اسلامی معارف

اسلامی نظام حکومت؟

علامہ سید سعید اختر رضوی کی کتاب امامت سے اقتباس (3)

اسلامی نظام حکومت؟

     ایک دور تھا جب لوگ بادشاہت کے علاوہ کسی اور نظام حکومت کو جانتے ہی نہ تھے۔ اور اس زمانے کے علماء  بادشاہوں اور بادشاہی کی عظمت کو ظاہر کرنے کے لئے کہاکرتے تھے۔ “السلطان ظل اللہ” بادشاہ خدا کا سایہ ہے گویا خدا کا بھی کوئی سایہ ہوتا ہے!۔ اس دور جدید میں جبکہ ہر طرف جمہوریت کا بول بالا ہے تو اب سنی علماء بڑے شدّ و مد سےہزاروں مضامین اور کتابوں میں یہ لکھ رہے ہیں کہ اسلامی نظام حکومت ڈموکریسی اور جمہوریت پر قائم ہے۔ یہ لکھتے ہوئے وہ یونان کی شہری جمہورتیوں کو بھول جاتے ہیں۔ اس صدی کی نصف آخر سے پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک میں سوشلزم اور اشتراکیت کا زور بڑھ رہا ہے۔ مجھے مطلق تعجب نہیں ہوتا جب میں یہ دیکھتا ہوں کہ کچھ نیک نیت علماء اسلام، ایڑی چوٹی کا زور لگا کر یہ ثابت کررہے ہیں کہ اسلام سوشلزم کی تعلیم دیتا ہے۔ کچھ لوگوں نے پاکستا ن وغیرہ میں اس کو قائم کرنے کے لئے “اسلامی سوشلزم” کا نعرہ ایجاد کیا ہے۔ مجھے یہ نہیں معلوم کہ اسلامی سوشلزم کا مطلب کیا ہے؟ لیکن مجھے تعجب نہ ہوگا کہ اگر دس بیس سال کے بعد لوگ یہ نعرہ لگانے لگیں کہ اسلام “کمیونزم” کی تعلیم دیتا ہے!۔

      ہوا کے رخ پر گھومنے کا یہ طریقہ اسلامی قیادت کے سیسٹم کا تمسخر اڑا رہا ہے۔ کچھ عرصے پہلے کی بات ہے، ایک افریقی ملک میں مسلمانوں کا ایک اجتماع تھا اور اس ملک کا صدر جمہوریہ مہمان خصوصی کی حیثیت سے مدعو تھا، ایک مسلم لیڈر نے اپنی تقریر میں کہا کہ اسلام ہمیں تعلیم دیتا ہے کہ: “اطیعوا اللہ” اللہ کی اطاعت کرو۔ “واطیعواالرسولؐ” اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرو۔ “اولی الامر منکم”۔ اور اپنے حاکموں کی اطاعت کرو۔ لہذا تمہیں چاہئے کہ اپنے حاکم وقت کی اطاعت کرو!۔ اپنے جواب میں صدر مملکت نے جو ایک کٹر رومن کیتھولک تھے کہا:

    “یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرو لیکن یہ کون سی منطق ہے کہ حکم دیا جائے کہ “حاکم وقت کی اطاعت کرو؟”؛ اگر حاکم وقت ظالم و جابر ہو تو کیا ہوگا؟ کیا اسلام مسلمانوں کو یہ حکم دیتا ہے کہ بغیر کسی مقاومت و مزاحمت کے وہ اس کے سامنے سرتسلیم خم کئے رہیں؟! “۔

      فہم و فراست سے پھر پور اس دانشورانہ اور چونکا دینے والے سوال کا جواب بھی ایسا ہی ہونا چاہئے تھا۔ ایک غیرجانبدار کی حیثیت سے اگر غور کیا جائے تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ اگر قرآن کریم کے غلط مفاہیم نہ بیان کئے جاتے تو اس عیسائی صدر کو اتنی جراءت نہیں ہوسکتی تھی کہ وہ اسلام کو ہدف تنقید بناتا۔

      اب آیئے غور کریں کہ اسلام میں قیادت کا نظام کیا ہے؟ کیا ڈیموکرسی ہے؟ آئیے تو پہلے دیکھیں کہ جمہوریت کے معنی کیا ہیں؟ جمہوریت کی بہترین تعریف ابراہام لنکن نے کی ہے: “جمہوریت عوام کی حکومت ہے، جو عوام کے ذریعہ عوام کے لئے ہے”۔

