معارف اسلامی

حقیقی اولی الامر کون؟

رئیس المبلغین علامہ سید سعید اختر رضوی کی کتاب امامت سے اقتباس- ۱۲

حقیقی اولی الامر کون؟

خداوندعالم قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:

“يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ ۖ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا”[1]

“اے ایمان لانے والو! اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسولؐ اور ان صاحبان امر کی اطاعت کرو جو تم ہی میں سے ہیں اگر کسی معاملے میں تم میں آپس میں جھگڑا ہو تو اسے اللہ اور رسولؐ کی طرف پھیردو بشرطیکہ تم اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہو یہی سب سے بہتر اور عمدہ تاویل ہے “۔

اس آیت میں مسلمانوں پر دو اطاعتیں واجب قرار دی گئی ہیں؛ پہلے اللہ کی اطاعت ، دوسرے اس کے رسولؐ اور ان لوگوں کی اطاعت جو کہ “اولی الامرمنکم” تم میں والیان امر ہوں ؛ اس آیت میں لفظوں کی ترتیب و تنظیم سے یہ بالکل واضح ہوتا ہے کہ “اولی الامر” کی اطاعت بالکل اسی طرح واجب ہے جس طرح رسولؐ کی اطاعت ہے۔ اس کا فطری نتیجہ یہ نکلا کہ “اولی الامر” کو تمام صفات و صلاحیات میں رسولؐ کے مشابہہ ہونا چاہئے ورنہ اللہ اس آیت میں دونوں کی اطاعت کا حکم ایک ساتھ نہ دیتا ۔

یہ فیصلہ کرنے سے قبل کہ “اولی الامر” کون ہیں۔ اطاعت رسولؐ کے احکام پر ایک نظر ڈال لینا مفید ہوگا تاکہ یہ معلوم ہو کہ اطاعت رسولؐ کا حکم کس قدر جامع اور ہمہ گیر ہے اور یہ کہ رسول خداؐ کے اختیارات کتنے وسیع اور عظیم ہیں۔

خداوندعالم قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:

“وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ”[2]

“اورہم نے کوئی رسولؐ نہیں بھیجا مگر اسی لئے کہ خدا کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے”۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ انبیاء و مرسلین کی اطاعت اور پیروی لازم ہے امت والوں کا یہ منصب نہیں کہ وہ نبی کے ہر ہر فعل کو نگاہ تنقید سے دیکھ کر یہ فیصلہ کریں کہ کہ کون سا عمل ناقابل اطاعت ہے اور کون سا نہیں اور اس سے صاف طریقے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انبیاء و مرسلین ہر قسم کے رجس، گناہ اور غلطی سے مبرا تھے ورنہ کبھی بھی امت کو انبیاء و مرسلین کی غیر مشروط اطاعت کا حکم نہ دیتا۔

بہت سی آیات میں اللہ نے ہمیں نبی کی اطاعت کا حکم دیا ہے ارشاد ہوتا ہے:

“يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ”[3]

“اے ایمان والو ! خدا کا حکم مانو اور رسولؐ کی فرماں برداری کرو”۔

پھر خداوندعالم فرماتا ہے:

“وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ… “[4]

“اور جو خدا اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرے”۔

اور اسی سورہ میں فرماتا ہے:” مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ”[5]

“جس نے رسولؐ کی اطاعت کی اس نے اللہ ہی کی اطاعت کی”۔

ان آیتوں میں اور ان کے علاوہ بہت سی آیات میں خدا کی اطاعت کو رسولؐ کی اطاعت کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ لہذا اگر پیغمبرؐ معصوم اور خطاؤں سے مبرّہ نہ ہوتے تو ایسی آیات کبھی نہ نازل ہوتیں اس لئے کہ خدافرماتا ہے :

“… وَلَا تُطِعْ مِنْهُمْ آثِمًا أَوْ كَفُورًا”[6]

