔ تم اپنی جگہ پر رہو، بیشک تم خیر پر ہو”۔
یہاں پر موقع نہیں ہے کہ اس آیہ کریمہ سے متعلق بے شمار حوالے دئے جائیں لہذا مشہور سنی عالم مولانا وحیدالزمان کے حوالے پر اکتفاء کی جارہی ہےجنہوں نے قرآن کا ترجمہ اور تفسیر تحریر کی ہے اور قرآن و حدیث کی ایک لغت بھی لکھی ہے جس کا نام “انوار للغۃ” ہے۔ وہ اس آیہ کریمہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ: “بعضوں نے اس کو خاص رکھا ہے نسبی گھر والوں سے یعنی حضرت علیؑ اور حضرت فاطمہؐ اور حسنؑ و حسینؑ سے۔ مترجم کہتا ہے صحیح مرفوع حدیثیں اسی کی تائید کرتی ہیں تو اس کا قبول کرنا واجب ہے اور ایک قرینہ اس کا یہ ہے کہ اس میں اول و آخر جمع مونث حاضر کی ضمیر سے خطاب ہے اور اس میں جمع مذکر کی ضمیر سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت ان آیتوں کے بیچ میں رکھدی گئی ہے جن میں ازواج مطہرات سے خطاب تھا اور شاید صحابہ نے اجتہاد سے ایسا کیا۔ واللہ اعلم”[2]۔
اس کے علاوہ “انوار اللغۃ” میں مولوی صاحب موصوف بذیل حدیث کساء لکھتے ہیں :
“صحیح یہ ہے کہ آیت تطہیر میں یہی پانچ حضرات مراد ہیں، گو عرب کے محاورے میں اہل بیت ازواج کو بھی شامل ہے اس سے بعضوں نے یہ نکالا ہے کہ یہ حضرات خطا اور گناہ سے معصوم تھے۔ خیر اگر معصوم نہ تھے تو محفوظ ضرورتھے”[3]۔
اگرچہ میں خود ان کے بعض خیالات سے پوری طرح متفق نہیں ہوں۔ جب بھی میں نے یہ حوالے صرف اس لئے دیئے ہیں کہ یہ ظاہر ہوجائے کہ نہ صرف شیعہ اثنا عشری بلکہ علماء اہل سنت بھی اس بات کی تائید کرتےہیں کہ عربی قواعد کے مطابق اور صحیح و متصل احادیث رسولؐ کے لحاظ سے یہ آیت رسولؐ کے ساتھ علیؑ، فاطمہؐ، حسنؑ اور حسینؑ کی شان میں نازل ہوئی اور یہ بھی واضح ہوگیا کہ ہمارا دعویٰ کہ یہ حضرات معصوم تھے، علمائے اہل سنت کو بھی قبول ہے۔اور یہ ظاہر ہوگیا کہ وہ حضرات ان خمسۂ نجباء کو معصوم نہ سہی تو گناہوں سے محفوظ ضرور سمجھتے ہیں۔
اس کے علاوہ بہت سی دوسری آیات و احادیث ہیں جو اہل بیت ؑ کی عصمت کی گواہی دیتی ہیں لیکن اختصار مدنظر ہے لہذا اتنے ہی پر اکتفاء کی جارہی ہے۔
[1] سورہ احزاب، آیت۳۳۔
[2] تفسیر وحیدی، مولوی وحید الزمان برحاشیہ ترجمہ قرآن کریم، گیلانی پریس لاہور، پارہ ۲۲، ص۵۴۹، حاشیہ نمبر۷۔
[3] انوار اللغۃ ، مولوی وحید الزمان، مطبوعہ بنگلور، پارہ ۲۲، ص۵۱۔
[1] شرح باب حادی عشر، ص۶۹۔
[2] شرح باب حادی عشر، ص۶۸۔
[3] شرح باب حادی عشر، ص۶۸۔
[4] سورہ قصص، آیت۶۸۔
[5] سورہ بقرہ، آیت ۳۰۔
[6] سورہ بقرہ، آیت ۳۰۔
[7] سورہ ص، آیت۲۶۔
[8] سورہ بقرہ، آیت 124۔
[9] سورہ انبیاء، آیت ۷۳۔
[10] سورہ طہ، آیت ۲۹-۳۰۔
[11] سورہ طہ، آیت 36۔
[12] شرح باب حادی عشر، ص۶۹۔