       لیکن اسلام میں “عوام کی حکومت” نہیں ہے۔ یہاں صرف “اللہ کی حکومت “ہے عوام اپنے اوپر کس طرح حکومت کرتے ہیں؟ وہ اپنے اوپر حکومت کرتے ہیں اپنے قوانین خود بناکر، لیکن اسلام میں قوانین عوام نہیں، خدا بناتا ہے۔ ان پر قوانین کا نفاذ کیا جاتا ہے۔ لوگوں کی رضامندی سے نہیں۔ بلکہ پیغمبرؐ کے ذریعہ سے ، اللہ کے حکم سے۔ عوام کا قانون سازی میں کوئی دخل نہیں ہوتاہے۔ ان کا کام صرف یہ ہے کہ اس پر عمل کرتے رہیں۔ ان کو ان قوانین و احکام پر تبصرہ کرنے یا مشورہ دینے کا کوئی حق نہیں ہے! ۔ خداوندعالم اسی سلسلےمیں ارشاد فرماتا ہے:

    “وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ۗ …”[1]۔

    “کسی مومن یا مونہ کے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ جب خدا اور اس کا رسولؐ کسی کام کا حکم دے تو ان کو اپنے کام کرنے یا نہ کرنے کا اختیار ہو …”۔

       اب ہم دوسرے فقرے پر آتے ہیں یعنی “عوام کے ذریعہ” ہمیں دیکھنے دیجئے کہ عوام اپنے اوپر کس طرح حکومت کرتے ہیں۔ وہ اپنے حکمرانوں کا خود انتخاب کرتے ہیں مگر پیغمبرؐ جو اسلامی حکومت کی انتظامیہ  اور عدلیہ بلکہ تمام شعبوں کے اعلیٰ ترین حاکم تھے، آپ کو عوام نے منتخب نہیں کیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اہل مکہ کو اجازت ہوتی کہ وہ اپنی پسند کا رہبر منتخب کر لیں تو وہ طائف کے عروہ بن مسعود یا مکہ کے ولید بن مغیرہ کو خدا کا رسول منتخب کرتے!  جیساکہ قرآن کریم اس کی وضاحت فرما رہا ہے:

       “وَقَالُوا لَوْلَا نُزِّلَ هَذَا الْقُرْآنُ عَلَى رَجُلٍ مِنَ الْقَرْيَتَيْنِ عَظِيمٍ”[2]۔

    “کہنے لگے کہ یہ قرآن ان دو بستیوں (مکہ اور طائف)میں سے کسی بڑے آدمی پر کیوں نہیں نازل کیا گیا”۔

      لہذا اسلامی مملکت کے سربراہ کے انتخاب میں نہ صرف یہ کہ عوام کی کوئی رائے نہیں لی گئی بلکہ حقیقت میں عوامی ترجیحات کے برخلاف حضورؐ کا تعین ہوا۔ پیغمبراسلامؐ اعلیٰ حکومت کے ماملک ہیں اور آپ کی ذات میں حکومت کے تمام شعبے مجتمع ہیں اور وہ عوام کے منتخب کردہ نہیں تھے۔

       مختصر یہ کہ نہ تو اسلامی حکومت “عوام کی حکومت” ہے اور نہ ہی “عوام کے ذریعہ سے” ہے۔ یہاں عوام قانون نہیں بناتے اور اتنظامیہ اور عدلیہ عوام کے سامنے جواب دہ نہیں اور نہ ہی یہ “حکومت عوام کے لئے” ہے۔ اسلامی نظام شروع سے آخر تک اللہ کے لئے ہے۔ ہر کام “صرف خدا کے لئے” ہونا چاہئے۔ اگر خدانخواستہ کوئی کام عوام کے لئے ہوا تو اس کو “شرک خفی” ہے کہتے ہیں۔ جو کام بھی انسان کرے چاہے عبادات ہوں یا معاملات، سماجی خدمات ہوں یا خاندانی امور، والدین کی اطاعت ہو یا حقوق ہمسایہ، امامت نماز جماعت ہو یا کوئی عدالتی کاروائی، جنگ ہو یا صلح ؛ ہر کام “قربۃ الی اللہ” ہونا چاہئے۔

        خلاصہ یہ کہ اسلامی نظام حکومت ، اللہ کی حکومت ہے، اللہ کے نمائندے کے ذریعہ، اللہ کی مرضی حاصل کرنے کے لئے:

      “وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ”[3]۔

“ہم نے جن و انس کو نہیں پیدا کیا مگر یہ کہ میری عبادت کریں”۔

     یہ الہی حکومت ہے اور یہی اسلامی قیادت کی خصوصیت اور خاصیت ہے۔

   اب آئندہ فصلوں میں یہ بات واضح ہوجائے گی کہ یہ تشریح آیت “اطاعت اولیٰ الامر” پر کس طرح اثر انداز ہوتی ہے۔

[1] سورہ احزاب، آیت ۳۶۔

[2] سورہ زخرف، آیت۳۱۔ اور ملاحظہ ہو: الباب النقول فی اسباب النزول، سیوطی، مطبوعہ مع جلالین  دارالکتب العربی۔ بیروت۔ ص۲۸۹/ ۱۴۹۔

[3] سورہ ذاریات، آیت ۵۶۔

متعلقہ مضامین

تبصره کریں

Back to top button
×