“اور ان لوگوں میں سے کسی گنہگار اور ناشکرے کی پیروی نہ کرنا”۔

اب پوری تصویر نگاہ کے سامنے ہے ۔ انبیاء کی اطاعت اور پیروی لازمی طور سے کرنی ہے۔ گنہگاروں کی اطاعت ہرگز نہیں کرنی ہے اور اس سے ایک ہی نتیجہ نکلتاہے کہ انبیاء ہرگز گنہگار اور خطاکار نہیں تھے۔ دوسرے لفظوں میں وہ معصوم، بے گناہ اور منزّہ عن الخطاء ہیں۔ ذرا تصور کیجئے اگر کوئی نبی اپنے ماننے والوں کو ارتکاب گناہ اور عصیان کا حکم دیتا تو کیسی ناممکن سی صورتِ حال پیدا ہوجاتی۔ بے چاری “امت” تو ہر حال میں ہمیشہ خدا کے قہر و غضب کا شکار رہتی۔ اگر وہ پیغمبرؐ کی اطاعت کرتی اور اس کے حکم سے گناہ کا ارتکاب کرتی تو اللہ کے حکم کی نافرمانی کرتی اور غضبِ خدا کی مستحق ہوتی اور اگر نبیؐ کے حکم سے روگردانی کرتی جب بھی اللہ کے حکم(یعنی حکمِ اطاعت رسولؐ) کی خلاف ورزی ہوتی۔ یعنی ایک غیر معصوم نبی امت کو سوائے خدائی قہر و غضب کے اور کوئی تحفہ نہیں دے سکتا تھا۔

اب خاص طور سے پیغمبرؐ اسلام سے متعلق آیات کو دیکھیں۔ اللہ فرماتا ہے:

“…وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا ۚ…”[7]

“اور رسولؐ تم کو جو کچھ دیدیں وہ لے لو اور جس سے منع کردیں اس سے باز رہو”۔

اس کے معنی یہ ہوئے کہ پیغمبرؐ کا ہر امر نہی ہمیشہ خدا کی مرضی کے مطابق اور اس کا پسندیدہ تھا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پیغمبرؐ معصوم تھے اس لئے کہ غیر معصوم کے احکام کے بارےمیں اتنے تیقن سے یہ بات نہیں کہی جاسکتی۔

دوسری آیت کہتی ہے:

“قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ …”[8]

“اے رسولؐ کہہ دو کہ اگر تم خدا کو دوست رکھتے ہو تو میری پیروی کرو، خدا بھی تم کو دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا”۔

یہاں اللہ کی محبت کو پیغمبرؐ اسلام کی اطاعت پر منحصر قرار دیا گیا ہے۔ یہ آیت محبت کے دونوں پہلوؤں کو واضح کرتی ہے کہ اگر تم خدا سے محبت رکھتے ہو تو پیغمبرؐ کی اطاعت کرو۔ اور اگر تم پیغمبرؐ کی اطاعت کروگے تو خدا بھی تم سے محبت کرےگا ۔ کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ پیغمبرؐ کا دامن ہر قسم کے دھبّوں سے پاک تھا۔ نہ صرف پیغمبرؐ کے افعال بلکہ ان کے الفاظ بھی حکم خدا تھے۔ خدا فرماتا ہے:

“وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ”[9]

“وہ تو اپنی خواہش سے کچھ بولتے ہی نہیں یہ تو اس کی وحی ہے جو بھیجی جاتی ہے”۔

یہاں پر ہمیں عصمت رسولؐ ناقابل تصور بلندترین درجے پر جلوہ فگن نظر آتی ہے۔

اس کے علاوہ اور بھی بہت سی ایسی آیات ہیں جن میں رسولؐاکرم کے لیے یہ الفاظ خداوندعالم نے استعمال فرمائے ہیں:

“رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ”[10]۔

“انہیں میں کا ایک رسولؐ(محمد) جو ان کے سامنے اس کی آیتیں پڑھتے، ان کو پاک کرتے ہیں اور ان کو کتاب اور عقل کی باتیں سکھاتے ہیں”۔

کوئی نبی کس طرح دوسروں کو گناہوں اور آلودگیوں سے پاک کرسکتا ہے اگر وہ خود پاک نہ ہو؟ ایک انسان کسی کو کس طرح عقل کی باتیں بتا سکتا ہے، جب اس کو خود اتنی عقل نہ ہو کہ جس سے صحیح و غلط میں امتیاز کرسکے۔ اس سے بھی بڑھ کر اگر اس کی قوت ارادی ایسی ضعیف ہو کہ جاننے کے باوجود وہ اپنے کو برائی سے نہ بچاسکے؟۔

رسول ؐ اسلام لوگوں کو کتاب کی تعلیم دیتے تھے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ احکام الہی کو جانتے تھے۔ آپ امت والوں کو پاک کرتے تھے اور ان کو عقل کی باتیں بتاتے تھے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ اس سے پہلے آپ خود عقل اور طہارت پر فائز تھے۔

آپ کے کمال اخلاق کی گواہی قرآن نے ان الفاظ میں دی ہے:

“وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ”

“اور بیشک تمہارے اخلاق بہت ہی عظیم ہیں”۔

ایک شخص جس سے گناہ سرزد ہونے کا امکان ہو وہ ایسی تمجید و توصیف کا مستحق نہیں ہوسکتا ۔

مندرجہ بالا آیات سے دو باتیں بالکل واضح ہوجاتی ہیں:

پہلے: پیغمبرؐ کو امت پر جو اختیار حاصل ہے وہ غیر محدود اور ہمہ گیر ہے ان کا دیا ہوا ہر حکم(چاہے وہ کسی حالت میں اور کسی وقت میں ہو) بغیر کسی چون و چرا کے واجب التعمیل ہے۔

دوسرے: اللہ نے آپ کو ایسا مکمل اختیار اس لئے دیا تھا کہ آپ معصوم تھے اور ہر قسم کی غلطی، خطا اور گناہ سے پاک و منزہ تھے، ورنہ خداوندعالم بغیر کسی قید و شرط کے آپ کے احکام کی اطاعت واجب نہ کرتا۔

اب زیر بحث آیت میں “اولی الامر” کو بعینہ وہی اختیار مسلمانوں پر عطا کیا گیا ہے جو “رسولؐ” کو دیا گیا تھا۔ “رسولؐ ” اور “اولی الامر” دونوں کو ایک لفظ “اطیعوا”(اطاعت کرو) کے تحت بیان کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب ہی یہ ہے کہ “اولی الامر” کی اطاعت کا وہی درجہ ہے جو رسولؐکی اطاعت کا ہے۔

اس کا قدرتی نتیجہ یہ ہے کہ “اولی الامر” کو بھی معصوم اور ہر قسم کی غلطی، خطا اور گناہ سے پاک و منزہ ہونا چاہئے ورنہ “رسولؐ” کی اطاعت کے ساتھ “اولی الامر” کی اطاعت ایک حکم میں اکھٹا نہ کی جاتی۔ حضرت علیؑ نے فرمایا ہے:

“جو اللہ کی نافرمانی کرتا ہے اس کی اطاعت نہیں کرنا چاہیے۔ بیشک اطاعت اللہ کی ہوتی ہے اور اس کے رسولؐ کی اور ان کی جو اولی الامر ہیں اور بیشک اللہ نے لوگوں کو رسولؐ کی اطاعت کا حکم اس لئے دیا کہ وہ معصوم اور طاہر تھے جو کبھی لوگوں کو عصیان الہی کی طرف نہیں بلاتے تھے اور بیشک اسی اللہ نے لوگوں کو اولی الامر کی اطاعت کا حکم دیا چونکہ وہ معصوم ہیں اور طاہر ہیں اور لوگوں کو خدا کے عصیان کی طرف نہیں بلائیں گے”[11]۔

کیا اولی الامر سے مراد مسلمان حکمران ہیں؟

برادران اہلسنت عام طور سے یہ کہتےہیں کہ: “اولی الامر منکم” کے معنی یہ ہیں کہ: “جو تم میں سے حاکم ہو” یعنی “مسلمان حکمران” یہ تفسیر کسی منطفی استدلال پر مبنی نہیں ہے بلکہ اس کا دارومدار اول سے آخر تک تاریخ کے پیچ و خم پر ہے ۔ مسلمانوں کی اکثریت بادشاہوں اور حکام کی غلام بنی رہی ہے اور حکومت وقت کو خوش کرنے کے لئے اسلام اور قرآن کی من مانی تاویل و تشریح کرتی رہی ہے۔

دوسری اقوام و ملل کی طرح مسلمانوں کی تاریخ بھی ایسے حکمرانوں کے ذکر سے بھری پڑی ہے جنہوں نے اپنی عیاشی اور جبر و تشدّد سے اسلام کے نام کو رسوا کیا۔ اس کتا ب کے آخر میں مختصراً بعض حکمرانوں کا ذکر کیا جائے گا۔ ایسے حکام ماضی میں بھی تھے۔ اور آج بھی ان کی تعداد کم نہیں  اور مستقبل میں اور بھی پیدا ہوں گے اور ہم سے یہ کہا جاتا ہے کہ یہی سب “اولی الامر” ہیں جن کا اس آیت میں تذکرہ ہے!!۔

ہم اس جملے کو یہاں پھر سے دوہرائے دیتے ہیں کہ اگر اللہ ہمیں یہ حکم دے کہ ایسے حکمرانوں اور بادشاہوں کی اطاعت کروتو مسلمانوں کے لئے ایک ناممکن صورت پیدا ہوجائے گی کیونکہ بے چارے امتی خدا کے غضب کا شکار بنتے رہیں گے چاہے وہ کچھ بھی کریں۔ اگر وہ حکام کی اطاعت کریں تو اس حکم الہی کی مخالفت کریں گے کہ: گنہگاروں کی اطاعت مت کرو”۔ اور اگر وہ ان حکمرانوں کی نافرمانی کریں گے تب بھی اللہ کے اس حکم کی نافرمانی ہوگی کہ “مسلمان حکمرانوں کی اطاعت کرو!!”۔

اس لئے اگر ہم سنیوں کی تفسیر کو قبول کرلیں تو مسلمان بہرحال خدا کے عذاب جاویداں کے مستحق ہوجائیں گے چاہے وہ حکمرانوں کی اطاعت کریں یا نافرمانی کریں۔

مزید یہ کہ دنیا میں مختلف عقائد و نظریات کے مسلمان حکمران پائے جاتے ہیں ان میں شافعی بھی ہیں اور وہابی بھی۔ حنفی بھی ہیں اور شیعہ اور اباضی بھی۔ اب اس تفسیر کے مطابق جو سنی ایک اباضی سلطان کی حکومت میں ہوں (مثلاً مسقط میں) انہیں اباضی عقیدے کی پیروی کرنا چاہئے۔ اور کسی شیعہ حاکم کے ملک میں ہوں(مثلاً ایران میں) تو انہیں شیعی نظریات اختیار کرنا چاہئے۔ کیا یہ لوگ اپنی تفسیر کی سچائی کے اس حد تک قائل ہیں کہ اس کو اس کے منطقی نتیجے تک لے جائیں اور اس پر قائم رہیں؟!!

مشہور سنّی مفسر امام فخرالدین رازی نے اپنی تفسیرکبیر[12]میں یہ تسلیم کیا ہے کہ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ “اولی الامر” کو معصوم ہونا چاہئے ان کی دلیل یہ ہے کہ “چونکہ خداوندعالم نے یہ حکم دیا ہے کہ “اولی الامر” کی غیرمشروط اطاعت کرو لہذا اولی الامر کو معصوم ہونا چاہئے کیونکہ اگر “اولی الامر” کے گناہ کرنے کا کوئی امکان ہو تو(جبکہ گناہ ممنوع اور حرام ہے) اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ایک مسلمان کو ایک ہی کام میں ان کی پیروی بھی کرنا پڑے گی اور مخالفت بھی اور یہ ناممکن ہے”۔

اس کے بعد اپنے قارئین کو اہل بیت ؑ رسولؐ سے دور رکھنے کے لئے انہوں نے یہ نظریہ ایجاد کیا ہے کہ “اُمّت مسلمہ” بحیثیت مجموعی معصوم ہے۔

امام رازی کو بہت دور کی سوجھی۔ کوئی مسلمان عالم اس نظریہ میں ان کا ہمنوا نہیں اور نہ یہ تفسیر کسی حدیث پر مبنی ہے۔ حیرت ہے کہ امام رازی امت کی ایک ایک فرد کو علیحدہ علیحدہ غیر معصوم سمجھتے ہیں اور اس کے باوجود اس کے مجموعے کو معصوم جانتے ہیں۔ یہ بات تو پرائمری اسکول کا طالبعلم بھی جانتا ہے کہ دوسو گائیں اور دو سوگائیں مل کر چار سو گائیں ہوگی ایک گھوڑا نہیں ہوگا۔ لیکن سنیوں کے امام یہ کہتے ہیں کہ سات کروڑ غیر معصوم کے ساتھ دوسرے سات کروڑ غیر معصوم مل جائیں تو ایک معصوم بن جاتا ہے۔ کیا وہ ہمیں یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ اگر دماغی اسپتال کے چار سو مریض ایک جگہ جمع ہوجائیں تو وہ سب مل کر ایک صحیح الدماغ انسان کے برابر ہوجائیں گے۔ شاعر مشرق علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے:

کہ از مغز دو صد خر فکر یک انساں نمی آید

یعنی دو سو گدھوں کے دماغ ایک انسان کی فکر پیدا نہیں کرسکتے۔ یہ امام رازی کا علم تھا جس نے انہیں یہ تسلیم کرنے پر مجبور کردیا کہ “اولی الامر” کا معصوم ہونا لازمی ہے اور یہ ان کا تعصب تھا جس نے ان کو یہ کہنے پر مجبور کیا کہ وہ معصوم امت اسلامیہ بطور مجموعی ہے۔

مزید برآں انہوں نے آیت کے لفظ “مِنْکُمْ” (تم میں سے) پر توجہ نہیں دی ۔ یہ لفظ بتاتا ہے کہ “اولی الامر” امت اسلامیہ کا ایک جزو ہوگا پوری امت مسلمہ نہیں ہوگی اور ذرا یہ سوچئے کہ اگر پور ی امت مسلمہ کی پیروی کی جائےگی تو پھر کون باقی رہ جائے گا جو پیروی کرے گا۔

اولی الامر کے صحیح معنی

اب ہم اس آیہ کریمہ کے صحیح معنی بیان کرتے ہیں؛ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ یہ آیت حضرت علیؑ ابن ابی طالبؑ، امام حسنؑاور امام حسینؑ کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ ایک شخص نے جو اس مجلس میں تھا  عرض کیا: “لوگ کہتے ہیں کہ اپنی کتاب میں خدا نے علیؑ اور ان کے اہل بیتؑ کا نام کیوں نہیں ذکر کیا؟”۔

امام ؑ نے فرمایا: ان سے کہو کہ نماز کا حکم آیا  لیکن خدا نے یہ نہیں فرمایا کہ تین رکعت یا چار رکعت بلکہ یہ رسولؐ اللہ تھے جنہوں نے تمام تفصیلات کو بیان کیا اور زکوٰۃ کا حکم نازل ہوا ، لیکن اللہ نے یہ نہیں فرمایا فرمایاکہ ہر چالیس درہم میں ایک درہم زکوٰۃ ہے، یہ رسولؐ اللہ تھے جنہوں اس کی تشریح کی اور حج کا حکم دیا گیا لیکن اللہ نے یہ نہیں فرمایاکہ سات مرتبہ طواف کیا جائے یہاں تک کہ رسول ؐاللہ نے اس کو بیان فرمایا۔ اسی طرح یہ آیت نازل ہوئی جس میں خدا نے فرمایا: “… أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ …”[13] ۔ اللہ کی اطاعت کرو اور رسولؐ اور ان صاحبان امر کی اطاعت کرو جو تم ہی میں سے ہیں…۔ اور یہ آیت حضرت علیؑ، امام حسنؑاور امام حسینؑ کے بارے میں نازل ہوئی”[14]۔

کفایۃ الاثر میں جابر بن عبداللہ الانصاری کی ایک روایت اس آیت کی تفسیر میں وارد ہوئی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو جابر نے پیغمبرؐ سے عرض کیا: ہم اللہ کو جانتے ہیں، اور اس کے رسولؐ کو جانتےہیں مگر وہ صاحبان امر کون ہیں جن کی اطاعت کو اللہ نے اپنی اور آپ کی اطاعت کے ساتھ ملا دیا ہے؟

پیغمبرؐ نے فرمایا: وہ میرے بعد میرے خلیفہ اور مسلمانو ں کے امام ہیں، ان میں سے پہلے علیؑ ہیں، پھر حسنؑ ، پھر حسینؑ ، پھر علیؑ بن الحسینؑ، پھر محمدؑ بن علیؑ ہیں جن کا نام توریت میں باقرہے۔ اے جابر تم ان سے ملاقات کروگے جب ان سے تمہاری ملاقات ہوتو ان کو میرا سلام پہنچا دینا، ان کے جانشین ان کے فرزند جعفر صادق ؑ ہونگے پھر موسیٰؑ بن جعفرؑ ، پھر علیؑ بن موسیٰؑ، پھر علیؑ بن محمدؑ، پھر حسنؑ بن علیؑ ہونگے۔ حسنؑ بن علیؑ کے جانشین ان کے فرزند ہوں گے جن کا نام میرا نام، کنیت میری کنیت ہوگی اور وہ روئے زمین پر حجت خدا اور لوگوں کے درمیان بقیۃ اللہ ہونگے(یعنی خدا انہیں دین کے تحفظ کے لئے محفوظ رکھے گا)۔وہ مشرق سے لے کر مغرب تک تمام عالم کو فتح کریں گے۔ وہ اپنی پیروی کرنے والوں اور دوستوں کی نظر سے اتنے طویل عرصہ تک پوشیدہ رہیں گے کہ ان کی امامت کا عقیدہ صرف انہیں دلوں میں باقی رہ جائے گا کہ جن کا اللہ نے ایمان کے سلسلے میں امتحان لے لیا جائے گا۔

جابر نے پوچھا: اللہ کے رسولؐ!  کیا ان کے اوپر ایمان لانے والے ان کی غیبت میں ان سے فیضیاب ہوں گے؟

پیغمبرؐ نے فرمایا: ہاں !   اس خدا کی قسم جس نے مجھے نبوت عطا کی، لوگ ان کی غیبت میں ان کی روشنی سے ہدایت پائیں گے اور ان کی ولایت و محبت سے فیضیاب ہونگے بالکل اسی طرح جس طرح لوگ جب آفتاب چھپ جاتا ہے تب بھی اس سے فیضیاب ہوتے ہیں۔

اے جابر!   یہ بات خدا کے پوشیدہ اسرار میں سے ہے اور اللہ کے علم مخزون میں سے ہے اس لئے اس کو سوائے اس کے اہل کے اور کسی سے مت بیان کرو”[15]۔

یہ حدیث شیعوں کی کتاب میں تفصیل سے بیان کی گئی ہے ۔ سنیوں کی احادیث میں اتنی تفصیلات نہیں پھر بھی سنیوں کی بہت سی روایتیں ایسی ہیں کہ جن میں اماموں کا ذکر مجمل ملتا ہے ان میں سے بعض کا ذکر ہم آئندہ باب میں کریں گے۔

ظاہر ہے کہ اس کے بعد ظالم و جابر حکمرانوں کی اطاعت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

اس آیت میں مسلمانوں کو ہرگز یہ حکم نہیں دیا گیا ہے کہ وہ اپنے حکمرانوں کی اطاعت کریں جو ممکن ہے ظالم اور جابر اور جاہل، خود غرض، حرص و ہوس کے غلام ہوں۔ حقیقت میں ان کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ معین و معلوم بارہ اماموں کی اطاعت کریں جو سب کے سب معصوم تھے اور جن کے خیالات و افعال برائیوں سے پاک و منزہ تھے ، ان کی اطاعت سے کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں بلکہ ان کی اطاعت ہر قسم کے خطروں سے محفوظ رکھتی ہے۔ وہ مرضی خدا کے خلاف کوئی حکم دے ہی نہیں سکتے اور تمام بنی نوع انسان سے انصاف و محبت اور برابری کا سلوک کرنے والے ہیں۔

[1] نساء، آیت ۵۹۔

[2] نساء، آیت ۶۴۔

[3] محمد، آیت ۳۳۔ اسی طرح ملاحظہ فرمائیں: سورہ آل عمران، آیت ۳۲  و ۱۳۲۔ سورہ مائدہ، آیت ۹۲۔ سورہ انفال، آیت ۱۔۲۔۴۶۔ سورہ نور، آیت ۵۴۔ سورہ مجادلہ، آیت۱۳۔ سورہ تغابن، آیت۱۲۔

[4] سورہ نساء، آیت۱۳۔۶۹۔ نور، آیت۵۲۔ سورہ احزاب، آیت۷۱۔ سورہ فتح، آیت۱۷۔

[5]  نساء، آیت 80۔

[6] سوره هل اتیٰ (انسان)، آیت۲۴۔

[7] سورہ حشر، آیت۷۔

[8] سورہ آل عمران، آیت۳۱

[9] سورہ نجم، آیت۳ و ۴۔

[10] سورہ جمعہ، آیت۲۔ نیز سورہ بقرہ، آیت ۱۲۹۔ سورہ آل عمران، آیت۱۶۴۔

[11] علل الشرایع، باب ۱۰۲۔

[12] تفسیر کبیر امام رازی، مطبوعہ تہران، ج۱۰، ص۱۴۴۔

[13] نساء، آیت ۵۹۔

[14] تفسیر عیاشی، ج۱ ، مطبوعہ تہران، ص۲۴۹-۲۵۰۔ تفسیر صافی ملا محسن فیض کاشانی ، ج۱، ص۳۶۴، مطبوعہ تہران ۱۳۷۴ ھ۔

[15] کفایۃ الاثر، ابوالقاسم علی الخزار الرازی، مطبوعہ قم، ص53۔ 1981ء۔

نوشته های مشابه

دیدگاهتان را بنویسید

دکمه بازگشت به بالا
×